فرذوق احمد
محفلین
ُاس وقت تقریباََ رات کے 11:30 ہو گئے تھے جب میں نے اپنے دوست ذیشان سے واپس گھر آنے کی اجازت لی ۔اس نے مجھے کافی منع کیا کہ رہنے دو موسم خراب ہیں ،صبح چلے جانا ،مگر میں شروع سے ہی کسی کے گھر رہنے سے بہت کتراتا تھا ۔خیر میرے بار بار کہنے سے اس نے مجھے اجازت دے دی اور اس نے مجھ پر ایک مہربانی اور کی کہ مجھے سٹاپ تک چھوڑ گیا ۔۔اب میں سٹاپ پر بالکل اکیلا کھڑا تھا اور موسم بھی خراب تھا اور سڑکیں ویران تھی اور اوپر سے سائیں سائیں کرتی ہوائیں میں تو گھبرا گیا۔پھر خدا کا نام لے کر چل پڑا ۔(ظاہر ہیں انسان کتنی دیر تک ڈر سکتا ہیں گھر بھی تو جانا ہوتا ہیں ) اور سڑک کے دوسری جانب جا کر کھڑا ہو گیا ۔جہاں سے میری بس آنی تھی ۔مگر غذب خدا کا آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا مجھے کھڑے ہوئے کو ایک بھی بس پاس سے نہیں گزری بیٹھا تو دور کی بات تھی پھر ماڑی قسمت سوچا گھر پاس ہی ہیں پیدل ہی چلتا ہو ۔پھر یوں ہوا کے چلتے چلتے یوہی کوئی مل گیاتھا ۔
ایک گاڑی نظر آئی اور وہ میرے پاس آ کر روک گئی ۔پہلے تو میں گھبرایا ،مگر خدا کا نام لے کر کھڑا ہو گیا کے جو ہوگا دیکھا جائے گا ۔مگر جیسے ہی گاری کا شیشہ اوپر ہوا۔میں تو اپنی ہوش ہی کھو بیٹھا ،آہ کیا نظارہ تھا ۔۔میں اس پل میں اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھ سکتا تھا ۔بھئی کیوں نہ سمجھتا ،دنیا کی سب سے حسین لڑکی جو سامنے تھی کچھ دیر تو میں اسے دیکھتا رہا ۔مگر اچانک اس کی آواز میں چونک گیا اور سوچوں کے حصار سے باہر آیا۔اس نے مجھے کہا،،کہاں جانا ہیں آپ کو ۔۔اس کے منہ سے یہ لفظ سن کر میں اسلیے چونکہ کے پہلی بار میں نے لڑکی کے منہ سے یہ سنا تھا کے کہاں جائے گے آپ ۔ورنہ فلم میں اور حقیقت میں لڑکا ہی لڑکی کو کہتا ہیں کہاں جائے گی آپ ۔خیر میں نے بتایا کے میں گرین ٹاؤن جاناہیں اور اگلا لفط اس نے کہاں ۔میرا خیال ہیں قبرستان کے پاس آپ کا گھر ہیں ،یہ سن کر میں جو میں نے اچھے خیالات اس کے بارے میں سنے تھے وہ سب بھول گیا ،اور زہن میں ایک ہی بات رہ گئی بھئی یہ تو کوئی اور ہی مخلوق ہیں،مگر اس وقت میں کیا کر سکتا ہیں میں گاڑی میں جو بیٹھ گیا تھا ۔خیر گاڑی میں بیٹھ کر آیتہ الکرسی پڑھنی شروع کردی ،پھر تھوڑی دیر بعد اس نے کہاں یہ آیتہ الکرسی کیوں پڑھ رہے ہوں میں کوئی چڑیل تو نہیں ۔دیکھوں چڑیل کےپاؤں تو موڑے ہوتے ہیں مگر میرے تو بالکل صحیح ہیں ، میں نے اسکی بات سنی اور اس کے پاؤں دیکھے ۔اور آیتہ الکرسی کو وہی چھوڑا اور زہن میں ایک خیال آیا ۔۔آپ کے پیر بڑے حسین ہیں انہیں زمین پر مت اتارئے گا میلے ہو جائے گے ۔