جی ایسا چند مخصوص بحروں میں ہوتا ہے ۔۔۔ سب میں نہیں ۔۔۔ !
بحر کے ارکان میں اکثر دو ساکن میں سے دوسرا ساکن گر کر کے متحرک ہو جاتا ہے ۔ تفصیل تو اساتذہ کا معاملہ ہے اور بہرحال مجھے عروض کی تمیز بھی نہیں۔ لیکن ایک دو اشعار نہیں بلکہ سینکڑوں ہیں جن میں دوسرا ساکن متحرک بن جاتا ہے غالب کو لیجئے
’’ ورنہ ھم بھی آدمی تھے
کام کے‘‘
’’
عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ‘‘ (متحرک)
اسکے علاوہ راقم کا اک ناقص شعر (بطورِ مثال)
’”
شام ہوتی ہے چلو گھر جاؤ اٹھو رو چکے
قبر پہ کیوں آگئے ٹسوے بہانے کے لئے‘‘
اس میں بھی شک نہیں کہ بعض وقت یہ ساکن رہتے ہیں لیکن یہ تب ہوتا ہے جب عروض اور ضرب کے آخر میں آتے ہیں اور انکا سکون اور وقوف قائم رہتا ہے۔
جیسے:
’عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا
رنگ‘‘ (ساکن)