سید شہزاد ناصر
محفلین
چوکا۔۔۔ جس نے لدھیا وادی کے آدم خور شیر کو چوکا کے آدم خور کا نام دیا۔ لدھیا وادی کے قریب دریائے ساروا کے دائیں کنارے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے شمال مغربی کنارے سے ایک راستہ ایک چوتھائی میل چل کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ جس کا ایک تہائی حصہ تو ٹھک جاتا ہے اور دوسرا حصہ پہاڑیوں میں سے بل کھا کر کوٹی کندری میں ختم ہو جاتا ہے۔ کوٹی کندری ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جس کے مالک چوکا کے باشندے ہیں۔
۱۹۳۶ء موسم سرما کا ذکر ہے کہ اس موخرالذکر راستے پر ایک آدمی اپنے بیلوں کے ہمراہ جارہا تھا۔ جب وہ چوکا کے قریب پہنچا تو اچانک ایک شیر جھاڑیوں سے نکل کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس آدمی نے انتہائی جرات سے کام لیا اور وہ شیر اور بیلوں کے درمیان کھڑا ہوگیا۔ وہ شیر کو ڈرانے کے لیئے اونچی آواز میں شور مچانے لگا اور ساتھ ہی اپنی لاٹھی گھمانے لگا۔ بیلوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور سرپٹ گاؤں کی طرف بھاگ گئے۔ جب شیر نے اپنے شکار کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو اس نے اپنی توجہ اس آدمی پر مرکوز کردی۔ شیر کے خطرناک ارادے کو بھانپتے ہوئے وہ آدمی پیچھے کو مڑا اور انتہائی تیز رفتاری سے بھاگنے لگا۔ وہ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ شیر چھلانگ لگا کر اس پر کود پڑا۔ اس آدمی کے کندھوں پر ایک بھاری ہل تھا اور اس کی پشت پر ایک بوری تھی جس میں اس نے اپنی ضروریات کی چیزیں باندھ رکھی تھیں۔ شیر نے اپنے دانت اس بوری میں گاڑ دیئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس آدمی نے بوری کو وہیں پھینک دیا اور مدد کے لیئے شور مچاتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔ اس کا واویلا سن کر گاؤں سے اس کے رشتہ دار اور دوست اس کی مدد کو دوڑے چلے آئے لیکن وہ آدمی مزید کسی حادثے کے بغیر گاؤں پہنچ گیا۔ شیر کا ایک پنجہ اس کے دائیں کندھے پر اس زور سے پڑا تھا کہ وہاں ایک گہرا زخم چھوڑ گیا تھا۔
جون ۱۹۳۷ کا ذکر ہے کہ سات آدمی اور دو لڑکے ٹھک سے دو سو گز مغرب کی طرف مویشی چرا رہے تھے۔ دس بجے کے قریب انہیں خیال آیا کہ ان کے کچھ مویشی بھٹک کر جنگل چلے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک چودہ سالہ لڑکے کو انہیں جنگل سے لانے کے لئے بھیجا۔ لڑکے کو بھیج کر یہ لوگ ایک سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سوگئے اور تقریباً چھ گھنٹے بعد بیدار ہوئے تو جنگل میں ایک ہرن کے بولنے کی آواز سنائی دی جو اس سمت سے آ رہی تھی جدھر مویشی بھٹک کر گئے تھے۔ ان آدمیوں نے ایک دوسرے لڑکے کو جس کی عمر بھی تقریباً چودہ برس تھی پہلے لڑکے کے سراغ میں بھیج دیا۔ جونہی وہ جنگل میں داخل ہوا مویشی ایک دم افراتفری کے عالم میں ایک ندی کی طرف دوڑے۔ ندی کے قریب ایک شیر ایک گائے پر کود پڑا اور سات آدمیوں کے سامنے اسے ہلاک کردیا۔ مویشیوں کی بھاگ دوڑ اور آدمیوں کے شور شرابے سے گاؤں والے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں ندی کے سامنے والی کھلی زمین پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ ان لوگوں میں دوسرے لڑکے کی ماں بھی تھی جو بیوہ تھی۔ جب اس نے لوگوں کو اپنے بیٹے کا نام پکارتے سنا تو وہ ان کی طرف صورتحال معلوم کرنے کے لئے گئی۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا جنگل میں مویشیوں کو ہانکنے کے لئے گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا تو وہ خود اس کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس لمحے پہلے لڑکے کے والدین بھی وہاں پہنچ گئے اور جب انہوں نے ان سات آدمیوں سے اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا تو انہیں یاد آیا کہ انہوں نے تو اسے صبح دس بجے سے ہی نہیں دیکھا۔
بیوہ عورت کے پیچھے تمام لوگ بھی جنگل میں داخل ہو گئے وہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اسے اپنے بیٹے کی لاش دکھائی دی اور اس کے قریب ہی جھاڑی میں پہلا لڑکا بھی مرا پڑا تھا۔ شیر نے اس کے جسم کا ایک حصہ کھا لیا تھا۔ دونوں لاشوں کے بیچ ایک بچھڑا مرا پڑا تھا۔ بعد میں جب مجھے اس المناک حادثے کی تفصیل بتائی گئی تو میں نے اندازہ کیا کہ اس روز شیر جنگل میں اس کھلی زمین کے پاس ہی کہیں لیٹا تھا جہاں مویشی چر رہے تھے اور جب بچھڑا جو آدمیوں کے دیکھے بغیر جنگل میں چلا گیا تھا شیر کے قریب آیا تو اس نے اسے ہلاک کردیا اور ابھی وہ اسے اٹھا کر چلنے بھی نہ پا یا تھا کہ پہلا لڑکا اس کی تلاش میں وہاں آ نکلا اور شیر نے اسے بھی ہلاک کردیا۔ اس کے بعد شیر دونوں شکاروں کے پاس چار بجے شام تک لیٹا رہا۔ تب ایک ہرن پانی پینے کی غرض سے گزرا تو اس نے شیر کی بو سونگھ کر بلند آواز میں بولنا شروع کردیا۔ یہ آواز سن کر ان آدمیوں کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ ان کے مویشی جنگل میں چلے گئے تھے اور انہوں نے دوسرے لڑکے کو انہیں واپس ہانکنے کے لئے جنگل میں بھیجا۔ بدقسمتی سے وہ لڑکا بھی سیدھا وہاں جا پہنچا جہاں شیر اپنے شکاروں کی حفاظت کررہا تھا اور اس نے اسے بھی ہلاک کردیا۔
دوسرے لڑکے کی موت کے شاہد مویشی بھی تھے۔ جو اس کی مدد کے لئے فورا وہاں آئے۔ انہوں نے شیر کو وہاں سے بھگا دیا اور خود بھی ڈر کے مارے افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اپنے شکار سے محروم ہونے پر شیر کو غصہ آیا اور وہ بھگوڑے مویشیوں کے پیچھے بھاگا اور آخری گائے پر کود کر اپنا انتقام لے لیا۔ اگر مویشی گاؤں کی سمت نہ بھاگتے تو ممکن تھا کہ شیر کے انتقام کی آگ فقط ایک ہی مویشی کے ہلاک کرنے سے نہ بجھتی۔
ان ظالمانہ حملوں سے نینی تال اور الموڑا کے ضلعوں میں ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور شیر کو ہلاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی۔ ضلع کے بعض افسر رات رات بھر مچانوں پر بیٹھے رہے مگر فقط دو مرتبہ شیر کو زخمی کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس کے بعد شیر نے انتقامی جذبے کے تحت زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا اور خاص طور پر ٹھک کے گاؤں میں۔