مگر کمال ہیں اس نے مجھے کہاں میں جانتی ہو کہ میرے پیر خوبصورت ہیں ،تم زبان سے کہوں نہ زہن میں ایسے نہیں سوچتے ۔میرا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا تھا ،یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کو میں کیا کہوں چڑیل یا کچھ اور ۔اور مجھے کسی اور بلاء کا نام بھی نہیں آتا تھا کے میں اسکو وہ کہہ لو خیر میں نے اسی کشمکش میں ایک بار پھر آیتہ الکرسی کا سہارا لیا ۔اور اپنے آپ کو پرسکون محسوس کرنے لگا ۔میں آیتہ الکرسی میں مشغول تھا کے اس نے مجھے کہاں لو بھئی ہمارا گھر آ گیا ہیں ۔میں نے اچانک کہاں کیا مطلب ہمارا گھر۔صرف میرے اکیلے کا گھر ہیں ۔گھر گھر گھر ۔مگر میرا گھر ہیں کہاں ہیں یہ تم مجھے کہاں لے آئی ہوں،پھر اس نے مجھے کہاں میں تمیں اس لیے یہاں لے کرآئی ہوں کے تمیں بتا سکوں کے میں کوئی چڑیل نہیں ہوں بلکہ تمہاری طرح ایک انسان ہو ۔مگر تم یقین نہیں کر رہے ،بار بار آیتہ الکرسی کیوں پڑھ رہے ،تمیں بتایا ہیں نہ ۔کہ میں چڑیل نہیں ہوں مگر تم یقین نہیں کر رہے ہوں ۔میں نے اسکی یہ بات سنی اور کہاں پھر تم یہ کیسے جان لیتی ہوں کے میں آیتہ الکرسی پڑھ رہا ہوں جبکہ آیتہ الکرسی تو میں اپنے دماغ میں ہی پڑھ رہا ہوتا ہوں، پھر اس نے کہاں دیکھوں ہر بندع کے پاس کوئی نہ کوئی تو فن ضرور ہوتا ہیں نہ ۔جیسا کہ تم ایک بہت بڑے پولیس والے ہوں کسی بھی کیس کو بڑی آسانے سے ہینڈل کر لیتے ہو ۔ یہ تمہاری فن ہی ہیں ،اور دماغ میں کیا ہیں ،یہ فن میرے پاس ہیں سمجھے ۔۔ اس کی بات سن کر میں کافی حد تک مطمئن ہو گیا،مگر پھر ایک سوال زہن میں آیا کہ اس نے کیسے جانا کہ میں پولیس والا ہیں لیکین پھر اپنے ہی سوال شرمندہ ہوا کے لڑکی زہن پڑھ لیتی ہیں یہ بات بھی میرے زہن میں آ گئی ہو گی ۔۔اب میں اس سے پوری طرح مطمئن تھا، پھر اس نے مجھ سے پوچھا کے تمہارا نام احمد ہیں ۔اور میں نے اثبات میں سر ہلایا،اور کیا کرتا میں تو اس کی ہر بات کو اس کا فن ہی سمجھ رہا تھا ۔پھر میری نظر اس کے بالوں پر پڑی ،آہ کیا بال تھے لمبےگھنیرے بس میں تو اس پر پوری طرح فدا ہو گیا تھا ،پھر اس نے کہاں بھئی یہ تو بتاؤں کے تمیں یہ جگہ کیسی لگی ۔اور مین نے جگہ دیکھی تو ایک اور خیال آیا ۔یہ کیا جگہِ ہیں دوستوں یہ کون سا دیار ہیں
،بس اس وقت میرا دماغخراب تھا کے قبرستان مں یہ خیال آیا۔
لیکین مجھے کوئی احساس نہیں تھا کہ یہ قبرستان ہیں کہ کوئی حیسن باغ میں تو اس کا بے پناہ حسن دیکھ کر گِرتا ہی جا رہا تھا ،پھر اس نے کہاں یہ جو باتیں تم سوچ رہے اگر مجھ سے کہو تو کتنا اچھا ہو گا ،مگر تم تو کیسے ہوں میں جتنے بھی آدمی یہاں لے کر آئی ہوں سب ااتنی اچھے باتیں کرتے تھے ،مگر ایک تم ہو چپ بیٹھے ہو ،بس دماغ میں ہی سوچے جا رہے ہو چلو مجھ سے کوئی بات کروں
