چند اقتباسات - میرا مطالعہ

حضرت آدم تو دانہ گندم کی پاداش میں خلد سے نکلے تھے لیکن ڈوگرہ راج میں کشمیری مسلمان دانہ گندم کی تلاش میں اپنی جنت ارضی سے نکلنے پر مجبور تھا-سردیاں آتے ہی گلمرگ،گھاندھر بل، اچھا بل، تراگ بل، بانڈی پور اور پانپور کے کوہساروں اور مرغزاروں سے نکل کر پنجاب کی دور دراز منڈیوں میں پھیل جاتے تھے –دن بھر غلے، لوہے اور کپڑے کی باربرداری کرتے تھے – بسوں اور ٹانگے کے اڈوں پر سامان ڈھوتے تھے –لکڑی کے ٹالوں پر لکڑیاں پھارتے تھے- اور شام کو مرغیوں کے بچوں کی طرح چھوٹےچھوٹے گروہوں میں اکٹھے بیٹھ کر کچھ چاول ابال لیتے تھے خشکہ رات کو کھا کرکھلے آسمان تلے سو رہتے تھے- اور صبح اٹھ کر رات کی بچی ہوئی پچ میں نمک ملا کر دن کا کھانا بنا لیتے تھےاس طرح خون پسینہ ایک کر کے گرمیوں میں جب وہ نقدی بچا کر اور دو ڈھائی من سامان پیٹھ پر لاد کر اپنی جنت گم گشتہ کی طرف واپس لوٹتے تھے تو کہیں کسٹم والے ان کا مال لوٹتے تھے اور کہیں کوئی ڈوگرا سرداربر سرعام ڈرا دھمکا کر ان کی پونجی ہتھیا لیتا تھا- کہیں پولیس اور محکمہ مال کے اہلکار انہیں سر راہ پکڑ کر کئی کئی دن کئی کئی ہفتےمفت کی بیگار میں لگا ئے رکھتے تھے –یوں بھی کشمیری مسلمان کا بال بال ڈوگرا حکومت کے لاتعداد ٹیکسوں میں جکڑا رہتا تھا – پھولوں پر ٹیکس،سبزی پر ٹیکس، بھیڑ بکری اور گائے پر ٹیکس، چولہا ٹیکس، کھڑکی ٹیکس،اون ٹیکس، شال ٹیکس،بخار اور خیاط پر ٹیکس، مزدور اور معمار پر ٹیکس، نانبائی اور لوبار پر ٹیکس،ملاح اور کمہار پر ٹیکس،ارباب نشاط پر ٹیکس، بس ایک حجام تھا جو ٹیکسوں کی مکڑی کے جالے میں کسی وجہ سے گرفتار نہ تھا-
قدرت اللہ شہاب کی شہاب نامہ سے اقتباس
 
ب نتیجہ نکلا تو ورنیکولر فائنل کا وظیفہ تو مجھے صرف دو برس کے لیے ملا لیکن درود شریف کا وظیفہ میرے نام تا حیات لگ گیا- یہ ایک ایسی نعمت مجھے نصیب ہوئی جس کے سامنے کرم بخش کے سارے " اجیبھے" (وظیفے) گرد تھے- اس کے لیے نہ پرانی باؤلی کے پانی میں رات کو دوپہر ایک ٹانگ پر کھڑا ہونا پڑتا تھا نہ کنویں کیں الٹا لٹک کر چلہ معکوس کھینچنے کی ضرورت تھی- نہ گگا ماڑی میں ڈھول کی تال پر کئی کئی گھنٹے" حال" کھیلنے کی حاجت تھی- نہ مراقبے کی شدت تھی نہ مجاہدے کی حدت تھی نہ ترک حیوانیات نہ ترک لذات نہ تقلیل طعام نہ تقلیل منام نہ تقلیل کلام نہ تقلیل اختلاط مع الانام نہ رجعت کا ڈر نہ وساوس کی فکر نہ خطرات کا خوف- یہ تو بس ایک تخت طاؤس تھا جو ان دیکھی لہروں کے دوش پر سوار آگے ہی آگے اوپر ہی اوپر رواں دواں رہتا تھا-درود شریف نے میرے وجود کے سارے کے سارے افقوں کو قوس قزح کی لطیف رداؤں نے لپیٹ لیا- گھپ اندھیروں میں مہین مہیں سی شعاعیں رچ گئیں جنہیں نہ خوف نہ و ہراس کی آندھیاں بجھا سکتی تھیں نہ افکار و حوادث کے جھونکے ڈگمگا سکتے تھے- تنہائی میں انجمن آرائی ہونے لگی- بھری محفل میں حجروں کی خلوت سما گئی دل شاد روح آباد جسم یوں گویا کشش ثقل سے بھی آزاد سب سے بڑی بات یہ تھی کہ درود شریف کی برکت سے پردہ خیال پر ایک ایسی بابرکت ذات کے ساتھ قربت کا احساس جاری و ساری رہتا تھا جس کے پاؤں کی خاک اغواث اور اقطاب اور اوتاد و ابدال کی انکھ کا سرمہ- جس کے قدموں میں دنیا کامران اور عقبیٰ بھی با مراد جس کے ذکر سے نور سے عرش بھی سر بلند اور فرش بھی سر بلند جس کا ثانی نہ پہلے پیدا ہوا نہ آگے کبھی ہو گا جس کی افرینش پر رب البدیع الخالق الباری المصور نے صناعی کی پوری شان تمام کر دی-

بلغ العلیٰ بکمالہ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلو علیہ وآلہ

قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامہ سے اقتباس
 
اردو مزاح نگاری میں ایک بڑا نام مجتبیٰ حسین ہم سے رخصت ہوئے۔
اس موقع پر ان کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کر رہا ہوں۔
---
اب اگر واقعی ہمیں ذاتی مکان مل گیا تو کیا ہو گا۔ مجھے رہ رہ کر وہ سارے مکان یاد آنے لگے جن میں سر چھپانے کے علاوہ بہت کچھ چھپایا تھا، جیسے اپنی غربت، عزت، شرافت وغیرہ وغیرہ۔ اور وہ سارے مالک مکان بھی یاد آنے لگے جن پر اپنا سب کچھ ظاہر کر دیا تھا۔ جیسے اپنی عزت، بے روزگاری ، مفلوک الحالی اور آوارہ گردی وغیرہ وغیرہ۔ جس بات کا علم مکان کو نہیں ہوتا تھا اسے مالک مکان جان لیتا تھا اور اسی بنیاد پر ہم نے یہ مفروضہ بنا رکھا تھا کہ کرایہ کا مکان چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو وہ اپنے مالک سے بڑا ہوتا ہے۔ ہم تو صرف مکان کی مکانیت کا کرایہ ادا کرتے تھے۔ اس کے ظرف کا کرایہ کہاں ادا کرتے تھے۔ کن کن باتوں کو یاد کریں۔ برسات کے موسم میں جب ایک مکان کی چھت غالبؔ کے مکان کی چھت سے بھی زیادہ ٹپکنے لگی تو میں ایک اور مکان کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ایک محلہ میں پنواڑی سے پوچھا: ”کیوں بھئی! کیا تمھارے علاقے میں کوئی مکان خالی ہے؟ “
پنواڑی نے کہا۔ ”حضور ایک مکان خالی تھا مگر آپ نے یہاں آنے میں ذرا دیر کر دی۔“
میں نے پوچھا: ”تو کیا وہ مکان کرایہ پر اٹھ گیا؟“
وہ بولا: ”جی نہیں ! شاید بارش کے زور سے ابھی ابھی گرا ہے۔ آپ کچھ دیر پہلے آجاتے تو مکان آپ ہی کا تھا۔“
اور یوں کھلے ہوئے غنچوں کو مرجھانے کا ایک اور موقعہ ہاتھ سے نکل گیا۔ گھر واپس ہوا تو بیوی نے پوچھا: ”کوئی مکان ملا؟“
میں نے کہا : ”مکان تو نہیں ملا، البتہ ایک دوست کے ہاں دو پرانے واٹر پروف مل گئے۔ وہ ان کا کرایہ بھی نہیں لے گا۔ ایک تم پہنو، دوسرا میں پہنتا ہوں۔ پھر دیکھو ساون کا مزہ کیسے آتا ہے۔“
ہمارا ایک مکان پڑوسیوں کے مکانوں اور ان کے مکینوں میں کچھ اتنا دخیل تھا اور وہاں فرد کی انفرادیت کچھ اتنی غیر محفوظ تھی کہ نماز پڑھنے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے یہ اعلان کرنا پڑتا تھا کہ ”صاحبو! سلام پھیر رہے ہیں، اپنی بیبیوں سے پردہ کروا لو۔“ بعض اوقات تو ہمیں دایاں سلام پھیرنے کے بعد بایاں سلام پھیرنے میں دس منٹ لگ جاتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت پڑوسن کی بیٹی کی چوٹی گوندھی جا رہی ہوتی تھی۔

