نیلم
محفلین
جنیاتی طور پر چوہا ایک ایسا جانور ہے جو انسانوں سے بہت قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان جب انسانی بیماریوں پر تحقیق کرتے ہیں تو بالعموم چوہوں کو تختۂ مشق بناتے ہیں۔ ان میں بیماریوں کے جراثیم داخل کئے جاتے ہیں اور پھر مختلف تجرباتی دوائیں اور ویکسین دے کر ان کے نتائج دیکھے جاتے ہیں ۔ اگر یہ تجربات کامیاب رہتے ہیں تو پھر انسانوں کو یہ دوائیں دی جاتی ہیں، تاکہ حتمی نتائج کی جانچ کی جاسکے ۔
شاید یہ اسی جنیاتی مماثلت کا نتیجہ ہے کہ چوہے گھروں میں گھس کر انسانی غذائیں مثلاً روٹی وغیرہ شوق سے کھاتے ہیں اور دیگر کارآمد اشیا بھی کتر جاتے ہیں۔ اس لیے انسان انہیں سخت ناپسند کرتے ہیں اور ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔
آج کل چوہوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک نئی قسم کا ٹریپ استعمال ہورہا ہے۔ اس میں سے انسانی غذا مثلاً روٹی، چاول وغیرہ کی انتہائی تیز خوشبو اٹھ رہی ہوتی ہے۔ اس کی ایک سائیڈ خالی ہوتی ہے اور دوسری سائیڈ پر ایک انتہائی طاقت ور گلو (ایک اچھی قسم کا گوند) لگا ہوتا ہے۔ رات کے وقت اسے چوہوں کی آمدورفت کے راستے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اندھیرا ہوتے ہی چوہے خوشبو کے پیچھے دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور اس پر چڑھ جاتے ہیں، مگر پھر انہیں اس سے کبھی اترنا نصیب نہیں ہوتا، کیونکہ انتہائی طاقت ور گلو ان کے پاؤں جکڑ لیتا ہے۔
عام چوہے دان ایک چوہے کو پکڑ کر غیر مؤثر ہوجاتا ہے، مگر یہ ٹریپ انسانی خوراک کی خوشبو کے پیچھے آنے والے مزید چوہوں کا شکار کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹریپ کی جگہ ختم ہوجائے یا چوہے ختم ہوجائیں یارات ختم ہوجائے ۔ پھر صبح اس قید خانے کو چیختے چلاتے قیدیوں کے ساتھ اٹھاکر کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جہاں وہ جان سے چلے جاتے ہیں، مگر اپنی جگہ سے ہل نہیں پاتے ۔
یہ عجیب سانحہ ہے یا شاید یہ بھی جنیاتی مماثلت کا اثر ہے کہ اتنی ہوشیاری سے چوہوں کا شکار کرنے والا انسان خود بھی اکثر ایک “چوہا ” ثابت ہوتا ہے۔جنس اور پیٹ کے تقاضے، اولاد کی محبت، مال کی حرص، شہرت کا نشہ، اقتدار کی ہوس، معاشرے میں بلند اسٹیٹس کی تمنا، وسیع بینک بیلنس ، بڑی بڑی جائدادیں، ترقی کرتے ہوئے کاروبار، چلتے ہوئے کارخانے، نئے ماڈل کی چمکتی دمکتی گاڑیاں، عالیشان گھر ، فارن ٹرپس اور نہ جانے کیا کچھ، یہ سب آدمی کے لیے اکثر اوقات چوہے دان ثابت ہوتے ہیں، جنھیں اس کا شکاری ، ابلیس، اس کی راہ میں رکھ دیتا ہے۔ ان کی کشش میں انسان پیغمبروں سے انگلی چھڑاکر دیوانہ وار ان کی طرف بھاگتا ہے ۔ قرآن پیچھے سے آوازیں دیتا رہ جاتا ہے کہ “یہ تو دنیا کی زندگی کا سازوسامان ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ٹھکانہ ہے” مگر کون پلٹ کر دیکھتا ہے۔
انسان خواہشات کی ایک فہرست بناتا ہے اور ان کے پیچھے دوڑ لگادیتا ہے ۔یہاں تک کہ وہ ان چیزوں کو پالیتا ہے، مگر عین اسی لمحے حالات کا “گلو” اسے جکڑلیتا ہے۔ خواہشات کی محدود فہرست ایک لامحدود چکر میں بدل جاتی ہے ۔ وہ لاکھ سر پٹخ لے، اس کے لیے ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اس چکر سے نکل جائے۔ اس کے بعد صرف موت اس کا مقدر ہوتی ہے، پھر جو بچتا ہے، وہ درحقیقت صرف ایک چلتی پھرتی زندہ لاش ہوتی ہے، جس سے اٹھنے والے تعفن کو ہم جیسے لوگ شاید محسوس نہ کرسکیں ، مگر خدا کے فرشتے وہاں سے ناک بند کرکے گزرتے ہیں، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ نیکی کے فرشتے تو وہاں سے گزرتے ہی نہیں، ہاں صرف وہ فرشتے گزرتے ہیں جن کا کام ایسے “چوہوں” کو وقت آنے پر اٹھا کر جہنم کے کوڑے دان میں پھینکنا ہوتا ہے۔
انسانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک اس ’’ٹریپ‘‘ میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پہلا ’’چوہا‘‘ بھی وہاں مزے کررہا ہے۔ اس کے دیکھا دیکھی وہ بھی اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے اس دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ بالآخر سب کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔ البتہ جو لوگ خواہشات کے اس جال سے بچ کر نکل جائیں، ان کا استقبال عالم کا پروردگار خود یوں کرے گا:
