مزید اشاعتوں کا انتظار رہےگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"فرصت اور فراغت کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ فرصت کا ساعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ ساعت کو شکست دینا آسان ہے۔ اس کے لیے دمِ نزع ایک اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ جیسے میدانِ جنگ میں اس جاں بلب تشنہ زخمی سپاہی کا اشارہ جس نے اپنی جان اور پانی پینے کی باری دوسرے زخمی ساتھی کے حق میں دے دی۔ یہ فراغت ان نا شکرے لوگوں کو کہاں نصیب ہوتی ہے جن کی زندگی ہر قدم اور ہر فیصلے پر نفع نقصان کے گوشوارہ بناتے گذر جاتی ہے۔"
اقتباس (سفر نصیب از مختار مسعود مرحوم)
جناب محمد تابش صدیقی صاحب!!!اردو مزاح نگاری میں ایک بڑا نام مجتبیٰ حسین ہم سے رخصت ہوئے۔
اس موقع پر ان کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کر رہا ہوں۔
---
اب اگر واقعی ہمیں ذاتی مکان مل گیا تو کیا ہو گا۔ مجھے رہ رہ کر وہ سارے مکان یاد آنے لگے جن میں سر چھپانے کے علاوہ بہت کچھ چھپایا تھا، جیسے اپنی غربت، عزت، شرافت وغیرہ وغیرہ۔ اور وہ سارے مالک مکان بھی یاد آنے لگے جن پر اپنا سب کچھ ظاہر کر دیا تھا۔ جیسے اپنی عزت، بے روزگاری ، مفلوک الحالی اور آوارہ گردی وغیرہ وغیرہ۔ جس بات کا علم مکان کو نہیں ہوتا تھا اسے مالک مکان جان لیتا تھا اور اسی بنیاد پر ہم نے یہ مفروضہ بنا رکھا تھا کہ کرایہ کا مکان چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو وہ اپنے مالک سے بڑا ہوتا ہے۔ ہم تو صرف مکان کی مکانیت کا کرایہ ادا کرتے تھے۔ اس کے ظرف کا کرایہ کہاں ادا کرتے تھے۔ کن کن باتوں کو یاد کریں۔ برسات کے موسم میں جب ایک مکان کی چھت غالبؔ کے مکان کی چھت سے بھی زیادہ ٹپکنے لگی تو میں ایک اور مکان کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ایک محلہ میں پنواڑی سے پوچھا: ”کیوں بھئی! کیا تمھارے علاقے میں کوئی مکان خالی ہے؟ “
پنواڑی نے کہا۔ ”حضور ایک مکان خالی تھا مگر آپ نے یہاں آنے میں ذرا دیر کر دی۔“
میں نے پوچھا: ”تو کیا وہ مکان کرایہ پر اٹھ گیا؟“
وہ بولا: ”جی نہیں ! شاید بارش کے زور سے ابھی ابھی گرا ہے۔ آپ کچھ دیر پہلے آجاتے تو مکان آپ ہی کا تھا۔“
اور یوں کھلے ہوئے غنچوں کو مرجھانے کا ایک اور موقعہ ہاتھ سے نکل گیا۔ گھر واپس ہوا تو بیوی نے پوچھا: ”کوئی مکان ملا؟“
میں نے کہا : ”مکان تو نہیں ملا، البتہ ایک دوست کے ہاں دو پرانے واٹر پروف مل گئے۔ وہ ان کا کرایہ بھی نہیں لے گا۔ ایک تم پہنو، دوسرا میں پہنتا ہوں۔ پھر دیکھو ساون کا مزہ کیسے آتا ہے۔“
ہمارا ایک مکان پڑوسیوں کے مکانوں اور ان کے مکینوں میں کچھ اتنا دخیل تھا اور وہاں فرد کی انفرادیت کچھ اتنی غیر محفوظ تھی کہ نماز پڑھنے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے یہ اعلان کرنا پڑتا تھا کہ ”صاحبو! سلام پھیر رہے ہیں، اپنی بیبیوں سے پردہ کروا لو۔“ بعض اوقات تو ہمیں دایاں سلام پھیرنے کے بعد بایاں سلام پھیرنے میں دس منٹ لگ جاتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت پڑوسن کی بیٹی کی چوٹی گوندھی جا رہی ہوتی تھی۔