ہمارا ایک مکان چوتھی منزل پر تھا۔ پہلی منزل میں مالک مکان سردار مہابیر سنگھ رہتے تھے اور دوسری منزل میں پرمود کمار چڑ جی اور تیسری منزل میں مسٹر تھامس رہتے تھے۔ چوتھی منزل ہماری تھی۔ مکان کیا تھا اچھا خاصا ملک تھا۔ اس مکان میں ہم خوش بھی بہت تھے۔ بس ایک شکایت یہ تھی کے مہینہ میں چار پانچ تہوار مشترکہ طور پر منانے پڑتے تھے، بلکہ تہواروں کے سوا اس گھر میں کچھ بھی نہیں منایا۔ تہوار تو ہمیں اچھے لگتے تھے لیکن ہماری جیب ان تہواروں کا بوجھ اٹھا نہیں سکتی تھی۔ قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے جتنی خوش حالی درکار ہوتی ہے، وہ ہمارے پاس نہیں تھی۔ اس لیے وہاں سے بادل ناخواستہ نکل آئے۔
مکان یاد آنے لگے تو مکانوں کے مالک بھی یاد آتے چلے گئے۔ ایک مالک مکان اتفاق سے ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے تھے. نہ صرف اتفاق سے گزرتے تھے بلکہ اتفاق سے کال بیل بھی بجا دیتے تھے۔ میں اتفاق سے گھر پر ہوتا تو کہتے: ”بھئی اتفاق سے ادھر سے گزر رہا تھا، سوچا آپ سے مل لوں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ آج پہلی تاریخ ہے۔“ ایک مہینہ میں اکتیس تاریخ کو اتفاق سے ان کے گھر پہنچا۔ مجھے دیکھ کر بہت سٹپٹا گئے۔ بولے: ”آج آپ کے اتفاق سے ادھر چلے آنے سے کچھ نااتفاقی کی بو آ رہی ہے۔“ میں نے کہا : ”اتفاق سے مجھے اس مہینہ کی تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ اتفاق سے ادھر سے گزر رہا تھا۔ سوچا کہ آپ کو آگاہ کر دوں کہ آپ کل اتفاق سے میرے گھر نہ آئیں۔“ اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ چند دنوں بعد مجھے اس گھر کو خالی کرنا پڑا۔
ایک اور مالک مکان بھی بہت یاد آئے۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جت نصیب کرے۔ پہلی تاریخ کو مکان کا کرایہ تو وصول نہیں کرتے تھے، البتہ آدهی رات کو اپنا بے بحر شعر سنا کر داد ضرور وصول کر لیا کرتے تھے۔ میں نے مہینوں انھیں مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا، البتہ شعر کی داد کے معاملے میں وہ ادھار کے قائل نہیں تھے۔ کھڑے کھڑے داد وصول کر لیتے تھے بلکہ مستقبل میں سرزد ہونے والے شعروں کی پیشگی داد تک پگڑی سمیت وصول کر لیتے تھے۔ مکان چوں کہ ان کا چھوٹا تھا اس لیے چھوٹی بحر میں شعر کہتے تھے۔ شاعری بھی اپنے مکان کی طرح کرتے تھے، جس میں کمرے کم اور بیت الخلاء زیادہ ہوتے تھے۔ بات بات پر شاعری میں اپنا کلیجہ، پھیپھڑا وغیرہ نکال کر رکھ دیتے تھے۔ میں تو زندگی بھر ان کے مکان کو خالی نہ کرتا مگر قدرت کو اردو شاعری کا فائده اور میرا نقصان مقصود تھا۔ ایک دن وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ ان کے مرنے کے دن نہیں تھے۔ جوں جوں مکان کا کرایہ بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کی شاعری میں مجھے نئے نئے گوشے بشمول گوشۂ عافیت کے نظر آنے لگے تھے اور میں ان کی شاعری میں امکانات اور مکانات، دونوں کو ڈھونڈنے لگا تھا۔
جب مکانوں اور مکان مالکوں کی یاد نے زور مارا تو میں نے سوچا کہ یادوں کی اس دہلیز کو پھلانگ کر میں اپنے ذاتی مکان کی دہلیز پر کیوں کر قدم رکھوں گا۔ اسی اثنا میں میری بیوی چائے لے کر آ گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بولی : ”مجھے آج اپنا سڑسٹھواں مکان بہت یاد آرہا ہے۔ ہادی وہیں پیدا ہوا تھا اور انہترواں مکان بھی، کیوں کہ نجیبہ وہیں پیدا ہوئی تھی۔ “
میں نے اسے روکتے ہوئے رندھی رندھی آواز میں کہا۔ ”بیگم! اب کچھ یاد نہ دلاؤ۔ یادوں کا ایک ایسا ٹھاٹیں مارتا سمندر میرے اندر موجزن ہے کہ اگر ہمارا ذاتی مکان بھی اس کی زد میں آ جائے تو اس کے بام و در پاش پاش ہو جائیں گے۔ اس کی اینٹ سے اینٹ اگر خود سے نہ بجی تو بجا دی جائے گی۔
میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ میرا بھتیجا بھاگا بھاگا آیا۔ اس نے کہا۔ ”انکل معاف کیجیے، میں ایک بری خبر لے کر آیا ہوں۔“
میں نے کہا: ”مجھے اس بری خبر کی اطلاع ملی چکی ہے۔“
بھتيجے نے کہا: " نہیں! وہ تو خوش خبری تھی، آپ کے ذاتی مکان ملنے کی۔“
میں نے پوچھا : ”تو پھر بری خبر کیا ہے؟“
بھتیجے نے کہا: ”مجھے ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹی نے جس بلاک میں آپ کا فلیٹ تعمیر کیا تھا وہ سارا بلاک ملاوٹی سیمنٹ کے استعمال کے باعث گر گیا ہے۔ اب کیا ہوگا؟“
اس بری خبر کو سن کر ہم دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ہم خوشی کے مارے ہنسنے لگے تو میرے بھتیجے نے کہا: ”انکل آپ کی طبیعت خراب معلوم ہوتی ہے، کسی ڈاکٹر کو بلاؤں؟“
میں نے کہا : ”ڈاکٹر کو نہیں، وقت کو بلاؤ. وقت ہی سب سے بڑا ڈاکٹر ہے۔ جب تم بھی پچاس برس کے ہو جاؤ گے اور کرایہ کے سوویں مکان میں جاؤ گے تو تمھیں بھی اچانک یہ عرفان ہو گا کہ ” بے مکانی مکان سے بہتر ہوتی ہے۔“
٭٭٭
مجتبیٰ حسین
اقتباس از مضمون: ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ
کتاب: قطع کلام
 

