فاتح

لائبریرین
چند لمحے ابن انشا کے ساتھ
از خلیل الرحمٰن اعظمی
دو ماہی "الفاظ"
مئی جون، ۱۹۷۸ء
اردو باغ، سر سید نگر، علی گڑھ






لاہور میں ایک چینی موچی کی دوکان ہے۔ سڑک پر گذرتے ہوئے ایک صاحب نے اس دوکان کے شوکیس میں رکھا ہوا ایک انوکھا اور خوبصورت جوتا دیکھا۔ فوراً وہیں رک کر دوکان میں داخل ہوئے اور اس کے مالک سے پوچھنے لگے اس جوتے کے کیا دام ہیں؟ دوکاندار بولا مگر آپ اسے خرید کر کیا کیجیے گا یہ آپ کے پاؤں کا جوتا نہیں ہے۔ وہ صاحب بولے "مگر میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔"

یہ صاحب ابن انشا تھے۔ ایک پر اسرار اور انوکھی، طباع اور رومانی شخصیت "جوتے کا ترجمہ" تو محض ان کی "خوش طبعی" کا ایک مظاہرہ تھا مگر اس جوتے کی بدولت انہیں چینی شاعری کی تلاش ہوئی۔ طرح طرح کے مجموعے اور انتخابات ڈھونڈ ڈھونڈ (۱) کر لائے اور ان کے منظوم ترجمے اردو میں کر ڈالے اور چینی نظمیں کے نام سے ایک کتاب بھی شائع (۲) کی۔ اس کتاب میں قدیم چین کے لوک گیت ہیں۔ صحیفۂ کنفیوشش کی نظمیں ہیں، چراہوں کی تانیں، جوگیوں اور بیراگیوں کی خود کلامیاں اور ان کے اقوالِ دانش ہیں اور عہد جدید کے منظومات بھی۔

شخصیت کی اسی پر اسراریت اور انوکھے پن کی وجہ سے وہ ایڈگر ایلن پو کو اپنا "گرو دیو" کہتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی انوکھی شخصیت اور اس کی شاعری نے سب سے پہلے ہمارے یہاں میرا جی کو اپنا دلدادہ بنایا تھا اور انہوں نے بہت پہلے پو کی شخصیت اور شاعری پر ادبی دنیا میں ایک مضمون لکھا تھا اور اس کی کچھ نظموں کے منظوم تراجم بھی کیے تھے۔ پو کے دوسرے عاشق ابن انشا تھے جنہوں نے پو کی پر اسرار کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اسے "اندھا کنواں" کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں شائع (۲) کیا۔ اس کتاب کے دیباچے میں انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ پو کی تنقیدیں بھی خاصے کی چیز ہیں اور آیندہ وہ اس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ بھی کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے اس ارادے کی تکمیل نہ ہو سکی۔

خود ابن انشا کی اپنی شاعری میں یہی پر اسراریت اور نرالی فضا ہے۔ ان کی نظمیں اگرچہ عصری آگہی کے اظہار میں اپنے عہد کے کسی شاعر سے پیچھے نہیں ہیں مگر ان نظموں کی فضا اور ان کا تانا بانا اپنے عہد کے مروجہ اسالیب سے بالکل الگ ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام "چاند نگر" ہے جو ۱۹۵۵ء میں مکتبہ اردو، لاہور سے شائع (۲) ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام بھی پو کی ایک نظم سے مستعار ہے۔ اس کی توضیح کرتے ہوئے دیباچے میں لکھتے ہیں:
"گرو دیو ایڈگر ایلن پو کی ایک نظم ہے ۔۔۔۔ ایلڈوریڈو یعنی شہر تمنا ۔۔۔۔ قصّہ اس کا یہ ہے کہ ایک بہادر جی دار نائٹ اوپچی بنا، دھوپ اور سائے سے بے پروا ایلڈوریڈو کی تلاش میں مستانہ گیت گاتا گھوڑا اڑاتا چلا جا رہا ہے لیکن برسوں گزر گئے۔ زندگی کی شام آ گئی۔ اسے روئے زمین پر کوئی ایسا خطہ نہ ملا جو اس کے خوابوں کے شہر کا مثیل ہوتا۔ آخر جب اس کی تاب و تواں جواب دینے کو تھی اسے ایک بڈھا پھوس زائر ملا، جو سفر کی صعوبتوں سے گھل کر سائے کے سمان رہ گیا تھا۔ اس پیر فرتوت نے بھوؤں کی جھالر ہٹاتے ہوئے کہا:۔ اگر تمہیں اس شہر جادو کی تلاش ہے تو چاند کی پہاڑیوں کے اُدھر سایوں کی وادیِ طویل میں قدم بڑھائے گھوڑا دوڑائے آگے ہی آگے بڑھتے چلو۔۔۔۔۔۔
معلوم نہیں اس سورما نائٹ کو وہ شہر تمنا ملا کہ نہیں لیکن سفر جاری رکھنے اور گھوڑا آگے بڑھانے کا بہانہ ضرور مل گیا۔ شاعر کو بھی ذہنی طور پر سند باد جہازی یا یولیسس ہونا چاہیے یعنی اس کے سامنے ایک نہ ایک ایلدوریڈو۔۔۔۔ ایک نہ ایک چاند نگر کا ہونا ضروری ہے۔" (۳)

