با ادب

محفلین
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے.

کچھ خوشیاں لازوال ہوتی ہیں. انمول اور قیمتی جن کا کوئی مول نہیں ہوتا. خوشی کا دل سے بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے. اسکی کونپلیں سے پھوٹ نکلتی ہیں اور پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں.
ایسی ہی خوشی اس کی آمد بھی تھی عجیب اور بے تحاشا. بے یقینی جیسا یقین. دوپہر کا وقت ہے تعلیمی اداروں میں چھٹی ہوچکی ہے. اسلام آباد کی سڑکوں پہ ٹریفک کا اژدھام ہے. اوائل اکتوبر کے گزرتے دن ہیں. چنبیلی روڈ کے سر سبز درخت ٹنڈمنڈ کھڑے ہیں. سنہری ' کڑکڑاتے پتے ہر سو بھیلے دکھائی دیتے ہیں. اونگھتی دوپہر کی سرسراتی ہوا کی لہر چلتی ہےاور پتوں کو بکھیر کر رکھ دیتی ہے. یُونی کی بس کھچاکھچ بھریطہے. بس کے پائیدان پہ بیٹھے وجود کی بیزاری عروج پر ہے. نگاھیں بس کے دروازے سے باھر پت جھڑ کے پتوں سے الجھی ' پتوں کی زندگی کے مشاہدے میں مصروف ہیں. ابھی پچھلے سال ان پتوں کی کونپلیں پھوٹی تھیں منے منے پتے نکلے تھے. آج وہ پتے کہاں گئے؟
یہ جس پتے کو ہوا اڑائے جارہی ہے یہ جانے کس شاخ پہ تھا. کس ٹہنی کا حصہ تھا. بیگ میں پڑے موبائل کی تیز آواز سے ارتکاز ٹوٹتا ہے. اسی بے زاری سے ہاتھ ٹٹول ٹٹول کر زنبیل سے موبائل برآمد ہوتا ہے. سکرین کو دیکھے بغیر کال موصول کر کے موبائل کان سے لگایا. اگلے ہی پل دیکھتی آنکھوں ' سنتے کانوں نے زندگی سے بھرپور آواز اور خوشی سے تمتماتا وہ چہرہ دیکھا جو ایک لحظہ قبل بے زاری کے افق پر آب و تاب سے بے زاری کی چھب دکھلا رہا تھا. ڈھیلے ہاتھ پھرتیلے اور مردہ وجود زندہ ہو چکا تھا. موبائل فون کو بیگ میں پٹخ کر ساتھ بیٹھی سہیلی کے گلے کا ھار بن کر خوشی کا نعرہُ مستانہ بلند ہوتا ہے.
نوشین! وہ آگیا
ارے سچ!
آنکھیں میچ کے پٹپٹا کے اس سچ کی یقین دھانی ہوتی ہے. گھر پہنچنے میں ۵ منٹ کی مسافت باقی ہے. ۵ منٹ ۵ دن جیسے طویل لگتے ہیں. بالآخر راستہ کٹتا ہے. راستے کٹ ہی جاتے ہیں بس راہی کے پاؤں کی دھول اور دل کے چھالے کوئی دیکھ نہیں پاتا. یاد رہتا ہے تو فقط اتنا. . ارے وہ چوٹی پہ کھڑا ہے. . . کیسے پہنچا؟ دنیا کو اس سے غرض نہیں. اور جب پہاڑ سر ہوجاتے ہیں تو کوہ پیما سر اٹھا کر فخر سے کھڑے ہوتے ہیں. وہ کبھی جھک کر نیچے ان کھٹنائیوں کو نہیں دیکھتے جنہیں وہ عبور کر آئے ہوتے ہیں اور جنھیں عبور کرتے وقت کتنی ہی بار جان کی بازی لگائی گئی ہوتی ہے. کتنی بار موت کے منہ میں جاتے جاتے بچ جاتے ہیں.
تو اسکی منزل اسکا گھر بھی آگیا تھا. دھاڑ سے گھر کا دروازہ کھلتا ہے. زورکی چیخ سناٹے کو چیرتی ماحول میں ارتعاش پیدا کرتی ہے.
دادی! وہ آگیا
کون آگیا
دادی ' ذولآید آگیا
دو خوشی کے آنسو گر کر دامن میں جذب ہوتے ہیں.
دن کیا ہے؟
بدھ کا دادی
اری تاریخ بتا
۱۴ اکتوبر ۲۰۰۹ دادی
کیسا ہے؟
میں نے کب دیکھا.
................................................