الف نظامی

لائبریرین
رحمٰن وہ ہے جو بغیر کسی کے مانگے ، بغیر کسی کے اعمال دیکھے ، کھلے ہاتھوں عطا کرتا ہے۔ عطا کرتے ہوئے وہ یہ تک نہیں دیکھتا کہ سامنے منکر ہے یا مشرک ، فرماں بردار ہے یا غیر فرماں بردار
جب کہ رحیم وہ ہے جو اپنے فرماں بردار بندوں کو عطا کرتا ہے۔ بندہ اس سے نہ مانگے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے۔
رحمٰن ہونے کی صفت کے ناتے رب تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ دینا ہے وہ تو ہمیں ملنا ہی ملنا ہے لیکن اس کے رحیم ہونے کے ناتے جو کچھ ہمیں مل سکتا ہے وہ نہ مانگ کر ہم محروم کیوں رہیں؟ نہ مانگ کر اسے ناراض کیوں کریں۔ اس لیے دل کھول کر رب تعالیٰ سے مانگا کریں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ مانگنے کے لیے بھی ظرف چاہیے۔
(لوح فقیر از سید سرفراز شاہ ،صفحہ 56)
 

سیما علی

لائبریرین
مزید اشاعتوں کا انتظار رہےگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”عمل مزاح اپنے لہو کی آ گ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے۔لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ۔لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آ گ باہر کی آ گ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتا، ہیرا بن جاتا ہے”۔۔۔۔۔

(چراغ تلے)
مشتاق یوسفی صاحب
 

سیما علی

لائبریرین
"فرصت اور فراغت کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ فرصت کا ساعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ ساعت کو شکست دینا آسان ہے۔ اس کے لیے دمِ نزع ایک اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ جیسے میدانِ جنگ میں اس جاں بلب تشنہ زخمی سپاہی کا اشارہ جس نے اپنی جان اور پانی پینے کی باری دوسرے زخمی ساتھی کے حق میں دے دی۔ یہ فراغت ان نا شکرے لوگوں کو کہاں نصیب ہوتی ہے جن کی زندگی ہر قدم اور ہر فیصلے پر نفع نقصان کے گوشوارہ بناتے گذر جاتی ہے۔"

اقتباس (سفر نصیب از مختار مسعود مرحوم)
 

سیما علی

لائبریرین
اردو مزاح نگاری میں ایک بڑا نام مجتبیٰ حسین ہم سے رخصت ہوئے۔
اس موقع پر ان کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کر رہا ہوں۔
---
اب اگر واقعی ہمیں ذاتی مکان مل گیا تو کیا ہو گا۔ مجھے رہ رہ کر وہ سارے مکان یاد آنے لگے جن میں سر چھپانے کے علاوہ بہت کچھ چھپایا تھا، جیسے اپنی غربت، عزت، شرافت وغیرہ وغیرہ۔ اور وہ سارے مالک مکان بھی یاد آنے لگے جن پر اپنا سب کچھ ظاہر کر دیا تھا۔ جیسے اپنی عزت، بے روزگاری ، مفلوک الحالی اور آوارہ گردی وغیرہ وغیرہ۔ جس بات کا علم مکان کو نہیں ہوتا تھا اسے مالک مکان جان لیتا تھا اور اسی بنیاد پر ہم نے یہ مفروضہ بنا رکھا تھا کہ کرایہ کا مکان چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو وہ اپنے مالک سے بڑا ہوتا ہے۔ ہم تو صرف مکان کی مکانیت کا کرایہ ادا کرتے تھے۔ اس کے ظرف کا کرایہ کہاں ادا کرتے تھے۔ کن کن باتوں کو یاد کریں۔ برسات کے موسم میں جب ایک مکان کی چھت غالبؔ کے مکان کی چھت سے بھی زیادہ ٹپکنے لگی تو میں ایک اور مکان کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ایک محلہ میں پنواڑی سے پوچھا: ”کیوں بھئی! کیا تمھارے علاقے میں کوئی مکان خالی ہے؟ “
پنواڑی نے کہا۔ ”حضور ایک مکان خالی تھا مگر آپ نے یہاں آنے میں ذرا دیر کر دی۔“
میں نے پوچھا: ”تو کیا وہ مکان کرایہ پر اٹھ گیا؟“
وہ بولا: ”جی نہیں ! شاید بارش کے زور سے ابھی ابھی گرا ہے۔ آپ کچھ دیر پہلے آجاتے تو مکان آپ ہی کا تھا۔“
اور یوں کھلے ہوئے غنچوں کو مرجھانے کا ایک اور موقعہ ہاتھ سے نکل گیا۔ گھر واپس ہوا تو بیوی نے پوچھا: ”کوئی مکان ملا؟“
میں نے کہا : ”مکان تو نہیں ملا، البتہ ایک دوست کے ہاں دو پرانے واٹر پروف مل گئے۔ وہ ان کا کرایہ بھی نہیں لے گا۔ ایک تم پہنو، دوسرا میں پہنتا ہوں۔ پھر دیکھو ساون کا مزہ کیسے آتا ہے۔“
ہمارا ایک مکان پڑوسیوں کے مکانوں اور ان کے مکینوں میں کچھ اتنا دخیل تھا اور وہاں فرد کی انفرادیت کچھ اتنی غیر محفوظ تھی کہ نماز پڑھنے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے یہ اعلان کرنا پڑتا تھا کہ ”صاحبو! سلام پھیر رہے ہیں، اپنی بیبیوں سے پردہ کروا لو۔“ بعض اوقات تو ہمیں دایاں سلام پھیرنے کے بعد بایاں سلام پھیرنے میں دس منٹ لگ جاتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت پڑوسن کی بیٹی کی چوٹی گوندھی جا رہی ہوتی تھی۔

