شمشاد
لائبریرین
چٹنی قدیم زمانے سے کھانے کے ساتھ چلی آ رہی ہے اور ہر معاشرے اور ہر قوم میں اس کو وہی مقام حاصل ہے جو دل کے ساتھ کلیجی کو حاصل ہے۔ کھانے کے ساتھ اگر چٹنی مل جائے تو کھانے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے اور جہاں کسی نے ایک چپاتی کھانی ہوتی ہے وہ دو چپاتیاں کھا جاتا ہے۔
اب یہ کیسے وجود میں آئی اور اس کے اجزاء کیا کیا ہیں، اس پر بہت تحقیق کے بعد مندرجہ ذیل واقعات کا علم ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم میں جب کہ آجکل کی طرح مصالحہ پیسنے کےلیے گرائنڈر اور مکسر وغیرہ دستیاب نہیں تھے، تو گھر کی بیبیاں سِل بٹہ یا کونڈی ڈندا استعمال کرتی تھیں۔ بہت سے ایسے خاندان بھی تھے جہاں ان بیبیوں کے بیبے بھی گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے اور اس میں کسی قسم کی شرم یا عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ یقین نہ آئے تو اپنے ظفری بھائی سے پوچھ لیں۔
سل بٹہ اپنی جگہ، لیکن کونڈی ڈنڈے کو امتیازی مقام حاصل تھا کہ کونڈی کے ڈنڈے کے کثیر المقاصد فوائد تھے۔ اس زمانے میں کپڑے دھونے کی مشین ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور کپڑوں کو پٹخ پٹخ کر اور ڈنڈے سے کوٹ کوٹ کر دھویا جاتا تھا۔ تو کونڈی کا یہی ڈنڈا یہاں بھی استعمال میں آتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ جو پنجابی کی مشہور مثال ہے "وگڑیاں تگڑیاں دا پیر ڈنڈا" تو وہ یہی کونڈی کا ڈنڈا ہے۔ تو یہ تو ہوا برسبیل تذکرہ۔ اب چلتے ہیں چٹنی کی طرف۔
دوسری دفعہ کا ذکر ہے (ایک دفعہ کا ذکر بہت بار ہو چکا ہے) کہ ایک بیبا دوپہر کے کھانے پکانے کے لیے سبزی لینے بازار گیا۔ اس نے سبزی کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ الم غلم اسی دکان سے خریدا، جس میں دھنیا، پودینہ، سبز مرچ، لال مرچ وغیرہ وغیرہ شامل ہے۔ گھر پہنچ کر اس نے وہ سارا سامان اپنی بی بی کے حوالے کیا۔ بی بی نے دیکھتے ہی، جو کہ بیبیوں کی عادت ہوتی ہے، کہنے لگی یہ تم کیا کچھ خرید لائے ہو، ان کی تو ضرورت ہی نہیں تھی۔ ایسے ہی فضول خرچی کر کے آ گئے ہو۔ اگر یہی پیسے بچائے ہوتے تو آج ہم ایک عدد بھینس کے مالک ہوتے۔ یہ لیکچر اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ بیبے نے کونڈی کا ڈنڈا نہیں اٹھا لیا۔ بی بی یہ دیکھ کر دم دبا کر باورچی خانے میں گھس گئی اور لگی خود کلامی کرنے۔
بیبا وہ سارا الم غلم کچھ سوچ کر ہی لایا تھا۔ وہ بھی پیچھے ہی باورچی خانے میں گیا اور وہ ساری چیزیں یعنی کہ دھنیا، پودینہ، سبز مرچ، لال مرچ وغیرہ وغیرہ الگ کر کے اور انہیں دھو کر ایک سینی میں ڈالا۔ پھر دھنیے کے پتے الگ کیے، پودینے کے پتے الگ کیے، سبز اور سرخ مرچوں کی ڈنڈیاں توڑیں اور ان سبکو کونڈی میں ڈال کر اور تصور میں اپنے سسر اور سالے کو لا کر جو کوٹنا شروع کیا تو الامان و الحفیظ۔ جب اچھی طرح کوٹ چکا تو اس میں نمک ملانے کے لیے الماری کی طرف گیا، جہاں سب مصالحے رکھے ہوئے تھے، وہاں نمک کے علاوہ اسے انار دانہ بھی نظر آیا۔ اس نے نمک کے علاوہ بی بی کی نظر بچا کر تھوڑا سا انار دانا بھی کونڈی میں ڈال دیا، نمک بھی اس نے کونڈی میں ڈالا اور پھر سے کوٹنا شروع کیا۔ اس دفعہ تصور میں ساس اور سالی تھیں۔ جب اچھی طرح کوٹ چکا اور سب چیزیں ایک جسم اور ایک ہی قالب ہو گئے تو اس ملغوبے کو اس نے ایک کول میں نکالا اور اپنی بی بی کو بلا کر کہنے لگا کہ "چٹ نی"۔ وہ اس کا ذائقہ اپنی بی بی کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ بی بی نے جب اس کو چٹا تو اس کو بڑی لذت آئی اور اس نے اپنے بیبے کی بڑی تعریف کی۔ تو صاحبان و قدردان یہاں سے اس کا نام "چٹ نی" سے "چٹنی" پڑا اور آج تک یہ اسی نام سے لکھی اور پکاری جاتی ہے۔
