دراصل آپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ میرے پورے مراسلے میں عناصر کی تجزیہ کاری کے لیے صرف راڈار کو ہی لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ آپ دوبارہ مراسلہ پڑھیں، کیا آپ کے خیال میں اسپیکٹرومیٹری اس حوالے سے کوئی معنی نہیں رکھتی؟
جہاں تک آئنوسفئیر کے بحیثیت مجموعی، ریڈیائی لہروں کے لیے میڈیم کے طور پر اس کی خصوصیات کا ذکر ہے تو یہی مجموعی پن ہی ہمیں الیکٹرانی کثافت کے حوالے سے آگاہ کرتا ہے۔
آپ راڈار اور سینسرز کے مرکب جملے کو دوبارہ پڑھیں، بات سمجھ آجائے گی۔
سید عاطف علی سے انتہائی معذرت کے سینسرز کا لفظ لکھنے سے قبل اسپکٹروسکوپی ہی لکھا تھا، لیکن یہ سوچ کر کہ شائد یہ کچھ زیادہ بھاری نہ ہوجائے آسان الفاظ میں سینسرز ہی کو استعمال کرنے پر اکتفا کیا۔ بعد میں اطمینان ہوا کہ شکر ہے تفصیل میں نہیں گیا ورنہ وقت ضائع ہوجانا تھا۔ کیوں کہ محترم کی اتنی ”فنی باریکیوں“ سے آگاہی نہیں تھی۔
معذرت کہ جس چیپٹر، ریسرچ پیپر اور کتاب کا آپ حوالہ دے چکے ہیں، وہ سب راڈار ہی کے متعلق تھے اور ان میں سپیکٹروسکوپی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی میرے سپیکٹروسکوپی کا تذکرہ کرنے کے بعدکافی دیر تک آپ راڈار پر ہی اصرار کرتے رہے ہیں۔
اس سب کی روشنی میں آپ کے آخری دو تبصروں کی سمجھ نہیں آتی۔
خاص طور پر جب اس سوال کو دیکھا جائے کہ جس سے اس گفتگو کا آغاز ہوا،
سمجھ نہیں آئی۔ راڈار سے کیسے؟ یہ تو سپیکٹرومیٹری کا کام ہے۔
اس ضد کی تک نہیں بنتی جس کا مظاہرہ آپ نے کیا۔
انسان میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ موقع دیے جانے پر غلطی درست کر لے بجائے مسلسل ضد پر اڑے رہنے کے۔ سائنس کا شعبہ اس طرح کا ضدی پن افورڈ نہیں کر سکتا۔
بائے دا وے۔۔۔
جہاں تک آئنوسفئیر کے بحیثیت مجموعی، ریڈیائی لہروں کے لیے میڈیم کے طور پر اس کی خصوصیات کا ذکر ہے تو یہی مجموعی پن ہی ہمیں الیکٹرانی کثافت کے حوالے سے آگاہ کرتا ہے۔
یہ بھی درست جواب نہیں کیونکہ یہ الیکٹرانی کثافت ہمیں وہاں موجود عناصر کی کیمیکل کمپوزیشن کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ آپ یہ دعویٰ کرنے کے باوجود کہ آپ دراصل سپیکٹروسکوپی کی بات کر رہے تھے، ابھی تک راڈار والے طریقے پر ہی بضد ہیں۔ جس سے یہ بات کافی مشکوک ہو جاتی ہے کہ آپ کو دونوں کے بیچ کا فرق معلوم بھی ہے یا نہیں۔