چند اشعار برائے اصلاح - بہت شکریہ!

یہ اس فارم میں میں پہلی بار شیر کر رہی ہوں۔ میں نے حال ہی میں تھوڑا بہت لکھنا شروع کیا ہے۔ آپ سب کی مدد کے لئے بہت ممنون ہوں

مجهے رنگین کلیوں میں بہاروں میں نہیں ڈهونڈو
تمهارا خواب ہوں مجھ کو ستاروں میں نہیں ڈهونڈو

کبهی کاغز کبهی پتھر کبهی مسجد کبهی مندر
خدا خود تم میں ہے ان استعاروں میں نہیں ڈهونڈو

محبت میں بدل جاتے ہیں سب موسم سبهی منظر
جو عالم دل کا ہے باہر نظاروں میں نہیں ڈهونڈو
 
بہت خوب محترمہ، خوشآمدید بزم میں

دوسرا شعر یوں کیسا رہو گا؟
کبھی چہرے، کبھی پتھر، کبھی مسجد کبھی مندر
خدا خود میں ہی کھوجو ، استعاروں میں نہیں ڈھونڈو

ویسے اُستاد محترم آتے ہی ہوں گے، انتظار کر لیجیے نا، پتہ نہیں یہ کھوجو ٹھیک بھی ہو گا کہ نہیں
 
آپ سب کی رائے کا بہت شکریہ!
محمد اظہر صاحب بہت اچھا آئڈیا دیا ہے آپ نے :)
کاغد کو مسجد کے حوالے سے لکھا ہے، اور پتھر کو مندر کے حوالے سے۔ اس لحاظ سے کیا "چہرہ" ٹھیک رہے گا یہاں؟

اور میں بہت سالوں بعد اردو لکھ پڑھ رہی ہوں اس لئے جہاں سپیلنگ کی غلطی ہو اسکو بھی درست کر دیجیئے گا۔
 
آپ سب کی رائے کا بہت شکریہ!
محمد اظہر صاحب بہت اچھا آئڈیا دیا ہے آپ نے :)
کاغد کو مسجد کے حوالے سے لکھا ہے، اور پتھر کو مندر کے حوالے سے۔ اس لحاظ سے کیا "چہرہ" ٹھیک رہے گا یہاں؟

اور میں بہت سالوں بعد اردو لکھ پڑھ رہی ہوں اس لئے جہاں سپیلنگ کی غلطی ہو اسکو بھی درست کر دیجیئے گا۔
اوہ تو اپنے والا ہی حال ہے :lol: شکر ہے کوئی اور تو ایسا ہے جو املا کی غلطیاں کرے گا
کاغذ کا مسجد سے تعلق؟ لوگ چہروں اور پتھروں میں رب ڈھونڈتے ہیں، مسجد اور مندر عبادت گاہیں ہوئیں
مورت دے وچ رب نون لبدے
ہر مورت عیب ہزاراں
ایک مورت بے عیب بناون
بڑے کیتے جتن نے یاراں
 
اوہ تو اپنے والا ہی حال ہے :lol: شکر ہے کوئی اور تو ایسا ہے جو املا کی غلطیاں کرے گا
کاغذ کا مسجد سے تعلق؟ لوگ چہروں اور پتھروں میں رب ڈھونڈتے ہیں، مسجد اور مندر عبادت گاہیں ہوئیں
مورت دے وچ رب نون لبدے
ہر مورت عیب ہزاراں
ایک مورت بے عیب بناون
بڑے کیتے جتن نے یاراں

بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر! :)
اصل میں میں ٖقرآن کہنا نہیں چاہ رہی ہوں۔۔ اسی لیئے کاغذ کہہ رہی ہوں۔۔ لیکن اگر اس سے میری سوچ واضح نہیں ہو رہی تو پھر اس لفظ کو بدلنا ٹھیک رہے گا
 
یہ اس فارم میں میں پہلی بار شیر کر رہی ہوں۔ میں نے حال ہی میں تھوڑا بہت لکھنا شروع کیا ہے۔ آپ سب کی مدد کے لئے بہت ممنون ہوں

مجهے رنگین کلیوں میں بہاروں میں نہیں ڈهونڈو
تمهارا خواب ہوں مجھ کو ستاروں میں نہیں ڈهونڈو

کبهی کاغز کبهی پتھر کبهی مسجد کبهی مندر
خدا خود تم میں ہے ان استعاروں میں نہیں ڈهونڈو

محبت میں بدل جاتے ہیں سب موسم سبهی منظر
جو عالم دل کا ہے باہر نظاروں میں نہیں ڈهونڈو

بہت سی داد اتنے عمدہ کلام سے نوازا آپ نے۔ :)

ایک بات ہے ویسے مسجد کے ساتھ مندر کا اضافہ کرکے آپ نے ایتھیزم کی جھلک دی ہے شعر میں یہاں کعبہ کہا جاسکتا ہے۔
اور کاغذ سے قران کے مطلب بھی غیر واضح ہے
اور مسجد اور کاغذ کو استعارہ کہنے کا محل بھی کچھ سمجھ نہیں آیا۔
باقی دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
فاتح
محمد وارث
 
بہت سی داد اتنے عمدہ کلام سے نوازا آپ نے۔ :)