ابن انشا اپنی اس رومانیت کے باوجود اپنے زمانے کے سماجی مسائل اور عوام کے دکھ درد کے ہی شاعر تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
"گِرم کی پریوں کی کہانیوں میں ایک ضدی بونا سر ہلا کر کہتا ہے کہ انسانیت کا دھیلا (۴) بھر جوہر میرے نزدیک دنیا بھر کی دولت سے زیادہ گراں قدر ہے۔ میری کتنی ہی نظمیں اس دھیلا (۴) بھر انسانیت کے متعلق ہیں۔ ان میں بھوک کا جاں گذا درد بھی ہے اور جنگ کا مہیب خوف بھی۔۔۔ بھوک اور احتیاج سے رستگاری کی جد و جہد مارکس سے ہزاروں برس پہلے شروع ہوئی تھی اور اب بھی جاری ہے۔"

واقعہ یہ ہے کہ ابن انشا ایک ترقی پسند شاعر تھے مگر ان کی ترقی پسندی تحریک، منشور اور پارٹی لائن والی ترقی پسندی سے مختلف تھی۔ جنگ اور امن کے موضوع پر اردو میں ترقی پسند شاعروں نے ہنگامی اور صحافتی انداز کی کیا کیا نظمیں نہیں لکھیں لیکن ان میں سے آج ہمارے حافظے میں کون سی نظم محفوظ رہ گئی ہے؟ مگر ابن انشا نے اس موضوع کو جو بظاہر وقتی اور ہنگامی ہے اپنے شاعرانہ خلوص اور فنکارانہ ایمانداری کے بدولت ہمیں (۵) جاوداں کر دیا ہے۔ مضافات، امن کا آخری دن، افتاد، شنگھائی، کوریا کی خبریں، کوچے کی لڑائی وغیرہ نظمیں آج بھی شعریت سے بھرپور معلوم ہوتی ہیں۔ خود ابن انشا نے ان نظموں سے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
"اپنے موضوعات کے باوجود یہ نظمیں تبلیغی نہیں بلکہ ذاتی ہیں اور محمد حسن عسکری کے الفاظ میں میں نے یہ نظمیں اپنے اعصاب سے پوچھ کر لکھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض جگہ ان میں تذبذب یا تشائم راہ پا گئے ہیں۔۔۔ مسلمہ ترقی پسند نقطۂ نظر سے یہ بڑا عیب ہے لیکن اصل چیز وہ رد عمل ہے جو قاری میں ایسی کسی نظم کے پڑھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ میں بڑی آسانی سے ان نظموں کے انجامیے لوگوں کے حسب دلخواہ رکھ سکتا تھا لیکن پھر وہ اوروں کی نظمیں ہوتیں۔ میرے جذبات اور میری کمزوریوں کی ترجمان نہ رہتیں اور جیسا کہ عرض کر چکا ہوں اپنی شاعری کو ذاتی سمجھتا ہوں اچھوت ادھار کی قسم کی مقصدی مہم نہیں۔"