ٹھک سے دو سو گز اوپر کی طرف گندم کا ایک کھیت ہے۔ اس میں فصل کاٹی جاچکی تھی اور دو لڑکے مویشی چرا رہے تھے۔ وہ دونوں بھائی تھے۔ اپنی حفاظت کے لئے وہ کھیت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ کھیت کے شمالی کنارے پر جھاڑیوں کا ایک جھنڈ تھا۔ وہاں سے کوئی پہاڑی شروع ہوجاتی تھی جو کوئی ایک ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس پہاڑی پر سے دونوں لڑکے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ شام کے قریب ان کی ایک گائے بھٹک کر جھاڑیوں کے جھنڈ کی طرف چلی گئی۔ دونوں لڑکے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اسے ہانکنے کے لئے ادھر گئے۔ بڑا لڑکا آگے تھا۔ جونہی وہ ایک جھاڑی کے قریب سے گزرا تو شیر جو وہاں چھپا بیٹھا تھا اس پر کود پڑا۔ چھوٹا لڑکا خوف کے مارے گاؤں کی طرف دوڑا اور چوپال میں بیٹھے ہوئے چند آدمیوں کے قدموں میں سسکیاں بھرنے لگا۔ جب لڑکے میں بولنے کی طاقت آئی تو اس نے بتایا کہ ایک بڑے لال رنگ کے جانور نے اس کے بھائی کو ہلاک کردیا ہے۔ اس نے زندگی میں پہلی بار شیر کو دیکھا تھا۔ اسی وقت دیہاتیوں کا ایک گروہ بڑی دلیری سے خون کی لکیر کے پیچھے پیچھے جنگل میں لڑکے کی لاش ڈھونڈنے چل پڑا۔ چونکہ رات قریب تھی لہذا وہ لوگ کوئی ایک میل جنگل میں چل کر واپس ٹھک آ گئے۔ دوسرے دن آس پاس کے دیہات کے لوگوں کی مدد سے انہوں نے پھر اپنی تلاش شروع کردی۔ لیکن سارے دن کی تلاش کے بعد انہیں فقط اس لڑکے کی سرخ ٹوپی اور خون میں لتھڑے ہوئے کپڑے مل سکے۔ چوکا کے آدم خور کا یہ آخری شکار تھا۔
چوکا کے آدم خور شیر کے ڈر سے لدھیا وادی کے لوگ وہاں سے ہجرت کرنے لگے اور جب ایبٹسن نینی تال، الموڑا اور گھڑوال کے اضلاع کا ڈپٹی کمشنر ہوا تو اس نے اپنے ڈویژن کو اس خوفناک شیر سے رہائی دلانے کا تہیہ کرلیا۔
اپریل ۱۹۳۷ء کی ایک دوپہر ایبٹسن، اس کی بیوی اور میں براستہ تنک پور موضع بھوم پہنچے۔ ہم سر سے پاؤں تک گرد میں اٹے ہوئے تھے۔ دریائے ساروا کے کنارے کچھ دیر آرام کرنے کے اور چائے کی ایک پیالی پینے کے بعد ہم تھولی گھاٹ پیدل روانہ ہو پڑے جہاں ہمارے خیمے ملازموں نے پہلے ہی نصب کر رکھے تھے۔ دوسری صبح ہم ناشتہ کرنے کے بعد ہم کالا ڈھونگا پہنچے۔ تھولی گھاٹ اور کالا ڈھونگا کے درمیان آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ ہماری آمد کی اطلاع پہلے ہی سے وہاں پٹواریوں اور جنگل کے محافظوں کو پہنچا دی گئی تھی۔ ان لوگوں کو ہم نے اس لئے جمع ہونے کو کہا تھا کہ وہ ہمیں آدم خور کے متعلق تازہ ترین اطلاعات بہم پہنچا سکیں۔ جب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے تو چار آدمی ہمارے منتظر تھے اور آدم خور کے متعلق ان کی اطلاع حوصلہ افزا تھی۔ گزشتہ چھ سات دنوں میں وہاں کوئی انسان ہلاک نہیں ہوا تھا اور لوگوں کو یقین تھا کہ شیر موضع ٹھک کے گردو نواح میں موجود ہے۔ جہاں اس نے چند روز پہلے ایک بچھڑا ہلاک کیا تھا۔ کالا ڈھونگا ایک پہاڑی وادی میں واقع ہے اور اس کا رقبہ کوئی چار میل کے قریب ہے۔ اس کے تین طرف دریائے ساروا اور چھوتی طرف ایک پہاڑی ہے جو کوئی پانچ ہزار فٹ اونچی ہے۔ ریسٹ ہاؤس دریائے ساروا کے کنارے واقع ہے اور اس کے سامنے والے مناظر دنیا کے خوبصورت ترین مناظر میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔
رات کالا ڈھونگا کے ریسٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد صبح کے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم چوکا کی طرف پیدل چل پڑے جو وہاں سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔ سورج کی شعاعوں میں خوشگوار قسم کی حدت تھی۔ شمال سے جنوب کی طرف ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
آدم خور کے خلاف اپنی تحریک میں مدد اور مزید انسانی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لئے ہم نے چھ نوجوان بھینسے تنک پور سے پہلے ہی چوکا روانہ کر دئیے تھے۔ یہ بھینسے ہم نے شیر کو ترغیب دینے کے لئے استعمال کرنے تھے۔ چوکا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ ان بھینسوں کو جنگل میں مختلف جگہوں پر گزشتہ تین راتوں سے باندھا ہوا ہے اور اگرچہ ایک شیر کے پنجوں کے نشان دو تین بھینسوں کے قریب دیکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ہلاک نہیں ہوا۔ اگلے چار دنوں کے دوران ہم صبح کے وقت ان بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ دن میں شیر کو دیکھنے کی کوشش کرتے اور شام کو ایک دفعہ پھر بینسونں کو دیکھنے جاتے۔ پانچویں صبح کو ٹھک کے قریب جنگل کے کنارے بندھے بھینسے کو شیر اٹھا کر لے گیا۔ اپنے شکار کو گھنے جنگل میں لے جانے کے بجائے جیسا کہ ہمیں توقع تھی شیر اسے ایک کھلے راستے سے پہاڑی پر لے گیا تھا۔ ایسا اس نے ایک مچان سے بچنے کی خاطر کیا تھا۔ اس مچان سے اس پر دو مرتبہ پہلے گولی چلائی جا چکی تھی اور شاید وہ زخمی بھی ہوا تھا۔ بھینسے کو تھوڑی دور لے جانے کے بعد اس کے سینگ دو تنگ چٹانوں کے درمیان پھنس گئے تھے اور شیر اسے وہیں چھوڑ گیا تھا۔ شیر کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑا نر شیر ہے۔
مردہ بھینسے سے بیس فٹ کے فاصلے پر جامن کا ایک درخت تھا۔ بھینسے کو چٹانوں کے درمیان سے کھینچنے کے بعد ہم نے ایک آدمی کو جامن کے درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ اس کی ایسی چند شاخیں توڑ دے جو بھینسے کو پوری طرح دیکھنے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ پہاڑی پر وہ اکیلا ہی درخت تھا اور وہیں بیٹھ کر شیر پر گولی چلائی جاسکتی تھی۔ درخت پر سے گردوپیش کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ شخص درخت کی شاخیں توڑ رہا تھا تو میرا خیال ہے کہ شیر نے اسے دیکھ لیا تھا۔
اس وقت صبح کے گیارہ بجے تھے۔ اپنے آدمیوں کو گاؤں کھانا کھانے کے لئے بھیج کر میں اور ایبٹسن ایک سایہ دار جھاڑی کے نیچے بیٹھ کر سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ اڑھائی بجے کے قریب ہم ہلکا پھلکا کھانا کھا رہے تھے کہ چند جنگلی پرندوں کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ ایبٹسن اور اس کا ملازم شیر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے جنگل میں چلے گئے اور میں جامن کے درخت پر چڑھ گیا۔ جب میں درخت پر ٹھیک طرح بیٹھ سے گیا تو ایبٹسن اور اس کا ملازم جنگل سے باہر نکل آئے اور چوکا کیمپ واپس چلے گئے۔ اپنے پیچھے وہ دو آدمی ٹھک میں چھوڑ گئے۔
ایبٹسن کے جانے کے تھوڑی دیر بعد پھر جنگل میں سے پرندوں کی تیز آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر پھر حرکت کررہا تھا۔ لیکن اس بات کی بہت کم امید تھی کہ وہ شام سے پہلے کھلے میدان میں سے گزر کر اپنے شکار کی طرف آئے گا۔ پرندے تقریباً پندرہ منٹ تک چلاتے رہے اور پھر ایک دم خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد شام تک کوئی آواز سنائی نہ دی اور جنگل پر خاموشی طاری رہی۔
