چند اقتباسات - میرا مطالعہ

سیما علی

لائبریرین
ہاؤسنگ سوسائٹی تو مجھے یاد پڑتا ہے میرے لیپ ٹاپ میں ہے۔تلاش کرتا ہوں ملی تو ارسال کر دوں گا
بڑی نوازش ۔۔مجھے یہ پڑھے بہت عرصہ ہو ا لیکن جتنی یاد ہے یہ یقیننا انڈیا سے آنے والے لوگوں کے متعلق لکھی گئی بٹیا جنکا تعلق انڈیا کے انتہائی معتبر گھرانے سے ہوتا ہے لیکن پاکستان آکر بے حد تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔
جیتے رہیے ڈھیروں دعائیں۔۔۔:)
 

صابرہ امین

لائبریرین
"فرصت اور فراغت کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ فرصت کا ساعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ ساعت کو شکست دینا آسان ہے۔ اس کے لیے دمِ نزع ایک اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ جیسے میدانِ جنگ میں اس جاں بلب تشنہ زخمی سپاہی کا اشارہ جس نے اپنی جان اور پانی پینے کی باری دوسرے زخمی ساتھی کے حق میں دے دی۔ یہ فراغت ان نا شکرے لوگوں کو کہاں نصیب ہوتی ہے جن کی زندگی ہر قدم اور ہر فیصلے پر نفع نقصان کے گوشوارہ بناتے گذر جاتی ہے۔"

اقتباس (سفر نصیب از مختار مسعود مرحوم)
آداب
تابش بھائ ،
"سفر نصیب از مختار مسعود" کیا محفل میں کہیں موجود ہے ۔ ۔ پی ڈی ایف کی صورت میں ۔ ۔ ۔ رہنمائ کیجیئے ۔ ۔ شکریہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
سیدضمیر حسن دہلوی کی کہانی ‘ستوانسا شہزادہ’ سے انتخاب۔ دہلی والوں کی رواں دواں نثر اور بامحاورہ زبان کی ایک جھلک:

‘‘ پیٹھ پیچھے تو لوگ بادشاہ کو بھی برا کہتے ہیں۔ خلق کا حلق کس نے پکڑا ہے۔ یہ سوچ کے دل کو سمجھا لیتیں کہ بازار کی گالی، ہنس کے ٹالی۔ بدخواہوں نے پیچھا لے لیا۔ کوئی سنے نہ سنے، کہنے والیوں کو تو بس کہنے سے کام تھا۔ للّو چلے ہی جاتی تھی۔نامرادنیں بغضی تھیں۔ ان کا بس چلے تو ایک دن اللہ میاں سے کہہ ساری دنیا کا رزق بند کرادیں۔نہ خدا تُو دے نہ میں دوں۔ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ حسد کی لگی بُری ہوتی ہے۔ آدمی بے آگ بے پانی جلتا ہے۔ آئیں بُوا ہولتی، اندر ہی اندر کھولتی ،’
واہ واہ ۔ ۔ ۔ کتنی ساری سچائیاں ایک ساتھ ۔ ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
شہزادے آگ کا دریا میں نے آٹھ بار پڑھی ۔ جب پڑھی ایک الگ لطف میں نے پہلی بار ابا کی کتابوں سے کار جہاں دراز ہے پڑھی تھی ۔اس وقت میں آٹھویں جماعت میں تھی۔ سمجھ میں نہیں آئی مگر انکو پڑھنا بہت اچھا لگا اور جب سے انکی فین ہون انکی ایک کتاب کی بڑی تلاش ہے مگر مل نہیں رہی ہاؤسنگ سوسائٹی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سیما جی،
"آگ کا دریا"، "چاندنی بیگم" اور میرے بھی صنم خانے" تو سمجھ آ گئیں مگر "کار جہاں دراز ہے" سمجھنے میں واقعی مشکل ہے ۔ ۔ عرصہ پہلے کوشش کی پر کچھ بہت دقیق معلوم ہوئ ۔ ۔ ۔ ہندی زبان پر عبور نہیں اس لیئے ۔ ۔ اب دوبارہ شروع کی ہے ۔ ۔

آپ کا ذوق خاصا عمدہ ہے ۔ ۔
 

سیما علی

لائبریرین
سیما جی،
"آگ کا دریا"، "چاندنی بیگم" اور میرے بھی صنم خانے" تو سمجھ آ گئیں مگر "کار جہاں دراز ہے" سمجھنے میں واقعی مشکل ہے ۔ ۔ عرصہ پہلے کوشش کی پر کچھ بہت دقیق معلوم ہوئ ۔ ۔ ۔ ہندی زبان پر عبور نہیں اس لیئے ۔ ۔ اب دوبارہ شروع کی ہے ۔ ۔

