اتفاقی
محفلین
چند اشعار ۔ جب شاعر تھا
اب اصلاح بے سود ہے
۱۹۹۵ میں ڈائیری میں لکھے گئے چند اشعار
ہم بھی ہیں اتفاقی تم بھی تھے اتفاقی
تم بھی رہے نہ باقی نہ ہم ہی رہیں گے باقی
بوتل سے کہہ رہا تھا اجڑا ہوا شرابی
تو میرے یار سی ہے میں ہوا ہوں تیرا عادی
کیسے نہ ان کا ہوتا ، کرتا نہ دل بغاوت ؟
ان سازشوں کے پیچھے وہ ہونٹ تھے گلابی
آنے کو ہیں بہاریں اجڑے ہوئے چمن میں
تم اپنے اپنے جا کر کر لو تلاش ساقی
اتفاقی