دریائے ساروا کے کنارے نیپال کی پہاڑیوں پر شام کی شفق آہستہ آہستہ اندھیرے میں تبدیل ہونے لگی۔ اتنے میں ایک ہرن کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ شیر اس سمت سے واپس آرہا تھا جدھر سے وہ اپنا شکار چھوڑ کر گیا تھا۔ میرے سامنے درخت کی ایک شاخ تھی جس پر میں نے بندوق کی نال ٹکا رکھی تھی اور شیر کے آنے پر فقط بندوق کے پچھلے حصے کو ذرا اوپر اٹھا کر لبلبی دبانے کی ضرورت تھی۔ وقت آہستہ آہستہ رینگنے لگا پھر دو سو گز کے فاصلے پر پہاڑی کی سمت ککر چیخ اٹھا۔ شیر پر گولی چلانے کے سلسلے میں میری امید نے دم توڑ دیا۔ اب یہ صاف ظاہر تھا کہ شیر نے میرے آدمی کو درخت کی شاخیں توڑتے دیکھ لیا تھا اور پھر شام کے قریب ممکن تھا کہ اس نے مجھے بھی درخت پر بیٹھے دیکھ لیا ہو۔ بہرحال وہ شکار سے پرے پرے چلا گیا تھا۔ اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے سے سانبھر اور ککروں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں لیکن ہر آواز پہلی آواز سے قدرے دور سے آتی تھی۔ نصب شب کے قریب یہ آوازیں بھی بند ہوگئیں اور جنگل پر مکمل خاموشی طاری ہوگئی۔
ابھی دن نکلا ہی تھا کہ میں درخت سے اترا، اپنی سکڑی ہوئی ٹانگیں سیدھی کیں اور ایک قریبی جھاڑی میں چھپائی ہوئی تھرماس سے چائے پینے لگا۔ جب ٹانگوں میں ذرا چستی آئی اور میں قدرے تازہ دم ہوگیا تو گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں آکر پہلے میں نے غسل کیا اور ناشتہ کر کے لٹد گیا۔ رات کے اس تجربے سے میں کچھ دل برداشتہ ہوگیا تھا۔ اتنے میں گاؤں کے چند معتبر لوگ بھی وہاں آ پہنچے۔ میری دل برداشتگی کے اظہار پر انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں ایک دو روز مزید وہاں ٹھہروں۔ انہیں یقین تھا کہ میں شیر کو ہلاک کرلوں گا۔
ایک بجے کے قریب میں پھر ٹھک کی پہاڑیاں چڑھ رہا تھا۔ راستے میں مجھے بتایا گیا کہ ایک سانبھر کی آواز سنی گئی ہے۔ کیمپ سے میں اس ارادے سے چلا تھا کہ اب کے ایک زندہ بھینس کے قریب شیر کا انتظار کروں گا۔ جس طرف سے سانبھر کی آواز سنائی دی تھی وہاں راستے میں ایک درخت تھا۔ ہم نے رسے کی مدد سے اس پر مچان تیار کی اور درخت کے نیچے بھینس باندھ دی۔ تین بجے کے قریب میں اس درخت پر چڑھ گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک ککر کی آواز آئی اور تھوڑی دیر بعد کوئی ہزار گز سے شیر کی گرج سنائی دی۔ بھینس کے آگے بہت سارا چارہ ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے گلے کی گھنٹی رات بھر بجتی رہی مگر وہ شیر کو اپنی سمت متوجہ نہ کرسکی۔
صبح کے وقت جب میں چوکا واپس آیا تو معلوم ہوا ایبٹسن صبح ہونے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا ہے۔ گزشتہ شام اسے اطلاع ملی تھی کہ لدھیا وادی سے آٹھ میل دور ایک شیر نے ایک بیل ہلاک کردیا تھا۔ وہ ساری رات اس بیل کے قریب شیر کے انتظار میں بیٹھا رہا مگر بے سود۔ دوسری شام وہ کیمپ واپس چلا آیا۔ صبح کو جب ہم ناشتہ کر رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر اطلاع دی کہ جو بھینس دریا کے بہاؤ کی سمت جنگل میں بندھی تھی۔ جہاں گزشتہ روز ککر اور سانبھر کی آوازیں سنائی دی تھیں، وہاں سے غائب ہے۔ اس گفتگو کے دوران میں ڈویژنل فاریسٹ آفیسر میکڈونلڈ بھی وہاں پہنچ گیا جو اسی روز کالا ڈھونگا سے اپنا کیمپ چوکا میں منتقل کررہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دریا کے بہاؤ کی سمت (غالباً جہاں بھینس بندھی ہوئی تھی) شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے ہیں۔
ناشتے کے بعد مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ مچھلی کے شکار پر چلے گئے اور میں ایبٹسن کے ایک ملازم کے ہمراہ گمشدہ بھینس کی کھوج میں چل پڑا۔ ٹوٹے ہوئے رسے اور شیر کے پنجوں کے نشانوں کے سوا کسی دوسری بات سے یہ ظاہر نہ ہوتا تھا کہ بھینس کو ہلاک کیا گیا ہے۔ بہرحال آس پاس تلاش کرنے پر مجھے خون کی لکیر دکھائی دی۔ نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر شیر اپنے شکار کو تین چار میل کا چکر دے کر اسے پھر سے دریا کے کنارے لے آیا تھا اور یہ جگہ اس جگہ سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر تھی جہاں اس نے بھینس کو ہلاک کیا تھا۔ اس جگہ سے دریا کا پاٹ بہت چھوٹا ہو جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شیر اپنے شکار کے ہمراہ وہیں کہیں لیٹا ہوگا۔ چونکہ میرا ارادہ ساری رات شیر کے انتظار میں بیٹھنے کا تھا لہذا میں نے دن کا باقی وقت مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ کے ہمراہ مچھلیاں پکڑنے میں گزارنا بہتر سمجھا۔ لیکن میں پہلے اس بات کا یقین کرلینا چاہتا تھا کہ شیر وہاں موجود ہے کہ نہیں۔
واپس گاؤں آکر میں نے چار آدمی اور لئے اور پھر اسی سمت چل پڑا۔ میں چاروں آدمیوں کے آگے آگے چل رہا تھا۔ جب میں دریا کے تنگ پاٹ کے قریب پہنچا تو شیر کی غرا ہٹ سنائی دی۔ شیر کی غرا ہٹ مجھ سے بیس گز سامنے گھنی جھاڑیوں میں سے آ رہی تھی۔ جب جنگل میں ایک ان دیکھا شیر قریب ہی غرا رہا ہو تو اس کی آواز بے حد ہیبت ناک ہوتی ہے اور واضح طور پر بتاتی ہے کہ دخل اندازی کی کوشش نہ کرنا۔ اس تنگ جگہ پر جب کہ شیر موزوں جگہ پر بیٹھا تھا اور اس کا پلہ بھاری تھا، میرا آگے بڑھنا سراسر حماقت تھی۔ میں نے اپنے آدمیوں کو پیچھے مڑنے کا اشارہ کیا اور خود بڑی بھی بڑی احتیاط سے الٹے قدموں چلنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کہاں ہے۔ اب میں اس سے دو دو ہاتھ کرسکتا تھا۔ میں نے انہیں گاؤں واپس جانے کے لئے کہا مگر وہ اس قدر خوف زدہ تھے کہ رائفل کی پناہ کے بغیر ایک قدم اٹھانے کو تیار نہ تھے۔ اگر میں انہیں گاؤں چھوڑنے جاتا تو تقریباً دو گھنٹے ضائع ہو جاتے۔ لہذا ناچار انہیں اپنے ساتھ ہی رکھنا پڑا۔