’’اے نفس مطمئنہ، لوٹ چل اپنے رب کی طرف اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پھر داخل ہوجا میرے بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں ‘‘۔
چوہوں کو پکڑنے والو! اپنے چوہے دان کو پہچانو۔ تمہارے شکاری ابلیس نے اس دور میں نت نئے چوہے دان بنالیے ہیں
شاید یہ اسی جنیاتی مماثلت کا نتیجہ ہے کہ چوہے گھروں میں گھس کر انسانی غذائیں مثلاً روٹی وغیرہ شوق سے کھاتے ہیں اور دیگر کارآمد اشیا بھی کتر جاتے ہیں۔ اس لیے انسان انہیں سخت ناپسند کرتے ہیں اور ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔
آج کل چوہوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک نئی قسم کا ٹریپ استعمال ہورہا ہے۔ اس میں سے انسانی غذا مثلاً روٹی، چاول وغیرہ کی انتہائی تیز خوشبو اٹھ رہی ہوتی ہے۔ اس کی ایک سائیڈ خالی ہوتی ہے اور دوسری سائیڈ پر ایک انتہائی طاقت ور گلو (ایک اچھی قسم کا گوند) لگا ہوتا ہے۔ رات کے وقت اسے چوہوں کی آمدورفت کے راستے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اندھیرا ہوتے ہی چوہے خوشبو کے پیچھے دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور اس پر چڑھ جاتے ہیں، مگر پھر انہیں اس سے کبھی اترنا نصیب نہیں ہوتا، کیونکہ انتہائی طاقت ور گلو ان کے پاؤں جکڑ لیتا ہے۔
عام چوہے دان ایک چوہے کو پکڑ کر غیر مؤثر ہوجاتا ہے، مگر یہ ٹریپ انسانی خوراک کی خوشبو کے پیچھے آنے والے مزید چوہوں کا شکار کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹریپ کی جگہ ختم ہوجائے یا چوہے ختم ہوجائیں یارات ختم ہوجائے ۔ پھر صبح اس قید خانے کو چیختے چلاتے قیدیوں کے ساتھ اٹھاکر کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جہاں وہ جان سے چلے جاتے ہیں، مگر اپنی جگہ سے ہل نہیں پاتے ۔
یہ عجیب سانحہ ہے یا شاید یہ بھی جنیاتی مماثلت کا اثر ہے کہ اتنی ہوشیاری سے چوہوں کا شکار کرنے والا انسان خود بھی اکثر ایک “چوہا ” ثابت ہوتا ہے۔جنس اور پیٹ کے تقاضے، اولاد کی محبت، مال کی حرص، شہرت کا نشہ، اقتدار کی ہوس، معاشرے میں بلند اسٹیٹس کی تمنا، وسیع بینک بیلنس ، بڑی بڑی جائدادیں، ترقی کرتے ہوئے کاروبار، چلتے ہوئے کارخانے، نئے ماڈل کی چمکتی دمکتی گاڑیاں، عالیشان گھر ، فارن ٹرپس اور نہ جانے کیا کچھ، یہ سب آدمی کے لیے اکثر اوقات چوہے دان ثابت ہوتے ہیں، جنھیں اس کا شکاری ، ابلیس، اس کی راہ میں رکھ دیتا ہے۔ ان کی کشش میں انسان پیغمبروں سے انگلی چھڑاکر دیوانہ وار ان کی طرف بھاگتا ہے ۔ قرآن پیچھے سے آوازیں دیتا رہ جاتا ہے کہ “یہ تو دنیا کی زندگی کا سازوسامان ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ٹھکانہ ہے” مگر کون پلٹ کر دیکھتا ہے۔
انسان خواہشات کی ایک فہرست بناتا ہے اور ان کے پیچھے دوڑ لگادیتا ہے ۔یہاں تک کہ وہ ان چیزوں کو پالیتا ہے، مگر عین اسی لمحے حالات کا “گلو” اسے جکڑلیتا ہے۔ خواہشات کی محدود فہرست ایک لامحدود چکر میں بدل جاتی ہے ۔ وہ لاکھ سر پٹخ لے، اس کے لیے ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اس چکر سے نکل جائے۔ اس کے بعد صرف موت اس کا مقدر ہوتی ہے، پھر جو بچتا ہے، وہ درحقیقت صرف ایک چلتی پھرتی زندہ لاش ہوتی ہے، جس سے اٹھنے والے تعفن کو ہم جیسے لوگ شاید محسوس نہ کرسکیں ، مگر خدا کے فرشتے وہاں سے ناک بند کرکے گزرتے ہیں، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ نیکی کے فرشتے تو وہاں سے گزرتے ہی نہیں، ہاں صرف وہ فرشتے گزرتے ہیں جن کا کام ایسے “چوہوں” کو وقت آنے پر اٹھا کر جہنم کے کوڑے دان میں پھینکنا ہوتا ہے۔
انسانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک اس ’’ٹریپ‘‘ میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پہلا ’’چوہا‘‘ بھی وہاں مزے کررہا ہے۔ اس کے دیکھا دیکھی وہ بھی اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے اس دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ بالآخر سب کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔ البتہ جو لوگ خواہشات کے اس جال سے بچ کر نکل جائیں، ان کا استقبال عالم کا پروردگار خود یوں کرے گا:
’’اے نفس مطمئنہ، لوٹ چل اپنے رب کی طرف اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پھر داخل ہوجا میرے بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں ‘‘۔
چوہوں کو پکڑنے والو! اپنے چوہے دان کو پہچانو۔ تمہارے شکاری ابلیس نے اس دور میں نت نئے چوہے دان بنالیے ہیں