امید ہے آپ کو میری چٹنی پسند آئی ہو گی۔
اب یہ کیسے وجود میں آئی اور اس کے اجزاء کیا کیا ہیں، اس پر بہت تحقیق کے بعد مندرجہ ذیل واقعات کا علم ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم میں جب کہ آجکل کی طرح مصالحہ پیسنے کےلیے گرائنڈر اور مکسر وغیرہ دستیاب نہیں تھے، تو گھر کی بیبیاں سِل بٹہ یا کونڈی ڈندا استعمال کرتی تھیں۔ بہت سے ایسے خاندان بھی تھے جہاں ان بیبیوں کے بیبے بھی گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے اور اس میں کسی قسم کی شرم یا عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ یقین نہ آئے تو اپنے ظفری بھائی سے پوچھ لیں۔
سل بٹہ اپنی جگہ، لیکن کونڈی ڈنڈے کو امتیازی مقام حاصل تھا کہ کونڈی کے ڈنڈے کے کثیر المقاصد فوائد تھے۔ اس زمانے میں کپڑے دھونے کی مشین ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور کپڑوں کو پٹخ پٹخ کر اور ڈنڈے سے کوٹ کوٹ کر دھویا جاتا تھا۔ تو کونڈی کا یہی ڈنڈا یہاں بھی استعمال میں آتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ جو پنجابی کی مشہور مثال ہے "وگڑیاں تگڑیاں دا پیر ڈنڈا" تو وہ یہی کونڈی کا ڈنڈا ہے۔ تو یہ تو ہوا برسبیل تذکرہ۔ اب چلتے ہیں چٹنی کی طرف۔
دوسری دفعہ کا ذکر ہے (ایک دفعہ کا ذکر بہت بار ہو چکا ہے) کہ ایک بیبا دوپہر کے کھانے پکانے کے لیے سبزی لینے بازار گیا۔ اس نے سبزی کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ الم غلم اسی دکان سے خریدا، جس میں دھنیا، پودینہ، سبز مرچ، لال مرچ وغیرہ وغیرہ شامل ہے۔ گھر پہنچ کر اس نے وہ سارا سامان اپنی بی بی کے حوالے کیا۔ بی بی نے دیکھتے ہی، جو کہ بیبیوں کی عادت ہوتی ہے، کہنے لگی یہ تم کیا کچھ خرید لائے ہو، ان کی تو ضرورت ہی نہیں تھی۔ ایسے ہی فضول خرچی کر کے آ گئے ہو۔ اگر یہی پیسے بچائے ہوتے تو آج ہم ایک عدد بھینس کے مالک ہوتے۔ یہ لیکچر اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ بیبے نے کونڈی کا ڈنڈا نہیں اٹھا لیا۔ بی بی یہ دیکھ کر دم دبا کر باورچی خانے میں گھس گئی اور لگی خود کلامی کرنے۔
بیبا وہ سارا الم غلم کچھ سوچ کر ہی لایا تھا۔ وہ بھی پیچھے ہی باورچی خانے میں گیا اور وہ ساری چیزیں یعنی کہ دھنیا، پودینہ، سبز مرچ، لال مرچ وغیرہ وغیرہ الگ کر کے اور انہیں دھو کر ایک سینی میں ڈالا۔ پھر دھنیے کے پتے الگ کیے، پودینے کے پتے الگ کیے، سبز اور سرخ مرچوں کی ڈنڈیاں توڑیں اور ان سبکو کونڈی میں ڈال کر اور تصور میں اپنے سسر اور سالے کو لا کر جو کوٹنا شروع کیا تو الامان و الحفیظ۔ جب اچھی طرح کوٹ چکا تو اس میں نمک ملانے کے لیے الماری کی طرف گیا، جہاں سب مصالحے رکھے ہوئے تھے، وہاں نمک کے علاوہ اسے انار دانہ بھی نظر آیا۔ اس نے نمک کے علاوہ بی بی کی نظر بچا کر تھوڑا سا انار دانا بھی کونڈی میں ڈال دیا، نمک بھی اس نے کونڈی میں ڈالا اور پھر سے کوٹنا شروع کیا۔ اس دفعہ تصور میں ساس اور سالی تھیں۔ جب اچھی طرح کوٹ چکا اور سب چیزیں ایک جسم اور ایک ہی قالب ہو گئے تو اس ملغوبے کو اس نے ایک کول میں نکالا اور اپنی بی بی کو بلا کر کہنے لگا کہ "چٹ نی"۔ وہ اس کا ذائقہ اپنی بی بی کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ بی بی نے جب اس کو چٹا تو اس کو بڑی لذت آئی اور اس نے اپنے بیبے کی بڑی تعریف کی۔ تو صاحبان و قدردان یہاں سے اس کا نام "چٹ نی" سے "چٹنی" پڑا اور آج تک یہ اسی نام سے لکھی اور پکاری جاتی ہے۔
امید ہے آپ کو میری چٹنی پسند آئی ہو گی۔
آخری تدوین: