چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے. ۔( حصہ شششم)

با ادب

محفلین
گاڑی اسلام آباد کی سڑکوں پہ رواں دواں ہے ارد گرد کے تمام مناظر دھندلا چکے
ھیں ۔ دل کی دھڑکن تھمی ہوئی ہے ۔ آج اے ایف آئی پی کے ماہرین یا تو زندگی کی
نوید سنانے والے ہیں یا رہی سہی سانسوں کہ بھی چھین لیںگے ۔ گاڑی کے شیشوں میں
بارش کے قطرے پھسل پھسل کر سڑک پہ بہتے پانی کا حصہ بنتے جا رہے ھیں ۔


گاڑی میں موجود ان دو نفوس کی آنکھوں کا سیل رواں بھی اندر کہیں بہتا ہے ۔
پچھلی سیٹ پر خالہ اور ماں کے بیچ بیٹھا ذوالؑاید خوشی اور معصومیت سے اس
اطمینان میں مبتلا ہے کہ شاید آج نانو کے گھر جائیں گے ۔ وہ اسی خوشی کےعالم
میں بابا کو پکار کر سوال کرتا ہے

بابا ! آج ہم نانو کے گھر جائیں گے ؟؟؟؟

بابا ساکت و صامت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالہ ذوالؑاید کو خود سے لپٹا کر تسلی کرواتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی میری جان ۔۔آج ہم ذولؑاید کو لے کر ضرور نانو کے گھر جائیں گے

گاڑی اونکولوجی ڈیپارٹمنٹ کے گیٹ کے آگے رکتی ہے ۔

صبح کے نو بج رہے ہیں ۔ معصوم بچوں کی ایک لمبی قطار بون میرو ٹیسٹ کے لئیے
بیٹھی ہے ۔۔۔۔

وہ ڈرتے ڈرتے اطراف میں نظر دوڑاتے ہیں ۔ ایک وسیع لاؤنج ۔۔۔جیاں بچوں کے لئیے
ٹیوی کی سہولت موجود ہے لیکن کوئی بچہ دکھائی نہیں دیتا ۔ سامنے موجود کمروں
کی لائن میں ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہے ۔ جہاں ڈھیر سارے ایسے بچے موجود ہیں
جن کے سر کے بال اترے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ سب گنجے
۔۔۔۔۔

اس کے والدین سراسیمگی سے خالہ کو دیکھتے ہیں ۔۔۔ یہ سب بچوں کے بال کیوں نہیں
ہیں یہ سب گنجے کیوں ہیں ؟؟ ۔۔

یہ کینسر کے مریض ہیں ۔۔

بابا کی آنکھیں شدت گریہ سے سرخ ہیں ۔۔۔ہم کینسر وارڈ کیوں آئے ہیں ؟؟؟

بھائی ٹیسٹ یہیں ہونا ہے

نہیں ذوالؑاید کو کچھ نہیں ہوگا ۔۔وہ ٹھیک ہو جائے گا نا ۔ اسے کینسر نہیں ہے
نا ؟؟ دنیا میں اتنے برے الفاظ کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟

بھائی نا امید مت ہوں ۔۔۔ذوالؑاید کو کچھ نہیں ہے بس ڈاکٹرز نے ٹیسٹ یہاں کرنا
ہے

وہ اس لفظ کو کبھی سننا نہیں چاہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں امید کہاں سے لاؤں ۔۔ تمھیں ذوالؑاید سے بہت محبت تھی نا تم اسے یہاں کیوں
لائی ہو ۔

وہ خود بھی جس خوف میں مبتلا تھی اسے زبان نہیں دینا چاہتی تھی

ذوالؑاید کی والدہ صبر کی وہ آہنی دیوار تھی کہ اسے ایک لحظے کو بھی کوئی خدشہ
نہ ڈراتا

میں جانتی ہوں میرے بچے کو کچھ نہیں ہوگا ۔۔

اور تم بڑی بڑی کتابیں پڑھنے والی تم کیوں مایوس ہوتی ہو ؟؟

تم تو کہتی تھی صبر پہلی چوٹ پہ کیا جاتا ہے بعد میں تو ہر ایک کو صبر آجاتا
ھے ۔

میں نے صرف کتابیں پڑھی تھیں۔ تم نے ان پہ عمل کیا ہے ۔ یہی ہم دونوں بہنوں
میں تضاد ہے

وہ سوچتی تھی لیکن خاموش رہتی تھی

دیکھو ہمارے قدم کینسر وارڈ تک آ پہنچے ہیں اس سے آگے مجھ میں ہمت نہیں ۔۔میں
اپنے بچے کو کیسے گود میں لے کر بیٹھوں ۔۔۔۔کیسے دیکھوں وہ اس کی ریڑھ کی ہڈی
میں سے گودا نکال رہے ہوں ؟؟؟ کیسے ؟؟؟ اس کے بابا کی ہمت یہاں جواب دے چکی
تھی ۔۔

