چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے

سر الف عین
یاسر شاہ
عظیم
فلسفی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے


مینا و جام کیا ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں
چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے

دنیا کی دلکشی سے ہمیں کچھ غرض نہیں
تنہا ہے زندگی جو وہ ساری سراب ہے


صفحاتِ زیست میرے پلٹ کر تو دیکھ تُو
بس اک خیال تیرا مکمل نصاب ہے۔

کر دے فضاؤں کو جو معطر چہار سُو
فصلِ بہار میں تُو وہ کھلتا گلاب ہے

پہلے تھی ناتواں یہ مری زندگی کبھی
پہلو ملا جو تیرا تو اٹھتا شباب ہے

شکریہ
 
یہاں "چھو لیں ۔۔۔" آنا چاہیے شاید

چھو لیں جو تیرے ہونٹ تو پانی شراب ہے

مینا و جام کیا ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں
چھو لیں جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے

دنیا کی دلکشی سے ہمیں کچھ غرض نہیں
تنہا ہے زندگی جو وہ ساری سراب ہے


صفحاتِ زیست میرے پلٹ کر تو دیکھ تُو
بس اک خیال تیرا مکمل نصاب ہے۔

کر دے فضاؤں کو جو معطر چہار سُو
فصلِ بہار میں تُو وہ کھلتا گلاب ہے

پہلے تھی ناتواں یہ مری زندگی کبھی
پہلو ملا جو تیرا تو اٹھتا شباب ہے
 

الف عین

لائبریرین
صفحات زیست کی جگہ اوراقِ زیست بہتر ہو گا

فصلِ بہار میں تُو وہ کھلتا گلاب ہے
'تُوُ' تقطیع اچھی نہیں
تو جیسے اس بہار میں...
یا کوئی دوسرا مصرع ہو تو بہتر ہے
آخری شعر میں بیانیہ درست نہیں ہوا۔ شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اب اٹھتا شباب 'لگنے لگا' ہے، لیکن یہ کہا نہیں جا سکا ردیف کی وجہ سے
باقی درست ہے
 
صفحات زیست کی جگہ اوراقِ زیست بہتر ہو گا

فصلِ بہار میں تُو وہ کھلتا گلاب ہے
'تُوُ' تقطیع اچھی نہیں
تو جیسے اس بہار میں...
یا کوئی دوسرا مصرع ہو تو بہتر ہے
آخری شعر میں بیانیہ درست نہیں ہوا۔ شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اب اٹھتا شباب 'لگنے لگا' ہے، لیکن یہ کہا نہیں جا سکا ردیف کی وجہ سے
باقی درست ہے
شکریہ سر
 

یاقوت

محفلین
مینا و جام کیا ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں
چھو لیں جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے

دنیا کی دلکشی سے ہمیں کچھ غرض نہیں
تنہا ہے زندگی جو وہ ساری سراب ہے


صفحاتِ زیست میرے پلٹ کر تو دیکھ تُو
بس اک خیال تیرا مکمل نصاب ہے۔

کر دے فضاؤں کو جو معطر چہار سُو
فصلِ بہار میں تُو وہ کھلتا گلاب ہے

پہلے تھی ناتواں یہ مری زندگی کبھی
پہلو ملا جو تیرا تو اٹھتا شباب ہے

کیا کہنے منفرد تخیل واہ صاحب سلامت رہیں۔
یہ شراب اور عضو کے تذکرے پر شاکر شجاع آبادی (سرائیکی شاعر) کا ایک شعر یاد آیا۔آپ کی نظر کرتاہوں۔
جام شیشے دا ہِک پاسے چا کرکے رکھ رج کے بکّاں دے نال اَج پِلا ساقیا
جام پیندے رَہُوں ہتھ وی چُمدے رَہُوں دوہیں لذتاں ملا کے چکھا ساقیا
 
کیا کہنے منفرد تخیل واہ صاحب سلامت رہیں۔
یہ شراب اور عضو کے تذکرے پر شاکر شجاع آبادی (سرائیکی شاعر) کا ایک شعر یاد آیا۔آپ کی نظر کرتاہوں۔
جام شیشے دا ہِک پاسے چا کرکے رکھ رج کے بکّاں دے نال اَج پِلا ساقیا
جام پیندے رَہُوں ہتھ وی چُمدے رَہُوں دوہیں لذتاں ملا کے چکھا ساقیا
بہت شکریہ یاقوت صاحب
 
مینا و جام کیا ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں
چھو لیں جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے

دنیا کی دلکشی سے ہمیں کچھ غرض نہیں
تنہا ہے زندگی جو وہ ساری سراب ہے


اوراقِ زیست میرے پلٹ کر تو دیکھ تُو
بس اک خیال تیرا مکمل نصاب ہے۔

کر دے فضاؤں کو جو معطر چہار سُو
تُو دل کی وادیوں میں وہ کھلتا گلاب ہے

پہلے تھی ناتواں یہ مری زندگی کبھی
پہلو میں آ کے تیرے اب اٹھتا شباب ہے

سر الف عین اب نظر ثانی فرمائیے گا
 

یاسر شاہ

محفلین
<چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے >
درست ہے اور مراد یہ لی جائے گی کہ جو پانی تیرے ہونٹوں کو چھو لے وہ شراب ہوجاتا ہے-<جو > سے پانی کی طرف اشارہ ہے اور پانی بطور واحد برتا گیا ہے لہٰذا <چھو لے > ٹھیک ہے -

<چھو لیں جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے >
یہ مصرع بھی غلط نہیں ہے مراد یہ ہوگی کہ تیرے ہونٹ چھو لیں جو پانی وہ شراب ہو جاتا ہے -

مصرع کو بدلنے کی ضرورت نہیں -آہنگ کے لحاظ سے پہلا مصرع اچھا ہے -
 
<چھو لے جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے >
درست ہے اور مراد یہ لی جائے گی کہ جو پانی تیرے ہونٹوں کو چھو لے وہ شراب ہوجاتا ہے-<جو > سے پانی کی طرف اشارہ ہے اور پانی بطور واحد برتا گیا ہے لہٰذا <چھو لے > ٹھیک ہے -

<چھو لیں جو تیرے ہونٹ وہ پانی شراب ہے >
یہ مصرع بھی غلط نہیں ہے مراد یہ ہوگی کہ تیرے ہونٹ چھو لیں جو پانی وہ شراب ہو جاتا ہے -

مصرع کو بدلنے کی ضرورت نہیں -آہنگ کے لحاظ سے پہلا مصرع اچھا ہے -
سر بہت بہت شکریہ مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ آپ نے کافی وقت کے بعد شکریہ ادا کرنے کا موقع بخشا اللہ پاک آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے
 
Top