چھَٹنا ضرور مکھ پہ ہے زلفِ سیاہ کا ۔ سودا

فرخ منظور

لائبریرین
چھَٹنا ضرور مکھ پہ ہے زلفِ سیاہ کا
روشن بغیر شام نہ چہرہ ہو ماہ کا

جل کر تُو اے پتنگ گرا پائے شمع پر
ہوں داغ، عذر دیکھ کے تیرے گناہ کا

جوں سایہ اس چمن میں پھرا میں تمام عمر
شرمندہ پا نہیں مرا برگِ گیاہ کا

تاراج چشمِ ترکِ بتاں کیوں نہ ہو یہ دل
غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا

اے آہِ شعلہ بار ترا کیا کہوں اثر
رتبہ رکھے نہ کوہ ترے آگے کاہ کا

حاضر ہے تیرے سامنے سودا کر اس کو قتل
مجرم یہ سب طرح سے ہے پر اِک نگاہ کا

(مرزا رفیع سودا)
 

طارق شاہ

محفلین
فرخ صاحب!
غزل اُس زمانے میں رائج زبان اور طریقتِ گفتن یا بستگی کا بہت خوب نمونہ ہے!
پیش کرنے پر بہت سی داد قبول کیجئے
تاہم
تشریحِ شعر یا کچھ معاونت سے اشعار سے صحیح لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے

جل کر تُو اے پتنگ گرا پائے شمع پر
ہوں داغ، عذر دیکھ کے تیرے گناہ کا
داغ ، شاید بہ معنی رقابت ، جلن یا حسد کے ہے یہاں ؟

جوں سایہ اس چمن میں بھرا میں تمام عمر
شرمندہ پا نہیں مِرا، برگِ گیاہ کا

برگ = پتی، پتہ یا پتے
گیاہ = گھاس، مخملی سبزہ

معنی کے تناظر میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ شاید 'برگ و گیاہ کا ' ہوگا ؟


تاراجِ چشمِ ترکِ بُتاں کیوں نہ ہو یہ دل!
غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا

مِلک = ملکیت
یا
مُلک = ریاست

ایک بار پھر سے تشکّر اور داد آپ کے لئے
بہت خوش رہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ صاحب!
غزل اُس زمانے میں رائج زبان اور طریقتِ گفتن یا بستگی کا بہت خوب نمونہ ہے!
پیش کرنے پر بہت سی داد قبول کیجئے
تاہم
تشریحِ شعر یا کچھ معاونت سے اشعار سے صحیح لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے

جل کر تُو اے پتنگ گرا پائے شمع پر
ہوں داغ، عذر دیکھ کے تیرے گناہ کا
داغ ، شاید بہ معنی رقابت ، جلن یا حسد کے ہے یہاں ؟

جوں سایہ اس چمن میں بھرا میں تمام عمر
شرمندہ پا نہیں مِرا، برگِ گیاہ کا

برگ = پتی، پتہ یا پتے
گیاہ = گھاس، مخملی سبزہ

معنی کے تناظر میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ شاید 'برگ و گیاہ کا ' ہوگا ؟


تاراجِ چشمِ ترکِ بُتاں کیوں نہ ہو یہ دل!
غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا

مِلک = ملکیت
یا
مُلک = ریاست

ایک بار پھر سے تشکّر اور داد آپ کے لئے
بہت خوش رہیں

طارق شاہ صاحب مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے غزل اور اشعار کے مفاہیم پر بات کرنا چاہی اور میرے خیال میں اس فورم کا اصل مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ ادبی مباحث ہوں اور ادب پاروں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے نہ کہ بیکار کے مباحث ۔ بہرحال، سب سے پہلے معذرت کہ ایک شعر میں ٹائپنگ کی غلطی تھی کیونکہ آج کل بجلی کا بہت ڈر لگا رہتا ہے اور رات وہی ہوا تھا کہ ادھر میں نے غزل پوسٹ کی اور ادھر بجلی گُل ۔ اس شعر میں "بھرا" کی بجائے "پھرا" ہے۔
جوں سایہ اس چمن میں پھرا میں تمام عمر
شرمندہ پا نہیں مِرا، برگِ گیاہ کا

اور آپ کا متذکرہ پہلے شعر میں داغ بمعنی دکھ کے ہیں۔ بہت مشہور شعر ہے اور اس شعر میں بھی داغ بمعنی دکھ ہی استعمال ہوا ہے۔
دل کے پھپھولے دل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یا غالب کا یہ شعر
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اِک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

