محترم آپ کی توجہ کا بیحد شکریہ۔آپ نے جو نِکات اُٹھائے اور اصلاحات فرمائیں،لاجواب ہیں ۔میں واقعی اس شعر میں اپنا مافی الضمیر ڈھنگ سے نظم نہ کرپایا:
اور اب اِس کو رہنے کے قابل بنا کر
ہے قدر اور بھی آدمی نے گرائی
میں یہاں کہنا چاہتا تھا کہ دنیا کے بارے میں اہلِ حق کی رائے ہے کہ یہ رہنے کے لائق نہیں ۔ انسان نے اسے رہنے کے قابل بنا کر جنت کے مقابلے میں اِس کی قدر اور بھی گرا کر رکھدی ہے۔
میں اساتذۂ کرام کے ساتھ احباب سے بھی ملتمس ہوں اِس نظم کے سلسلے میں مجھے اپنے بیش قدر مشوروں اور آراءسے سرفرازفرمائیں۔
Social distance
کہیں سے یہ آواز کانوں میں آئی
ہے آدم سے ہی اس جہاں کی بڑائی
وگرنہ یہ دنیا تھی وہ جس کی قیمت
نہ رپیا نہ پیسا نہ دھیلا نہ پائی
پھر انساں نے جنت تھی جس کا ٹھکانہ
ٹھکانے لگا دی یہیں سب کمائی
اور اب اِس کو رہنے کے قابل بنا کر
ہے قدر اہلِ حق کی نظر میں گرائی
سمایا ہے ہر سر میں دنیا کا سودا
یہ ہے فخرِ آدم تو شاباش بھائی
وہ لندن وہ پیرس وہ اٹلی وہ سسلی
یہ دلّی ، منامہ ، کراچی ، ہوائی
ہیں شہروں کے یہ نام یا کوئی تہمت
کہ ویرانوں پر ہے جو ہم نے لگائی
نہ ہو آدمی اور کہیں اس کو محفل
کہو کیا نہیں ہے یہ ہرزہ سرائی
مگر آج کل کچھ یہی ہو رہا ہے
مصیبت’’ کرونا‘‘ کی جب سے ہے چھائی
کہاں آدمی اور کہاں ہیچ سی شے
مگر دیکھو کیسے ہے منہ کو یہ آئی
کہا جا رہا ہے رکھیں فاصلہ سب
کہ اِس وقت بہتر ہے باہم جدائی
چلو مان لیتے ہیں ہم حاکموں کی
کہ دنیا کی وہ چاہتے ہیں بھلائی
ہے گر خیرخواہی، بھلائی کا مطلب
’’نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی‘‘
تو پھر ہم شکیل آپ سے دُور اچھے
کہیں سے وہ آواز دی پھر سنائی