،ویسے ایک بات کہوں احمد ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا کتنا اچھا ہو اگر ایسے موسم میں بارش بھی ہو جائے ۔میں نے یہ سنا اور کہاں ہاں واقعی کتنا رومانٹک موسم ہو جائے گا ،یہ بات میں نے ہونٹ ہلا کر کہی۔بس یہ کہنا تھا کہ ایک یک دم ایک بارش ہونی شروع ہو گئی ،اور بارش بھی اتنی تیز کے میں اپنی پوری زندگی میں اتنی تیز بارش نہیں دیکھی تھی ۔میں نے یہی بات اب اس سے ہونٹوں سے کہی۔مگر یہ کیا اس نے میرا ھاتھ تھام لیا تھا ۔ابھی اس نے میرا ھاتھ تھاما ہی تھا کہ قسمت ماڑی مجھے چھینکیں آنی شروع ہو گی ،شاید مجھے بخار ہو گیا تھا ۔بھئی ظاہر اتنی تیز بارش اور بخار نہ ہو ۔یہ کیسے ہو سکتا ہیں ،میں نے اس کہاں بارش تیز ہو رہی ہیں یہاں کوئی کمرہ وغیرہ نہیں ہیں ،اس نے کہاں کمرہ تو نہیں ہین البتا بارش کم ہو سکتی ہیں ،بس اس نے یہ کہاں اور بارش رک گئی ،میری ان چیزوں کی طرف کوئی توجہ نہ تھی کے یہ سب اس کے کہنے سے ہو رہا ،ہیں میں تو بس اسکے بے پناہ حسن پہ ہی مر مٹاتھا
،میں نے کہاں اچھا یہاں کوئی اور نہیں ہیں تو اس نے کہں نہیں ہیں صرف ہم دونوں ہی ہیں ،پھر میں نے کہاں ،،میرا لیٹے کو دل چا رہا ہیں ،تو اس بے کہاں اچھا میں ابھی جگہ بناتی ہو۔
بس یہ کہنا تھا کہ پاس ہی قبر تھی اس میں سے ایک مردہ اتھ کھڑا ہوا ۔یہ دیکھ کر تو مین ایک بوکھلا گیا ،اور چکرا کر زمین پر گر گیا ۔۔اور جب میری آنکھ کھولی تو میں اپنے گھر میں تھا ۔سب گھر والے میرے اردگرد کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے اور میری امی مجھے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کر رہے تھی ،اور پھر ابو نے مجھ سے پوچھا کے فیاض بیٹا رات کو کیا ہوا تھا ۔مجھے یہ نام کچھ اجنبی سا لگا ،اور میں نے ابو سے پوچھا فیاض کون ہیں ۔ اور ابو نے بڑے پیار سے جواب دیا بیٹے تمہارا نام فیاض ہیں اور کسکا ہیں ،مین ایک دم بھڑک اٹھا نہیں میرا نام فیاص نہیں ہیں میرا نام احمد ہیں احمد ہیں ،اور مجھے یہاں کون لے کر آیا ہیں میں نے واپس اسی کے پاس جانا ہیں مین اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا میں نے اسی کے پاس جانا ہیں اسی کے پاس جانا ہیں اسی کے پاس جانا ہیں ۔یہ ہی لفظ کہتا ہوا مین دوبارہ پھر بے ہوش ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ایک دن بعد مجھے ہوش آیا ،مگر کمرے میں کوئی نہ تھا ،مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے اپنی طرف بلا رہی ہوں ۔میں مکمل طور پر اسکے عشق میں گرفتار ہو چکا تھا ،پھر اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور میرے ابو کمرے میں داخل ہوئے اور کہاں اب کیسے ہوں فیاض بیٹے ۔مگر جیسے ہی ابو نے یہ نام لیا۔میں پھر بھڑک اٹھا ،نہیں میرا نام فیاض نہیں ہیں میرا نام فیاض نہیں ہیں ۔مجھے نہیں پتا میرا نام فیاض نہیں ہیں ،یہ بچوں کی سی حرکتیں کرنے لگا ۔
