جاسم محمد
محفلین
چُکیل: سوات کے فیری میڈوز
تحریر و تصاویر: امجد علی سحاب
اگر اہلِ گلگت بلتستان کو ’فیری میڈوز‘ پر فخر ہے، تو اہلِ خیبر پختونخوا کو بجا طور پر ’چکیل بانڈہ‘ پر فخر کرنا چاہیے، جہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
خیبر پختونخوا کی جنت نظیر وادی سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے محض 77 کلومیٹر کے فاصلے پر وادئ مانکیال تک کا راستہ پختہ سڑک کی شکل میں ملتا ہے، جہاں سے آگے فور بائے فور گاڑی کے ذریعے وادئی مانکیال کے مختلف درّوں بڈئی، سیرئی اور گٹ خوا کے پہاڑوں کا سینہ چیر کر کچا مگر پُرخطر راستہ بنایا گیا ہے، جو مانکیال ندی (مانکیال خوڑ) کے ساتھ ساتھ آخری اسٹاف (گٹ خوا) تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی صبر آزما مسافت پر مشتمل ہے۔
گٹ خوا کے سرسبز و شاداب علاقے سے گزرنے کا عمل جاری ہے
گٹ خوا میں گپ شپ جاری ہے
اس چھوٹی سی آبشار سے چکیل اور فیری میڈوز کے راستے جدا ہوتے ہیں
چرواہوں کے کچے کوٹھے جس کے پیچھے مانکیال سیریز کے پہاڑ نظر آ رہے ہیں
دورانِ سفر مانکیال ندی کا مسحور کن شور، بڈئی، سیرئی اور دیگر درّوں کی خوبصورتی سیاحوں پر سحر طاری کردیتی ہے۔ راستہ چونکہ پُرخطر ہے، اس لیے کمزور دل سیاح پورے راستے کلمۂ طیبہ کے ورد کے ساتھ نظریں ڈرائیور کی طرح راستے پر ہی گاڑے رکھتے ہیں۔
گٹ خوا وہ آخری درّہ ہے جہاں فور بائے فور گاڑی کا راستہ ختم اور پیدل سفر شروع ہوجاتا ہے۔ گٹ خوا کے رہائشی اور ہمارے گائیڈ 19 سالہ محمد بلال کے مطابق سیزن (یکم جون تا 31 اگست) میں یہاں سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ’ہمارا علاقہ حکومتی عدم توجہی کی بنا پر باقی ماندہ دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ اگر محکمۂ سیاحت اور متعلقہ حکومتی و غیر حکومتی ادارے اس طرف نظرِ کرم فرمائیں، تو سیاح گلگت بلتستان کے فیری میڈوز کی کہانی بھول جائیں گے۔‘
ہماری ٹیم (فلک سیر ٹریکنگ کلب) چونکہ سیزن آف ہونے کے بعد پہنچی تھی، اس لیے بانڈہ کی خوبصورتی کسی حد تک ماند پڑگئی تھی۔ محمد بلال کے بقول موسمِ بہار میں یہ پوری وادی خود رو پھولوں کی چادر تان لیتی ہے۔ ایسے میں چُکیل پر جنت کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کا گمان ہوتا ہے۔
کوہِ سجن کے اوپر بادلوں کی دلفریب آنکھ مچولی جاری ہے
چرواہوں کا کوٹھا، مانکیال سیریز اور بادل الگ سماں باندھ رہے ہیں
چکیل بانڈہ میں دھوپ اور چھاؤں کا حسین امتزاج
گٹ خوا سے آگے پیدل مسافت شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ایک صبر آزما مرحلہ اس لیے ہے کہ چُکیل بانڈہ، گٹ خوا کے قبلہ رُو پہاڑ کے اوپر واقع ہے۔ یہ پہاڑ 3 اطراف سے گھنے جنگل سے اٹا پڑا ہے۔ دیار کے لمبے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں زگ زیگ اسٹائل کا گزرتا ہوا راستہ چوٹی تک رسائی دیتا ہے۔ نیچے سے نظارہ کرنے پر یہ راستہ رینگتے ہوئے سانپ کی شکل بناتا ہے۔
مختلف پرندوں کی آوازیں پہاڑ پر چڑھائی کے اس مشکل مرحلے میں کانوں میں رَس گھولتی رہتی ہیں۔ چوٹی پر پہنچتے ہی حیرت انگیز طور پر ایک وسیع میدان، تاحدِ نگاہ سرسبز و شاداب چراہ گاہ، اس میں چرتے جانور اور چرواہوں کے کچے کوٹھے نظر آتے ہیں جو طمانیت بخشنے کے لیے کافی و شافی ہیں۔ ایسے ہی کسی موقع پر شاعر کے دل سے یہ آواز نکلی ہوگی کہ
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
چکیل بانڈہ میں دھوپ اور چھاؤں کے امتزاج کا ایک اور دلفریب منظر
چکیل میں خیمے لگانے کے لیے ایک کھلا ڈھلا میدان موجود ہے
ناشتے کے لیے پراٹھے تیار کیے جا رہے ہیں