میرا ارادہ تھا کہ شیر کے عقب سے اس پر حملہ کیا جائے۔ دریا کے بائیں کنارے کی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم دریا سے تقریباً دو سو گز پیچھے ہٹ گئے۔ یہاں ہم بائیں سمت کو مڑ گئے۔ دو سو گز مزید چلنے پر ہم پھر بائیں جانب کو ہو لئے۔ اب ہم اس جگہ سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر تھے جہاں سے شیر کی غرا ہٹ سنائی دی تھی۔ اب صورتحال شیر کے بجائے ہمارے حق میں تھی۔ میں جانتا تھا کہ شیر دریا کی سمت نہ جائے گا۔ کیونکہ وہاں اس نے آدمی دیکھ لئے تھے اور نہ ہی پہاڑی کی سمت کیونکہ ایسا کرنے کے لئے اسے ہمارے قریب سے گزرنا پڑتا۔ ہم اسے سامنے والی پہاڑی کی سمت جانے کی ترغیب دینا چاہتے تھے۔ کوئی دس منٹ تک ہم دریا کے کنارے بیٹھے بغور گردوپیش کا جائزہ لیتے رہے۔ تب چند قدم پیچھے ہٹ کر ہم تین گز بائیں سمت کو چلے اور پھر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ میرے ساتھ والے آدمی نے سرگوشی میں کہا، "شیر" اور دریا کی سمت اشارہ کردیا۔ لیکن مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ دوبارہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے فقط شیر کے کان ہلتے ہوئے دیکھے تھے۔کوشش کے باوجود مجھے شیر دکھائی نہ دے سکا۔ اتنے میں ایک آدمی حالات کا ٹھیک جائزہ لینے کو کھڑا ہوا اور شیر جو ہماری طرف منہ کرکے لیٹا ہوا تھا ، اٹھ کھڑا ہوا اور پہاڑی چڑھنے لگا۔ جونہی ایک پہاڑی کے عقب سے اس کاسر دکھائی دیا میں نے گولی چلا دی۔ بعد میں دیکھنے پر معلوم ہوا کہ گولی شیر کی گردن کے بالوں میں سے گزر گئی تھی۔ شیر نے ایک چھلانگ لگائی اور جھاڑیوں کے عقب میں روپوش ہوگیا۔ میرا خیال تھا کہ شیر زخمی نہیں ہوا اور میرا یہ خیال بعد میں صحیح ثابت ہوا کیونکہ جس چٹان میں میری گولی لگی تھی اس کے قریب ہی شیر کے کچھ بال پڑے تھے اور خون کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔
تھوڑے فاصلے پر بھینس پڑی تھی۔ شیر نے اسے گدھوں اور دوسرے گوشت خور پرندوں سے بچانے کی خاطر پانی کے ایک چار فٹ گہرے گڑھے میں چھپایا ہوا تھا۔ چاروں آدمویں کو گاؤں واپس بھیج کر میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک شکار کے قریب چھپا رہا اور جب شیر واپس نہ آیا تو کیمپ واپس لوٹ گیا۔ اگلی صبح ناشتہ کرنے کے بعد میں اور میکڈونلڈ پھر دریا کے کنارے آئے۔ شیر اپنے شکار کو وہاں سے اٹھا کر کچھ فاصلے پر لے گیا تھا اور رات میں اس کا نصف سے زیادہ حصہ کھا گیا تھا۔
ٹھک کی پہلی بھینس کو جسے شیر نے ہلاک کیا تھا اور جس کے قریب میں رات بھر شیر کا انتظار کرتا رہا تھا، وہاں سے اٹھا کر اس سے دو سو گز کے فاصلے پر ایک نئی بھینس باندھ دی گئی تھی۔ چار دن بعد ٹھک کے نمبردار نے ہمیں اطلاع بھیجی کہ شیر اس بھینس کو ہلاک کرکے اٹھا لے گیا ہے۔
ہم نے جلدی سے تیاری کی پھر میں اور ایبٹسن بڑی مشکل چڑھائی عبور کرنے کے بعد اس جگہ پہنچ گئے۔ شیر بھینس کو ہلاک کر کے اسے سیدھا وادی میں لے گیا تھا۔ ہم دونوں شیر کے پنجوں کے نشانات پر چلنے لگے۔ ہمارے پیچھے ہمارے دو ملازم تھے، جنہوں نے ہمارا سامان اٹھا رکھا تھا۔ جلد ہی ہمیں پتا چل گیا کہ شیر اپنا شکار کسی خاص جگہ لے کر گیا تھا۔ آخری گھنی جھاڑیوں میں سے دو گرے ہوئے درختوں پر سے گزر کر شیر نے اپنا شکار ایک چھتری نما درخت کے نیچے چھپا دیا تھا۔ شیر نے اسے ابھی تک چھوا نہیں تھا اور یہ بات ہمارے لئے خاصی پریشان کن تھی۔ بھینس کی گردن پر دانتوں کے نشانات سے پتا چلتا تھا کہ وہ آدم خور شیر ہی تھا۔
اتنا لمبا سفر کرنے سے ہمارے جسم پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر چائے پیتے وقت میں گردوپیش کا جائزہ لینے لگا تاکہ کوئی ایسا درخت نظر آ سکے جس پر میں رات گزار سکوں۔ کوئی تیس گز کے فاصلے پر ایک درخت تھا جس کا ایک تنا زمین سے دس فٹ اوپر زمین کے متوازی جارہا تھا۔ میں نے اس تنے میں مچان کھڑی کردی۔ مچان تیار کرتے وقت ہم لوگ بلند آواز میں باتیں بھی کر رہے تھے تاکہ اگر شیر کہیں آس پاس ہو تو وقتی طور پر وہاں سے ہٹ جائے۔ جب مچان تیار ہوگئی تو ایبٹسن اور میں تھوڑی دیر سگریٹ پیتے اور گپیں لگاتے رہے۔ اس کے بعد وہ دونوں آدمیوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوگیا۔
جس درخت پر ہم نے مچان بنائی تھی وہ زمین سے ۴۵ درجے کا زاویہ بناتا تھا۔ اس کے نیچے کوئی بیس مربع فٹ زمین بالکل ہموار تھی۔ اس کے فورا بعد گھاٹی شروع ہوجاتی تھی۔ جس کی ڈھلوان پر گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ اس گھاٹی کے آخر پر ایک ندی تھی۔ شیر کے آرام کے لئے مثالی جگہ۔
ایبٹسن اور اس کے آدمیوں کو رخصت ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک سرخ بندر چلا چلا کر جنگل کے باسیوں کو شیر کی موجودگی کا احساس دلانے لگا۔ اس سے پتا چلتا تھا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت شیر وہاں موجود نہ تھا اور اب اپنے شکار کے پاس آوازیں سن کر صورت حال کی تحقیق کرنے آرہا ہے۔
میرا منہ پہاڑی کی طرف اور شکار میری دائیں طرف تھا۔ بندر ابھی چھ سات بار ہی چلایا تھا کہ مجھے اپنے نیچے گھاٹی پر کسی خشک لکڑی کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے داہنی طرف دیکھا تو شیر گھاٹی چڑھ کر چالیس گز دورسے میرے درخت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چند منٹ تک وہ درخت کو گھورتا رہا۔ آخر اس نے میری سمت آنے کا فیصلہ کرلیا۔ میرے درخت کے نیچے ہموار زمین کی طرف بڑھتے وقت وہ زیادہ محتاط ہورہا تھا اور اس کا پیٹ زمین سے لگتا جارہا تھا۔ آخر وہ میرے درخت کے نیچے آکر خشک پتوں پر لیٹ گیا۔
پندرہ منٹ تک وہ بالکل خاموش بیٹھا رہا۔ شیر بالکل میرے نیچے لیٹا تھا۔ اس کی تھوڑی زمین پر تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ ایک دم اس نے آنکھیں کھولیں، مکھیاں اڑانے کے لیئے پلکیں جھپکائیں اور پھر سوگیا۔ اب مجھے شیر کی دم اور پچھلی ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر میں درخت پر ذرا بھی حرکت کرتا تو شیر کو میری موجودگی کا علم ہو جانا تھا۔ اس بات کا مجھے یقین تھا کہ شیر نیند پوری کرنے کے بعد اپنے شکار کے پاس جائے گا۔ لیکن کب؟ دوپہر بڑی گرم تھی لیکن شیر نے بڑی سایہ دار جگہ چنی تھی اور ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی اس حالت میں ممکن تھا کہ وہ شام تک سویا رہے اور میں شام کے اندھیرے میں اس پر گولی چلانے کا موقع کھو بیٹھوں۔ لہذا صورت حال کو شیر کی مرضی پر چھوڑنا سراسر غلطی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں جہاں میں بیٹھا تھا وہاں فقط شیر کی دم اور ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے اس حصے پر گولی چلانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ آخر میں نے بڑی احتیاط سے اپنی ٹانگیں اوپر کیں اور آہستہ آہستہ تنے کے اوپر کھڑا ہوگیا۔ اب مجھے شیر کا تین چوتھائی حصہ دکھائی دینے لگا۔ میں نے اپنی پشت کو ایک بڑی شاخ کے ساتھ لگایا اور بندوق کی نالی شیر کی طرف پھیر کر چلا دی۔ شیر بجلی کی طرح اچھلا اور گھاٹی اترنے لگا۔ میں ایک دم اپنی جگہ سے مڑا اور دوسری گولی اس کے سینے میں اتار دی۔ وہ بڑے دل گردے والا شیر ثابت ہوا کیونکہ ایک آواز نکالے بغیر وہیں ڈھیر ہوگیا۔
گولی کی آواز سن کر ایبٹسن اور اس کے ساتھی میری سمت چل پڑے۔ راستے میں میری ان سے ملاقات ہوگئی۔ ہم واپس جائے وقوعہ پر آئے۔ ہم چاروں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اتنے بڑے شیر کو اٹھا کر کیمپ تک لے آتے۔ لہذا ہم آدمیوں کو جمع کرنے گاؤں کی سمت چل پڑے۔