انتہائی چیختی چنگھاڑتی آواز والی نرس ذوالؑاید کا نام پکارتی آتی ہے ۔

خالہ اس کے والدین کو اسی دکھ کی کیفیت میں چھوڑ کے آگے بڑھتی ہے ۔

جی
سسٹر

بی بی بچے کی کیا لگتی ہو ؟؟؟

خالہ ہوں بچے کی

ماں کہاں ہے ؟؟؟

باہر بیٹھی ہیں ۔

انھیں بلاؤ بی بی

وہ نہیں آ سکتیں ۔

کیوں ؟

سسٹر آپ نے بلایا کیوں ہے ؟

بچے کی بلڈ سی پی لینی ہے ۔

جی آج صبح ہی ہوئی ہے ۔

کہاں ہوئی ہے ؟

پمز میں

ارے بی بی ہم اپنی سی پی لیں گے

خون تو بچے کا ہی نکالیں گی نا ۔۔اتنا تو اس میں خون نہیں جتنا آپ لوگ دن میں
نکال لیتے ہیں ۔

خالہ کا جلال عود کر آچکا تھا ۔

بد تمیزی سے بولتی نرس اب کے تمیز سے گویا ہوئی ۔

دیکھیئے بونمیرو سے پہلے فریش سی پی کروانی ضروری ہے ۔

اور ان کے پاس بات ماننے کے علاوہ چارہ ہی کیا تھا ۔ ذوالؑاید کو لاؤنج میں
پڑے بیڈ سے اٹھا کر وہ ڈاکٹر کے پاس لاتی ہے ۔

وہ ڈرتی نظروں سے خالہ کو دیکھتا ہے ۔

ذوالؑاید سسٹر بلڈ لیں گی اور آپ ایک بہادر بچے ہیں ۔ آپ صرف دعا پڑھیں گے ۔

معصوم خوف زدہ نگاہوں سے خالہ کو دیکھ کر وہ آنکھیں بند کرتا ہے اور دعا کا
ورد شروع کر دیتا ہے ۔

مزید خون کا خراج وصول کرنے کے بعد وہ فائل مانگتی ہے ۔ ذوالؑاید کی فائل ؟

خالہ کا سر چکرانے لگتا ہے ۔۔۔ وہ ذوالؑاید کی فائل چھوڑ آئے تھے ۔

فائل تو میں بھول آئی ہوں ۔

منگوا سکتی ہیں؟

جی ۔

کتنی دیر میں ؟

پمز آنے جانے میں ایک گھنٹہ لگے گا تقریباً ۔

ڈاکٹر صاحب گیارہ بجے اٹھ جائیں گے ۔۔۔۔

گھڑی دس بجا رہی تھی ۔

ڈاکٹر صاحب تو ابھی آئے بھی نہیں

جی بس آنے والے ہی؟ں اور گیارہ بجے تک اٹھ جاتے ہیں ۔۔ کوئی بے بسی سے بے بسی
تھی ۔

آدمی کو خدا نہ دکھلائے

آدمی کا کبھی خدا ہونا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.........................................................
۹ ستمبر 2016

۔

وہ پمز میں داخل ہوتی ہے تو سورج کی آخری شفق مارگلہ کی پہاڑیوں میں کھو رہی
ہوتی ہے ۔ شام کا دھند لکا پھیلا ہے ، ہسپتال کی دنیا کی گہما گہمی عروج پر ھے
۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں سب ہوش و خرد سے بے گانہ ہوتے ہیں ۔ یہاں کسی کو کسی کا
ہوش نہیں رہتا ۔ سب اپنے غم میں نڈھال رہتے ہیں
۔

اس کے قدم اس کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں ۔ دل کی کیفیات جو پچھلے ایک ماہ سے
درد کی گہرائی میں ڈوبی رہتی ہیں آج جامد ہیں ۔ وہ آگے بڑھنا نہیں چاہتی ۔ وہ
کہیں دور بھاگ جانا چاہتی ہے ۔۔ وہ مزید کوئی برے الفاظ سننا نہیں چاہتی وہ
دکھ غم کی آخری منزل سے ہمکنار ہے ۔ وہ کس کو پکارے ؟؟ کس سے کہے دو لفظ تسلی
کے بول دو ۔ اس وقت ان دو لفظوں سے بڑھ کر دنیا میں رکھا ہی کیا تھا ۔ دل
دھڑکنے سے انکاری تھا ۔۔۔رکتا بھی تو نہیں ۔ ۔۔یہ کون سی کیفیت ہے ؟؟

ہسپتال کے لان میں لگے بنچوں میں سے کسی ایک بنچ پہ وہ خود کو سہارا دینے
بیٹھتی ہے ۔ وہ سہارا جو کبھی اسے خود کو خود دینے کی ضرورت پیش نہ آئی تھی ۔
وہ سہارا دینے والا کہاں گیا ؟؟

موبائل کی کانٹیکٹ لسٹ میں آکسیجن کے نام سے محفوظ نمبر پر انگلیاں جا پڑتی
ہیں ۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ نے فضا کو آلودہ کر رکھا ہے آکسیجن ختم ہو چکی ہے ۔۔
ہواؤں پہ کس کا زور ۔۔۔

ہر مرتا ہوا شخص خود کو بچانے کی ایک آخری کوشش ضرور کرتا ہے وہ بھی کر رہی
تھی ۔ اس کی انگلیوں نے وہ پیغام تحریر کر کے ہوا کے دوش پہ بھیج دیا ۔

“ میرا بچہ مر رہا ہے ”

وہ بھول چکی تھی آکسیجن جلانے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوتی ہے ۔

آگ ہوا کے دوش پہ بھڑکتی ہوئی آتی ہے اور جلا کے راکھ کر دیتی ہے ۔

“ یہ بھی تمھارا جھوٹ ہے جانے مر بھی رہا ہے کہ نہیں ”

تکلیف کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top