محمد اظہر نذیر
محفلین
کچھ بھی ہو سکتا ہے
جو ہے، کھو سکتا ہے
کل جو بے حد خوش تھا
آج، رو سکتا ہے
آنسو نکلے جب بھی
درد، دھو سکتا ہے
کون کاٹے گا پر
ہاری بو سکتا ہے
ڈھول پیٹو اظہر
پھر بھی سو سکتا ہے
کچھ بھی ہو سکتا ہےجو ہے، کھو سکتا ہےکل جو بے حد خوش تھاآج، رو سکتا ہے۔۔ دوسرے مصرعے میں کیا آپ کی تقطیع کے مطابق وہ کی گنجائش نکلتی ہے؟؟؟ یعنی "آج وہ رو سکتا ہے"آنسو نکلے جب بھیدرد، دھو سکتا ہے÷÷÷ درد کو دھو سکتا ہے ۔۔۔کون کاٹے گا پرہاری بو سکتا ہےڈھول پیٹو اظہرپھر بھی سو سکتا ہےآخری دونوں اشعار محض قافیہ پیمائی لگ رہے ہیں ۔۔۔ آپ کی یہ غزل کس وزن میں ہے؟
اُستاد محترم فاعلاتن فعلن میں کوشش کی تھیاس کی تقطیع اظہر بتا دیں، اس کے بعد ہی کچھ کہہ سکتا ہوں
بحروں کو چننے اور الفاظ کو برتنے میں احتیاط کیجئے۔ شعر سادہ تبھی اچھا لگتا ہے کہ برجستہ ہو۔ سادگی سے کہی گئی بات بری نہیں ہوتی اگر وہ پتے کی بات ہو۔ ابھی آپ نے جو وضاحت کی ہے کہ اس شعر کا یہ مطلب ہے، یہ ہم پہلے سے جانتے ہیں، ظاہر ہے ہم شعر کہہ رہے ہیں اور اسی تجربے سے گزرتے ہیں جس سے آپ، تو وضاحت بے سود ہوئی۔ یہاں میں نصیحت کرنے لگا ہوں سو بات لمبی اور سنجیدہ ہوجائے گی تو کہیں آپ دلبرداشتہ نہ ہوجائیں، اس خوف سے صرف ایک دو باتیں بتا دیتا ہوں تاکہ آپ کو فائدہ ہو۔۔۔فاعلاتن فعلن میں کوشش کی تھی، اُس میں گنجائیش نہیں نکلتی
کون کاٹے گا پر
ہاری بو سکتا ہے
ایسا ہے کہ پتہ نہیں کون کاٹے گا، بونا لیکن ہاتھ میں ہے ہاری کےڈھول پیٹو اظہرپھر بھی سو سکتا ہےسر پر بے شک ڈھول بجاو لیکن اظہر سو سکتا ہے
میں آپ کا ممنون احسان ہوں کہ رہنمائی فرماتے ہیں ، ہر گز ہرگز بُرا نہیں مانتا میں ، آپ بے فکری سے کہیے جو بھی کہنا ہو جناببحروں کو چننے اور الفاظ کو برتنے میں احتیاط کیجئے۔ شعر سادہ تبھی اچھا لگتا ہے کہ برجستہ ہو۔ سادگی سے کہی گئی بات بری نہیں ہوتی اگر وہ پتے کی بات ہو۔ ابھی آپ نے جو وضاحت کی ہے کہ اس شعر کا یہ مطلب ہے، یہ ہم پہلے سے جانتے ہیں، ظاہر ہے ہم شعر کہہ رہے ہیں اور اسی تجربے سے گزرتے ہیں جس سے آپ، تو وضاحت بے سود ہوئی۔ یہاں میں نصیحت کرنے لگا ہوں سو بات لمبی اور سنجیدہ ہوجائے گی تو کہیں آپ دلبرداشتہ نہ ہوجائیں، اس خوف سے صرف ایک دو باتیں بتا دیتا ہوں تاکہ آپ کو فائدہ ہو۔۔۔
بحر زیادہ چھوٹی ہوگی تو بات حد سے زیادہ سادہ ہوسکتی ہے جیسے اس غزل کی مثال ہے کہ آپ ایک مصرع لکھتے ہیں، دوسرا ہمارے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ زیادہ لمبی ہوگی تو حروف جارکا یا یہ، وہ بلکہ، چونکہ چنانچہ، اگر مگر، کبھی کیوں، یوں وغیرہ کا الٹا سیدھا استعمال ہوگا، کیونکہ جگہ بہت زیادہ ہے اور الفاظ اتنے سارے ایک ہی وقت ذہن میں آجائیں یہ بہرحال مشکل ہے۔وہ بحر چنیں جو مناسب ہو۔ لمبی بھی چن سکتے ہیں، چھوٹی بھی۔ حد سے زیادہ چھوٹی سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ کوئی خیال ہی ایسا اچھا ہو کہ مجبوری ہو تو جائز ہے۔۔۔ قافیے اچھے چنیں، ہو، رو، سو، وہ، جو قافیے ضرور ہیں، لیکن بہتر ہے ان سے بچاجائے، وہ قافیے چنے جائیں جو قدرے واضح الفاظ بناتے ہوں۔۔
آخری بات، یہ کہ غزل کا ہر شعر منفرد ہونا چاہئے اور اس منفرد کے لفظ کو جتنا وسیع کرسکتے ہیں کرلیجئے۔ آپ کے ایک شعر میں پورا جہان آباد ہونا چاہئے۔ آدمی پڑھے تو سوچتا ہی رہ جائے شاعر نے لکھا کیا ہے؟ پوچھنے پر مجبور ہوجائے وہ سوال جو حفیظ نے پوچھا تھا:
دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظ۔۔۔
بات دل میں کہاں سے آتی ہے؟؟
یا بقول اقبال:
سخن میں سوز الٰہی کہاں سے آتا ہے؟
یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے۔۔۔
کچھ مصرعے فعلن فعلن فعلن پر تقطیع ہو رہے ہیں، اور کچھ فعل فعلن فعلن پر۔ اس میں فعلن فعلن کی تو اجازت ہے، لیکن فعل فعلن فعلن کی نہیں۔ اور فاعلاتن فعلن کی تو قطعی نہیں کہ میرے خیال میں یہ خود ساختہ بحر ہے۔ اس کو فعلن فعلم فعلن کے مطابق درست کر دو تو دیکھتا ہوں۔ یہ شعر اب بھی سمجھ میں نہین آیا۔
کون کاٹے گا پر
ہاری بو سکتا ہے
یہ پھر لکھ دوں کہ اگر کاپی پیسٹ کرو ورڈ سے تو یہی صورت بن جاتی ہے کہ جن کے پاس وہ فانٹ نہیں ہوتا ان کے لئے پڑھنا مشکل ہے۔ کاپی کرو بھی تو پیسٹ کرنے کے بعد دائیں کونے میں ربر کی شکل پر کلک کرو، اس سے فارمیٹنگ دور ہو سکتی ہے، اور غزل ڈفالٹ فانٹ میں نظر آ سکتی ہے۔ ان جملوں کی ’فارمیٹنگ کلیر‘ دانستہ نہیں کر رہا ہوں۔