ہمارا ایک مکان چوتھی منزل پر تھا۔ پہلی منزل میں مالک مکان سردار مہابیر سنگھ رہتے تھے اور دوسری منزل میں پرمود کمار چڑ جی اور تیسری منزل میں مسٹر تھامس رہتے تھے۔ چوتھی منزل ہماری تھی۔ مکان کیا تھا اچھا خاصا ملک تھا۔ اس مکان میں ہم خوش بھی بہت تھے۔ بس ایک شکایت یہ تھی کے مہینہ میں چار پانچ تہوار مشترکہ طور پر منانے پڑتے تھے، بلکہ تہواروں کے سوا اس گھر میں کچھ بھی نہیں منایا۔ تہوار تو ہمیں اچھے لگتے تھے لیکن ہماری جیب ان تہواروں کا بوجھ اٹھا نہیں سکتی تھی۔ قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے جتنی خوش حالی درکار ہوتی ہے، وہ ہمارے پاس نہیں تھی۔ اس لیے وہاں سے بادل ناخواستہ نکل آئے۔
مکان یاد آنے لگے تو مکانوں کے مالک بھی یاد آتے چلے گئے۔ ایک مالک مکان اتفاق سے ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے تھے. نہ صرف اتفاق سے گزرتے تھے بلکہ اتفاق سے کال بیل بھی بجا دیتے تھے۔ میں اتفاق سے گھر پر ہوتا تو کہتے: ”بھئی اتفاق سے ادھر سے گزر رہا تھا، سوچا آپ سے مل لوں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ آج پہلی تاریخ ہے۔“ ایک مہینہ میں اکتیس تاریخ کو اتفاق سے ان کے گھر پہنچا۔ مجھے دیکھ کر بہت سٹپٹا گئے۔ بولے: ”آج آپ کے اتفاق سے ادھر چلے آنے سے کچھ نااتفاقی کی بو آ رہی ہے۔“ میں نے کہا : ”اتفاق سے مجھے اس مہینہ کی تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ اتفاق سے ادھر سے گزر رہا تھا۔ سوچا کہ آپ کو آگاہ کر دوں کہ آپ کل اتفاق سے میرے گھر نہ آئیں۔“ اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ چند دنوں بعد مجھے اس گھر کو خالی کرنا پڑا۔
ایک اور مالک مکان بھی بہت یاد آئے۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جت نصیب کرے۔ پہلی تاریخ کو مکان کا کرایہ تو وصول نہیں کرتے تھے، البتہ آدهی رات کو اپنا بے بحر شعر سنا کر داد ضرور وصول کر لیا کرتے تھے۔ میں نے مہینوں انھیں مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا، البتہ شعر کی داد کے معاملے میں وہ ادھار کے قائل نہیں تھے۔ کھڑے کھڑے داد وصول کر لیتے تھے بلکہ مستقبل میں سرزد ہونے والے شعروں کی پیشگی داد تک پگڑی سمیت وصول کر لیتے تھے۔ مکان چوں کہ ان کا چھوٹا تھا اس لیے چھوٹی بحر میں شعر کہتے تھے۔ شاعری بھی اپنے مکان کی طرح کرتے تھے، جس میں کمرے کم اور بیت الخلاء زیادہ ہوتے تھے۔ بات بات پر شاعری میں اپنا کلیجہ، پھیپھڑا وغیرہ نکال کر رکھ دیتے تھے۔ میں تو زندگی بھر ان کے مکان کو خالی نہ کرتا مگر قدرت کو اردو شاعری کا فائده اور میرا نقصان مقصود تھا۔ ایک دن وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ ان کے مرنے کے دن نہیں تھے۔ جوں جوں مکان کا کرایہ بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کی شاعری میں مجھے نئے نئے گوشے بشمول گوشۂ عافیت کے نظر آنے لگے تھے اور میں ان کی شاعری میں امکانات اور مکانات، دونوں کو ڈھونڈنے لگا تھا۔
جب مکانوں اور مکان مالکوں کی یاد نے زور مارا تو میں نے سوچا کہ یادوں کی اس دہلیز کو پھلانگ کر میں اپنے ذاتی مکان کی دہلیز پر کیوں کر قدم رکھوں گا۔ اسی اثنا میں میری بیوی چائے لے کر آ گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بولی : ”مجھے آج اپنا سڑسٹھواں مکان بہت یاد آرہا ہے۔ ہادی وہیں پیدا ہوا تھا اور انہترواں مکان بھی، کیوں کہ نجیبہ وہیں پیدا ہوئی تھی۔ “
میں نے اسے روکتے ہوئے رندھی رندھی آواز میں کہا۔ ”بیگم! اب کچھ یاد نہ دلاؤ۔ یادوں کا ایک ایسا ٹھاٹیں مارتا سمندر میرے اندر موجزن ہے کہ اگر ہمارا ذاتی مکان بھی اس کی زد میں آ جائے تو اس کے بام و در پاش پاش ہو جائیں گے۔ اس کی اینٹ سے اینٹ اگر خود سے نہ بجی تو بجا دی جائے گی۔
میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ میرا بھتیجا بھاگا بھاگا آیا۔ اس نے کہا۔ ”انکل معاف کیجیے، میں ایک بری خبر لے کر آیا ہوں۔“
میں نے کہا: ”مجھے اس بری خبر کی اطلاع ملی چکی ہے۔“
بھتيجے نے کہا: " نہیں! وہ تو خوش خبری تھی، آپ کے ذاتی مکان ملنے کی۔“
میں نے پوچھا : ”تو پھر بری خبر کیا ہے؟“
بھتیجے نے کہا: ”مجھے ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹی نے جس بلاک میں آپ کا فلیٹ تعمیر کیا تھا وہ سارا بلاک ملاوٹی سیمنٹ کے استعمال کے باعث گر گیا ہے۔ اب کیا ہوگا؟“
اس بری خبر کو سن کر ہم دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ہم خوشی کے مارے ہنسنے لگے تو میرے بھتیجے نے کہا: ”انکل آپ کی طبیعت خراب معلوم ہوتی ہے، کسی ڈاکٹر کو بلاؤں؟“
میں نے کہا : ”ڈاکٹر کو نہیں، وقت کو بلاؤ. وقت ہی سب سے بڑا ڈاکٹر ہے۔ جب تم بھی پچاس برس کے ہو جاؤ گے اور کرایہ کے سوویں مکان میں جاؤ گے تو تمھیں بھی اچانک یہ عرفان ہو گا کہ ” بے مکانی مکان سے بہتر ہوتی ہے۔“
٭٭٭
مجتبیٰ حسین
اقتباس از مضمون: ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ
کتاب: قطع کلام
جناب محمد تابش صدیقی صاحب!!!
بہت اعلی میں ابھی تک مجتبیٰ حسین صاحب کو نہی پڑھا تھا بہت شاندار بہ خدا لطف آگیا جیتے رہیے شاد وآباد رہیے آمین۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
مزید اشاعتوں کا انتظار رہےگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/QUOT

کتابیں پڑھتے پڑھتے (ادھوری ہی سہی) ہمارے ہیرو کو اسلامی ناولوں کے جوشیلے مکالمے حفظ ہو گئے تھے اور بغدادی جم خانے میں کبھی وہسکی کی زیادتی سے موصوف پر ہذیانی کیفیت طاری ہو جاتی تو دشمنان اسلام پر گھونسے تان تان کر تڑاق تڑاق ایسے ڈائیلاگ بولتے، جن سے شوق شہادت اس طرح ٹپکا پڑتا تھا کہ بیروں تک کا ایمان تازہ ہو جاتا۔

(صبغے اینڈ سنز از خاکم بدہن۔یوسفی صاحب )
 

سیما علی

لائبریرین
راس مسعود کی بے اماں ظرافت
---------------------

ایک دفعہ ایک شامت کا مارا امریکن مخصوص خود پسندی کے انداز میں اپنے ملک کی عظمت کی داستانیں بگھار رہا تھا۔ اس نے کہا دنیا بھر میں سب سے لمبی سرنگ امریکہ میں ہے جس کا طول بیس میل سے بھی زیادہ ہے۔‘
مسعود صاحب کو شرارت سوجھی، کہنے لگے، ’اس تو کہیں لمبی سرنگ ہمارے ہندوستان میں ہے۔‘
اس نے گھبرا کر پوچھا، ’کہاں؟‘
کہنے لگے، وہی سرنگ جو مغل بادشاہوں نے دہلی اور آگرہ کے بیچ میں بنائی تھی تاکہ جنگ کے زمانے میں پوشیدہ سفر کر سکیں، یہ سرنگ کوئی سوا سو میل لمبی ہے۔‘
امریکی نے قومی عزت اور برتری برقرار رکھنے کی آخری کوشش کی۔ ’ہمارے ہاں تو سرنگ میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بجلی کی روشنی ہوتی ہے۔‘

راس مسعود بولے، ’اسی میں تو انہوں نے کمال دکھایا تھا۔ جب سرنگ تیار ہو گئی تو بادشاہ نے حکم دیا کہ برسات کے موسم میں تمام فوج کو جنگل بھیج دیا جائے تاکہ وہ وہاں سے کروڑوں جگنو پکڑ کر سرنگ میں چھوڑ دیں۔ چنانچہ ان جگنوؤں نے اس سرنگ کو بقعۂ نور بنا دیا۔ آج تک ان کی اولاد سرنگ میں بستی ہے اور اسے روشن رکھتی ہے۔‘
بےچارہ امریکی اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور اسے شبہ تک نہیں ہوا کہ اس قدر سوکھا اور سنجیدہ منہ بنائے یہ اس پر اپنی بےاماں ظرافت آزما رہے ہیں۔

المرسل :-: ابوالحسن علی ندوی

راس مسعود۔۔۔۔جناب سید احمد خان کے صاحبزادے تھے اور حضرَت علاّمہ اقبال رح کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا
 

سیما علی

لائبریرین
سادگی اور درویشی کا یہ رکھ رکھاؤ کچھ تو قدرت نے ماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا کچھ یقیناً زندگی کے زیر و بم نے سکھایا تھا۔
جڑانوالہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد جب وہ اپنے والدین اور خورد سال بھائیوں کے ساتھ زمین کی تلاش میں لائل پور کی کالونی کی طرف روانہ ہوئیں تو انہیں معلوم نہ تھا کہ انہیں کس مقام پر جانا ہے اور زمین حاصل کرنے کے لئے کیا قدم اٹھانا ہے۔ ماں جی بتایا کرتی تھیں کہ اس زمانے میں ان کے ذہن میں کالونی کا تصور ایک فرشتہ سیرت بزرگ کا تھا جو کہ کہیں سرِ راہ بیٹھا زمین کے پروانے تقسیم کر رہا ہو گا۔ کئی ہفتے یہ چھوٹا سا قافلہ لائل پور کے علاقے میں پا پیادہ بھٹکتا رہا لیکن کسی راہ گزار پر انہیں کالونی کا خضر صورت رہنما نہ مل سکا۔ آخر تنگ آ کر انہوں نے چک نمبر 392 میں جو ان دنوں نیا نیا آباد ہو رہا تھا ڈیرے ڈال دیئے۔ لوگ جوق در جوق وہاں آ کر آباد ہو رہے تھے۔ نانا جی نے اپنی سادگی میں یہ سمجھا کہ کالونی میں آباد ہونے کا شاید یہی ایک طریقہ ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک چھوٹا سا احاطہ گھیر کر گھاس پھونس کی جھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی کا ایک قطعہ تلاش کر کے کاشت کی تیاری کرنے لگے۔ انہی دنوں محکمہ مال کا عملہ پڑتال کے لئے آیا۔ نانا جی کے پاس الاٹ منٹ کے کاغذات نہ تھے۔ چنانچہ انہیں چک سے نکال دیا گیا اور سرکاری زمین پر ناجائز جھونپڑا بنانے کی پاداش میں ان کے برتن اور بستر قرق کر لئے گئے۔ عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اتروا لیں۔ ایک بالی اتارنے میں ذرا دیر ہوئی تو اس نے زور سے کھینچ لی۔ جس سے ماں جی کے کان کا زیریں حصہ بری طرح سے پھٹ گیا۔

چک 392 سے نکل کر جو راستہ سامنے آیا اس پر چل کھڑے ہوئے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ دن بھر لو چلتی تھی۔ پانی رکھنے کے لئے مٹی کا پیالہ بھی پاس نہ تھا۔ جہاں کہیں کوئی کنواں نظر آیا ماں جی اپنا دوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے سے اپنے چھوٹے بھائیوں کو چساتی جائیں۔ اس طرح وہ چلتے چلتے چک نمبر507 میں پہنچے جہاں پر ایک جان پہچان کے آباد کار نے نانا جی کو اپنا مزارع رکھ لیا۔ نانا جی ہل چلاتے تھے۔ نانی مویشی چرانے لے جاتی تھیں۔ ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمیندار کی بھینسوں اور گایوں کے لئے لایا کرتی تھیں۔ ان دنوں انہیں مقدور بھی نہ تھا کہ ایک وقت کی روٹی بھی پور ی طرح کھا سکیں۔

کسی وقت جنگلی بیروں پر گزارہ ہوتا تھا۔ کبھی خربوزے کے چھلکے ابال کر کھا لیتے تھے۔ کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل گئیں تو ان کی چٹنی بنا لیتے تھے۔ ایک روز کہیں سے توریئے اور کلتھے کا ملا جلا ساگ ہاتھ آگیا۔ نانی محنت مزدوری میں مصروف تھیں۔ ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا۔ جب پک کر تیار ہو گیا اور ساگ کو الّن لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا تو ماں جی نے ڈوئی ایسے زور سے چلائی کہ ہنڈیا کا پیندا ٹوٹ گیا اور سارا ساگ بہہ کر چولہے میں آ پڑا۔ ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار بھی۔ رات کو سارے خاندان نے چولہے کی لکڑیوں پر گرا ہوا ساگ انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا۔
ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم ہے۔

ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے لیکن اگر رویا جائے تو ڈر لگتا ہے کہ ان کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط نہیں ہوتا۔
ماں جی
قدرت الللہ شہاب
 

سیما علی

لائبریرین
ایک شخص گلی گلی پھر کر آواز لگا رہا ہے کہ کسی کو بازار سے کوئی سودا سلف منگوانا ہے تو بتا دے ۔ کبھی کہیں اور کبھی کسی گلی میں کسی گھر کا دروازہ کھلتا ہے اور دروازے کی اوٹ میں کھڑی خاتون اپنی ضروریات بیان کرتی ہیں ۔
اگلے دن وہی شخص گلی گلی گھوم کر گھروں میں خط پہنچا رہا ہے جو روم اور فارس کے محاذ پر جہاد میں مصروف سپاہیوں کی طرف سے اُن کے اہل خانہ کے نام آئے ہیں ۔

خط پہنچانے کے ساتھ وہ آواز بھی لگا رہا ہے کہ کسی نے جوابی خط دینا ہے تو لکھ کر فلاں تاریخ تک میرے حوالے کر دے کہ فلاں تاریخ فلاں محاذ پر قاصد نے روانہ ہونا ہے ۔

آواز لگانے والا ساتھ یہ بھی آواز لگاتا ہے کہ لکھنے کا سامان کسی کے پاس نہیں تو مجھ سے لے لے اور اگر کسی کو لکھنا نہیں آتا تو مجھ سے لکھوا لے ۔

