شاہ صاحب! بالآخر پوری غزل مل گئی، سوچا یہاں شراکت کر دی جائے۔
چھن گئی درد کی دولت کیسے
ہو گئی دل کی یہ حالت کیسے
مل گئی آپ کو فرصت کیسے
یاد آئی میری صورت کیسے
پوچھ ان سے جو بچھڑ جاتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کیسے
تیری خاطر تو یہ آنکھیں پائیں
میں بھلا دوں تیری صورت کیسے
اب رہا کیا ہے مِرے دامن میں
اب اُسے میری ضرورت کیسے
تجھ سے اب کوئی تعلق ہی نہیں
تجھ سے اب کوئی شکایت کیسے
کاش ہم کو بھی بتا دے کوئی
لوگ کرتے ہیں محبت کیسے
تیرے دل میں میری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی میری قسمت کیسے
وہ تو خود اپنی تمنا ہے، عدیم !
اس کے دل میں کوئی چاہت کیسے