zaryab sheikh
محفلین
۔
پاکستان میں گند صاف کرنے والوں کو "چوڑا" کہا جاتا ہے تعجب کی بات ہے جو گند ڈالتے ہیں وہ تو مہذب کہلاتے ہیں اور جو ہمارا ہی گند صاف کرتے ہیں وہ "چوڑے" کہلاتے ہیں
ان کو دیکھ کر ہم کو حقارت سی محسوس ہوتی ہے اور بندہ ان سے تھوڑا دور ہی رہتا ہے یہ اگر پانی مانگیں یا کچھ کھانے کو مانگیں تو ہم اپنے صاف برتنوں میں کبھی نہیں دیتے اور اگر دے دیں تو ہمیشہ کیلئے ان کو الگ رکھ دیتے ہیں
اب چلتے ہیں دوسری جانب
جو عورت آپ کو اپنا ضمیر اپنی غیرت مار کر جسم سے کھیلنے کی اجازت دے اور آپ کے جسم کی گندگی سے اپنے جسم کو گندہ ہونے کے پیسے وصول کرے اس کو ہم طوائف کہتے ہیں، معاشرے میں چوڑے کی طرح طوائف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ایسی عورت کے پاس وہ لوگ جاتے ہیں جن کا زہن گندہ ہوتا ہے
اب پھر آتے ہیں واپس
اگر چوڑے نہ ہوں تو پاکستان میں ہر طرف گندگی ہی گندگی نظر آئے گی اس لئے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیئے لیکن چونکہ ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں اس لئے ہم شکریہ ادا کرنے کی بجائے ان سے ہاتھ ملانا بھی گنوارہ نہیں کرتے حالانکہ ہم خود اپنی گندگی صاف کرکے ہاتھ دھو کر ایک دوسرے کا ہاتھ چومتے رہتے ہیں، شاید ہی مجھ سمیت کوئی ایسا ہو جس نے ان کو کبھی گلے ہی لگایا ہو
واپس چلتے ہیں
طوائف کا وجود شاید صدیوں سے ہے ملک کے مختلف شہروں میں ریڈ لائٹ ایریئے بنائے گئے تاکہ گندے لوگ بجائے معاشرے کی اچھی اچھی لڑکیوں کی عزت سے کھیلیں وہ یہاں آکر اپنا جی بہلا سکتے ہیں لیکن پھر وقت گزرا اور یہ لوگ پورے پاکستان میں پھیل گئے ، وقت کے ساتھ تبدیلی ایسی آئی کہ پڑھی لکھی ماڈلز، طالبات اور دیگر شعبہ جات کی خواتین بھی اس کام کا حصہ بن گئیں اور اب یہ حال ہے کہ مرد ہو یا عورت شادی سے پہلے شادی شدہ ہو چکے ہوتے ہیں
اصل بات یہ ہے کہ
آج کے معاشرے کا کافی برا حال ہو چکا ہے ، لڑکیوں کو لڑکے ایسے دیکھتے ہیں جیسے کھانے کی ڈش ہو اور لڑکیاں بھی بے تاب نظر آتی ہیں ، پہلے جوڑے کو ملنا مشکل ہوتا تھا اب موبائل نے سب کام آسان کردیا ہے ویڈیو چیٹنگ کریں اور مزے بھی کریں گھر والے بے فکر ہو کر سو رہے ہوتے ہیں گویا معاشرے کی اکثریت زہنی طور پر گندی ہو چکی ہے اس کو صاف کرنے کیلئے ہمارے پاس کوئی چوڑا نہیں اگر سوچ کی بھی بو ہوتی تو شاید ہر انسان سے ہی بدبو آتی لیکن اللہ نے پردہ کر رکھا ہے
اور اس سے بھی گہری بات یہ کہ
اب طوائف بھی ہر گلی محلے میں مل جائے گی جو کام پہلے پیسے لے کر کیا جاتا تھا اب محبت کے نام پر مفت ہی ہو جاتا ہے ، لڑکے لڑکیوں کی دوستیاں ہوتی ہیں اور دوستی دوستی میں دو جسم ایک جان ہو جاتے ہیں جو طوائف معاشرے کے صرف گندے لوگوں کی پسند تھی وقت بدلنے کے ساتھ اب اچھے اچھے لوگ بھی اس کی نظر ہو چکے ہیں یہ طوائفیں پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہیں
تو جناب حل یہ ہے کہ
ہمیں اپنے بچوں پر نظر رکھنا ہوگی ان کے ذہن کو گندہ ہونے سے بچانا ہوگا اچھا رشتہ دیکھ کر بچیوں کی جلدی شادی کرنا ہوگی اگر اب بھی ہم نے نہ سوچا تو معاشرہ تباہ ہو جائے گا اور ہم ہاتھ پر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے
۔
زریابیاں
پاکستان میں گند صاف کرنے والوں کو "چوڑا" کہا جاتا ہے تعجب کی بات ہے جو گند ڈالتے ہیں وہ تو مہذب کہلاتے ہیں اور جو ہمارا ہی گند صاف کرتے ہیں وہ "چوڑے" کہلاتے ہیں
ان کو دیکھ کر ہم کو حقارت سی محسوس ہوتی ہے اور بندہ ان سے تھوڑا دور ہی رہتا ہے یہ اگر پانی مانگیں یا کچھ کھانے کو مانگیں تو ہم اپنے صاف برتنوں میں کبھی نہیں دیتے اور اگر دے دیں تو ہمیشہ کیلئے ان کو الگ رکھ دیتے ہیں
اب چلتے ہیں دوسری جانب
جو عورت آپ کو اپنا ضمیر اپنی غیرت مار کر جسم سے کھیلنے کی اجازت دے اور آپ کے جسم کی گندگی سے اپنے جسم کو گندہ ہونے کے پیسے وصول کرے اس کو ہم طوائف کہتے ہیں، معاشرے میں چوڑے کی طرح طوائف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ایسی عورت کے پاس وہ لوگ جاتے ہیں جن کا زہن گندہ ہوتا ہے
اب پھر آتے ہیں واپس
اگر چوڑے نہ ہوں تو پاکستان میں ہر طرف گندگی ہی گندگی نظر آئے گی اس لئے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیئے لیکن چونکہ ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں اس لئے ہم شکریہ ادا کرنے کی بجائے ان سے ہاتھ ملانا بھی گنوارہ نہیں کرتے حالانکہ ہم خود اپنی گندگی صاف کرکے ہاتھ دھو کر ایک دوسرے کا ہاتھ چومتے رہتے ہیں، شاید ہی مجھ سمیت کوئی ایسا ہو جس نے ان کو کبھی گلے ہی لگایا ہو
واپس چلتے ہیں
طوائف کا وجود شاید صدیوں سے ہے ملک کے مختلف شہروں میں ریڈ لائٹ ایریئے بنائے گئے تاکہ گندے لوگ بجائے معاشرے کی اچھی اچھی لڑکیوں کی عزت سے کھیلیں وہ یہاں آکر اپنا جی بہلا سکتے ہیں لیکن پھر وقت گزرا اور یہ لوگ پورے پاکستان میں پھیل گئے ، وقت کے ساتھ تبدیلی ایسی آئی کہ پڑھی لکھی ماڈلز، طالبات اور دیگر شعبہ جات کی خواتین بھی اس کام کا حصہ بن گئیں اور اب یہ حال ہے کہ مرد ہو یا عورت شادی سے پہلے شادی شدہ ہو چکے ہوتے ہیں
اصل بات یہ ہے کہ
آج کے معاشرے کا کافی برا حال ہو چکا ہے ، لڑکیوں کو لڑکے ایسے دیکھتے ہیں جیسے کھانے کی ڈش ہو اور لڑکیاں بھی بے تاب نظر آتی ہیں ، پہلے جوڑے کو ملنا مشکل ہوتا تھا اب موبائل نے سب کام آسان کردیا ہے ویڈیو چیٹنگ کریں اور مزے بھی کریں گھر والے بے فکر ہو کر سو رہے ہوتے ہیں گویا معاشرے کی اکثریت زہنی طور پر گندی ہو چکی ہے اس کو صاف کرنے کیلئے ہمارے پاس کوئی چوڑا نہیں اگر سوچ کی بھی بو ہوتی تو شاید ہر انسان سے ہی بدبو آتی لیکن اللہ نے پردہ کر رکھا ہے
اور اس سے بھی گہری بات یہ کہ
اب طوائف بھی ہر گلی محلے میں مل جائے گی جو کام پہلے پیسے لے کر کیا جاتا تھا اب محبت کے نام پر مفت ہی ہو جاتا ہے ، لڑکے لڑکیوں کی دوستیاں ہوتی ہیں اور دوستی دوستی میں دو جسم ایک جان ہو جاتے ہیں جو طوائف معاشرے کے صرف گندے لوگوں کی پسند تھی وقت بدلنے کے ساتھ اب اچھے اچھے لوگ بھی اس کی نظر ہو چکے ہیں یہ طوائفیں پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہیں
تو جناب حل یہ ہے کہ
ہمیں اپنے بچوں پر نظر رکھنا ہوگی ان کے ذہن کو گندہ ہونے سے بچانا ہوگا اچھا رشتہ دیکھ کر بچیوں کی جلدی شادی کرنا ہوگی اگر اب بھی ہم نے نہ سوچا تو معاشرہ تباہ ہو جائے گا اور ہم ہاتھ پر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے
۔
زریابیاں