اکا دکا گھروں کے دروازے پر مؤرخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہ شخص دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھا ہے اور دروازے کی اوٹ سے کوئی خاتون جوابی خط کا مضمون بیان کر رہی ہیں اور یہ لکھتا جاتا ہے ۔
اجنبی زمینوں پر اُس وقت کے فرعونوں کو ناکوں چنے چپانے پر مجبور کرنے والے مجاہدین کے گھروں میں روزمرہ ضروریات کے مطابق سودا سلف پہنچانے والا ، اُن مجاہدین کے گھروں پر ڈاک پہنچانے اور ڈاک کا جواب محاذوں کی طرف روانہ کرنے والا یہ شخص " امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے ، ہمارے پیارے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
۔۔۔

* بحوالہ " الفاروق " از شبلی نعمانی
 

سیما علی

لائبریرین
" کہتے ہیں ایک خاندان میں چینی کا ایک قیمتی اور قدیمی گلدان ہوا کرتا تھا۔ ایک لا ابالی نوجوان نے بوڑھے جد سے اس کی اہمیت کے بارے پوچھا، جواب ملا کہ وہ نسلوں سے خاندان میں سب سے قیمتی ورثہ کی حیثیت سے محفوظ چلا آرہا ہے اور خاندان کے ہر فرد اور نسل کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کرے۔ نوجوان نے کہا: اب اس کی حفاظت کا تردد ختم ہوا، کیونکہ چینی کا وہ گلدان موجودہ نسل کے ہاتھ سے پھسل کر فرش پر گرا اور چکنا چور ہو گیا۔
بو ڑھا بولا: "حفاظت کا تردد ختم ہوا، ندامت کا دور کبھی ختم نہ ہوگا.....!!"

( مختار مسعود ۔ "آوازِ دوست" سے اقتباس )
 

سیما علی

لائبریرین
“ اے میرے عزیز، تُو نے غلط قیاس کیا ، میرے پاس بتانے کے لئے کچھ نہیں ہے ، میں اگر جانتا ہوں تو بس اتنا کہ ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے اور ایک وقت کشتی بنانے کا ۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا ہے جب ہم سے اگلوں نے ساحل پہ اُتر کر سمندر کی طرف پُشت کر لی تھی اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں ۔ اب بپھرتا سمندر ہمارے پیچھے نہیں، ہمارے سامنے ہے ، اور ہم نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے........!!”

( انتظار حسین ۔ ناول “آگے سمندر ہے” سے اقتباس )
 

سیما علی

لائبریرین
قراة العین حیدر کی گردش رنگ چمن زیر مطالعہ ہے۔ایک دلچسپ دستاویزی ناول ہے جسمیں مسلمانوں کی پر تعیش زندگی کا ذکر بھی ملتا ہے اور انکے زوال کی وجوہات بھی۔۔۔۔۔ مختلف شہروں اور کردارں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔۔۔۔ جدت اور قدیم رسوم و روایات کا ایک حسیں امتزاج نظر آتا ہے۔۔۔۔بہت پہلے لیا تھا شاید لاہور ایئرپورٹ سے لیکن مکمل نہ کرپائی مصروفیت کی وجہ سے۔۔۔سوچا آجکل گھر میں ہوں تو اسکو ہی مکمل کر لوں۔۔۔

قراة العین حیدر کو میں لگ بھگ ،26,27 سال سے پڑھ رہی ہوں۔۔۔انکے تمام ناولز، ناولٹ، افسانوی مجموعے ، سفر نامے اور انشائیے ہر تصنیف کمال کی ہے۔۔۔۔ آٹھویں جماعت میں پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا اپنی اماں کی لائیبریری سے تو آج تک انکے سحر میں مبتلا ہوں۔۔۔

آخر شب کے ہمسفر، کارجہاں دراز ہے، چاندنی بیگم، میرے بھی صنم خانے ، آگ کا دریا، سفینہ غم دل ۔۔۔۔یہ تمام تو پڑھ چکی ہوں۔۔۔ایک ناول جو زیر مطالعہ ہے یہ نہیں پڑھا اور چند ایک اور ہیں جو نہیں پڑھ پائی۔وہ ابھی پڑھنے ہیں۔۔۔میری پسندیدہ مصنفہ ہیں۔۔سوچا جنہوں نے نہیں پڑھا انکو ، انکے لئے کچھ رہنمائی کر دوں۔۔۔۔آج سے چالیس پچاس سال پہلے لکھے انکے ناول کو پڑھیں تو اسمیں بھی ایک جدت، فلسفہ دکھائی دیتا ہے۔۔۔

انکی تصانیف درج ذیل ہیں:
انہوں نے 4 ناولٹ بھی لکھے، جن کے نام ’دلربا‘، ’سیتاہرن‘، ’چائے کے باغ‘، ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘ ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعوں کی تعداد 8 ہے، جن میں ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کے گھر‘، ’پت جھڑ کی آواز‘، ’روشنی کی رفتار‘، ’جگنوؤں کی دنیا‘، ’پکچر گیلری‘، ’کف گل فروش‘ اور ’داستان عہد گل‘ شامل ہیں۔ 5 سفرنامے جبکہ 7 مغربی ادیبوں کی کتابوں کے تراجم بھی اُن کے قلمی اشتراک کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر معروف امریکی ادیب ’ہنری جیمز‘ کے ناول ’دی پورٹریٹ آف اے لیڈی‘ کا اُردو ترجمہ اُن کے چند بہترین تراجم میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اُن کی کئی تخلیقات پر ہندوستان میں فلمیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں ۔

قرۃ العین حیدر نے کُل 8 ناول لکھے، جن میں ’میرے بھی صنم خانے‘، ’سفینہ غم دل‘، ’آگ کا دریا‘، ’آخر شب کے ہمسفر‘، ’کار جہاں دراز ہے‘، ’گردش رنگ چمن‘، ’چاندنی بیگم‘، ’شاہراہِ حریر‘ شامل ہیں۔ اُن کا ناول ’کار جہاں دراز ہے‘ تین حصوں پر مشتمل اور سوانحی ناول ہے، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے کئی ذاتی گوشوں پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
سیدضمیر حسن دہلوی کی کہانی ‘ستوانسا شہزادہ’ سے انتخاب۔ دہلی والوں کی رواں دواں نثر اور بامحاورہ زبان کی ایک جھلک:

