چپکے چپکے رات کو صورت دکھا کر چل دئیے۔ سید غلام محی الدین گیلانی ؒ

چپکے چپکے رات کو صورت دکھا کر چل دئیے
بے رخی سے آگ سینے میں لگا کر چل دئیے

آئے کیا آ کر نہ پوچھا اس دلِ بِسمل کا حال
اپنی شانِ حسن کا جلوہ دکھا کے چل دئیے

میں نے جب حسرت بھری نظروں سے حالِ دل کہا
اک نئے انداز سے وہ مسکرا کر چل دئیے

دل تڑپتا رہ گیا اک مرغِ بِسمل کی طرح
وہ ادا و ناز سے خنجر چلا کر چل دئیے

جن کی اک نظرِ کرم پر منحصر تھی زندگی
دیکھ کر منہ پھیر کر تیور چڑھا کر چل دئیے

بزمِ جاناں تک رسائی یہ کہاں تقدیر میں
ان کے ہم نقشِ قدم پر سر جھکا کر چل دئیے

یہ سنا ہے بعد میں وہ بھی پریشان ہو گئے
جب انہیں ہم ماجرائے دل سنا کر چل دئیے

جان و دل قربان ان پر جو نگاہِ ناز سے
دل میں میرے اک نئی دنیا بسا کر چل دئیے

میں تھا مصروف فغاں چپکے سے آ کر میرے پاس
اپنے پائے ناز سے ٹھوکر لگا کر چل دئیے

جن کی ہیں مشتاق آنکھیں یہ کرشمہ دیکھ لیں
رنگ میں بے رنگ کی صورت دکھا کر چل دئیے

پیر سید غلام محی الدین ؒ
 
Top