شام پنجے پھیلائے کھڑی تھی. مارگلہ کی پہاڑیاں سرمئی رنگ میں ڈوب رہی تھیں. وہ کل چھ نفوس تھے ..تین کے چہروں سے پریشانی ہوائدا تھی. دکھ ' خوف ڈر کے سائے لمبے ہوتے جاتے تھے. وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی نہ تھیں ' بولتی نہ تھیں . نظریں چرائے کھڑی تھیں . ان کے دل کسی گہرے ملال میں ڈوب چکے تھے. شاید پھر پت جھڑ آنے والی تھی. ٹہنی آج بھی نامعلوم تھی. کس ٹہنی کا پتہ شاخ سے جدا ہوگا. یہ تو اگست کا مہینہ تھا. . . . ساون بھادوں. .
الہی! اس سال مینہ نہ برسے. کسی ایک دل نے صدا دی تھی. ڈیڈھ سال کی بچی کو کندھے سے لگائے ماں امید اور صبر سے لبریز تھی. ۳ سالہ بیٹے کو گود میں اٹھائے باپ کے ہر ہر انگ سے خوف اور پریشانی ظاہر تھی. اور اسے گود میں اٹھائے خالہ نے سینٹورس مال کے ہجوم پر ایک تھکی ہوئی نگاہ ڈال کر پمز ہسپتال کے سرد سناٹے میں پہلا قدم رکھا.
افراتفری ' آپا دھاپی ' نفسا نفسی
ایک پکار تھی. . ہائے اللہ میں مر گیا. .
اللہ! یہ کون سا جہان ہے؟ کونسا عالم ہے؟ تو رب اللعالمین ہے . تو کیا ہسپتال کی یہ دنیا بھی ایک الگ دنیا ہے. میرے مالک اس دنیا کا برزخ اور بہشت بھی الگ ہیں؟ واہ رے مولا سبحان اللہ اور میرے مالک معاذ اللہ.
..............................................................
اتنا گورا چٹا ' ستواں ناک ' سنہری شربتی آنکھیں ' ہونٹ گلاب کی پنکھڑیاں ' بیضوی چہرہ ' کشادہ پیشانی
یہ ذولأید تھا
جس نے بہت انتظار کروایا. لمبا تھکا دینے والا انتظار.
...............................................
دادی! کہانی سنائیں.
کون سی بھلا؟
شہزادی کی
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شہزادی ہوا کرتی تھی. شہزادی کا وجود زنگ آلود سوئیوں سے بھر چکا تھا. لہولہان. وہ کالے پہاڑوں میں قید تھی. جو روشنیوں کے شیر کی باسی تھی. جس نے شہروں میں آنکھ کھولی اسے بَن راس نہ آئے. .
وہ اکتوبر کی ایک شام تھی جب شہزادی کو اطلاع دی گئی کہ اسکی زندگی کسی شہزادے کے نام لکھ دی گئی ہے. شہزادی نے رخت سفر باندھا اور ایک صبح شہزادے کے ہمراہ رخصت کر دی گئی. شہزادہ شہر کے وسط سے نکلا چلتے چلتے بَن میں آن رکا. شہزادی ٹھری مشرقی شہزادی. چپ چاپ گھر بسا لیا. اپنی دنیا میں مگن ہوگئی. لیکن جب بھی شام ان اونچے پہاڑوں پر آن ٹہرتی تو شہزادی کے دل میں خیال گزرتا اے کاش کوئی ان پہاڑوں کو سامنے سے ہٹا دے تا کہ دور شہر کی روشنیاں دکھائی دیں . اب زندگی اس نجات دہندہ کا انتظار تھا. شہزادہ بَن میں رہتے رہتے ظالم جادوگر کا روپ دھار چکا تھا.
پہلی پری کی گھر میں آمد ہوئی. لمبی کالی آنکھوں والی. جادوگر نے کہا پریوں کا پرستان نہیں مجھے شہزادے چاہیئے. شہزادے آرڈر پہ ملتے تو شہزادی ضرور آرڈر کرواتی . اللہ کو امتحان مقصود تھا. ۳ ماہ بعد پری کو واپس بلا لیا. اگلے سال دوسری پری آگئی. جادوگر ظالم ہوتا گیا. دوسری کے بعد تیسری پری بھی آگئی. ظلم بڑھتا گیا. .
اور پھر شہزادی نے بہت انتظار کیا. اور آخرکار پھر وہ آگیا.
وہ کون دادی؟
ذولأید آگیا.
. . . . . . . . . . . . . .. . . . . . . . . .