اور آپ کے دوسرے متذکرہ شعر میں۔
جوں سایہ اس چمن میں پھرا میں تمام عمر
شرمندہ پا نہیں مِرا، برگِ گیاہ کا
برگِ گیاہ یعنی گھاس کی پتی ۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ میں چمن میں سایے کی طرح پھرا ہوں اس لئے ایک برگِ گیاہ سے بھی میرا پاؤں شرمندہ نہیں ہے۔ یعنی اس دنیا میں، میں بغیر کسی کو تکلیف دیے زندہ رہا ہوں اور ایک برگِ گیاہ تک کو مجھ سے شکایت نہیں ہے۔
تاراجِ چشمِ ترکِ بُتاں کیوں نہ ہو یہ دل!​
غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا

اس شعر میں ملک بمعنی ریاست ہی استعمال ہوا ہے۔ اس زمانے میں ترک سپاہی بہت جنگجو ہوتے تھے اور خوبرو بھی بہت۔ سو جس طرح کسی ملک کو کوئی سپاہ تباہ و برباد کر دیتی ہے اسی طرح اے تُرکِ بتاں تیری چشمِ مست نے میرے دل کو تباہ و برباد کر رکھا ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
بہت خوب
حاضر ہے تیرے سامنے سودا ،کر اس کو قتل
مجرم یہ سب طرح سے ہے پر اِک نگاہ کا
تشریح سے لطف دو چند ہو گیا
جزاک اللہ
 

طارق شاہ

محفلین
طارق شاہ صاحب مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے غزل اور اشعار کے مفاہیم پر بات کرنا چاہی اور میرے خیال میں اس فورم کا اصل مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ ادبی مباحث ہوں اور ادب پاروں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے نہ کہ بیکار کے مباحث ۔ بہرحال، سب سے پہلے معذرت کہ ایک شعر میں ٹائپنگ کی غلطی تھی کیونکہ آج کل بجلی کا بہت ڈر لگا رہتا ہے اور رات وہی ہوا تھا کہ ادھر میں نے غزل پوسٹ کی اور ادھر بجلی گُل ۔ اس شعر میں "بھرا" کی بجائے "پھرا" ہے۔
جوں سایہ اس چمن میں پھرا میں تمام عمر
شرمندہ پا نہیں مِرا، برگِ گیاہ کا

اور آپ کا متذکرہ پہلے شعر میں داغ بمعنی دکھ کے ہیں۔ بہت مشہور شعر ہے اور اس شعر میں بھی داغ بمعنی دکھ ہی استعمال ہوا ہے۔
دل کے پھپھولے دل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یا غالب کا یہ شعر
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اِک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

اور آپ کے دوسرے متذکرہ شعر میں۔
جوں سایہ اس چمن میں پھرا میں تمام عمر
شرمندہ پا نہیں مِرا، برگِ گیاہ کا
برگِ گیاہ یعنی گھاس کی پتی ۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ میں چمن میں سایے کی طرح پھرا ہوں اس لئے ایک برگِ گیاہ سے بھی میرا پاؤں شرمندہ نہیں ہے۔ یعنی اس دنیا میں، میں بغیر کسی کو تکلیف دیے زندہ رہا ہوں اور ایک برگِ گیاہ تک کو مجھ سے شکایت نہیں ہے۔
تاراجِ چشمِ ترکِ بُتاں کیوں نہ ہو یہ دل!​
غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا

اس شعر میں ملک بمعنی ریاست ہی استعمال ہوا ہے۔ اس زمانے میں ترک سپاہی بہت جنگجو ہوتے تھے اور خوبرو بھی بہت۔ سو جس طرح کسی ملک کو کوئی سپاہ تباہ و برباد کر دیتی ہے اسی طرح اے تُرکِ بتاں تیری چشمِ مست نے میرے دل کو تباہ و برباد کر رکھا ہے۔

فرخ صاحب جواب کے لئے ممنون ہوں
شاعری میں سخن فہمی یا شعر فہمی ہمیشہ سے ہی دلچسپ رہا ہے
خوبی اس میں یہ ہے کہ ہر قاری اپنی سمجھ اور فہم سے مفہومِ شعراخذ کرتا ہے

تاراجِ چشمِ ترکِ بُتاں کیوں نہ ہو یہ دل!​
غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا
میں نے بالا شعر کو یوں لیا کہ:​
تاراج (برباد) یہ دل ! حسینوں کی نظر نہ کرنے (ترک کرنے ) سے کیوں نہ ہو کہ
اِسے ( یعنی اس دل یا میری دید کے ملک کو) جب تباہ (غارت) گروہِ (فرقہ) سپاہ (رکھوالے،پہریدار یا چوکیدار) کریں ہیں
اسی طرح دوسرے اشعار سے ، جن کا ذکر میں نے کیا، میرے ذہن نے کچھ اور معنی اخذ کے :)
خیر جیسا کہ میں نے لکھا یہ میری فہم کا ہی اختراع ہو سکتا ہے
ایک بار پھر سے جواب کے لئے تشکّر​
بہت خوش رہیں​
 
Top