‘‘میرمحمدعلی کی بیوی کا پاؤں بھاری ہوا تو آدھے شہر میں دھوم مچ گئی۔ بوڑھے منہ مہاسا، لوگ کریں تماشا۔جو سنتا، دانتوں میں انگلیاں دیتا تھا اور سچ پوچھیے تووہ خود بھی حیران تھیں۔ پہاڑ سی جوانی کم بخت مرادیں مانتے مانتے گزر گئی، چڑیا کا بچہ پیدا نہ ہوا۔ اب بڑھاپا آیا، آدھا چونڈا سفید ہوا تو یہ بڑبھس لگی کہ دیکھنے والے بھی تالی پھوپھو کریں۔ نہ جانے کب کا بڑا بول آگے آیا تھا۔ان گنت دیکھنے والیاں روز چلی آتیں۔ بے چاری شرم سے پانی پانی ہوئی جاتی تھیں۔ لاکھ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتیں اور دوپٹے کے پلّو سے آگا پیچھا ڈھکنے کی کوشش کرتیں مگر پتلے سٹک سے جسم پر مٹکا سا پیٹ بھلا کیسے چھپ جاتا۔ پھر وہ قطّامائیں جو دیکھنے آتی تھیں، کوئی ننھی کی جَنیاں تو تھیں نہیں کہ یونہی واپس چلی جاتیں، خدائی خوار چیل کی نظر رکھتی تھیں۔ بہتیری تو چہرے کی بھر بھراہٹ اور جسم کے گدرے پن سے ہی سب کچھ بھانپ لیتیں اور دیدے پھوٹیاں اِدھر اُدھر کی باتیں کر ذرا سا پانی مانگتیں جیسے میر محمد علی کی بیوی نے ان کی امّاں کے سگوں کی گٹھری چُرا پیٹ میں اُڑس لی ہو۔ جنم کے اندھے کو بھی صاف دکھائی دیتا تھا کہ چار مہینے سے بھی کچھ اوپر کا پیٹ ہے۔ اس پر بھی اڑانے والیوں نے خدا جانے کیا کیا اڑا دیا تھا۔ کسی نے کہا، نوج! اس بڑھاپے میں بچہ جنتے کبھی دیکھا نہ سنا، پیٹ میں رسولی ہوگی۔ کوئی بولی، بُوا ٹھنڈا پھوڑا ہے۔ میں تو جانوں جگر میں پانی اتر گیا۔ بھلا غضب خدا کا، بوڑھی عورت نام خدیجہ۔ اس عمر میں بھی کوئی دوجیا ہوتا ہوگا۔ میر صاحب کی بیوی یہ باتیں سنتیں تو اندر ہی اندر کھولتی تھیں مگر یہ کہ پیٹھ پیچھے تو لوگ بادشاہ کو بھی برا کہتے ہیں۔ خلق کا حلق کس نے پکڑا ہے۔ یہ سوچ کے دل کو سمجھا لیتیں کہ بازار کی گالی، ہنس کے ٹالی۔ جب چاند چڑھے گا تو کُل عالم دیکھےگا۔ البتہ اس خوف سے جان جاتی تھی کہ آنے جانے والیوں میں کوئی کیسا تھا ، کوئی کیسا۔ برا بھلا پرچھاواں پڑا اور خدا نہ کرے کوئی اونچ نیچ ہوگئی تو انھیں آگے امید بھی نہیں تھی۔ دشمنوں کا کہا سچ ہوجائےگا اور ان کی زندگی برباد ہوگی سو الگ۔ اپنی مرن، جگ کی ہنسی۔ کہنے والیوں کا کیا جائے گا، وہ تو اور ہنس ہنس کے جلائیں گی۔ اوّل تو یہاں امید کسے تھی، اللہ اللہ کرکے یہ دن نصیب ہوا تو دنیا والے گود گود کھائے جاتے ہیں، بدخواہوں نے پیچھا لے لیا۔میں کون کہ خواہ مخواہ، کوئی سنے نہ سنے، کہنے والیوں کو تو بس کہنے سے کام تھا۔ للّو چلے ہی جاتی تھی۔نامرادنیں بغضی تھیں۔ داتا دے، بھنڈارے کا پیٹ پھٹے۔ ان کا بس چلے تو ایک دن اللہ میاں سے کہہ ساری دنیا کا رزق بند کرادیں۔نہ خدا تُو دے نہ میں دوں۔ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ حسد کی لگی بُری ہوتی ہے۔ آدمی بے آگ بے پانی جلتا ہے۔ آئیں بُوا ہولتی، اندر ہی اندر کھولتی ،تو ان مال زادیوں کو تو للٰہی بیر تھا۔ حالانکہ یہ سب پہ روشن تھا کہ میر صاحب نے بیوی کی گود بھرنے کی حسرت میں کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ سیکڑوں مسجدوں میں طاق بھرے، بیسیوں مزاروں پر ڈورے باندھے، ہرے درختوں میں تعویذ لٹکوائے، معصوم بچوں کو صحنک کھلائی، بی بی کی نیاز کے کونڈے بھرے، شیخ سدّو اور لونا چماری کی منتیں کیں، یہاں تک کہ چوراہے کی مٹی منگا پلنگ کے پایوں تلے دبائی۔ مگر ساری عمر نکل گئی اور نہ کچھ ہونا تھا نہ ہوا۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔۔۔۔’’
 

عمار نقوی

محفلین
سیدضمیر حسن دہلوی کی کہانی ‘ستوانسا شہزادہ’ سے انتخاب۔ دہلی والوں کی رواں دواں نثر اور بامحاورہ زبان کی ایک جھلک:

‘‘میرمحمدعلی کی بیوی کا پاؤں بھاری ہوا تو آدھے شہر میں دھوم مچ گئی۔ بوڑھے منہ مہاسا، لوگ کریں تماشا۔جو سنتا، دانتوں میں انگلیاں دیتا تھا اور سچ پوچھیے تووہ خود بھی حیران تھیں۔ پہاڑ سی جوانی کم بخت مرادیں مانتے مانتے گزر گئی، چڑیا کا بچہ پیدا نہ ہوا۔ اب بڑھاپا آیا، آدھا چونڈا سفید ہوا تو یہ بڑبھس لگی کہ دیکھنے والے بھی تالی پھوپھو کریں۔ نہ جانے کب کا بڑا بول آگے آیا تھا۔ان گنت دیکھنے والیاں روز چلی آتیں۔ بے چاری شرم سے پانی پانی ہوئی جاتی تھیں۔ لاکھ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتیں اور دوپٹے کے پلّو سے آگا پیچھا ڈھکنے کی کوشش کرتیں مگر پتلے سٹک سے جسم پر مٹکا سا پیٹ بھلا کیسے چھپ جاتا۔ پھر وہ قطّامائیں جو دیکھنے آتی تھیں، کوئی ننھی کی جَنیاں تو تھیں نہیں کہ یونہی واپس چلی جاتیں، خدائی خوار چیل کی نظر رکھتی تھیں۔ بہتیری تو چہرے کی بھر بھراہٹ اور جسم کے گدرے پن سے ہی سب کچھ بھانپ لیتیں اور دیدے پھوٹیاں اِدھر اُدھر کی باتیں کر ذرا سا پانی مانگتیں جیسے میر محمد علی کی بیوی نے ان کی امّاں کے سگوں کی گٹھری چُرا پیٹ میں اُڑس لی ہو۔ جنم کے اندھے کو بھی صاف دکھائی دیتا تھا کہ چار مہینے سے بھی کچھ اوپر کا پیٹ ہے۔ اس پر بھی اڑانے والیوں نے خدا جانے کیا کیا اڑا دیا تھا۔ کسی نے کہا، نوج! اس بڑھاپے میں بچہ جنتے کبھی دیکھا نہ سنا، پیٹ میں رسولی ہوگی۔ کوئی بولی، بُوا ٹھنڈا پھوڑا ہے۔ میں تو جانوں جگر میں پانی اتر گیا۔ بھلا غضب خدا کا، بوڑھی عورت نام خدیجہ۔ اس عمر میں بھی کوئی دوجیا ہوتا ہوگا۔ میر صاحب کی بیوی یہ باتیں سنتیں تو اندر ہی اندر کھولتی تھیں مگر یہ کہ پیٹھ پیچھے تو لوگ بادشاہ کو بھی برا کہتے ہیں۔ خلق کا حلق کس نے پکڑا ہے۔ یہ سوچ کے دل کو سمجھا لیتیں کہ بازار کی گالی، ہنس کے ٹالی۔ جب چاند چڑھے گا تو کُل عالم دیکھےگا۔ البتہ اس خوف سے جان جاتی تھی کہ آنے جانے والیوں میں کوئی کیسا تھا ، کوئی کیسا۔ برا بھلا پرچھاواں پڑا اور خدا نہ کرے کوئی اونچ نیچ ہوگئی تو انھیں آگے امید بھی نہیں تھی۔ دشمنوں کا کہا سچ ہوجائےگا اور ان کی زندگی برباد ہوگی سو الگ۔ اپنی مرن، جگ کی ہنسی۔ کہنے والیوں کا کیا جائے گا، وہ تو اور ہنس ہنس کے جلائیں گی۔ اوّل تو یہاں امید کسے تھی، اللہ اللہ کرکے یہ دن نصیب ہوا تو دنیا والے گود گود کھائے جاتے ہیں، بدخواہوں نے پیچھا لے لیا۔میں کون کہ خواہ مخواہ، کوئی سنے نہ سنے، کہنے والیوں کو تو بس کہنے سے کام تھا۔ للّو چلے ہی جاتی تھی۔نامرادنیں بغضی تھیں۔ داتا دے، بھنڈارے کا پیٹ پھٹے۔ ان کا بس چلے تو ایک دن اللہ میاں سے کہہ ساری دنیا کا رزق بند کرادیں۔نہ خدا تُو دے نہ میں دوں۔ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ حسد کی لگی بُری ہوتی ہے۔ آدمی بے آگ بے پانی جلتا ہے۔ آئیں بُوا ہولتی، اندر ہی اندر کھولتی ،تو ان مال زادیوں کو تو للٰہی بیر تھا۔ حالانکہ یہ سب پہ روشن تھا کہ میر صاحب نے بیوی کی گود بھرنے کی حسرت میں کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ سیکڑوں مسجدوں میں طاق بھرے، بیسیوں مزاروں پر ڈورے باندھے، ہرے درختوں میں تعویذ لٹکوائے، معصوم بچوں کو صحنک کھلائی، بی بی کی نیاز کے کونڈے بھرے، شیخ سدّو اور لونا چماری کی منتیں کیں، یہاں تک کہ چوراہے کی مٹی منگا پلنگ کے پایوں تلے دبائی۔ مگر ساری عمر نکل گئی اور نہ کچھ ہونا تھا نہ ہوا۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔۔۔۔’’
اے واہ ماشاء اللہ کیا با محاورہ زبان ہے۔ایک دلی یہ تھی عالم میں انتخاب جہاں بچہ بچہ شستہ رفتہ با محاورہ اردو بولا کرتا تھا اور ایک آج کی دلی ہے۔۔۔۔بس نام رہے اللہ کا !!
 