کوہِ سجن کی چوٹی صاف نظر آ رہی ہے
چُکیل میں شرقاً مانکیال سیریز کی مختلف چوٹیوں کے اوپر بادلوں کی آنکھ مچولی ایک الگ سماں باندھ لیتی ہے۔ مٹلتان سوات سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ گائیڈ محمد اللہ کاکا کے بقول چُکیل سے نظر آنے والی سب سے لمبی چوٹی کوشین یا کوہِ سجن کہلاتی ہے۔ ’یہ چوٹی مینگورہ شہر سے صاف نظر آتی ہے۔ اگر اس کی بہتر طور پر تشہیر کی جائے، تو بین الاقوامی کوہِ پیما اس طرف راغب ہوجائیں گے اور اسے سَر کرنے کی کوئی سبیل نکال لیں گے۔‘
محمد اللہ کاکا نے آگے بتایا کہ ’میری عمر 65 سال ہے۔ 45 سال سے مختلف علاقائی، قومی و بین الاقوامی ٹریکر اور کوہِ پیماؤں کو گائیڈنس دیتا چلا آرہا ہوں۔ مگر اتنے سالوں میں، مَیں نے کسی کی جانب سے بھی کوہِ سجن کو سَر کرنے کے حوالے سے نہیں سنا ہے‘۔
مانکیال سیریز کا ایک پہاڑ، اڑتے بادل اور چاند سماں باندھ رہے ہیں
خانکو جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر
خانکو جھیل
موسمِ بہار میں چُکیل کے ساتھ ہی کھڑے پہاڑ کے اوپر پڑی ہوئی برف سے پانی وافر مقدار میں دستیاب ہوجاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے نالوں کی شکل میں بہتا پانی ایک مدھر موسیقی جنم دیتا ہے۔
چُکیل کیمپنگ کے لیے وسیع میدان ہے۔ سیزن میں چرواہے اپنے کوٹھوں میں قیام پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اپنے ساتھ خیمے لیے جائیں۔
وہاں چونکہ کسی قسم کا کوئی ریسٹورنٹ وغیرہ بھی نہیں، اس لیے کھانے کی اشیا بھی ساتھ لینا نہ بھولیں۔
چکیل کے ساتھ لگے پہاڑ کی چوٹی تک 3 گھنٹے کی مزید ہائیکنگ کی جاسکتی ہے، جہاں بالکل ٹاپ سے ایک راستہ ایک پیاری جھیل خانکو تک نکلتا ہے۔
جھیل الپائن چوٹیوں کی گود میں واقع ہے، جہاں تک تجربہ کار ٹریکرز ہی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
تحریر و تصاویر: امجد علی سحاب
اگر اہلِ گلگت بلتستان کو ’فیری میڈوز‘ پر فخر ہے، تو اہلِ خیبر پختونخوا کو بجا طور پر ’چکیل بانڈہ‘ پر فخر کرنا چاہیے، جہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
خیبر پختونخوا کی جنت نظیر وادی سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے محض 77 کلومیٹر کے فاصلے پر وادئ مانکیال تک کا راستہ پختہ سڑک کی شکل میں ملتا ہے، جہاں سے آگے فور بائے فور گاڑی کے ذریعے وادئی مانکیال کے مختلف درّوں بڈئی، سیرئی اور گٹ خوا کے پہاڑوں کا سینہ چیر کر کچا مگر پُرخطر راستہ بنایا گیا ہے، جو مانکیال ندی (مانکیال خوڑ) کے ساتھ ساتھ آخری اسٹاف (گٹ خوا) تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی صبر آزما مسافت پر مشتمل ہے۔
گٹ خوا کے سرسبز و شاداب علاقے سے گزرنے کا عمل جاری ہے
گٹ خوا میں گپ شپ جاری ہے
اس چھوٹی سی آبشار سے چکیل اور فیری میڈوز کے راستے جدا ہوتے ہیں
چرواہوں کے کچے کوٹھے جس کے پیچھے مانکیال سیریز کے پہاڑ نظر آ رہے ہیں
دورانِ سفر مانکیال ندی کا مسحور کن شور، بڈئی، سیرئی اور دیگر درّوں کی خوبصورتی سیاحوں پر سحر طاری کردیتی ہے۔ راستہ چونکہ پُرخطر ہے، اس لیے کمزور دل سیاح پورے راستے کلمۂ طیبہ کے ورد کے ساتھ نظریں ڈرائیور کی طرح راستے پر ہی گاڑے رکھتے ہیں۔
گٹ خوا وہ آخری درّہ ہے جہاں فور بائے فور گاڑی کا راستہ ختم اور پیدل سفر شروع ہوجاتا ہے۔ گٹ خوا کے رہائشی اور ہمارے گائیڈ 19 سالہ محمد بلال کے مطابق سیزن (یکم جون تا 31 اگست) میں یہاں سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ’ہمارا علاقہ حکومتی عدم توجہی کی بنا پر باقی ماندہ دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ اگر محکمۂ سیاحت اور متعلقہ حکومتی و غیر حکومتی ادارے اس طرف نظرِ کرم فرمائیں، تو سیاح گلگت بلتستان کے فیری میڈوز کی کہانی بھول جائیں گے۔‘