وہ ایک بڑا نر شیر تھا۔ مجھے اس کے جسم کے مختلف حصوں میں شاٹ گن کے کئی چھرے بھی ملے۔ اگلی صبح تقریباً سو افراد کے مجمع کے سامنے ہم نے شیر کی کھال اتاری۔
بشکریہ اردوڈائجسٹ
قیصرانی
۱۹۳۶ء موسم سرما کا ذکر ہے کہ اس موخرالذکر راستے پر ایک آدمی اپنے بیلوں کے ہمراہ جارہا تھا۔ جب وہ چوکا کے قریب پہنچا تو اچانک ایک شیر جھاڑیوں سے نکل کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس آدمی نے انتہائی جرات سے کام لیا اور وہ شیر اور بیلوں کے درمیان کھڑا ہوگیا۔ وہ شیر کو ڈرانے کے لیئے اونچی آواز میں شور مچانے لگا اور ساتھ ہی اپنی لاٹھی گھمانے لگا۔ بیلوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور سرپٹ گاؤں کی طرف بھاگ گئے۔ جب شیر نے اپنے شکار کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو اس نے اپنی توجہ اس آدمی پر مرکوز کردی۔ شیر کے خطرناک ارادے کو بھانپتے ہوئے وہ آدمی پیچھے کو مڑا اور انتہائی تیز رفتاری سے بھاگنے لگا۔ وہ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ شیر چھلانگ لگا کر اس پر کود پڑا۔ اس آدمی کے کندھوں پر ایک بھاری ہل تھا اور اس کی پشت پر ایک بوری تھی جس میں اس نے اپنی ضروریات کی چیزیں باندھ رکھی تھیں۔ شیر نے اپنے دانت اس بوری میں گاڑ دیئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس آدمی نے بوری کو وہیں پھینک دیا اور مدد کے لیئے شور مچاتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔ اس کا واویلا سن کر گاؤں سے اس کے رشتہ دار اور دوست اس کی مدد کو دوڑے چلے آئے لیکن وہ آدمی مزید کسی حادثے کے بغیر گاؤں پہنچ گیا۔ شیر کا ایک پنجہ اس کے دائیں کندھے پر اس زور سے پڑا تھا کہ وہاں ایک گہرا زخم چھوڑ گیا تھا۔
جون ۱۹۳۷ کا ذکر ہے کہ سات آدمی اور دو لڑکے ٹھک سے دو سو گز مغرب کی طرف مویشی چرا رہے تھے۔ دس بجے کے قریب انہیں خیال آیا کہ ان کے کچھ مویشی بھٹک کر جنگل چلے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک چودہ سالہ لڑکے کو انہیں جنگل سے لانے کے لئے بھیجا۔ لڑکے کو بھیج کر یہ لوگ ایک سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سوگئے اور تقریباً چھ گھنٹے بعد بیدار ہوئے تو جنگل میں ایک ہرن کے بولنے کی آواز سنائی دی جو اس سمت سے آ رہی تھی جدھر مویشی بھٹک کر گئے تھے۔ ان آدمیوں نے ایک دوسرے لڑکے کو جس کی عمر بھی تقریباً چودہ برس تھی پہلے لڑکے کے سراغ میں بھیج دیا۔ جونہی وہ جنگل میں داخل ہوا مویشی ایک دم افراتفری کے عالم میں ایک ندی کی طرف دوڑے۔ ندی کے قریب ایک شیر ایک گائے پر کود پڑا اور سات آدمیوں کے سامنے اسے ہلاک کردیا۔ مویشیوں کی بھاگ دوڑ اور آدمیوں کے شور شرابے سے گاؤں والے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں ندی کے سامنے والی کھلی زمین پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ ان لوگوں میں دوسرے لڑکے کی ماں بھی تھی جو بیوہ تھی۔ جب اس نے لوگوں کو اپنے بیٹے کا نام پکارتے سنا تو وہ ان کی طرف صورتحال معلوم کرنے کے لئے گئی۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا جنگل میں مویشیوں کو ہانکنے کے لئے گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا تو وہ خود اس کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس لمحے پہلے لڑکے کے والدین بھی وہاں پہنچ گئے اور جب انہوں نے ان سات آدمیوں سے اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا تو انہیں یاد آیا کہ انہوں نے تو اسے صبح دس بجے سے ہی نہیں دیکھا۔
بیوہ عورت کے پیچھے تمام لوگ بھی جنگل میں داخل ہو گئے وہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اسے اپنے بیٹے کی لاش دکھائی دی اور اس کے قریب ہی جھاڑی میں پہلا لڑکا بھی مرا پڑا تھا۔ شیر نے اس کے جسم کا ایک حصہ کھا لیا تھا۔ دونوں لاشوں کے بیچ ایک بچھڑا مرا پڑا تھا۔ بعد میں جب مجھے اس المناک حادثے کی تفصیل بتائی گئی تو میں نے اندازہ کیا کہ اس روز شیر جنگل میں اس کھلی زمین کے پاس ہی کہیں لیٹا تھا جہاں مویشی چر رہے تھے اور جب بچھڑا جو آدمیوں کے دیکھے بغیر جنگل میں چلا گیا تھا شیر کے قریب آیا تو اس نے اسے ہلاک کردیا اور ابھی وہ اسے اٹھا کر چلنے بھی نہ پا یا تھا کہ پہلا لڑکا اس کی تلاش میں وہاں آ نکلا اور شیر نے اسے بھی ہلاک کردیا۔ اس کے بعد شیر دونوں شکاروں کے پاس چار بجے شام تک لیٹا رہا۔ تب ایک ہرن پانی پینے کی غرض سے گزرا تو اس نے شیر کی بو سونگھ کر بلند آواز میں بولنا شروع کردیا۔ یہ آواز سن کر ان آدمیوں کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ ان کے مویشی جنگل میں چلے گئے تھے اور انہوں نے دوسرے لڑکے کو انہیں واپس ہانکنے کے لئے جنگل میں بھیجا۔ بدقسمتی سے وہ لڑکا بھی سیدھا وہاں جا پہنچا جہاں شیر اپنے شکاروں کی حفاظت کررہا تھا اور اس نے اسے بھی ہلاک کردیا۔
دوسرے لڑکے کی موت کے شاہد مویشی بھی تھے۔ جو اس کی مدد کے لئے فورا وہاں آئے۔ انہوں نے شیر کو وہاں سے بھگا دیا اور خود بھی ڈر کے مارے افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اپنے شکار سے محروم ہونے پر شیر کو غصہ آیا اور وہ بھگوڑے مویشیوں کے پیچھے بھاگا اور آخری گائے پر کود کر اپنا انتقام لے لیا۔ اگر مویشی گاؤں کی سمت نہ بھاگتے تو ممکن تھا کہ شیر کے انتقام کی آگ فقط ایک ہی مویشی کے ہلاک کرنے سے نہ بجھتی۔
ان ظالمانہ حملوں سے نینی تال اور الموڑا کے ضلعوں میں ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور شیر کو ہلاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی۔ ضلع کے بعض افسر رات رات بھر مچانوں پر بیٹھے رہے مگر فقط دو مرتبہ شیر کو زخمی کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس کے بعد شیر نے انتقامی جذبے کے تحت زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا اور خاص طور پر ٹھک کے گاؤں میں۔