گویا ابن انشا نئی نسل کے ان شاعروں کا سرخیل ہے جس نے پہلی بار شاعری میں ذاتی اور شخصی تجربے کی اہمیت پر زور دیا اور ترقی پسندی کے چراغ سے اپنا چراغ جلانے کے باوجود اس میں جس روغن کو استعمال کیا وہ اس کی اپنی ہڈیوں سے پگھلایا ہوا ہے۔ اسی لیے اس چراغ کی لو دور سے پہچانی جاتی ہے۔ اس نے اپنی نظموں میں ہیئت کے کوئی ایسے تجربے نہیں کیے۔ طویل نظموں میں یہ ٹکنیک ضرور رکھی کہ انھیں چھوٹی بڑی اور مختلف البحر نظموں کا ایک مرکب بنایا اور مرکزی تاثر سے ان نظموں میں ایک وحدت پیدا کی۔ آگے چل کر دس بارہ برس بعد اسی انداز کو عمیق حنفی نے خوب خوب برتا۔ "سند باد" اور "شب گشت" وغیرہ میں یہ رنگ خوب نکھرا ہے۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ ابن انشا کی طویل نظم "بغداد کی ایک رات" کا سند باد ایک نئی علامیت کے ساتھ عمیق حنفی کی نظم "سند باد" میں جنم لیتا ہے۔ ممکن ہے یہ عمل محض اتفاقی اور غیر شعوری ہو لیکن اس کردار کو نئے تناظر میں دیکھنے کا عمل اور اس کی اولیت کا سہرا یقیناً ابن انشا ہی کے سر ہے۔ اسی طرح پنجابی شاعری کی صنف "سی حرفی" کو بھی میرے علم کے مطابق سب سے پہلے ابن انشا نے اپنی نظم "امن کا آخری دن" میں برتنے کی کوشش کی۔ اس ٹکنیک کے ذریعہ نظم کا ہر بند یا اس کے مختلف ٹکڑے حروف تہجی سے شروع ہوتے ہیں اور ان حروف سے بننے والے اسما یا اشیا کو ایک خاص پیرایے سے بیان کیا جاتا ہے اور ان کے ذریعہ ایک تاثر ابھارا جاتا ہے۔ مثلاً:
گ گاتی ہوئی گولی ہے کہ گن سے نکلے
کسی گمنام سپاہی کا لاشہ باندھے
گ گبرو ہے کہ بائیس بہاروں میں پلے
ل لاشہ ہے کہ دو روز کے اندر سڑ جائے
پ ہے پنشن کہ سپاہی کو شجاعت کے عوض
ایک پہلو میں ٹھمکتی سی بساکھی دی جائے
ت وہ تمغہ ہے کہ برسوں کی ریاضت سے ملے
اور کسی لاش کی چھاتی پہ چمکتا رہ جائے​

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا۔ ابن انشا کی ان نظموں کی اپنی ایک فضا ہے۔ ان نظموں میں شام اور رات کے دھندلکے کو عام طور پر منظر نامے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اور۔۔۔۔
"ان نظموں میں کسی گرجا کا گھڑیال بھی اکثر آتا ہے جو ہمیشہ دو ہی بجاتا ہے۔ کہیں ریل کی سیٹی بھی گونج اٹھتی ہے۔ ایک ریل کا پل بھی ہے۔ برسوں میں ایک ریلوے اسٹیشن کے نواحات میں رہا ہوں اور شام کی سیر میں ایک پل پر تنہا بیٹھا گاڑیاں گزرنے کا بچکانہ تماشا دیکھا کیا ہوں۔ گرجا کا گھنٹا بھی سالہا سال میرا رفیق سفر رہا ہے اور میں نے اپنی زندگی کی ہزاروں ساعتیں گھڑی کے بغیر اس کی مدد سے گزاری ہیں۔ اور چاند۔۔۔ چاند کو تو میں نے آبادیوں اور ویرانوں میں جانے کس کس عالم میں دیکھا ہے۔ یہ سب چیزیں ماضی کی کھونٹیاں ہیں جن پر میں نے یادوں کے پیراہن لٹکا رکھے ہیں۔"

