سید شہزاد ناصر
محفلین
چون شوم خاک رہش دامن بیفشاند ز من
ور بگویم دل بگردان رو بگرداند ز من
جب میں اس کےراہ کی خاک بنتا ہوں تو وہ مجھ سے دامن جھاڑتا ہے اور جب کہتا ہوں کہ دل پھیر دے (لوٹا دے)..تو مجھ سے منہ پھیر لیتا ہے
*عارضِ رنگین را به ہر کس مینماید ہمچو گل
ور بگویم بازپوشان بازپوشاند ز من
وہ اپنا چہرہ( روئے رنگین) ہر کسی کے سامنے دکھاتا رہتا یے . جب میں کہتا ہوں کہ چہرہ چھپا لو،،تو مجھ سے ہی چھپا لیتا ہے
*چشم خود را گفتم آخر یک نظر سیرش ببین
گفت میخواہی مگر تا جوی خون راند ز من
میں نے اپنی آنکھ سے کہا،،کہ آنکھ کو (اس )کے دیدار سے سیر کر لے .. اس نے کہا تُو چاہتا ہے کہ تاکہ مجھ سے خون کی ندی بہنے لگے
*او به خونم تشنه و من بر لبش تا چون شود
کام بستانم از او...... یا داد بستاند ز من
اس میرے خون کا پیا سا ہے اور میں اس کے لبوں کا.دیکھو اُس کا کام بنتا ہے یا میری داد بنتی ہے
*گر چو فرهادم به تلخی جان برآید باک نیست
بس حکایتہایی شیرین باز میماند ز من
گر چہ میں فرہاد ہوں یری جان تلخی سے ہی نکلے گی اس میں کوئ ہرج نہیں.. بس یہ ہے کہ بہت سی حکایاتِشیریں مجھ سے رہ جائیں گی
گر چو شمعش پیش میرم بر غمم خندان شود
ور برنجم خاطر نازک برنجاند ز من
اگر شمع کی مانند اس کے سامنےمرتا ہوں میرےغم پہ ہنستا ہے اور اگر رنجیدہ ہوتا ہوں تو اس کی نازک طبع کو برا لگتا ہے
*دوستان جان دادهام بہر دہانش بنگرید
گو به چیزی مختصر چون باز میماند ز من
دوستو اس کی منہ کی خاطر میں نے جان دی .گومختصر چیز ہے پر اس نے مجھ سے واپس مانگ لی
*صبر کن حافظ که گر زینگو نہ خوانی درس عشق
خلق در ہر گوشهء افسانهء خواند ز من
اے حافظ صبرکر ..اگر تُو اسی طرح عشق کا درس پڑھتا رہا..تو لوگ ہر گوشہ میں تیری یہی کہانی پڑھتے رہیں گے
حافظ شیرازی
ور بگویم دل بگردان رو بگرداند ز من
جب میں اس کےراہ کی خاک بنتا ہوں تو وہ مجھ سے دامن جھاڑتا ہے اور جب کہتا ہوں کہ دل پھیر دے (لوٹا دے)..تو مجھ سے منہ پھیر لیتا ہے
*عارضِ رنگین را به ہر کس مینماید ہمچو گل
ور بگویم بازپوشان بازپوشاند ز من
وہ اپنا چہرہ( روئے رنگین) ہر کسی کے سامنے دکھاتا رہتا یے . جب میں کہتا ہوں کہ چہرہ چھپا لو،،تو مجھ سے ہی چھپا لیتا ہے
*چشم خود را گفتم آخر یک نظر سیرش ببین
گفت میخواہی مگر تا جوی خون راند ز من
میں نے اپنی آنکھ سے کہا،،کہ آنکھ کو (اس )کے دیدار سے سیر کر لے .. اس نے کہا تُو چاہتا ہے کہ تاکہ مجھ سے خون کی ندی بہنے لگے
*او به خونم تشنه و من بر لبش تا چون شود
کام بستانم از او...... یا داد بستاند ز من
اس میرے خون کا پیا سا ہے اور میں اس کے لبوں کا.دیکھو اُس کا کام بنتا ہے یا میری داد بنتی ہے
*گر چو فرهادم به تلخی جان برآید باک نیست
بس حکایتہایی شیرین باز میماند ز من
گر چہ میں فرہاد ہوں یری جان تلخی سے ہی نکلے گی اس میں کوئ ہرج نہیں.. بس یہ ہے کہ بہت سی حکایاتِشیریں مجھ سے رہ جائیں گی
گر چو شمعش پیش میرم بر غمم خندان شود
ور برنجم خاطر نازک برنجاند ز من
اگر شمع کی مانند اس کے سامنےمرتا ہوں میرےغم پہ ہنستا ہے اور اگر رنجیدہ ہوتا ہوں تو اس کی نازک طبع کو برا لگتا ہے
*دوستان جان دادهام بہر دہانش بنگرید
گو به چیزی مختصر چون باز میماند ز من
دوستو اس کی منہ کی خاطر میں نے جان دی .گومختصر چیز ہے پر اس نے مجھ سے واپس مانگ لی
*صبر کن حافظ که گر زینگو نہ خوانی درس عشق
خلق در ہر گوشهء افسانهء خواند ز من
اے حافظ صبرکر ..اگر تُو اسی طرح عشق کا درس پڑھتا رہا..تو لوگ ہر گوشہ میں تیری یہی کہانی پڑھتے رہیں گے
حافظ شیرازی