عمار نقوی

محفلین
قراة العین حیدر کی گردش رنگ چمن زیر مطالعہ ہے۔ایک دلچسپ دستاویزی ناول ہے جسمیں مسلمانوں کی پر تعیش زندگی کا ذکر بھی ملتا ہے اور انکے زوال کی وجوہات بھی۔۔۔۔۔ مختلف شہروں اور کردارں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔۔۔۔ جدت اور قدیم رسوم و روایات کا ایک حسیں امتزاج نظر آتا ہے۔۔۔۔بہت پہلے لیا تھا شاید لاہور ایئرپورٹ سے لیکن مکمل نہ کرپائی مصروفیت کی وجہ سے۔۔۔سوچا آجکل گھر میں ہوں تو اسکو ہی مکمل کر لوں۔۔۔

قراة العین حیدر کو میں لگ بھگ ،26,27 سال سے پڑھ رہی ہوں۔۔۔انکے تمام ناولز، ناولٹ، افسانوی مجموعے ، سفر نامے اور انشائیے ہر تصنیف کمال کی ہے۔۔۔۔ آٹھویں جماعت میں پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا اپنی اماں کی لائیبریری سے تو آج تک انکے سحر میں مبتلا ہوں۔۔۔

آخر شب کے ہمسفر، کارجہاں دراز ہے، چاندنی بیگم، میرے بھی صنم خانے ، آگ کا دریا، سفینہ غم دل ۔۔۔۔یہ تمام تو پڑھ چکی ہوں۔۔۔ایک ناول جو زیر مطالعہ ہے یہ نہیں پڑھا اور چند ایک اور ہیں جو نہیں پڑھ پائی۔وہ ابھی پڑھنے ہیں۔۔۔میری پسندیدہ مصنفہ ہیں۔۔سوچا جنہوں نے نہیں پڑھا انکو ، انکے لئے کچھ رہنمائی کر دوں۔۔۔۔آج سے چالیس پچاس سال پہلے لکھے انکے ناول کو پڑھیں تو اسمیں بھی ایک جدت، فلسفہ دکھائی دیتا ہے۔۔۔

انکی تصانیف درج ذیل ہیں:
انہوں نے 4 ناولٹ بھی لکھے، جن کے نام ’دلربا‘، ’سیتاہرن‘، ’چائے کے باغ‘، ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘ ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعوں کی تعداد 8 ہے، جن میں ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کے گھر‘، ’پت جھڑ کی آواز‘، ’روشنی کی رفتار‘، ’جگنوؤں کی دنیا‘، ’پکچر گیلری‘، ’کف گل فروش‘ اور ’داستان عہد گل‘ شامل ہیں۔ 5 سفرنامے جبکہ 7 مغربی ادیبوں کی کتابوں کے تراجم بھی اُن کے قلمی اشتراک کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر معروف امریکی ادیب ’ہنری جیمز‘ کے ناول ’دی پورٹریٹ آف اے لیڈی‘ کا اُردو ترجمہ اُن کے چند بہترین تراجم میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اُن کی کئی تخلیقات پر ہندوستان میں فلمیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں ۔

قرۃ العین حیدر نے کُل 8 ناول لکھے، جن میں ’میرے بھی صنم خانے‘، ’سفینہ غم دل‘، ’آگ کا دریا‘، ’آخر شب کے ہمسفر‘، ’کار جہاں دراز ہے‘، ’گردش رنگ چمن‘، ’چاندنی بیگم‘، ’شاہراہِ حریر‘ شامل ہیں۔ اُن کا ناول ’کار جہاں دراز ہے‘ تین حصوں پر مشتمل اور سوانحی ناول ہے، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے کئی ذاتی گوشوں پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔
ارے واہ آپی کیا حسین اتفاق۔آپ کا چھوٹا بھائی بھی قرة العين حیدر کا زبردست فین ہے۔آگ کا دریا،کار جہاں دراز ہے، آخر شب کے ہم سفر،سفینہ غم دل،گردش رنگ چمن اور کچھ افسانے پڑھ چکا ہوں
 

سیما علی

لائبریرین
ارے واہ آپی کیا حسین اتفاق۔آپ کا چھوٹا بھائی بھی قرة العين حیدر کا زبردست فین ہے۔آگ کا دریا،کار جہاں دراز ہے، آخر شب کے ہم سفر،سفینہ غم دل،گردش رنگ چمن اور کچھ افسانے پڑھ چکا ہوں
شہزادے آگ کا دریا میں نے آٹھ بار پڑھی ۔ جب پڑھی ایک الگ لطف میں نے پہلی بار ابا کی کتابوں سے کار جہاں دراز ہے پڑھی تھی ۔اس وقت میں آٹھویں جماعت میں تھی۔ سمجھ میں نہیں آئی مگر انکو پڑھنا بہت اچھا لگا اور جب سے انکی فین ہون انکی ایک کتاب کی بڑی تلاش ہے مگر مل نہیں رہی ہاؤسنگ سوسائٹی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top