ایک بات ہے ویسے مسجد کے ساتھ مندر کا اضافہ کرکے آپ نے ایتھیزم کی جھلک دی ہے شعر میں یہاں کعبہ کہا جاسکتا ہے۔
اور کاغذ سے قران کے مطلب بھی غیر واضح ہے
اور مسجد اور کاغذ کو استعارہ کہنے کا محل بھی کچھ سمجھ نہیں آیا۔
باقی دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
فاتح
محمد وارث

بہت شکریہ!
آپ کی بات سامجھ میں آ گئی۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ذرا گھبراہٹ ہوتی ہے :) مگر جس طرح آپ کہہ رہے ہیں ایسے شاید بات کی جا سکتی ہے۔ درستگی کر کے دوبارو شیر کروں گی یہ شعر۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ اس فارم میں میں پہلی بار شیر کر رہی ہوں۔ میں نے حال ہی میں تھوڑا بہت لکھنا شروع کیا ہے۔ آپ سب کی مدد کے لئے بہت ممنون ہوں

مجهے رنگین کلیوں میں بہاروں میں نہیں ڈهونڈو
تمهارا خواب ہوں مجھ کو ستاروں میں نہیں ڈهونڈو

کبهی کاغز کبهی پتھر کبهی مسجد کبهی مندر
خدا خود تم میں ہے ان استعاروں میں نہیں ڈهونڈو

محبت میں بدل جاتے ہیں سب موسم سبهی منظر
جو عالم دل کا ہے باہر نظاروں میں نہیں ڈهونڈو

اچھے اشعار ہیں۔

دوسرا شعر سب سے اچھا ہے، لیکن کاغذ کی وجہ سے مسجد کے ساتھ تلازمے میں کمی ہے، آپ نے خود کہا کہ اس سے مراد مقدس کتاب یا قرآن ہے لیکن قاری کا دھیان اس طرف نہیں جانتا۔

اس کو منبر یا زم زم کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے۔ جیسے

کبھی منبر کبھی پتھر، ،کبھی مسجد کبھی مندر

کبھی زم زم کبھی پتھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وغٰیرہ وغیرہ۔
 
اچھے اشعار ہیں۔

دوسرا شعر سب سے اچھا ہے، لیکن کاغذ کی وجہ سے مسجد کے ساتھ تلازمے میں کمی ہے، آپ نے خود کہا کہ اس سے مراد مقدس کتاب یا قرآن ہے لیکن قاری کا دھیان اس طرف نہیں جانتا۔

اس کو منبر یا زم زم کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے۔ جیسے

کبھی منبر کبھی پتھر، ،کبھی مسجد کبھی مندر

کبھی زم زم کبھی پتھر۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

وغٰیرہ وغیرہ۔

جی بہت شکریہ!

کبھی منبر کبھی پتھر کبھی مسجد کبھی مندر
خدا خود تم میں ہے ان استعاروں میں نہیں ڈھونڈو

محمد اظہر نذیر صاحب نے بھی اچھا مشورہ دیا ہے "کھوجو" کے استعمال کا۔

کبھی منبر کبھی پتھر کبھی مسجد کبھی مندر
خدا خود میں ہی کھوجو استعاروں میں نہیں ڈھونڈو

کیسے بہتر ہے آپ کے خیال سے؟

"خود تم میں ہے" میں تھوڑا "زور" محسوس ہوتا ہے، جیسے یقین کے ساتھ یہ بات کی جا رہی ہے، "خود میں ہی کھوجو" میں مشورے کی جھلک آتی ہے، کیا یہ درست ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
جی بہت شکریہ!

کبھی منبر کبھی پتھر کبھی مسجد کبھی مندر
خدا خود تم میں ہے ان استعاروں میں نہیں ڈھونڈو

محمد اظہر نذیر صاحب نے بھی اچھا مشورہ دیا ہے "کھوجو" کے استعمال کا۔

کبھی منبر کبھی پتھر کبھی مسجد کبھی مندر
خدا خود میں ہی کھوجو استعاروں میں نہیں ڈھونڈو

کیسے بہتر ہے آپ کے خیال سے؟

"خود تم میں ہے" میں تھوڑا "زور" محسوس ہوتا ہے، جیسے یقین کے ساتھ یہ بات کی جا رہی ہے، "خود میں ہی کھوجو" میں مشورے کی جھلک آتی ہے، کیا یہ درست ہے؟


جی مجھے بھی یہ بہتر محسوس ہو رہا ہے


کبھی منبر کبھی پتھر کبھی مسجد کبھی مندر
خدا خود تم میں ہے ان استعاروں میں نہیں ڈھونڈو
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، البتہ ایک بات کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا ہے۔ ’نہیں دھونڈھو‘ نہیں بولا جاتا، ’مت ڈھونڈھو‘ بولا جاتا ہے۔ نہی کی شکل میں۔ یہاں میرے خیال میں ‘تو مت ڈھونڈو‘ سے آسانی سے بدلا جا سکتا ہے ردیف کو۔
 
اچھی غزل ہے، البتہ ایک بات کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا ہے۔ ’نہیں دھونڈھو‘ نہیں بولا جاتا، ’مت ڈھونڈھو‘ بولا جاتا ہے۔ نہی کی شکل میں۔ یہاں میرے خیال میں ‘تو مت ڈھونڈو‘ سے آسانی سے بدلا جا سکتا ہے ردیف کو۔
بہت شکریہ! میں یہ بات نہیں جانتی تهی.. یہ تبدیلی کر لوں گی.
 
Top