ہمارا ایک مکان چوتھی منزل پر تھا۔ پہلی منزل میں مالک مکان سردار مہابیر سنگھ رہتے تھے اور دوسری منزل میں پرمود کمار چڑ جی اور تیسری منزل میں مسٹر تھامس رہتے تھے۔ چوتھی منزل ہماری تھی۔ مکان کیا تھا اچھا خاصا ملک تھا۔ اس مکان میں ہم خوش بھی بہت تھے۔ بس ایک شکایت یہ تھی کے مہینہ میں چار پانچ تہوار مشترکہ طور پر منانے پڑتے تھے، بلکہ تہواروں کے سوا اس گھر میں کچھ بھی نہیں منایا۔ تہوار تو ہمیں اچھے لگتے تھے لیکن ہماری جیب ان تہواروں کا بوجھ اٹھا نہیں سکتی تھی۔ قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے جتنی خوش حالی درکار ہوتی ہے، وہ ہمارے پاس نہیں تھی۔ اس لیے وہاں سے بادل ناخواستہ نکل آئے۔
مکان یاد آنے لگے تو مکانوں کے مالک بھی یاد آتے چلے گئے۔ ایک مالک مکان اتفاق سے ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے تھے. نہ صرف اتفاق سے گزرتے تھے بلکہ اتفاق سے کال بیل بھی بجا دیتے تھے۔ میں اتفاق سے گھر پر ہوتا تو کہتے: ”بھئی اتفاق سے ادھر سے گزر رہا تھا، سوچا آپ سے مل لوں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ آج پہلی تاریخ ہے۔“ ایک مہینہ میں اکتیس تاریخ کو اتفاق سے ان کے گھر پہنچا۔ مجھے دیکھ کر بہت سٹپٹا گئے۔ بولے: ”آج آپ کے اتفاق سے ادھر چلے آنے سے کچھ نااتفاقی کی بو آ رہی ہے۔“ میں نے کہا : ”اتفاق سے مجھے اس مہینہ کی تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ اتفاق سے ادھر سے گزر رہا تھا۔ سوچا کہ آپ کو آگاہ کر دوں کہ آپ کل اتفاق سے میرے گھر نہ آئیں۔“ اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ چند دنوں بعد مجھے اس گھر کو خالی کرنا پڑا۔
ایک اور مالک مکان بھی بہت یاد آئے۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جت نصیب کرے۔ پہلی تاریخ کو مکان کا کرایہ تو وصول نہیں کرتے تھے، البتہ آدهی رات کو اپنا بے بحر شعر سنا کر داد ضرور وصول کر لیا کرتے تھے۔ میں نے مہینوں انھیں مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا، البتہ شعر کی داد کے معاملے میں وہ ادھار کے قائل نہیں تھے۔ کھڑے کھڑے داد وصول کر لیتے تھے بلکہ مستقبل میں سرزد ہونے والے شعروں کی پیشگی داد تک پگڑی سمیت وصول کر لیتے تھے۔ مکان چوں کہ ان کا چھوٹا تھا اس لیے چھوٹی بحر میں شعر کہتے تھے۔ شاعری بھی اپنے مکان کی طرح کرتے تھے، جس میں کمرے کم اور بیت الخلاء زیادہ ہوتے تھے۔ بات بات پر شاعری میں اپنا کلیجہ، پھیپھڑا وغیرہ نکال کر رکھ دیتے تھے۔ میں تو زندگی بھر ان کے مکان کو خالی نہ کرتا مگر قدرت کو اردو شاعری کا فائده اور میرا نقصان مقصود تھا۔ ایک دن وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ ان کے مرنے کے دن نہیں تھے۔ جوں جوں مکان کا کرایہ بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کی شاعری میں مجھے نئے نئے گوشے بشمول گوشۂ عافیت کے نظر آنے لگے تھے اور میں ان کی شاعری میں امکانات اور مکانات، دونوں کو ڈھونڈنے لگا تھا۔
جب مکانوں اور مکان مالکوں کی یاد نے زور مارا تو میں نے سوچا کہ یادوں کی اس دہلیز کو پھلانگ کر میں اپنے ذاتی مکان کی دہلیز پر کیوں کر قدم رکھوں گا۔ اسی اثنا میں میری بیوی چائے لے کر آ گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بولی : ”مجھے آج اپنا سڑسٹھواں مکان بہت یاد آرہا ہے۔ ہادی وہیں پیدا ہوا تھا اور انہترواں مکان بھی، کیوں کہ نجیبہ وہیں پیدا ہوئی تھی۔ “
