چناب کلب فیصل آباد ایک خوبصورت میٹنگ

چناب کلب تحریر

  • ملاقاتی سیشن

    Votes: 0 0.0%
  • اپنی قیمتی آراء سے نوازیں

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0
یہ کل رات ہی کی بات ہے ٹھٹھرتی سردی میں کیونکہ اب جھاڑے کا موسم قریب ہے تو جان بوجھ کے چھت کی آخری منزل میں جا پہنچا یہ تقریبا تہجد کے وقت کی بات ہے در اصل میں سمجھ رہا تھا کہ شاید غور و فکر کے لیے کمرہ تنگ پڑ گیا ہے اختر شماری کرتے ہوئے دو سو پچاسی تارے گننے میں کامیاب ہو چکا تھا لگ بھگ تین سو کے قریب ہی تھا کہ نیند نے زور پکڑ لیا بشرط زندگی پندرہ تارے اگلے دن گننے کے لیے خود سے عہد کر کے کمرے میں داخل ہو گیا اور خواب خرگوش کے مزے اٹھاتا رہا۔ صبح اٹھا تو خیال آیا کہ میں گیا تو کچھ خواب و خیال بننے تھا لیکن یہ کم بخت نظر سوچتے وقت ستاروں پہ کیوں مرکوز ہو گئی خیر اپنی اس عادت قبیحہ کے باعث شرمندگی ہوئی ندامت کے آثار دیکھنے کے لیے آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا ہنسی میری بے ساختہ تھی جو لبوں پہ آ کے رک گئی۔ پھر فوری طور پہ قلم اٹھایا سوچا کیوں ناں ایک پرمسرت ملاقات کو ضبط تحریر میں لایا جائے۔ چناب کلب فیصل آباد میں کچھ خاص عزیز دوستوں کے ہمراہ پہلی ملاقات تو نہ تھی لیکن اس با رونق ملاقاتی سیشن میں دو دیدہ زیب شخصیتیں ہم پانچ لوگوں کے ہمراہ تھیں جن کے عشائیہ میں تقریب رکھی گئی ان میں سے ایک محمد کلیم صاحب اور طارق بشیر صاحب دونوں ہی اپنے فن میں با کمال ہیں بنیادی طور پہ کلیم صاحب نے کچھ دن پہلے فری لانسنگ کے حوالے سے طلباء کو ایک کامیاب ٹریننگ دی تھی اس کی کامیابی پر باعث حوصلہ افزائی چناب کلب میں مختصر بیٹھک رکھی گئی تا کہ ان سے مزید کچھ سیکھنے کو ملے میری زندگی میں یہ اور اس سے پہلے کی چند ملاقاتیں ایسے ہیں جن کے بارے میں رہ رہ کے مجھے خیال آتا ہے کیا ہی خوبصورت اور یادگار لمحات ہوا کرتے ہیں جب ہم دوست ایک ساتھ ہوا کرتے ہیں خدائے متعال ہماری اس راہ و رسم کو کسی صورت میں منقطع نہ کرے ۔کیونکہ خاکسار کو ان تمام صاحبان عزیز سے مل کر پہلی بار خوشی نہیں ہوئی بلکہ یہ خوشی دوبالا ہو جایا کرتی ہے جہاں دو دو تین گھنٹے مسلسل ایسی گفتگو ہو جو تھکن کا باعث ہی نہ بنے اور سننے والے بڑی دلچسپی سے ہمہ تن گوش ہو کر بڑے انہماک سے کلیم صاحب کے ساتھ ایک دوسرے کی باتیں سننے میں مشغول نظر آئے یہ باتیں کیا تھیں اپنے پاکستانی نوجوانوں کو زہنی و جسمانی طور پہ مہارت یافتہ بنانے کی جس میں ماشاءاللہ کلیم صاحب کے سالہا سال کے تجربات شامل ہیں مثال کے طور پہ ایک شخص زبان دانی پر توجہ دیتا ہے سیکھنے کے لیے کیونکہ میں مانتا ہوں کہ انسان کے حلق میں زبان جڑ دی گئی ہے کہ وہ باتیں کرے بولے اور جو اس کا بہتر طریقے سے استعمال کرتا ہے وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب بھی ہو جایا کرتا ہے باتیں کرنا کوئی غیر انسانی حرکت بالکل نہیں ہے لیکن اگر اسی زبان کو دماغ چاٹنے کے لیے استعمال کیا جائے یہ ضرور ایک غیر انسانی حرکت ہو گی یعنی ایک زبان میں ہی مثبت اور منفی عناصر منتقل ہوا کرتے ہیں اسی طرح ہر شعبہ ہائے زندگی میں یہی راز کار فرما ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خیر بات بہت طویل ہو جائے گی کلیم صاحب اور طارق بشیر صاحب کی نیک تمناوں اور نیک کاوشوں کو ہم سب دوست جن میں عزت مآب رانا وہاب صاحب محبوب احمد صاحب عبداللہ صاحب قاسم احسان صاحب اور یہ بندہ پر تقصیر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور آخر پر تمام رفقاء قلم اور نوجوان دوستوں کے لیے اور خصوصی طور پہ کلیم صاحب کی خدمات کے اعتراف میں علامہ اقبال کی فارسی شاعری پر مشتمل کتاب شرح پیام مشرق سے ایک شعر کی مختصر شرح اقتباس کے طور پہ شامل کر رہا ہوں