اور میرے ابو کو کچھ شک سا ہوا ۔کہ ضروی کچھ ہوا ہیں ۔
پھر اگلے ہی دن میرے ابو مجھے ایک بزرگ کے پاس لے گے۔۔
انہوں نے میرا ایک ہفتہ علاج کیا اور مجھے اپنے نام کی پہچان ہو گئی ،پھر اس بزرگ نے مجھ سے ساری بات پوچھی اور میں نے بتا دی ۔انہوں نے مجھ سے کہاں کہ تمہاری سب سے بڑی غلطی تھی کے تم جب آیتہ الکرسی کا ورد کر رہے تھے جو تم نے روک دیا یہ سب سے بڑی غلطی ہیں ،، ہمیشہ ایک بات یاد رکھنا کبھی خوبصورتی دیکھ کر ڈھیلے نہ پڑنا ،ہماری قوم کی سب سے بڑی غلطی یہ ہیں کے خوبصورتی جیسا ہم سے کہتی ہیں ہم ویسا ہی کرتے ہیں اور خدا کی زات کو بھول جاتے ہیں ۔جہاں تم نے آیتہ الکرسی ورد چھوڑا تھا وہ تمہاری محبت یا عشق نہیں تھا ،بلکہ تمہارا حوس تھا ۔۔۔ اور خدا کے علاوہ یہ کوئی نہیں جان سکتا کہ
دل و دماغ میں کیا ہیں ،اس وقت تمہیں صرف اسکی خوبصورتی یاد تھی اور کچھ نہیں وہ جو کچھ کہہ رہی تھی تمیں اسی لیے سچ لگ رہا تھا ۔۔ اور تم اس دن اسلیے بچ گئے تھے ۔۔۔۔ کہ اذان ہو رہی تھی
جاؤں اور آج کے بعد ہمشہ سچ کو تسلیم کرنا ،اور کچھ نہیں ------
آج اس بات بیتے پانچ سال ہو گئے ہیں مگر خدا شکر ہیں اب میں تبدیل ہو گیا ہو ں۔اور اس بزرگ نے مجھے بتایا تھا کے وہ لڑکی چڑیل ہی تھی
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
خیالی کہانی ہیں
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج ترقی یافتہ دور میں ،جنوں بھتوں کے وجود کو کم ہی تسلیم کیا جاتا ہیں ،،،مگر ایک بات ہیں کہ شیطان ہیں جو ہمیں بھڑکانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہیں ،،مگر ایک طاقت خدا کی ہیں ،جسے ہم نے پہچاننا ہیں
ایک گاڑی نظر آئی اور وہ میرے پاس آ کر روک گئی ۔پہلے تو میں گھبرایا ،مگر خدا کا نام لے کر کھڑا ہو گیا کے جو ہوگا دیکھا جائے گا ۔مگر جیسے ہی گاری کا شیشہ اوپر ہوا۔میں تو اپنی ہوش ہی کھو بیٹھا ،آہ کیا نظارہ تھا ۔۔میں اس پل میں اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھ سکتا تھا ۔بھئی کیوں نہ سمجھتا ،دنیا کی سب سے حسین لڑکی جو سامنے تھی کچھ دیر تو میں اسے دیکھتا رہا ۔مگر اچانک اس کی آواز میں چونک گیا اور سوچوں کے حصار سے باہر آیا۔اس نے مجھے کہا،،کہاں جانا ہیں آپ کو ۔۔اس کے منہ سے یہ لفظ سن کر میں اسلیے چونکہ کے پہلی بار میں نے لڑکی کے منہ سے یہ سنا تھا کے کہاں جائے گے آپ ۔ورنہ فلم میں اور حقیقت میں لڑکا ہی لڑکی کو کہتا ہیں کہاں جائے گی آپ ۔