ٹھک سے دو سو گز اوپر کی طرف گندم کا ایک کھیت ہے۔ اس میں فصل کاٹی جاچکی تھی اور دو لڑکے مویشی چرا رہے تھے۔ وہ دونوں بھائی تھے۔ اپنی حفاظت کے لئے وہ کھیت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ کھیت کے شمالی کنارے پر جھاڑیوں کا ایک جھنڈ تھا۔ وہاں سے کوئی پہاڑی شروع ہوجاتی تھی جو کوئی ایک ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس پہاڑی پر سے دونوں لڑکے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ شام کے قریب ان کی ایک گائے بھٹک کر جھاڑیوں کے جھنڈ کی طرف چلی گئی۔ دونوں لڑکے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اسے ہانکنے کے لئے ادھر گئے۔ بڑا لڑکا آگے تھا۔ جونہی وہ ایک جھاڑی کے قریب سے گزرا تو شیر جو وہاں چھپا بیٹھا تھا اس پر کود پڑا۔ چھوٹا لڑکا خوف کے مارے گاؤں کی طرف دوڑا اور چوپال میں بیٹھے ہوئے چند آدمیوں کے قدموں میں سسکیاں بھرنے لگا۔ جب لڑکے میں بولنے کی طاقت آئی تو اس نے بتایا کہ ایک بڑے لال رنگ کے جانور نے اس کے بھائی کو ہلاک کردیا ہے۔ اس نے زندگی میں پہلی بار شیر کو دیکھا تھا۔ اسی وقت دیہاتیوں کا ایک گروہ بڑی دلیری سے خون کی لکیر کے پیچھے پیچھے جنگل میں لڑکے کی لاش ڈھونڈنے چل پڑا۔ چونکہ رات قریب تھی لہذا وہ لوگ کوئی ایک میل جنگل میں چل کر واپس ٹھک آ گئے۔ دوسرے دن آس پاس کے دیہات کے لوگوں کی مدد سے انہوں نے پھر اپنی تلاش شروع کردی۔ لیکن سارے دن کی تلاش کے بعد انہیں فقط اس لڑکے کی سرخ ٹوپی اور خون میں لتھڑے ہوئے کپڑے مل سکے۔ چوکا کے آدم خور کا یہ آخری شکار تھا۔
چوکا کے آدم خور شیر کے ڈر سے لدھیا وادی کے لوگ وہاں سے ہجرت کرنے لگے اور جب ایبٹسن نینی تال، الموڑا اور گھڑوال کے اضلاع کا ڈپٹی کمشنر ہوا تو اس نے اپنے ڈویژن کو اس خوفناک شیر سے رہائی دلانے کا تہیہ کرلیا۔
اپریل ۱۹۳۷ء کی ایک دوپہر ایبٹسن، اس کی بیوی اور میں براستہ تنک پور موضع بھوم پہنچے۔ ہم سر سے پاؤں تک گرد میں اٹے ہوئے تھے۔ دریائے ساروا کے کنارے کچھ دیر آرام کرنے کے اور چائے کی ایک پیالی پینے کے بعد ہم تھولی گھاٹ پیدل روانہ ہو پڑے جہاں ہمارے خیمے ملازموں نے پہلے ہی نصب کر رکھے تھے۔ دوسری صبح ہم ناشتہ کرنے کے بعد ہم کالا ڈھونگا پہنچے۔ تھولی گھاٹ اور کالا ڈھونگا کے درمیان آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ ہماری آمد کی اطلاع پہلے ہی سے وہاں پٹواریوں اور جنگل کے محافظوں کو پہنچا دی گئی تھی۔ ان لوگوں کو ہم نے اس لئے جمع ہونے کو کہا تھا کہ وہ ہمیں آدم خور کے متعلق تازہ ترین اطلاعات بہم پہنچا سکیں۔ جب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے تو چار آدمی ہمارے منتظر تھے اور آدم خور کے متعلق ان کی اطلاع حوصلہ افزا تھی۔ گزشتہ چھ سات دنوں میں وہاں کوئی انسان ہلاک نہیں ہوا تھا اور لوگوں کو یقین تھا کہ شیر موضع ٹھک کے گردو نواح میں موجود ہے۔ جہاں اس نے چند روز پہلے ایک بچھڑا ہلاک کیا تھا۔ کالا ڈھونگا ایک پہاڑی وادی میں واقع ہے اور اس کا رقبہ کوئی چار میل کے قریب ہے۔ اس کے تین طرف دریائے ساروا اور چھوتی طرف ایک پہاڑی ہے جو کوئی پانچ ہزار فٹ اونچی ہے۔ ریسٹ ہاؤس دریائے ساروا کے کنارے واقع ہے اور اس کے سامنے والے مناظر دنیا کے خوبصورت ترین مناظر میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔
رات کالا ڈھونگا کے ریسٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد صبح کے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم چوکا کی طرف پیدل چل پڑے جو وہاں سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔ سورج کی شعاعوں میں خوشگوار قسم کی حدت تھی۔ شمال سے جنوب کی طرف ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
آدم خور کے خلاف اپنی تحریک میں مدد اور مزید انسانی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لئے ہم نے چھ نوجوان بھینسے تنک پور سے پہلے ہی چوکا روانہ کر دئیے تھے۔ یہ بھینسے ہم نے شیر کو ترغیب دینے کے لئے استعمال کرنے تھے۔ چوکا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ ان بھینسوں کو جنگل میں مختلف جگہوں پر گزشتہ تین راتوں سے باندھا ہوا ہے اور اگرچہ ایک شیر کے پنجوں کے نشان دو تین بھینسوں کے قریب دیکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ہلاک نہیں ہوا۔ اگلے چار دنوں کے دوران ہم صبح کے وقت ان بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ دن میں شیر کو دیکھنے کی کوشش کرتے اور شام کو ایک دفعہ پھر بینسونں کو دیکھنے جاتے۔ پانچویں صبح کو ٹھک کے قریب جنگل کے کنارے بندھے بھینسے کو شیر اٹھا کر لے گیا۔ اپنے شکار کو گھنے جنگل میں لے جانے کے بجائے جیسا کہ ہمیں توقع تھی شیر اسے ایک کھلے راستے سے پہاڑی پر لے گیا تھا۔ ایسا اس نے ایک مچان سے بچنے کی خاطر کیا تھا۔ اس مچان سے اس پر دو مرتبہ پہلے گولی چلائی جا چکی تھی اور شاید وہ زخمی بھی ہوا تھا۔ بھینسے کو تھوڑی دور لے جانے کے بعد اس کے سینگ دو تنگ چٹانوں کے درمیان پھنس گئے تھے اور شیر اسے وہیں چھوڑ گیا تھا۔ شیر کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑا نر شیر ہے۔
مردہ بھینسے سے بیس فٹ کے فاصلے پر جامن کا ایک درخت تھا۔ بھینسے کو چٹانوں کے درمیان سے کھینچنے کے بعد ہم نے ایک آدمی کو جامن کے درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ اس کی ایسی چند شاخیں توڑ دے جو بھینسے کو پوری طرح دیکھنے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ پہاڑی پر وہ اکیلا ہی درخت تھا اور وہیں بیٹھ کر شیر پر گولی چلائی جاسکتی تھی۔ درخت پر سے گردوپیش کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ شخص درخت کی شاخیں توڑ رہا تھا تو میرا خیال ہے کہ شیر نے اسے دیکھ لیا تھا۔
اس وقت صبح کے گیارہ بجے تھے۔ اپنے آدمیوں کو گاؤں کھانا کھانے کے لئے بھیج کر میں اور ایبٹسن ایک سایہ دار جھاڑی کے نیچے بیٹھ کر سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ اڑھائی بجے کے قریب ہم ہلکا پھلکا کھانا کھا رہے تھے کہ چند جنگلی پرندوں کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ ایبٹسن اور اس کا ملازم شیر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے جنگل میں چلے گئے اور میں جامن کے درخت پر چڑھ گیا۔ جب میں درخت پر ٹھیک طرح بیٹھ سے گیا تو ایبٹسن اور اس کا ملازم جنگل سے باہر نکل آئے اور چوکا کیمپ واپس چلے گئے۔ اپنے پیچھے وہ دو آدمی ٹھک میں چھوڑ گئے۔
ایبٹسن کے جانے کے تھوڑی دیر بعد پھر جنگل میں سے پرندوں کی تیز آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر پھر حرکت کررہا تھا۔ لیکن اس بات کی بہت کم امید تھی کہ وہ شام سے پہلے کھلے میدان میں سے گزر کر اپنے شکار کی طرف آئے گا۔ پرندے تقریباً پندرہ منٹ تک چلاتے رہے اور پھر ایک دم خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد شام تک کوئی آواز سنائی نہ دی اور جنگل پر خاموشی طاری رہی۔