علامہ اقبال فرماتے ہیں

"اگر قدرت کی طرف سے تجھے یہ جذبہ اور سوز و تپش عطا ہوا ہے تو اس سے ایسا کام لے کہ تجھ سے متاثر ہو کر اور بھی لوگ اس جذبہ و سوز سے سرشار ہو جائیں اور یوں یہ سوز و جذبہ ملت میں پھیلتا جائے اور وہ اس سے اپنی بقا کا سامان کرے"
 

یاسر شاہ

محفلین
یہ کل رات ہی کی بات ہے ٹھٹھرتی سردی میں کیونکہ اب جھاڑے کا موسم قریب ہے تو جان بوجھ کے چھت کی آخری منزل میں جا پہنچا یہ تقریبا تہجد کے وقت کی بات ہے در اصل میں سمجھ رہا تھا کہ شاید غور و فکر کے لیے کمرہ تنگ پڑ گیا ہے اختر شماری کرتے ہوئے دو سو پچاسی تارے گننے میں کامیاب ہو چکا تھا لگ بھگ تین سو کے قریب ہی تھا کہ نیند نے زور پکڑ لیا بشرط زندگی پندرہ تارے اگلے دن گننے کے لیے خود سے عہد کر کے کمرے میں داخل ہو گیا اور خواب خرگوش کے مزے اٹھاتا رہا۔ صبح اٹھا تو خیال آیا کہ میں گیا تو کچھ خواب و خیال بننے تھا لیکن یہ کم بخت نظر سوچتے وقت ستاروں پہ کیوں مرکوز ہو گئی خیر اپنی اس عادت قبیحہ کے باعث شرمندگی ہوئی ندامت کے آثار دیکھنے کے لیے آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا ہنسی میری بے ساختہ تھی جو لبوں پہ آ کے رک گئی۔ پھر فوری طور پہ قلم اٹھایا سوچا کیوں ناں ایک پرمسرت ملاقات کو ضبط تحریر میں لایا جائے۔ چناب کلب فیصل آباد میں کچھ خاص عزیز دوستوں کے ہمراہ پہلی ملاقات تو نہ تھی لیکن اس با رونق ملاقاتی سیشن میں دو دیدہ زیب شخصیتیں ہم پانچ لوگوں کے ہمراہ تھیں جن کے عشائیہ میں تقریب رکھی گئی ان میں سے ایک محمد کلیم صاحب اور طارق بشیر صاحب دونوں ہی اپنے فن میں با کمال ہیں بنیادی طور پہ کلیم صاحب نے کچھ دن پہلے فری لانسنگ کے حوالے سے طلباء کو ایک کامیاب ٹریننگ دی تھی اس کی کامیابی پر باعث حوصلہ افزائی چناب کلب میں مختصر بیٹھک رکھی گئی تا کہ ان سے مزید کچھ سیکھنے کو ملے میری زندگی میں یہ اور اس سے پہلے کی چند ملاقاتیں ایسے ہیں جن کے بارے میں رہ رہ کے مجھے خیال آتا ہے کیا ہی خوبصورت اور یادگار لمحات ہوا کرتے ہیں جب ہم دوست ایک ساتھ ہوا کرتے ہیں خدائے متعال ہماری اس راہ و رسم کو کسی صورت میں منقطع نہ کرے ۔