سیما علی
لائبریرین
جاوید اختر کی شاعری
پیڑ سے لپٹی سوچ کی بیل
پروفیسر گوپی چند نارنگ
’ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے، شاعر تووہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے‘۔ یہاں غالب نے شخص کو شاعری سے جدا کیا ہے ،جبکہ جو شخصیت کا نشیب وفراز ہے یا زندگی کی واردات ہے وہ تو شاعری میں جھانکے گی ہی لیکن شاعری محض آئینۂ ذات بھی نہیں، ہرچندکہ طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ، اور اسی کو دیکھ کر طوطی مشقِ نازکرتی ہے۔ شاعر کو مشرقی روایت میں طوطیِ شیریں مقال کہا جاتاہے، لیکن اپنے ہی عکس کو وہ اپنا ’غیر‘ تصور کرتی ہے تبھی محوِ کلام ہوتی ہے جبکہ سخن غیاب سے یعنی آئینہ کے پیچھے سے آتاہے، دوسرے لفظوں میں حالات و حوادث سے۔ گویا آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔ اسی لیے بعض علما نے شاعری کو شخصیت کامن وعن عکس نہیں اس سے گریز قرار دیاہے۔ یعنی واردات سے تومفر نہیں لیکن شاعری واردات کی وہ شکل ہے جس کی باطنی تخلیقی عمل سے قلبِ ماہیت ہو جاتی ہے۔پیشتر اِس کے کہ ہم جاوید اختر کی شاعری او لاوا سے رجوع ہوں،اس بات کو یوں کہہ لیں کہ شاعری بلاشبہ زندگی کی گھنی واردات سے اُگتی ہے لیکن چشمِ تخیل ‘ غیاب سے بھی محوِ گفتگو رہتی ہے اور یوں شاعری جو صفحۂ قرطاس پر اتر تی ہے اس کی اپنی ایک تخلیقی شخصیت ہوتی ہے، شب و روز یعنی سیاہ و سفید کی میکانکی گردش سے الگ، وقت کے محور پر زندہ رہنے والی جو مستقبل سے بھی ہم کلام ہونے کی توفیق رکھتی ہے۔
مزید یہ کہ غالب نے مقطع میں لفظ ’بدنام‘ کو ایسی جگہ رکھا ہے کہ لفظ ’اچھا‘ کی اچھائی اور نمایاں ہوگئی ہے ‘ اور ’بدنام‘ بطور تعریض آیا ہے بمراد نیک نامی و شہرت ۔ بلاتشبیہ اتنی بات تو کہی جاسکتی ہے کہ کون نہیں جانتا کہ جاوید اختر کی شہرت ان کی شاعری سے کئی قدم آگے چلتی ہے، حالانکہ ہم کو اُس جاوید اختر سے مطلب نہیں جسے سلولائیڈ کی دنیا والے جانتے ہیں اور نہ جاننے کی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ عکس کی دنیا ہے جس کا رنگ ونوربھی سب عکس ہےSimulacra 151 یعنی اصل کہیں نہیں ہے، فقط ماسٹر ہے جو خود عکس ہے، جو ہے نہیں بنادیا گیا ہے، گویا یہ نمائش سراب کی سی ہے۔ جبکہ زبان اگرچہ وضعی ہے لیکن شعر اگر خونِ جگرسے لکھا گیا ہے اور باطن کی آگ سے آیا ہے تو نہ صرف اصل بلکہ زندگی کی صداقت و بصیرت کارازدان ہے
پیڑ سے لپٹی سوچ کی بیل
پروفیسر گوپی چند نارنگ
’ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے، شاعر تووہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے‘۔ یہاں غالب نے شخص کو شاعری سے جدا کیا ہے ،جبکہ جو شخصیت کا نشیب وفراز ہے یا زندگی کی واردات ہے وہ تو شاعری میں جھانکے گی ہی لیکن شاعری محض آئینۂ ذات بھی نہیں، ہرچندکہ طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ، اور اسی کو دیکھ کر طوطی مشقِ نازکرتی ہے۔ شاعر کو مشرقی روایت میں طوطیِ شیریں مقال کہا جاتاہے، لیکن اپنے ہی عکس کو وہ اپنا ’غیر‘ تصور کرتی ہے تبھی محوِ کلام ہوتی ہے جبکہ سخن غیاب سے یعنی آئینہ کے پیچھے سے آتاہے، دوسرے لفظوں میں حالات و حوادث سے۔ گویا آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔ اسی لیے بعض علما نے شاعری کو شخصیت کامن وعن عکس نہیں اس سے گریز قرار دیاہے۔ یعنی واردات سے تومفر نہیں لیکن شاعری واردات کی وہ شکل ہے جس کی باطنی تخلیقی عمل سے قلبِ ماہیت ہو جاتی ہے۔پیشتر اِس کے کہ ہم جاوید اختر کی شاعری او لاوا سے رجوع ہوں،اس بات کو یوں کہہ لیں کہ شاعری بلاشبہ زندگی کی گھنی واردات سے اُگتی ہے لیکن چشمِ تخیل ‘ غیاب سے بھی محوِ گفتگو رہتی ہے اور یوں شاعری جو صفحۂ قرطاس پر اتر تی ہے اس کی اپنی ایک تخلیقی شخصیت ہوتی ہے، شب و روز یعنی سیاہ و سفید کی میکانکی گردش سے الگ، وقت کے محور پر زندہ رہنے والی جو مستقبل سے بھی ہم کلام ہونے کی توفیق رکھتی ہے۔
مزید یہ کہ غالب نے مقطع میں لفظ ’بدنام‘ کو ایسی جگہ رکھا ہے کہ لفظ ’اچھا‘ کی اچھائی اور نمایاں ہوگئی ہے ‘ اور ’بدنام‘ بطور تعریض آیا ہے بمراد نیک نامی و شہرت ۔ بلاتشبیہ اتنی بات تو کہی جاسکتی ہے کہ کون نہیں جانتا کہ جاوید اختر کی شہرت ان کی شاعری سے کئی قدم آگے چلتی ہے، حالانکہ ہم کو اُس جاوید اختر سے مطلب نہیں جسے سلولائیڈ کی دنیا والے جانتے ہیں اور نہ جاننے کی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ عکس کی دنیا ہے جس کا رنگ ونوربھی سب عکس ہےSimulacra 151 یعنی اصل کہیں نہیں ہے، فقط ماسٹر ہے جو خود عکس ہے، جو ہے نہیں بنادیا گیا ہے، گویا یہ نمائش سراب کی سی ہے۔ جبکہ زبان اگرچہ وضعی ہے لیکن شعر اگر خونِ جگرسے لکھا گیا ہے اور باطن کی آگ سے آیا ہے تو نہ صرف اصل بلکہ زندگی کی صداقت و بصیرت کارازدان ہے