خیر میں نے بتایا کے میں گرین ٹاؤن جاناہیں اور اگلا لفط اس نے کہاں ۔میرا خیال ہیں قبرستان کے پاس آپ کا گھر ہیں ،یہ سن کر میں جو میں نے اچھے خیالات اس کے بارے میں سنے تھے وہ سب بھول گیا ،اور زہن میں ایک ہی بات رہ گئی بھئی یہ تو کوئی اور ہی مخلوق ہیں،مگر اس وقت میں کیا کر سکتا ہیں میں گاڑی میں جو بیٹھ گیا تھا ۔خیر گاڑی میں بیٹھ کر آیتہ الکرسی پڑھنی شروع کردی ،پھر تھوڑی دیر بعد اس نے کہاں یہ آیتہ الکرسی کیوں پڑھ رہے ہوں میں کوئی چڑیل تو نہیں ۔دیکھوں چڑیل کےپاؤں تو موڑے ہوتے ہیں مگر میرے تو بالکل صحیح ہیں ، میں نے اسکی بات سنی اور اس کے پاؤں دیکھے ۔اور آیتہ الکرسی کو وہی چھوڑا اور زہن میں ایک خیال آیا ۔۔آپ کے پیر بڑے حسین ہیں انہیں زمین پر مت اتارئے گا میلے ہو جائے گے ۔مگر کمال ہیں اس نے مجھے کہاں میں جانتی ہو کہ میرے پیر خوبصورت ہیں ،تم زبان سے کہوں نہ زہن میں ایسے نہیں سوچتے ۔میرا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا تھا ،یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کو میں کیا کہوں چڑیل یا کچھ اور ۔اور مجھے کسی اور بلاء کا نام بھی نہیں آتا تھا کے میں اسکو وہ کہہ لو خیر میں نے اسی کشمکش میں ایک بار پھر آیتہ الکرسی کا سہارا لیا ۔اور اپنے آپ کو پرسکون محسوس کرنے لگا ۔میں آیتہ الکرسی میں مشغول تھا کے اس نے مجھے کہاں لو بھئی ہمارا گھر آ گیا ہیں ۔میں نے اچانک کہاں کیا مطلب ہمارا گھر۔صرف میرے اکیلے کا گھر ہیں ۔گھر گھر گھر ۔مگر میرا گھر ہیں کہاں ہیں یہ تم مجھے کہاں لے آئی ہوں،پھر اس نے مجھے کہاں میں تمیں اس لیے یہاں لے کرآئی ہوں کے تمیں بتا سکوں کے میں کوئی چڑیل نہیں ہوں بلکہ تمہاری طرح ایک انسان ہو ۔مگر تم یقین نہیں کر رہے ،بار بار آیتہ الکرسی کیوں پڑھ رہے ،تمیں بتایا ہیں نہ ۔کہ میں چڑیل نہیں ہوں مگر تم یقین نہیں کر رہے ہوں ۔میں نے اسکی یہ بات سنی اور کہاں پھر تم یہ کیسے جان لیتی ہوں کے میں آیتہ الکرسی پڑھ رہا ہوں جبکہ آیتہ الکرسی تو میں اپنے دماغ میں ہی پڑھ رہا ہوتا ہوں، پھر اس نے کہاں دیکھوں ہر بندع کے پاس کوئی نہ کوئی تو فن ضرور ہوتا ہیں نہ ۔جیسا کہ تم ایک بہت بڑے پولیس والے ہوں کسی بھی کیس کو بڑی آسانے سے ہینڈل کر لیتے ہو ۔ یہ تمہاری فن ہی ہیں ،اور دماغ میں کیا ہیں ،یہ فن میرے پاس ہیں سمجھے ۔۔ اس کی بات سن کر میں کافی حد تک مطمئن ہو گیا،مگر پھر ایک سوال زہن میں آیا کہ اس نے کیسے جانا کہ میں پولیس والا ہیں لیکین پھر اپنے ہی سوال شرمندہ ہوا کے لڑکی زہن پڑھ لیتی ہیں یہ بات بھی میرے زہن میں آ گئی ہو گی ۔۔اب میں اس سے پوری طرح مطمئن تھا، پھر اس نے مجھ سے پوچھا کے تمہارا نام احمد ہیں ۔اور میں نے اثبات میں سر ہلایا،اور کیا کرتا میں تو اس کی ہر بات کو اس کا فن ہی سمجھ رہا تھا ۔پھر میری نظر اس کے بالوں پر پڑی ،آہ کیا بال تھے لمبےگھنیرے بس میں تو اس پر پوری طرح فدا ہو گیا تھا ،پھر اس نے کہاں بھئی یہ تو بتاؤں کے تمیں یہ جگہ کیسی لگی ۔اور مین نے جگہ دیکھی تو ایک اور خیال آیا ۔یہ کیا جگہِ ہیں دوستوں یہ کون سا دیار ہیں