کیونکہ خاکسار کو ان تمام صاحبان عزیز سے مل کر پہلی بار خوشی نہیں ہوئی بلکہ یہ خوشی دوبالا ہو جایا کرتی ہے جہاں دو دو تین گھنٹے مسلسل ایسی گفتگو ہو جو تھکن کا باعث ہی نہ بنے اور سننے والے بڑی دلچسپی سے ہمہ تن گوش ہو کر بڑے انہماک سے کلیم صاحب کے ساتھ ایک دوسرے کی باتیں سننے میں مشغول نظر آئے یہ باتیں کیا تھیں اپنے پاکستانی نوجوانوں کو زہنی و جسمانی طور پہ مہارت یافتہ بنانے کی جس میں ماشاءاللہ کلیم صاحب کے سالہا سال کے تجربات شامل ہیں مثال کے طور پہ ایک شخص زبان دانی پر توجہ دیتا ہے سیکھنے کے لیے کیونکہ میں مانتا ہوں کہ انسان کے حلق میں زبان جڑ دی گئی ہے کہ وہ باتیں کرے بولے اور جو اس کا بہتر طریقے سے استعمال کرتا ہے وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب بھی ہو جایا کرتا ہے باتیں کرنا کوئی غیر انسانی حرکت بالکل نہیں ہے لیکن اگر اسی زبان کو دماغ چاٹنے کے لیے استعمال کیا جائے یہ ضرور ایک غیر انسانی حرکت ہو گی یعنی ایک زبان میں ہی مثبت اور منفی عناصر منتقل ہوا کرتے ہیں اسی طرح ہر شعبہ ہائے زندگی میں یہی راز کار فرما ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خیر بات بہت طویل ہو جائے گی کلیم صاحب اور طارق بشیر صاحب کی نیک تمناوں اور نیک کاوشوں کو ہم سب دوست جن میں عزت مآب رانا وہاب صاحب محبوب احمد صاحب عبداللہ صاحب قاسم احسان صاحب اور یہ بندہ پر تقصیر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور آخر پر تمام رفقاء قلم اور نوجوان دوستوں کے لیے اور خصوصی طور پہ کلیم صاحب کی خدمات کے اعتراف میں علامہ اقبال کی فارسی شاعری پر مشتمل کتاب شرح پیام مشرق سے ایک شعر کی مختصر شرح اقتباس کے طور پہ شامل کر رہا ہوں

علامہ اقبال فرماتے ہیں

"اگر قدرت کی طرف سے تجھے یہ جذبہ اور سوز و تپش عطا ہوا ہے تو اس سے ایسا کام لے کہ تجھ سے متاثر ہو کر اور بھی لوگ اس جذبہ و سوز سے سرشار ہو جائیں اور یوں یہ سوز و جذبہ ملت میں پھیلتا جائے اور وہ اس سے اپنی بقا کا سامان کرے"

بردار عزیز شاہ زمان
السلام علیکم اور خوش آمدید

لکھتے رہیے آپ میں ماشاء اللہ صلاحیت ہے لکھنے کی -بس نظر ثانی ضرور کریں بقول سرور عالم صاحب لکھنے کے بعد اپنی کاوش کو دشمن کی نگاہ سے دیکھا جائے اور بقول الف عین صاحب پرائی (دوسرے کی )کاوش سمجھ کے دیکھا جائے - تقریباً دونوں باتیں ایک ہی بات ہیں -