ہماری ٹیم (فلک سیر ٹریکنگ کلب) چونکہ سیزن آف ہونے کے بعد پہنچی تھی، اس لیے بانڈہ کی خوبصورتی کسی حد تک ماند پڑگئی تھی۔ محمد بلال کے بقول موسمِ بہار میں یہ پوری وادی خود رو پھولوں کی چادر تان لیتی ہے۔ ایسے میں چُکیل پر جنت کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کا گمان ہوتا ہے۔
کوہِ سجن کے اوپر بادلوں کی دلفریب آنکھ مچولی جاری ہے
چرواہوں کا کوٹھا، مانکیال سیریز اور بادل الگ سماں باندھ رہے ہیں
چکیل بانڈہ میں دھوپ اور چھاؤں کا حسین امتزاج
گٹ خوا سے آگے پیدل مسافت شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ایک صبر آزما مرحلہ اس لیے ہے کہ چُکیل بانڈہ، گٹ خوا کے قبلہ رُو پہاڑ کے اوپر واقع ہے۔ یہ پہاڑ 3 اطراف سے گھنے جنگل سے اٹا پڑا ہے۔ دیار کے لمبے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں زگ زیگ اسٹائل کا گزرتا ہوا راستہ چوٹی تک رسائی دیتا ہے۔ نیچے سے نظارہ کرنے پر یہ راستہ رینگتے ہوئے سانپ کی شکل بناتا ہے۔
مختلف پرندوں کی آوازیں پہاڑ پر چڑھائی کے اس مشکل مرحلے میں کانوں میں رَس گھولتی رہتی ہیں۔ چوٹی پر پہنچتے ہی حیرت انگیز طور پر ایک وسیع میدان، تاحدِ نگاہ سرسبز و شاداب چراہ گاہ، اس میں چرتے جانور اور چرواہوں کے کچے کوٹھے نظر آتے ہیں جو طمانیت بخشنے کے لیے کافی و شافی ہیں۔ ایسے ہی کسی موقع پر شاعر کے دل سے یہ آواز نکلی ہوگی کہ
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
چکیل بانڈہ میں دھوپ اور چھاؤں کے امتزاج کا ایک اور دلفریب منظر
چکیل میں خیمے لگانے کے لیے ایک کھلا ڈھلا میدان موجود ہے
ناشتے کے لیے پراٹھے تیار کیے جا رہے ہیں
کوہِ سجن کی چوٹی صاف نظر آ رہی ہے
چُکیل میں شرقاً مانکیال سیریز کی مختلف چوٹیوں کے اوپر بادلوں کی آنکھ مچولی ایک الگ سماں باندھ لیتی ہے۔ مٹلتان سوات سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ گائیڈ محمد اللہ کاکا کے بقول چُکیل سے نظر آنے والی سب سے لمبی چوٹی کوشین یا کوہِ سجن کہلاتی ہے۔ ’یہ چوٹی مینگورہ شہر سے صاف نظر آتی ہے۔ اگر اس کی بہتر طور پر تشہیر کی جائے، تو بین الاقوامی کوہِ پیما اس طرف راغب ہوجائیں گے اور اسے سَر کرنے کی کوئی سبیل نکال لیں گے۔‘
محمد اللہ کاکا نے آگے بتایا کہ ’میری عمر 65 سال ہے۔ 45 سال سے مختلف علاقائی، قومی و بین الاقوامی ٹریکر اور کوہِ پیماؤں کو گائیڈنس دیتا چلا آرہا ہوں۔ مگر اتنے سالوں میں، مَیں نے کسی کی جانب سے بھی کوہِ سجن کو سَر کرنے کے حوالے سے نہیں سنا ہے‘۔
مانکیال سیریز کا ایک پہاڑ، اڑتے بادل اور چاند سماں باندھ رہے ہیں
خانکو جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر
خانکو جھیل
موسمِ بہار میں چُکیل کے ساتھ ہی کھڑے پہاڑ کے اوپر پڑی ہوئی برف سے پانی وافر مقدار میں دستیاب ہوجاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے نالوں کی شکل میں بہتا پانی ایک مدھر موسیقی جنم دیتا ہے۔
چُکیل کیمپنگ کے لیے وسیع میدان ہے۔ سیزن میں چرواہے اپنے کوٹھوں میں قیام پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اپنے ساتھ خیمے لیے جائیں۔
وہاں چونکہ کسی قسم کا کوئی ریسٹورنٹ وغیرہ بھی نہیں، اس لیے کھانے کی اشیا بھی ساتھ لینا نہ بھولیں۔
چکیل کے ساتھ لگے پہاڑ کی چوٹی تک 3 گھنٹے کی مزید ہائیکنگ کی جاسکتی ہے، جہاں بالکل ٹاپ سے ایک راستہ ایک پیاری جھیل خانکو تک نکلتا ہے۔
جھیل الپائن چوٹیوں کی گود میں واقع ہے، جہاں تک تجربہ کار ٹریکرز ہی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