محمد علم اللہ
محفلین
نوٹ :محمد اسامہ بھائی سر سری کے شکریے کیساتھ جنھوں نے اسکے نوک پلک سنوار کر محفل میں شائع ہونے لائق بنایا ۔
محمد علم اللہ اصلاحی
نیلم
محمد بلال اعظم
سیدہ شگفتہ
تعبیر
قیصرانی
مہ جبین
زبیر مرزا
تلمیذ
حسان خان
نیرنگ خیال
شمشاد
باباجی
انیس الرحمن
عائشہ عزیز
عاطف بٹ
عسکری
ملائکہ
محسن وقار علی
ابن سعید
عینی شاہ
کاشف عمران
حسیب نذیر گل
مقدس
الف عین
منیب احمد فاتح
محمد خلیل الرحمٰن
محمد یعقوب آسی
محمداحمد
عبدالروف اعوان
انجم خان
محمد اسامہ سَرسَری
محمد علم اللہ اصلاحی
چھوٹا سدھیر
جمعدار بے چارہ نو بجے ہی جگا گیا تھا۔ اس نے کمرے میں جھاڑو دی اور پوچھا
بھی کیا ، لیکن میں گھوڑے بیچ کرسوتا رہا۔ فجر کی نماز کے ساتھ ہی ناشتا بھی گول کیا۔ آج اتوار کا دن جو تھا، مگر کیا میں اتوار کے علاوہ عام دنوں میں جلدی اٹھ جاتا ہوں۔
شاید نہیں!!
یا اللہ! میں اس ان دنوں اس قدر سست اور کاہل کیوں ہوتا جا رہا ہوں۔دہلی میں رہنے کے دوران میری زندگی میں اس قدر جمود کبھی نہیں رہا۔ میں خود پریشان ہوں، مجھے کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔
جمعدار پورے کمرے کی صفائی کرکے فارغ ہو گیا۔
میں دیر تک اپنے بارے میں اور اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ اسی دوران نہ جانے کب دوبارہ آنکھ لگ گئی اور اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں میری کھڑکی سے گزر کر کمرے کے اندر داخل ہونے لگیں۔
اٹھا تو دیکھا کمرے میں اخبار پڑا ہے۔ پورا کمرا جو کل تک عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔ ترتیب اور صفائی کے لحاظ سے چما چم ہو رہا تھا۔
غسل خانے میں منہ دھونے گیا تو جمعدار وہاں اپنے کام میں منہمک تھا۔
”ابھی ذرا انتظار کیجیے صاحب جی! بس تھوڑی دیر اور لگے گی ، بڑی مہربانی جی۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں اپنے کمرے میں واپس آ گیا اور منہ دھوئے بنا ہی اخبار پڑھنے لگ گیا، لیکن آج مجھے کوئی خبر سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔
پتا نہیں کیوں، میرا ذہن بار بار اس جمعدار ہی کی طرف جا رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ کس قدر پیار ہے اسے اپنے کام سے، واہ رے انہماک اور دل چسپی۔
اس سے پہلے بھی ایک جمعدار آتا تھا جھاڑو لگانے، لیکن وہ عجیب انسان تھا۔ اگر اسے ایک مرتبہ کہہ دیا جاتا: ”ارے چھوڑو یار!“ تو وہ چھوڑ کر چلا جاتا اور کبھی کبھی تو ہفتوں جھاڑو نہیں لگتی، اسے بلایا جاتا، لیکن وہ کنی کترا جاتا۔
لڑکے اسے گالیاں دیتے، برا بھلا کہتے، شاید ہاسٹل انتظامیہ نے بھی اسی لیے اسے ہر کمرے کے طالب علم سے رجسٹر پر روزانہ دستخط کرانے کے لیے بھی کہا ہوا تھا کہ اس سے اس بات کی تصدیق ہو کہ اس نے سچ مچ جھاڑو لگائی ہے۔
مجھےیاد آنے لگا کہ کبھی کبھی تو وہ جھاڑو ہی نہیں لگاتا تھا اور کہتا:
”بھائی صاحب! دستخط کر دونا!!“
میں مسکراتا اور تکیے کے نیچے سے قلم نکال جھٹ دستخط کر دیتا یا پھر کبھی کہہ دیتا:
”ابھی سونے دو یار، بعد میں کرا لینا۔“
اور ایک یہ ’’چھوٹا سدھیر ‘‘ہے جو بلا ناغہ آتا ہے۔کبھی کبھی کاہلی میں اگر میں یہ کہہ بھی دوں:
”چھوڑو یار! کل آکر کرجانا۔“
تو سدھیر کہتا ہے:
”صاحب جی! آج کا کام کل پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ آپ صرف دروازہ کھول دو، میں جھاڑو لگا کر چلا جاؤنگا۔“
مجبورًا میں اٹھ کر دروازہ کھول دیتا اور وہ خوش دلی سے اپنا کام کرکے چلا جاتا ہے۔ نہ اس کے پاس کوئی رجسٹر ہے اور نہ ہی وہ مجھے دستخط کے لیے کہتا ہے۔
”کیا یہ اسی وجہ سے مجھے عزیز ہے؟“ میں اکثر خود سے پوچھتا ہوں۔
۔۔۔۔نیلم
محمد بلال اعظم
سیدہ شگفتہ
تعبیر
قیصرانی
مہ جبین
زبیر مرزا
تلمیذ
حسان خان
نیرنگ خیال
شمشاد
باباجی
انیس الرحمن
عائشہ عزیز
عاطف بٹ
عسکری
ملائکہ
محسن وقار علی
ابن سعید
عینی شاہ
کاشف عمران
حسیب نذیر گل
مقدس
الف عین
منیب احمد فاتح
محمد خلیل الرحمٰن
محمد یعقوب آسی
محمداحمد
عبدالروف اعوان
انجم خان
محمد اسامہ سَرسَری