آپ کا ذوق خاصا عمدہ ہے ۔ ۔
صابرہ جی!
جیتی رہیے،خوش رہیے،
قرة العين حيدر شروع میں آپکو مشکل لگیں گی پھر آہستہ آہستہ آپکو سمجھ میں آنے لگیں گی تو آپکو لطف آئے گا۔ ارے باذوق لوگ تو اردو محفل میں ہم تو ادنیٰ سے لوگ ہیں ہم کیا اور ہمارا ذوق کیا۔
بہت اچھا لگتا ہے آپ سے بات کرکے۔۔:)
 

سیما علی

لائبریرین
بڑا اِنسان وہی ہوتا ہے جو دوسروں کے سارے تضاد، اُن کی طبیعتوں کا فرق، حالات، خیالات سارے رنگوں کو خوش دلی سے قبول کرے۔ مسلک مختلف ہو تو اپنا مسلک چھوڑے بِنا دوسرے کے اعتقادات کی تعظیم کرتا رہے۔ کلچر مختلف ہو تو اعتراضات کیے بغیر دوسرے کے کلچر کو بھی اچھا سمجھتا رہے، رنگ، نسل، طبقاتی اُونچ نیچ، لباس، زبان غرضیکہ زیادہ سے زیادہ تضاد اور فرق کو زِندگی کا حصہ اور اِنسان کو اِنسان سے ممیّز کرنے کی سہولت سمجھ لے۔ اِن امتیازات کی وجہ سے نفرت کا شکار نہ ہو۔

(بانوقدسیہ کے افسانے "کتنے سوسال"سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین


جہنم کی آگ


پہاڑ کی کھوہ میں ایک فقیر رہتا تھا جو دن رات عبادت میں مصروف رہتا تھا اس کے ساتھ ایک بالکا بھی تھا۔ فقیر حقہ پینے کا شوقین تھا، اس لیے اس نے اپنے بالکے کو حکم دے رکھا تھا ہر وقت آگ کا انتظام رکھے۔ ایک روز آدھی رات کے وقت فقیر نے بالکے کو حکم دیا کہ چلم بھر دے۔ بالکے نے دیکھا کہ بارش کی وجہ سے آگ بجھ چکی تھی۔ اتفاق سے ماچس بھی ختم ہو چکی تھی۔ بالکا گھبرا گیا کہ اب کیا کرے۔

اس نے فقیر سے کہا "جناب آگ تو بجھ چکی ہے، ماچس ہے نہیں کہ سلگا لوں، بتایئے اب کیا کروں؟" فقیر جلال میں بولا "ہم تو چلم پیے گے چاہے آگ جہنم سے لاؤ"

بالکا چل پڑا چلتے چلتے جہنم کے صدر دروازے پر جا پہنچا دیکھا کہ صدر دروازے پر ایک چوکیدار بیٹھا اونگھ رہا ہے۔ بالکے نے اسے جھنجھوڑا پوچھا "کیا یہ جہنم کا دروازہ ہے؟" چوکیدار بولا "ہاں یہ جہنم کا دروازہ ہے۔" بالکے نے کہا "لیکن یہاں آگ تو دکھائی نہیں دیتی" چوکیدار نے کہا "ہر جہنمی اپنی آگ اپنے ساتھ لاتا ہے"

تلاش۔۔۔۔۔۔ ممتاز مفتی
 

سیما علی

لائبریرین
میں سوچتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دو جہانوں کے بادشاہ تھے۔ ان کا چولہا ٹھنڈا کیوں رہتا تھا؟ وہ چٹائی پر کیوں سوتے تھے؟ اور ایک کچے مکان میں کیوں رہتے تھے۔ کھانے کے لیے ان کے چنگیر میں صرف دو کھجوریں ہوتی تھیں۔ کھانے لگتے تو دروازہ بجتا۔

‘‘میں بھوکا ہوں‘‘ اور وہ ایک کھجور سائل کو دے دیتے اور خود ایک ہی کھا لیتے۔ میں سوچتا ہوں آپ جو دو عالم کے بادشاہ تھے انہوں نے کیوں غربت کو منتخب کیا؟

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کم فہم‘ کم عقل یا کم علم تھے؟ پھر؟ اگر وہ عقلِ کل تھے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ غربت میں کوئی بڑی عظمت ہے۔ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غربت منتخب نہ کرتے. عمامیت میں کوئی بڑی خوبی ہے ورنہ عمومیت کی زندگی بسر نہ کرتے۔ عام لوگوں جیسا لباس استعمال نہ کرتے۔ بوریا نشین نہ ہوتے اور ایک عام سے کچے مکان میں رہائش نہ رکھتے۔

اقتباس :ممتاز مفتی کی کتاب "تلاش" سے
 
Top