پمز ہسپتال کا چلڈرن وارڈ. . . . ۶ اگست کی جاتی شام. . . . . . مائیں اپنے جگر گوشوں کو گود میں ڈالے لمبی قطار میں بیٹھی ہیں. ان ماؤں کی قطار میں ایک خالہ بھی بھانجے کو گود میں لئیے آس و نراس کی کیفیت میں خالی نظروں سے تکتی ہے.
بھانجے کی حالت انتہائی خراب ہے. روشن آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی ہے. خالہ کا جگر گوشہ خالہ سے لپٹا بیٹھا ہے.
خالہ! ہم پنڈی والے گھر جائیں گے نا! ہاں بیٹا ضرور جائیں گے.
کس وقت خالہ؟ شوخ و شنگ زندگی سے بھر پور آواز پژمردگی سے پوچھتی ہے. خالہ کا دل خون کے آنسو روتا ہے ایک نا امیدی سی امید میں خالہ امید بندھاتی ہے. بہت جلد بیٹا بہت جلد.

خالہ کا بس نہیں چلتا اس دنیا سے اپنے بچے کو لے کر بھاگ جائے. اپنے جگر کے ٹوٹے کو گلے سے لگائے. بھینچ کر پیار کرے اور دونوں کہیں گم ہو جائیں . وہ نقاہت اور کمزوری سے قدر بے حال تھا کہ ڈر لگتا گلے لگایا تو کہیں اسے کچھ ہو نہ جائے.
سامنے ویٹنگ روم میں اس کے والدین پریشانی اور فکر مندی کے عالم میں اس کے بہن بھائی کو گود میں لئیے ٹہلتے تھے.
انکی نظریں سوال کرتی ہیں وہ ٹھیک ہو جائے گا نا. وہ اپنے قدموں پہ چل کے گھر جائے گا نا.
جواب ندارد تھے.
خالہ کی قطار میں لوگ کم ہوتے جاتے ہیں. ایمرجنسی میں موجود خالہ اور اس کے بابا ارجنٹ نوٹس پر ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں. سانس خشک ہیں. دل کی دھڑکن رکی ہوئی ہے. دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے احتراز برتتے ہیں. والدہ کی ہمت نہیں کہ ڈاکٹر کا کوئی بھی مایوس کن جملہ سنے.
بچے کو کیا مسئلہ ہے؟
جی اس کے پلیٹ لیٹس کم ہیں.
بخار کب ہوا؟
جی پانچ دن ہوئے بخار ہوئے.
پانچ دن بعد کیوں لائے؟
ڈاکٹر صاحب! بخار ہوا تو ہاسپٹل لے گئے. بخار کا سیرپ دیا گیا گھرلے آئے. اگلے دن صبح بچے کے جسم پہ باریک سرخ نشانات آئے. اس کی والدہ گھبرا گئیں. کہ یہ نشانات اچھے نہیں. دوبارہ لے کر گئے. ڈاکٹر نے بیٹنو ویٹ دی بچے کو لگانے کے لئیے.
اس والدہ چراغ پا ہو گئیں کہ بچے کو جلد کا مسئلہ نہیں مسئلہ کوئی اور ہے. اسپیشلسٹ کے پاس لے گئے. ٹیسٹ ہوئے. سی ایم ایچ ریفر کیا گیا. کہا پلیٹ لیٹس کم ہیں.
سی ایم ایچ لے گئے. ڈاکٹر صاحب نے رپورٹ دیکھتے ساتھ کہا. ایک منٹ کی دیر کئے بغیر پمز پہنچاؤ. ہم یہاں چلے آئے.
بچے کو کسی قسم کی بلیڈنگ تو نہیں ہوئی؟
ڈاکٹر صاحب کل رات کان پہ چھالہ بنا جو آج پھوٹ گیا. اس میں سے خون بہتا رہا.
گونگی زبانیں ٹیپ ریکارڈر کی طرح چل پڑیں تھیں.
بچے کے پلیٹ لیٹس کتنے ہیں؟
انیس ہزار
ڈاکٹر کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں صاف دکھائی دینے لگیں وہ جو بولنے لگ گئے تھے پھر گونگے ہو گئے. اب لگتا امید کے ٹمٹماتے دئیے بجھنے کو ہیں.
آپ فلاں وارڈ فلاں روم میں لے کر جائیں. ڈاکٹر نعیم کنسلٹ کریں گے.
فلاں روم فلاں وارڈ میں خالہ بھانجا عجیب سی بے سروسامانی کے عالم میں موجود ہیں. اگست کی شدید گرمی میں بچے کے سردی سے بجتے دانت. خالہ اپنی چادر سے ڈھانپتی ہے.
ڈاکٹر نعیم اسی ہوائیاں اڑے چہرے کے ساتھ تشریف لاتے ہیں. بچے کے والد بے تابی سے سوال پوچھتے ہیں. سر بچہ ٹھیک تو ہو جائے گا نا. ڈاکٹر خاموشی سے بچے کو تکتا ہے.
اس نقاہت کے عالم میں بھی اپالوی شہزادے کا حسن برقرار ہے.
اس کا نام کیا ہے؟
محمد ذولأید
(جاری ہے))
 
اردو کی بدقسمتی کہ آپ نے شاید اب لکھنا شروع کیا ہے۔ میں خود کو اس تحریر کی تعریف کے قابل نہیں پاتا۔ آپ کو تو اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ کی دعا بھی نہیں دینی چاہیے کہ قبول ہونے پر ہمارے ہی دل پہلو سے نکلیں گے۔
سرائیکیوں کو ایک جملہ بولتے سنا ہے۔ وہ آپ کی نذر:
گوڈی ہتھ ہن، سرکار!
 

با ادب

محفلین
اردو کی بدقسمتی کہ آپ نے شاید اب لکھنا شروع کیا ہے۔ میں خود کو اس تحریر کی تعریف کے قابل نہیں پاتا۔ آپ کو تو اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ کی دعا بھی نہیں دینی چاہیے کہ قبول ہونے پر ہمارے ہی دل پہلو سے نکلیں گے۔
سرائیکیوں کو ایک جملہ بولتے سنا ہے۔ وہ آپ کی نذر:
گوڈی ہتھ ہن، سرکار!
بہت شکریہ ..
 
Top