میں نے اسے روکتے ہوئے رندھی رندھی آواز میں کہا۔ ”بیگم! اب کچھ یاد نہ دلاؤ۔ یادوں کا ایک ایسا ٹھاٹیں مارتا سمندر میرے اندر موجزن ہے کہ اگر ہمارا ذاتی مکان بھی اس کی زد میں آ جائے تو اس کے بام و در پاش پاش ہو جائیں گے۔ اس کی اینٹ سے اینٹ اگر خود سے نہ بجی تو بجا دی جائے گی۔
میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ میرا بھتیجا بھاگا بھاگا آیا۔ اس نے کہا۔ ”انکل معاف کیجیے، میں ایک بری خبر لے کر آیا ہوں۔“
میں نے کہا: ”مجھے اس بری خبر کی اطلاع ملی چکی ہے۔“
بھتيجے نے کہا: " نہیں! وہ تو خوش خبری تھی، آپ کے ذاتی مکان ملنے کی۔“
میں نے پوچھا : ”تو پھر بری خبر کیا ہے؟“
بھتیجے نے کہا: ”مجھے ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹی نے جس بلاک میں آپ کا فلیٹ تعمیر کیا تھا وہ سارا بلاک ملاوٹی سیمنٹ کے استعمال کے باعث گر گیا ہے۔ اب کیا ہوگا؟“
اس بری خبر کو سن کر ہم دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ہم خوشی کے مارے ہنسنے لگے تو میرے بھتیجے نے کہا: ”انکل آپ کی طبیعت خراب معلوم ہوتی ہے، کسی ڈاکٹر کو بلاؤں؟“
میں نے کہا : ”ڈاکٹر کو نہیں، وقت کو بلاؤ. وقت ہی سب سے بڑا ڈاکٹر ہے۔ جب تم بھی پچاس برس کے ہو جاؤ گے اور کرایہ کے سوویں مکان میں جاؤ گے تو تمھیں بھی اچانک یہ عرفان ہو گا کہ ” بے مکانی مکان سے بہتر ہوتی ہے۔“
٭٭٭
مجتبیٰ حسین
اقتباس از مضمون: ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ
کتاب: قطع کلام
مزید اشاعتوں کا انتظار رہےگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/QUOT
کتابیں پڑھتے پڑھتے (ادھوری ہی سہی) ہمارے ہیرو کو اسلامی ناولوں کے جوشیلے مکالمے حفظ ہو گئے تھے اور بغدادی جم خانے میں کبھی وہسکی کی زیادتی سے موصوف پر ہذیانی کیفیت طاری ہو جاتی تو دشمنان اسلام پر گھونسے تان تان کر تڑاق تڑاق ایسے ڈائیلاگ بولتے، جن سے شوق شہادت اس طرح ٹپکا پڑتا تھا کہ بیروں تک کا ایمان تازہ ہو جاتا۔
(صبغے اینڈ سنز از خاکم بدہن۔یوسفی صاحب )
اے واہ ماشاء اللہ کیا با محاورہ زبان ہے۔ایک دلی یہ تھی عالم میں انتخاب جہاں بچہ بچہ شستہ رفتہ با محاورہ اردو بولا کرتا تھا اور ایک آج کی دلی ہے۔۔۔۔بس نام رہے اللہ کا !!سیدضمیر حسن دہلوی کی کہانی ‘ستوانسا شہزادہ’ سے انتخاب۔ دہلی والوں کی رواں دواں نثر اور بامحاورہ زبان کی ایک جھلک:
‘‘میرمحمدعلی کی بیوی کا پاؤں بھاری ہوا تو آدھے شہر میں دھوم مچ گئی۔ بوڑھے منہ مہاسا، لوگ کریں تماشا۔جو سنتا، دانتوں میں انگلیاں دیتا تھا اور سچ پوچھیے تووہ خود بھی حیران تھیں۔ پہاڑ سی جوانی کم بخت مرادیں مانتے مانتے گزر گئی، چڑیا کا بچہ پیدا نہ ہوا۔ اب بڑھاپا آیا، آدھا چونڈا سفید ہوا تو یہ بڑبھس لگی کہ دیکھنے والے بھی تالی پھوپھو کریں۔ نہ جانے کب کا بڑا بول آگے آیا تھا۔ان گنت دیکھنے والیاں روز چلی آتیں۔ بے چاری شرم سے پانی پانی ہوئی جاتی تھیں۔ لاکھ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتیں اور دوپٹے کے پلّو سے آگا پیچھا ڈھکنے کی کوشش کرتیں مگر پتلے سٹک سے جسم پر مٹکا سا پیٹ بھلا کیسے چھپ جاتا۔ پھر وہ قطّامائیں جو دیکھنے آتی تھیں، کوئی ننھی کی جَنیاں تو تھیں نہیں کہ یونہی واپس چلی جاتیں، خدائی خوار چیل کی نظر رکھتی تھیں۔ بہتیری تو چہرے کی بھر بھراہٹ اور جسم کے گدرے پن سے ہی سب کچھ بھانپ لیتیں اور دیدے پھوٹیاں اِدھر اُدھر کی باتیں کر ذرا سا پانی مانگتیں جیسے میر محمد علی کی بیوی نے ان کی امّاں کے سگوں کی گٹھری چُرا پیٹ میں اُڑس لی ہو۔ جنم کے اندھے کو بھی صاف دکھائی دیتا تھا کہ چار مہینے سے بھی کچھ اوپر کا پیٹ ہے۔ اس پر بھی اڑانے والیوں نے خدا جانے کیا کیا اڑا دیا تھا۔ کسی نے کہا، نوج! اس بڑھاپے میں بچہ جنتے کبھی دیکھا نہ سنا، پیٹ میں رسولی ہوگی۔ کوئی بولی، بُوا ٹھنڈا پھوڑا ہے۔ میں تو جانوں جگر میں پانی اتر گیا۔ بھلا غضب خدا کا، بوڑھی عورت نام خدیجہ۔ اس عمر میں بھی کوئی دوجیا ہوتا ہوگا۔ میر صاحب کی بیوی یہ باتیں سنتیں تو اندر ہی اندر کھولتی تھیں مگر یہ کہ پیٹھ پیچھے تو لوگ بادشاہ کو بھی برا کہتے ہیں۔ خلق کا حلق کس نے پکڑا ہے۔ یہ سوچ کے دل کو سمجھا لیتیں کہ بازار کی گالی، ہنس کے ٹالی۔ جب چاند چڑھے گا تو کُل عالم دیکھےگا۔ البتہ اس خوف سے جان جاتی تھی کہ آنے جانے والیوں میں کوئی کیسا تھا ، کوئی کیسا۔ برا بھلا پرچھاواں پڑا اور خدا نہ کرے کوئی اونچ نیچ ہوگئی تو انھیں آگے امید بھی نہیں تھی۔ دشمنوں کا کہا سچ ہوجائےگا اور ان کی زندگی برباد ہوگی سو الگ۔ اپنی مرن، جگ کی ہنسی۔ کہنے والیوں کا کیا جائے گا، وہ تو اور ہنس ہنس کے جلائیں گی۔ اوّل تو یہاں امید کسے تھی، اللہ اللہ کرکے یہ دن نصیب ہوا تو دنیا والے گود گود کھائے جاتے ہیں، بدخواہوں نے پیچھا لے لیا۔میں کون کہ خواہ مخواہ، کوئی سنے نہ سنے، کہنے والیوں کو تو بس کہنے سے کام تھا۔ للّو چلے ہی جاتی تھی۔نامرادنیں بغضی تھیں۔ داتا دے، بھنڈارے کا پیٹ پھٹے۔ ان کا بس چلے تو ایک دن اللہ میاں سے کہہ ساری دنیا کا رزق بند کرادیں۔نہ خدا تُو دے نہ میں دوں۔ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ حسد کی لگی بُری ہوتی ہے۔ آدمی بے آگ بے پانی جلتا ہے۔ آئیں بُوا ہولتی، اندر ہی اندر کھولتی ،تو ان مال زادیوں کو تو للٰہی بیر تھا۔ حالانکہ یہ سب پہ روشن تھا کہ میر صاحب نے بیوی کی گود بھرنے کی حسرت میں کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ سیکڑوں مسجدوں میں طاق بھرے، بیسیوں مزاروں پر ڈورے باندھے، ہرے درختوں میں تعویذ لٹکوائے، معصوم بچوں کو صحنک کھلائی، بی بی کی نیاز کے کونڈے بھرے، شیخ سدّو اور لونا چماری کی منتیں کیں، یہاں تک کہ چوراہے کی مٹی منگا پلنگ کے پایوں تلے دبائی۔ مگر ساری عمر نکل گئی اور نہ کچھ ہونا تھا نہ ہوا۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔۔۔۔’’