۱۹۵۵ء میں "چاند نگر" کی اشاعت اس سال کا ایک اہم ادبی واقعہ تھی۔ ناصر کاظمی کی "برگ نے" اور راقم الحروف کا "کاغذی پیرہن" بھی اسی سال شائع ہوئے اور اس دور کے کئی نقادوں نے ان تینوں مجموعوں میں کچھ مشترک عناصر کی نشاندہی پر بطور خاص زور دیا۔ میں تو خیر کس شمار قطار میں تھا اور میرا مجموعہ دراصل میری ادھ کچری تخلیقات کا ایک البم تھا لیکن نئے تنقیدی رویے کی بدولت مجھے بھی اچھی خاصی پذیرائی ملی۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ابن انشا اور ناصر کاظمی دونوں سے میری ذہنی قربت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوستی محض خط و کتابت تک ہی محدود تھی۔ ایک کراچی میں تھا (ابن انشا) دوسرا لاہور میں (ناصر کاظمی) اور تیسرا علی گڑھ میں (راقم الحروف) مگر نصف ملاقاتوں کے ذریعہ خوب پینگیں بڑھیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)ا اصل مضمون کی کتابت میں "ڈھونڈھ ڈھونڈھ" درج ہے۔
(۲) اصل مضمون کی کتابت میں "شایع" درج ہے۔
(۳) اقتباس از دیباچۂ اصل نسخہ "چاند نگر" طبع اول
(۴) اصل مضمون کی کتابت میں "دھیلہ" درج ہے۔

(جاری ہے)
 

فاتح

لائبریرین
۱۹۶۰ء کے بعد ابن انشا کی شعری تخلیقات کا سلسلہ کچھ مدہ ہونا شروع ہوتا ہے۔ لاہور میں ناصر کاظمی کی غزل کے اتنے مقلد پیدا ہوئے کہ وہ اپنے حلقے میں ایک "کردار" بن گئے اور شاعری کو وہ اور ان کے دوستوں نے ایک اسلوب زیست کے طور پر برتنے کی کوشش کی، ان کی آوارہ خرامی اور رت جگوں کی حکایتیں یہاں بھی پہنچتی رہیں مگر ابن انشا کا اپنا کوئی حلقہ نہ بن سکا۔ وہ اپنی انوکھی اور پر اسرار دنیا کی خود ہی سیاحت کرتے رہے اور ان سیاحت ناموں کو بیان کرنے کے پیرائے بھی بدلتے رہے۔ پہلے تو رنگ میر و رنگ نظیر کی غزلوں میں خوب جھوم جھوم کر داد سخن دی بھر نثر کی طرف آ گئے۔ تبصرے، خاکے، ترجمے، سفر نامے، مزاحیہ مضامین، بچوں کی نظمیں، غرض کہ الم غلم ہر طرح کی چیزیں دیکھنے میں آئیں۔ کبھی "چلتے ہو تو چین کو چلیے" کے نام سے اور کبھی "ابن بطوطہ کے تعاقب میں" کے عنوان سے اپنی سیاحی کا حال لکھ رہے ہیں۔ "پاک سر زمین" کی ادارت کر رہے ہیں۔ "جنگ"" میں مزاحیہ کالم لکھ رہے ہیں۔ غرض کہ اس ہما ہمی میں شاعر ابن انشا ہم سے دور ہی ہوتا گیا۔