دریائے ساروا کے کنارے نیپال کی پہاڑیوں پر شام کی شفق آہستہ آہستہ اندھیرے میں تبدیل ہونے لگی۔ اتنے میں ایک ہرن کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ شیر اس سمت سے واپس آرہا تھا جدھر سے وہ اپنا شکار چھوڑ کر گیا تھا۔ میرے سامنے درخت کی ایک شاخ تھی جس پر میں نے بندوق کی نال ٹکا رکھی تھی اور شیر کے آنے پر فقط بندوق کے پچھلے حصے کو ذرا اوپر اٹھا کر لبلبی دبانے کی ضرورت تھی۔ وقت آہستہ آہستہ رینگنے لگا پھر دو سو گز کے فاصلے پر پہاڑی کی سمت ککر چیخ اٹھا۔ شیر پر گولی چلانے کے سلسلے میں میری امید نے دم توڑ دیا۔ اب یہ صاف ظاہر تھا کہ شیر نے میرے آدمی کو درخت کی شاخیں توڑتے دیکھ لیا تھا اور پھر شام کے قریب ممکن تھا کہ اس نے مجھے بھی درخت پر بیٹھے دیکھ لیا ہو۔ بہرحال وہ شکار سے پرے پرے چلا گیا تھا۔ اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے سے سانبھر اور ککروں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں لیکن ہر آواز پہلی آواز سے قدرے دور سے آتی تھی۔ نصب شب کے قریب یہ آوازیں بھی بند ہوگئیں اور جنگل پر مکمل خاموشی طاری ہوگئی۔
ابھی دن نکلا ہی تھا کہ میں درخت سے اترا، اپنی سکڑی ہوئی ٹانگیں سیدھی کیں اور ایک قریبی جھاڑی میں چھپائی ہوئی تھرماس سے چائے پینے لگا۔ جب ٹانگوں میں ذرا چستی آئی اور میں قدرے تازہ دم ہوگیا تو گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں آکر پہلے میں نے غسل کیا اور ناشتہ کر کے لٹد گیا۔ رات کے اس تجربے سے میں کچھ دل برداشتہ ہوگیا تھا۔ اتنے میں گاؤں کے چند معتبر لوگ بھی وہاں آ پہنچے۔ میری دل برداشتگی کے اظہار پر انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں ایک دو روز مزید وہاں ٹھہروں۔ انہیں یقین تھا کہ میں شیر کو ہلاک کرلوں گا۔
ایک بجے کے قریب میں پھر ٹھک کی پہاڑیاں چڑھ رہا تھا۔ راستے میں مجھے بتایا گیا کہ ایک سانبھر کی آواز سنی گئی ہے۔ کیمپ سے میں اس ارادے سے چلا تھا کہ اب کے ایک زندہ بھینس کے قریب شیر کا انتظار کروں گا۔ جس طرف سے سانبھر کی آواز سنائی دی تھی وہاں راستے میں ایک درخت تھا۔ ہم نے رسے کی مدد سے اس پر مچان تیار کی اور درخت کے نیچے بھینس باندھ دی۔ تین بجے کے قریب میں اس درخت پر چڑھ گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک ککر کی آواز آئی اور تھوڑی دیر بعد کوئی ہزار گز سے شیر کی گرج سنائی دی۔ بھینس کے آگے بہت سارا چارہ ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے گلے کی گھنٹی رات بھر بجتی رہی مگر وہ شیر کو اپنی سمت متوجہ نہ کرسکی۔
صبح کے وقت جب میں چوکا واپس آیا تو معلوم ہوا ایبٹسن صبح ہونے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا ہے۔ گزشتہ شام اسے اطلاع ملی تھی کہ لدھیا وادی سے آٹھ میل دور ایک شیر نے ایک بیل ہلاک کردیا تھا۔ وہ ساری رات اس بیل کے قریب شیر کے انتظار میں بیٹھا رہا مگر بے سود۔ دوسری شام وہ کیمپ واپس چلا آیا۔ صبح کو جب ہم ناشتہ کر رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر اطلاع دی کہ جو بھینس دریا کے بہاؤ کی سمت جنگل میں بندھی تھی۔ جہاں گزشتہ روز ککر اور سانبھر کی آوازیں سنائی دی تھیں، وہاں سے غائب ہے۔ اس گفتگو کے دوران میں ڈویژنل فاریسٹ آفیسر میکڈونلڈ بھی وہاں پہنچ گیا جو اسی روز کالا ڈھونگا سے اپنا کیمپ چوکا میں منتقل کررہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دریا کے بہاؤ کی سمت (غالباً جہاں بھینس بندھی ہوئی تھی) شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے ہیں۔
ناشتے کے بعد مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ مچھلی کے شکار پر چلے گئے اور میں ایبٹسن کے ایک ملازم کے ہمراہ گمشدہ بھینس کی کھوج میں چل پڑا۔ ٹوٹے ہوئے رسے اور شیر کے پنجوں کے نشانوں کے سوا کسی دوسری بات سے یہ ظاہر نہ ہوتا تھا کہ بھینس کو ہلاک کیا گیا ہے۔ بہرحال آس پاس تلاش کرنے پر مجھے خون کی لکیر دکھائی دی۔ نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر شیر اپنے شکار کو تین چار میل کا چکر دے کر اسے پھر سے دریا کے کنارے لے آیا تھا اور یہ جگہ اس جگہ سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر تھی جہاں اس نے بھینس کو ہلاک کیا تھا۔ اس جگہ سے دریا کا پاٹ بہت چھوٹا ہو جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شیر اپنے شکار کے ہمراہ وہیں کہیں لیٹا ہوگا۔ چونکہ میرا ارادہ ساری رات شیر کے انتظار میں بیٹھنے کا تھا لہذا میں نے دن کا باقی وقت مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ کے ہمراہ مچھلیاں پکڑنے میں گزارنا بہتر سمجھا۔ لیکن میں پہلے اس بات کا یقین کرلینا چاہتا تھا کہ شیر وہاں موجود ہے کہ نہیں۔
واپس گاؤں آکر میں نے چار آدمی اور لئے اور پھر اسی سمت چل پڑا۔ میں چاروں آدمیوں کے آگے آگے چل رہا تھا۔ جب میں دریا کے تنگ پاٹ کے قریب پہنچا تو شیر کی غرا ہٹ سنائی دی۔ شیر کی غرا ہٹ مجھ سے بیس گز سامنے گھنی جھاڑیوں میں سے آ رہی تھی۔ جب جنگل میں ایک ان دیکھا شیر قریب ہی غرا رہا ہو تو اس کی آواز بے حد ہیبت ناک ہوتی ہے اور واضح طور پر بتاتی ہے کہ دخل اندازی کی کوشش نہ کرنا۔ اس تنگ جگہ پر جب کہ شیر موزوں جگہ پر بیٹھا تھا اور اس کا پلہ بھاری تھا، میرا آگے بڑھنا سراسر حماقت تھی۔ میں نے اپنے آدمیوں کو پیچھے مڑنے کا اشارہ کیا اور خود بڑی بھی بڑی احتیاط سے الٹے قدموں چلنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کہاں ہے۔ اب میں اس سے دو دو ہاتھ کرسکتا تھا۔ میں نے انہیں گاؤں واپس جانے کے لئے کہا مگر وہ اس قدر خوف زدہ تھے کہ رائفل کی پناہ کے بغیر ایک قدم اٹھانے کو تیار نہ تھے۔ اگر میں انہیں گاؤں چھوڑنے جاتا تو تقریباً دو گھنٹے ضائع ہو جاتے۔ لہذا ناچار انہیں اپنے ساتھ ہی رکھنا پڑا۔
میرا ارادہ تھا کہ شیر کے عقب سے اس پر حملہ کیا جائے۔ دریا کے بائیں کنارے کی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم دریا سے تقریباً دو سو گز پیچھے ہٹ گئے۔ یہاں ہم بائیں سمت کو مڑ گئے۔ دو سو گز مزید چلنے پر ہم پھر بائیں جانب کو ہو لئے۔ اب ہم اس جگہ سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر تھے جہاں سے شیر کی غرا ہٹ سنائی دی تھی۔ اب صورتحال شیر کے بجائے ہمارے حق میں تھی۔ میں جانتا تھا کہ شیر دریا کی سمت نہ جائے گا۔ کیونکہ وہاں اس نے آدمی دیکھ لئے تھے اور نہ ہی پہاڑی کی سمت کیونکہ ایسا کرنے کے لئے اسے ہمارے قریب سے گزرنا پڑتا۔ ہم اسے سامنے والی پہاڑی کی سمت جانے کی ترغیب دینا چاہتے تھے۔ کوئی دس منٹ تک ہم دریا کے کنارے بیٹھے بغور گردوپیش کا جائزہ لیتے رہے۔ تب چند قدم پیچھے ہٹ کر ہم تین گز بائیں سمت کو چلے اور پھر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ میرے ساتھ والے آدمی نے سرگوشی میں کہا، "شیر" اور دریا کی سمت اشارہ کردیا۔ لیکن مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ دوبارہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے فقط شیر کے کان ہلتے ہوئے دیکھے تھے۔کوشش کے باوجود مجھے شیر دکھائی نہ دے سکا۔ اتنے میں ایک آدمی حالات کا ٹھیک جائزہ لینے کو کھڑا ہوا اور شیر جو ہماری طرف منہ کرکے لیٹا ہوا تھا ، اٹھ کھڑا ہوا اور پہاڑی چڑھنے لگا۔ جونہی ایک پہاڑی کے عقب سے اس کاسر دکھائی دیا میں نے گولی چلا دی۔ بعد میں دیکھنے پر معلوم ہوا کہ گولی شیر کی گردن کے بالوں میں سے گزر گئی تھی۔ شیر نے ایک چھلانگ لگائی اور جھاڑیوں کے عقب میں روپوش ہوگیا۔ میرا خیال تھا کہ شیر زخمی نہیں ہوا اور میرا یہ خیال بعد میں صحیح ثابت ہوا کیونکہ جس چٹان میں میری گولی لگی تھی اس کے قریب ہی شیر کے کچھ بال پڑے تھے اور خون کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔
تھوڑے فاصلے پر بھینس پڑی تھی۔ شیر نے اسے گدھوں اور دوسرے گوشت خور پرندوں سے بچانے کی خاطر پانی کے ایک چار فٹ گہرے گڑھے میں چھپایا ہوا تھا۔ چاروں آدمویں کو گاؤں واپس بھیج کر میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک شکار کے قریب چھپا رہا اور جب شیر واپس نہ آیا تو کیمپ واپس لوٹ گیا۔ اگلی صبح ناشتہ کرنے کے بعد میں اور میکڈونلڈ پھر دریا کے کنارے آئے۔ شیر اپنے شکار کو وہاں سے اٹھا کر کچھ فاصلے پر لے گیا تھا اور رات میں اس کا نصف سے زیادہ حصہ کھا گیا تھا۔
ٹھک کی پہلی بھینس کو جسے شیر نے ہلاک کیا تھا اور جس کے قریب میں رات بھر شیر کا انتظار کرتا رہا تھا، وہاں سے اٹھا کر اس سے دو سو گز کے فاصلے پر ایک نئی بھینس باندھ دی گئی تھی۔ چار دن بعد ٹھک کے نمبردار نے ہمیں اطلاع بھیجی کہ شیر اس بھینس کو ہلاک کرکے اٹھا لے گیا ہے۔
ہم نے جلدی سے تیاری کی پھر میں اور ایبٹسن بڑی مشکل چڑھائی عبور کرنے کے بعد اس جگہ پہنچ گئے۔ شیر بھینس کو ہلاک کر کے اسے سیدھا وادی میں لے گیا تھا۔ ہم دونوں شیر کے پنجوں کے نشانات پر چلنے لگے۔ ہمارے پیچھے ہمارے دو ملازم تھے، جنہوں نے ہمارا سامان اٹھا رکھا تھا۔ جلد ہی ہمیں پتا چل گیا کہ شیر اپنا شکار کسی خاص جگہ لے کر گیا تھا۔ آخری گھنی جھاڑیوں میں سے دو گرے ہوئے درختوں پر سے گزر کر شیر نے اپنا شکار ایک چھتری نما درخت کے نیچے چھپا دیا تھا۔ شیر نے اسے ابھی تک چھوا نہیں تھا اور یہ بات ہمارے لئے خاصی پریشان کن تھی۔ بھینس کی گردن پر دانتوں کے نشانات سے پتا چلتا تھا کہ وہ آدم خور شیر ہی تھا۔
اتنا لمبا سفر کرنے سے ہمارے جسم پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر چائے پیتے وقت میں گردوپیش کا جائزہ لینے لگا تاکہ کوئی ایسا درخت نظر آ سکے جس پر میں رات گزار سکوں۔ کوئی تیس گز کے فاصلے پر ایک درخت تھا جس کا ایک تنا زمین سے دس فٹ اوپر زمین کے متوازی جارہا تھا۔ میں نے اس تنے میں مچان کھڑی کردی۔ مچان تیار کرتے وقت ہم لوگ بلند آواز میں باتیں بھی کر رہے تھے تاکہ اگر شیر کہیں آس پاس ہو تو وقتی طور پر وہاں سے ہٹ جائے۔ جب مچان تیار ہوگئی تو ایبٹسن اور میں تھوڑی دیر سگریٹ پیتے اور گپیں لگاتے رہے۔ اس کے بعد وہ دونوں آدمیوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوگیا۔
جس درخت پر ہم نے مچان بنائی تھی وہ زمین سے ۴۵ درجے کا زاویہ بناتا تھا۔ اس کے نیچے کوئی بیس مربع فٹ زمین بالکل ہموار تھی۔ اس کے فورا بعد گھاٹی شروع ہوجاتی تھی۔ جس کی ڈھلوان پر گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ اس گھاٹی کے آخر پر ایک ندی تھی۔ شیر کے آرام کے لئے مثالی جگہ۔
ایبٹسن اور اس کے آدمیوں کو رخصت ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک سرخ بندر چلا چلا کر جنگل کے باسیوں کو شیر کی موجودگی کا احساس دلانے لگا۔ اس سے پتا چلتا تھا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت شیر وہاں موجود نہ تھا اور اب اپنے شکار کے پاس آوازیں سن کر صورت حال کی تحقیق کرنے آرہا ہے۔
میرا منہ پہاڑی کی طرف اور شکار میری دائیں طرف تھا۔ بندر ابھی چھ سات بار ہی چلایا تھا کہ مجھے اپنے نیچے گھاٹی پر کسی خشک لکڑی کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے داہنی طرف دیکھا تو شیر گھاٹی چڑھ کر چالیس گز دورسے میرے درخت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چند منٹ تک وہ درخت کو گھورتا رہا۔ آخر اس نے میری سمت آنے کا فیصلہ کرلیا۔ میرے درخت کے نیچے ہموار زمین کی طرف بڑھتے وقت وہ زیادہ محتاط ہورہا تھا اور اس کا پیٹ زمین سے لگتا جارہا تھا۔ آخر وہ میرے درخت کے نیچے آکر خشک پتوں پر لیٹ گیا۔
پندرہ منٹ تک وہ بالکل خاموش بیٹھا رہا۔ شیر بالکل میرے نیچے لیٹا تھا۔ اس کی تھوڑی زمین پر تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ ایک دم اس نے آنکھیں کھولیں، مکھیاں اڑانے کے لیئے پلکیں جھپکائیں اور پھر سوگیا۔ اب مجھے شیر کی دم اور پچھلی ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر میں درخت پر ذرا بھی حرکت کرتا تو شیر کو میری موجودگی کا علم ہو جانا تھا۔ اس بات کا مجھے یقین تھا کہ شیر نیند پوری کرنے کے بعد اپنے شکار کے پاس جائے گا۔ لیکن کب؟ دوپہر بڑی گرم تھی لیکن شیر نے بڑی سایہ دار جگہ چنی تھی اور ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی اس حالت میں ممکن تھا کہ وہ شام تک سویا رہے اور میں شام کے اندھیرے میں اس پر گولی چلانے کا موقع کھو بیٹھوں۔ لہذا صورت حال کو شیر کی مرضی پر چھوڑنا سراسر غلطی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں جہاں میں بیٹھا تھا وہاں فقط شیر کی دم اور ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے اس حصے پر گولی چلانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ آخر میں نے بڑی احتیاط سے اپنی ٹانگیں اوپر کیں اور آہستہ آہستہ تنے کے اوپر کھڑا ہوگیا۔ اب مجھے شیر کا تین چوتھائی حصہ دکھائی دینے لگا۔ میں نے اپنی پشت کو ایک بڑی شاخ کے ساتھ لگایا اور بندوق کی نالی شیر کی طرف پھیر کر چلا دی۔ شیر بجلی کی طرح اچھلا اور گھاٹی اترنے لگا۔ میں ایک دم اپنی جگہ سے مڑا اور دوسری گولی اس کے سینے میں اتار دی۔ وہ بڑے دل گردے والا شیر ثابت ہوا کیونکہ ایک آواز نکالے بغیر وہیں ڈھیر ہوگیا۔
گولی کی آواز سن کر ایبٹسن اور اس کے ساتھی میری سمت چل پڑے۔ راستے میں میری ان سے ملاقات ہوگئی۔ ہم واپس جائے وقوعہ پر آئے۔ ہم چاروں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اتنے بڑے شیر کو اٹھا کر کیمپ تک لے آتے۔ لہذا ہم آدمیوں کو جمع کرنے گاؤں کی سمت چل پڑے۔
وہ ایک بڑا نر شیر تھا۔ مجھے اس کے جسم کے مختلف حصوں میں شاٹ گن کے کئی چھرے بھی ملے۔ اگلی صبح تقریباً سو افراد کے مجمع کے سامنے ہم نے شیر کی کھال اتاری۔
بشکریہ اردوڈائجسٹ
قیصرانی