،بس اس وقت میرا دماغخراب تھا کے قبرستان مں یہ خیال آیا۔
لیکین مجھے کوئی احساس نہیں تھا کہ یہ قبرستان ہیں کہ کوئی حیسن باغ میں تو اس کا بے پناہ حسن دیکھ کر گِرتا ہی جا رہا تھا ،پھر اس نے کہاں یہ جو باتیں تم سوچ رہے اگر مجھ سے کہو تو کتنا اچھا ہو گا ،مگر تم تو کیسے ہوں میں جتنے بھی آدمی یہاں لے کر آئی ہوں سب ااتنی اچھے باتیں کرتے تھے ،مگر ایک تم ہو چپ بیٹھے ہو ،بس دماغ میں ہی سوچے جا رہے ہو چلو مجھ سے کوئی بات کروں
،ویسے ایک بات کہوں احمد ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا کتنا اچھا ہو اگر ایسے موسم میں بارش بھی ہو جائے ۔میں نے یہ سنا اور کہاں ہاں واقعی کتنا رومانٹک موسم ہو جائے گا ،یہ بات میں نے ہونٹ ہلا کر کہی۔بس یہ کہنا تھا کہ ایک یک دم ایک بارش ہونی شروع ہو گئی ،اور بارش بھی اتنی تیز کے میں اپنی پوری زندگی میں اتنی تیز بارش نہیں دیکھی تھی ۔میں نے یہی بات اب اس سے ہونٹوں سے کہی۔مگر یہ کیا اس نے میرا ھاتھ تھام لیا تھا ۔ابھی اس نے میرا ھاتھ تھاما ہی تھا کہ قسمت ماڑی مجھے چھینکیں آنی شروع ہو گی ،شاید مجھے بخار ہو گیا تھا ۔بھئی ظاہر اتنی تیز بارش اور بخار نہ ہو ۔یہ کیسے ہو سکتا ہیں ،میں نے اس کہاں بارش تیز ہو رہی ہیں یہاں کوئی کمرہ وغیرہ نہیں ہیں ،اس نے کہاں کمرہ تو نہیں ہین البتا بارش کم ہو سکتی ہیں ،بس اس نے یہ کہاں اور بارش رک گئی ،میری ان چیزوں کی طرف کوئی توجہ نہ تھی کے یہ سب اس کے کہنے سے ہو رہا ،ہیں میں تو بس اسکے بے پناہ حسن پہ ہی مر مٹاتھا
،میں نے کہاں اچھا یہاں کوئی اور نہیں ہیں تو اس نے کہں نہیں ہیں صرف ہم دونوں ہی ہیں ،پھر میں نے کہاں ،،میرا لیٹے کو دل چا رہا ہیں ،تو اس بے کہاں اچھا میں ابھی جگہ بناتی ہو۔
بس یہ کہنا تھا کہ پاس ہی قبر تھی اس میں سے ایک مردہ اتھ کھڑا ہوا ۔یہ دیکھ کر تو مین ایک بوکھلا گیا ،اور چکرا کر زمین پر گر گیا ۔۔اور جب میری آنکھ کھولی تو میں اپنے گھر میں تھا ۔سب گھر والے میرے اردگرد کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے اور میری امی مجھے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کر رہے تھی ،اور پھر ابو نے مجھ سے پوچھا کے فیاض بیٹا رات کو کیا ہوا تھا ۔مجھے یہ نام کچھ اجنبی سا لگا ،اور میں نے ابو سے پوچھا فیاض کون ہیں ۔ اور ابو نے بڑے پیار سے جواب دیا بیٹے تمہارا نام فیاض ہیں اور کسکا ہیں ،مین ایک دم بھڑک اٹھا نہیں میرا نام فیاص نہیں ہیں میرا نام احمد ہیں احمد ہیں ،اور مجھے یہاں کون لے کر آیا ہیں میں نے واپس اسی کے پاس جانا ہیں مین اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا میں نے اسی کے پاس جانا ہیں اسی کے پاس جانا ہیں اسی کے پاس جانا ہیں ۔یہ ہی لفظ کہتا ہوا مین دوبارہ پھر بے ہوش ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ایک دن بعد مجھے ہوش آیا ،مگر کمرے میں کوئی نہ تھا ،مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے اپنی طرف بلا رہی ہوں ۔میں مکمل طور پر اسکے عشق میں گرفتار ہو چکا تھا ،پھر اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور میرے ابو کمرے میں داخل ہوئے اور کہاں اب کیسے ہوں فیاض بیٹے ۔مگر جیسے ہی ابو نے یہ نام لیا۔میں پھر بھڑک اٹھا ،نہیں میرا نام فیاض نہیں ہیں میرا نام فیاض نہیں ہیں ۔مجھے نہیں پتا میرا نام فیاض نہیں ہیں ،یہ بچوں کی سی حرکتیں کرنے لگا ۔
اور میرے ابو کو کچھ شک سا ہوا ۔کہ ضروی کچھ ہوا ہیں ۔
پھر اگلے ہی دن میرے ابو مجھے ایک بزرگ کے پاس لے گے۔۔
انہوں نے میرا ایک ہفتہ علاج کیا اور مجھے اپنے نام کی پہچان ہو گئی ،پھر اس بزرگ نے مجھ سے ساری بات پوچھی اور میں نے بتا دی ۔انہوں نے مجھ سے کہاں کہ تمہاری سب سے بڑی غلطی تھی کے تم جب آیتہ الکرسی کا ورد کر رہے تھے جو تم نے روک دیا یہ سب سے بڑی غلطی ہیں ،، ہمیشہ ایک بات یاد رکھنا کبھی خوبصورتی دیکھ کر ڈھیلے نہ پڑنا ،ہماری قوم کی سب سے بڑی غلطی یہ ہیں کے خوبصورتی جیسا ہم سے کہتی ہیں ہم ویسا ہی کرتے ہیں اور خدا کی زات کو بھول جاتے ہیں ۔جہاں تم نے آیتہ الکرسی ورد چھوڑا تھا وہ تمہاری محبت یا عشق نہیں تھا ،بلکہ تمہارا حوس تھا ۔۔۔ اور خدا کے علاوہ یہ کوئی نہیں جان سکتا کہ
دل و دماغ میں کیا ہیں ،اس وقت تمہیں صرف اسکی خوبصورتی یاد تھی اور کچھ نہیں وہ جو کچھ کہہ رہی تھی تمیں اسی لیے سچ لگ رہا تھا ۔۔ اور تم اس دن اسلیے بچ گئے تھے ۔۔۔۔ کہ اذان ہو رہی تھی
جاؤں اور آج کے بعد ہمشہ سچ کو تسلیم کرنا ،اور کچھ نہیں ------
آج اس بات بیتے پانچ سال ہو گئے ہیں مگر خدا شکر ہیں اب میں تبدیل ہو گیا ہو ں۔اور اس بزرگ نے مجھے بتایا تھا کے وہ لڑکی چڑیل ہی تھی
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
خیالی کہانی ہیں
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج ترقی یافتہ دور میں ،جنوں بھتوں کے وجود کو کم ہی تسلیم کیا جاتا ہیں ،،،مگر ایک بات ہیں کہ شیطان ہیں جو ہمیں بھڑکانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہیں ،،مگر ایک طاقت خدا کی ہیں ،جسے ہم نے پہچاننا ہیں