اپنے اس ذہنی سفر سے متعلق ابن انشا نے چاند نگر کے دیباچے میں اپنے اندیشے کا اظہار کیا تھا۔ مجھے جو خط لکھے ہیں اس میں کئی جگہ اس پیراگراف کا بطور خاص حوالہ دیا ہے۔ یہ پیراگراف آپ بھی پڑھ لیجیے:
"اسٹیفن اسپنڈر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں ان دنوں کا ایک واقعہ لکھا ہے جب حضرت کی عمر یہی کوئی اٹھارہ انیس برس کی ہو گی۔ شاعری کی اٹھان کا زمانہ تھا جس میں انسان کو اپنے متعلق یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ اس کام کے لیے مبعوث ہوا ہے۔ ایک محفل میں ان کا تعارف جے۔ سی۔ اسکوائر نامی ایک مسن (۵) اور جہاں دیدہ شاعر سے ہوا جس نے ان کا ذوق و شوق دیکھ کر پوچھا:
صاحبزادے! زندگی میں تمھارا مشن کیا ہے؟
شاعری۔۔۔ نوجوان اسپنڈر نے بے تکلف جواب دیا۔
تب تو تمہارا حال مجھ سا ہو گا۔ اسکوائر نے کہا۔
تم بیس اکیس برس کی عمر تک شاعری کرو گے۔ اس کے بعد کسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جاؤ گے اور مزید شاعری کرو گے۔ پھر تم اس لڑکی سے شادی کر لو گے اور پیسے کمانے کے لیے اخباری مضامین اور تبصرے لکھنا شروع کرو گے۔ پھر تم ایک بچے کے باپ بن جاؤ گے اور پہلے سے زیادہ زور و شور سے ایسے مضامین اور تبصرے گھسیٹنے لگو گے۔ آخر جب میری عمر کو پہنچو گے تو سوچو گے کہ میں بھی کتنا مورکھ تھا۔ شاعری کو اتنی اہمیت دیتا رہا۔ اس لڑکی کا شوہر اور اس کے بچے کا باپ ہونے کے مقابلے میں چار سو سانیت کا مصنف ہونے کی کیا وقعت ہے۔۔۔
میں اپنا یہ مجموعہ زندگی کے اس موڑ پر پیش کر رہا ہوں جب کہ دل میں شاعری کرنے اور بھرپور شاعری کرنے کی ہوس جوان ہے لیکن تبصرے اور صحافتی مضامین بھی اپنا خراج وصول کر رہے ہیں۔ اوپر کی نقل ہم سب کا ساگا معلوم ہوتی ہے۔ اسے سن کر دل بیٹھ جاتا ہے لیکن پھر یہ خیال کہ ممکن نہیں کہ سب کو ملے ایک سا جواب، سیر طور کی راہ بھی دکھاتا ہے۔"

مگر واقعہ یہ ہے کہ جے۔ سی۔ اسکوائر والی بات ابن انشا کے دل کا چور تھی اور ان پر صادق بھی آئی۔ ۱۹۶۰ء کے بعد اردو شاعری کے ایوان میں بڑی چہل پہل رہی۔ جدیدیت کے میلان نے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کی۔ ہم سب اسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے اور خوب خوب دھومیں مچائیں۔ بحث مباحثے، مناظرے مجادلے، سمنار، دوستوں سے ملاقات کے بہانے اور دشمنوں کے وار سہنے کی عادتیں۔ غرض کہ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۷ء تک کیا کچھ نہ ہوا۔ ناصر کاظمی کا چند سال پہلے بھری جوانی میں انتقال ہو گیا۔ ان کی یاد میں لاہور سے لے کر علی گڑھ تک میں جلسے ہوئے، تقریریں ہوئیں، مضامین لکھے گئے۔ ان زمینوں میں نوجوان شاعروں نے غزلیں لکھ کر خراج عقیدت پیش کیا۔ لاہور سے احمد مشتاق نے "ہجر کی رات کا ستارا"(۶) کے عنوان سے ناصر کاظمی کی شخصیت اور فن پر بڑے عمدہ مضامین شائع کیے لیکن ۱۹۷۸ء کے آغاز میں جب ابن انشا دماغی عارضے میں مبتلا ہو کر لندن کے ایک اسپتال میں اپنی جان جان آفرین کو سپرد کرتے ہیں تو کیا انگریزی اور کیا اردو سبھی اخباروں میں اردو کے ایک مزاح نگار کی موت کی مختصر سی خبر شائع (۲) ہوتی ہے۔ اکیاون سال کی عمر میں وفات پانے والا البیلا شاعر چاند نگر جیسے مجموعے کا خالق ایک "مزاح نگار" کی صورت میں منوں مٹی کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے۔
تُفُو بر تو اے چرخِ گرداں تفو​