آپ کی تحریر کے عنوان سے لگا ملاقات کا احوال مفصّل پیش کریں گے مگر آپ نے ملاقات کا موضوع ہی پیش کیا ہے - اب تحریر کا عنوان کچھ اور چاہئے -

میں نے الگ رنگ سے نشاندہی کی ہے تحریر کے ان مقامات کی جہاں میری ناقص رائے میں کوئی کمی پائی جاتی ہے زبان و بیان وغیرہ کی دیکھ لیجئے گا -

پہلے جملے کی مفصّل نشاندہی کر دیتا ہوں بطور نمونہ کے :

"یہ کل رات ہی کی بات ہے ٹھٹھرتی سردی میں کیونکہ اب جھاڑے کا موسم قریب ہے تو جان بوجھ کے چھت کی آخری منزل میں جا پہنچا"

ٹھٹھرتی سردی= سردی تو نہیں ٹھٹھرتی 'آدمی وغیرہ ٹھٹھرتا ہے-
جھاڑے کا موسم قریب ہے=ٹھٹھرنا اور جاڑا قریب ہونا دو متضاد باتیں -
چھت کی آخری منزل میں جا پہنچا= چھت کی بھی آخری منزل ؟؟؟

باقی مقامات پہ آپ خود سوچیں کہ جن کی الگ رنگ سے نشاندہی کر دی ہے -

برادرم میں نے جو کچھ محسوس کیا لکھ دیا -آپ آتے رہیے 'لکھتے رہیے اور نظر ثانی کے بعد پیش کرتے رہیے -جزاک اللہ
 
بردار عزیز شاہ زمان
السلام علیکم اور خوش آمدید

لکھتے رہیے آپ میں ماشاء اللہ صلاحیت ہے لکھنے کی -بس نظر ثانی ضرور کریں بقول سرور عالم صاحب لکھنے کے بعد اپنی کاوش کو دشمن کی نگاہ سے دیکھا جائے اور بقول الف عین صاحب پرائی (دوسرے کی )کاوش سمجھ کے دیکھا جائے - تقریباً دونوں باتیں ایک ہی بات ہیں -

آپ کی تحریر کے عنوان سے لگا ملاقات کا احوال مفصّل پیش کریں گے مگر آپ نے ملاقات کا موضوع ہی پیش کیا ہے - اب تحریر کا عنوان کچھ اور چاہئے -

میں نے الگ رنگ سے نشاندہی کی ہے تحریر کے ان مقامات کی جہاں میری ناقص رائے میں کوئی کمی پائی جاتی ہے زبان و بیان وغیرہ کی دیکھ لیجئے گا -

پہلے جملے کی مفصّل نشاندہی کر دیتا ہوں بطور نمونہ کے :

"یہ کل رات ہی کی بات ہے ٹھٹھرتی سردی میں کیونکہ اب جھاڑے کا موسم قریب ہے تو جان بوجھ کے چھت کی آخری منزل میں جا پہنچا"

ٹھٹھرتی سردی= سردی تو نہیں ٹھٹھرتی 'آدمی وغیرہ ٹھٹھرتا ہے-
جھاڑے کا موسم قریب ہے=ٹھٹھرنا اور جاڑا قریب ہونا دو متضاد باتیں -
چھت کی آخری منزل میں جا پہنچا= چھت کی بھی آخری منزل ؟؟؟

باقی مقامات پہ آپ خود سوچیں کہ جن کی الگ رنگ سے نشاندہی کر دی ہے -

برادرم میں نے جو کچھ محسوس کیا لکھ دیا -آپ آتے رہیے 'لکھتے رہیے اور نظر ثانی کے بعد پیش کرتے رہیے -جزاک اللہ
 
Top