ارے واہ آپی کیا حسین اتفاق۔آپ کا چھوٹا بھائی بھی قرة العين حیدر کا زبردست فین ہے۔آگ کا دریا،کار جہاں دراز ہے، آخر شب کے ہم سفر،سفینہ غم دل،گردش رنگ چمن اور کچھ افسانے پڑھ چکا ہوںقراة العین حیدر کی گردش رنگ چمن زیر مطالعہ ہے۔ایک دلچسپ دستاویزی ناول ہے جسمیں مسلمانوں کی پر تعیش زندگی کا ذکر بھی ملتا ہے اور انکے زوال کی وجوہات بھی۔۔۔۔۔ مختلف شہروں اور کردارں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔۔۔۔ جدت اور قدیم رسوم و روایات کا ایک حسیں امتزاج نظر آتا ہے۔۔۔۔بہت پہلے لیا تھا شاید لاہور ایئرپورٹ سے لیکن مکمل نہ کرپائی مصروفیت کی وجہ سے۔۔۔سوچا آجکل گھر میں ہوں تو اسکو ہی مکمل کر لوں۔۔۔
قراة العین حیدر کو میں لگ بھگ ،26,27 سال سے پڑھ رہی ہوں۔۔۔انکے تمام ناولز، ناولٹ، افسانوی مجموعے ، سفر نامے اور انشائیے ہر تصنیف کمال کی ہے۔۔۔۔ آٹھویں جماعت میں پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا اپنی اماں کی لائیبریری سے تو آج تک انکے سحر میں مبتلا ہوں۔۔۔
آخر شب کے ہمسفر، کارجہاں دراز ہے، چاندنی بیگم، میرے بھی صنم خانے ، آگ کا دریا، سفینہ غم دل ۔۔۔۔یہ تمام تو پڑھ چکی ہوں۔۔۔ایک ناول جو زیر مطالعہ ہے یہ نہیں پڑھا اور چند ایک اور ہیں جو نہیں پڑھ پائی۔وہ ابھی پڑھنے ہیں۔۔۔میری پسندیدہ مصنفہ ہیں۔۔سوچا جنہوں نے نہیں پڑھا انکو ، انکے لئے کچھ رہنمائی کر دوں۔۔۔۔آج سے چالیس پچاس سال پہلے لکھے انکے ناول کو پڑھیں تو اسمیں بھی ایک جدت، فلسفہ دکھائی دیتا ہے۔۔۔
انکی تصانیف درج ذیل ہیں:
انہوں نے 4 ناولٹ بھی لکھے، جن کے نام ’دلربا‘، ’سیتاہرن‘، ’چائے کے باغ‘، ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘ ہیں۔ اُن کے افسانوی مجموعوں کی تعداد 8 ہے، جن میں ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کے گھر‘، ’پت جھڑ کی آواز‘، ’روشنی کی رفتار‘، ’جگنوؤں کی دنیا‘، ’پکچر گیلری‘، ’کف گل فروش‘ اور ’داستان عہد گل‘ شامل ہیں۔ 5 سفرنامے جبکہ 7 مغربی ادیبوں کی کتابوں کے تراجم بھی اُن کے قلمی اشتراک کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر معروف امریکی ادیب ’ہنری جیمز‘ کے ناول ’دی پورٹریٹ آف اے لیڈی‘ کا اُردو ترجمہ اُن کے چند بہترین تراجم میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اُن کی کئی تخلیقات پر ہندوستان میں فلمیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں ۔
قرۃ العین حیدر نے کُل 8 ناول لکھے، جن میں ’میرے بھی صنم خانے‘، ’سفینہ غم دل‘، ’آگ کا دریا‘، ’آخر شب کے ہمسفر‘، ’کار جہاں دراز ہے‘، ’گردش رنگ چمن‘، ’چاندنی بیگم‘، ’شاہراہِ حریر‘ شامل ہیں۔ اُن کا ناول ’کار جہاں دراز ہے‘ تین حصوں پر مشتمل اور سوانحی ناول ہے، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے کئی ذاتی گوشوں پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔
شہزادے آگ کا دریا میں نے آٹھ بار پڑھی ۔ جب پڑھی ایک الگ لطف میں نے پہلی بار ابا کی کتابوں سے کار جہاں دراز ہے پڑھی تھی ۔اس وقت میں آٹھویں جماعت میں تھی۔ سمجھ میں نہیں آئی مگر انکو پڑھنا بہت اچھا لگا اور جب سے انکی فین ہون انکی ایک کتاب کی بڑی تلاش ہے مگر مل نہیں رہی ہاؤسنگ سوسائٹی۔۔۔۔۔ارے واہ آپی کیا حسین اتفاق۔آپ کا چھوٹا بھائی بھی قرة العين حیدر کا زبردست فین ہے۔آگ کا دریا،کار جہاں دراز ہے، آخر شب کے ہم سفر،سفینہ غم دل،گردش رنگ چمن اور کچھ افسانے پڑھ چکا ہوں
اخاہ کیا بات ہے بھئی !!شہزادے آگ کا دریا میں نے آٹھ بار پڑھی