ابن انشا پر لکھوں تو کیا لکھوں۔ شیر محمد خاں نام کا ایک شخص جو ۱۹۲۶ء میں جالندھر میں پیدا ہوا تھا۔ جو آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کر گیا۔ جس نے اردو کالج کراچی سے اردو میں ایم۔ اے۔ کیا اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کے بعد اس لیے اس سے دست بردار ہو گیا کہ محقق اور اسکالر وغیرہ بننا اس کے مزاج کے منافی تھا۔ جس نے ایک خط میں مجھے لکھا تھا کہ:
"میں برنارڈشا کا مرید ہوں جس نے لکھا تھا کہ ساری انسائیکلو پیڈیا لکھنے کی نسبت ایلس ان ونڈر لینڈ کا مصنف ہونا زیادہ پسند کروں گا۔"

یہ ابن انشا میرا بڑا جگری دوست تھا۔ میرا پیارا بھائی اور مجھ پر جان چھڑکنے والا۔ اس نے مجھے بڑی اپنائیت کے ساتھ خطوط لکھے اور ان خطوط میں اپنی شخصیت کو بارہا بے نقاب کیا۔ اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کو عجیب عجیب پیرایے میں بیان کیا۔ آج ان خطوں کو پڑھتا ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ وہ سچ مچ کا صوفی تھا جسے اپنے بارے میں کشف ہوتا تھا اور اس کے بیشتر قیاسات صحیح ثابت ہوئے۔ ایک خط میں لکھتاہے:
"اپنا شعار کسی کا یہ قول ہے:
Live fast die young and
Leave a good looking crop behind”​

ابن انشا سچ مچ جوان ہی مرا۔ اکیاون سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے مگر اس کی جواں مرگی پر آنسو بہانے والے کتنے؟
یہ سوچا تھا کہ اپنا مرثیہ بھی آپ لکھتے​

ابن انشا کے جتنے بھی خطوط مجھے اپنے کاغذات کے انبار سے دستیاب ہو سکے انھیں اشاعت کے لیے دے رہا ہوں۔ یہ انتہائی نجی خطوط ہیں۔ بڑی بے تکلفی سے لکھے گئے ہیں مگر آج ان خطوط کی اہمیت یہ نہیں ہے کہ یہ خلیل الرحمٰن اعظمی کے نام ہیں۔ دراصل یہ ابن انشا کا سیلف پورٹریٹ ہیں۔ یہ آپ سب کی امانت ہیں۔ انھیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اس کے سوا کیا کہوں کہ
پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا​



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۵) سکین شدہ مضمون میں اصل لفظ سمجھ نہیں آیا۔
(۶) اصل مضمون کی کتابت میں "ستارہ" درج ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اصل کتاب دفتر میں رہ گئی جہاں سکین کرنے کے لئے لے گیا تھا۔ کل انشاء اللہ دیکھ کر تصحیح کر دوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
ااصل میں بھی یہ لفظ "مسن‘ ہی لکھا ہے۔ لیکن کیوں کہ یہ اقتباس چاند نگر کے دیباچے کا ہے، اس لئے کسی رکن کے پاس ’چاند نگر‘ ہو تو براہَ کرم یہ اقتباس دیکھ کر تصحیح کر دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فاتح بھائی آپ کی تحریر میں ہندسوں کی جگہ ڈبے نظر آ رہے ہیں۔ ان کا کچھ علاج کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
حروف نہیں بھائی جی میں نے ہندسوں کا ذکر کیا ہے۔ تمام ہندسوں کی بجائے ڈبے نظر آ رہے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
میرے پاس بھی کوئ مسئلہ نہیں ہندسوں میں۔ شمشاد، تمھارے سسٹم میں کچھ مشکل ہے کیا؟ انکوڈنگ دیکھیں۔ براؤزر کا ڈیفالٹ ہی یو ٹی ایف 8 کر دیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اور وہ کیسے اور کہاں سے کرنا ہے؟ یہ بھی تو بتا دیں۔
فائر فاکس میں:
ٹولس۔۔۔۔آپشن۔۔۔۔ پھر Contents والا ٹیب دبائیؓ۔ تو جو سکرین نظر آئے اس میں اڈوانس کا بٹن دبائیں۔ یہ منظر نظر آئے گا جو سکرین شاٹ میں ہے۔ اس میں ڈراپ ڈاؤن سے یو ٹی ایف 8 سلیکٹ کر لیں۔
انتر نیٹ اکسپلعرر کا مجھے بھی علم نہیں۔
 
Top