anwarjamal
محفلین
،،، چہل قدمی ،،،
یہ کراچی کا علاقہ اورنگی ٹاؤن ھے ،،اگر آپ کا کبھی ادھر آنا ھو تو سات نمبر کے اسٹاپ پر اتر جائيں ،،، آپ دیکھیں گے کہ دائيں طرف ایک شادی ہال ھے ،،، جس کا مین گيٹ دن کے وقت بند ہوتا ھے ، اس کی سب چمک دھمک مغرب کے بعد ظاہر ہوگی اور رات کے گیارہ بجے اس کے اندر چہل پہل اپنے عروج پر ہوتی ھے ،، تھوڑا اور آگے بڑھیں تو بائيں طرف ایک ہسپتال نظر آئے گا ،،اس کا نام نیشنل ہسپتال ھے ،یہاں بیس روپے کی پرچی لے کر آپ اپنے لیے دوا لے سکتے ہیں ،،
لیکن اگر آپ بیمار نہیں ہیں تو اس کی کوئی ضرورت نہیں اور آگے چلیں سامنے پھول فروش کی دکان ھے اور ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز _ عروساں ،،کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کیلیئے بھی کے مصدق کچھ لوگ شادی ہال میں دلہا کیلیئے گلدستے خریدتے ہیں اور کچھ لوگ بابا شیر علی شاہ جن کی مزار ہسپتال کے پیچھے واقع ھے کیلیئے پھول خرید کر لے جاتے ہیں ،،،
آگے ایک مرغی فروش ھے ،،، جو آجکل دو سو روپے فی کلو مرغی کا گوشت بیچ رہا ھے ،،،
اگر آپ کو مرغی کے گوشت میں دلچسپی نہیں تو تھوڑی ہی دور ایک قصائی کی دکان ھے جو صبح سب کے سامنے ایک بچھیا حلال کرتا ھے ،، وہ چار سو روپے فی کلو گوشت بیچتا ھے ،،، غریب لوگ اس کی دکان میں لٹکے ہوئے گوشت کو صرف حسرت سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں ،،،
خير؛آگے چلیں ،،،میں آپ کو ایک خاص جگہ لے کر جانا چاہتا ہوں ،، آپ نے اس روڈ پر بالکل سیدھے چلنا ھے ،،،
بیس قدم کے فاصلے پر آپ کو ایک اور ہسپتال ملے گا ،، اس کا نام قطر ہوسپٹل ھے اور یہ سرکاری ہسپتال ھے ،،آپ یہاں صرف ایک روپے کی پرچی پر دوا لے سکتے ہیں ،، ارے یہ کیا ،، آپ اندر داخل ہو رھے ہیں ،، ارے بھائی مت جائيں ،، یہ سرکاری ہسپتال ھے یہاں سے دوا لینا بہت ذلت کا کام ھے ،،، آپ کو ایک لمبی لائن میں کھڑا کر دیا جائے گا ،، پھر جب آپ دو یا تین گھنٹوں کے بعد ڈاکٹر کے پاس پہنچیں گے تو ہو سکتا ھے وہ آپ کو یوں دیکھے جیسے کسی حقیر چوھے کو دیکھ رہا ھو ،،، اور آپ کی بات سرسری سننے کے بعد جلدی جلدی ایک پرچے پر کچھ لکھے اور آپ کے ہاتھ میں تھما دے ،،،
چلیں آگے بڑھیں ،،، یہ دائيں ہاتھ پر گورنمنٹ ڈگری کالج ھے ،، یہاں لڑکیاں پڑھنے کیلیئے آتی ہیں ،، جن کے دیدار کیلیئے گيٹ پر لڑکوں کا رش لگا رہتا ھے ،،،
کالج کے پیچھے ایک عوامی پارک ھے جو ٹھیک چار بجے عوام الناس کیلیئے کھول دیا جاتا ھے ،،
یہاں آپ کو فیکٹری سے چھٹی کے بعد لوٹنے وانے مرد وخواتین ملیں گے جو ایک دوسرے سے سر جوڑے فیکٹری کے دور رس مفاد میں نئی پالیسیاں ترتیب دے رھے ہوتے ہیں ،،،
گھروں سے نکالے گئے کچھ بوڑھے گھاس پر لیٹے نظر آئيں گے ،،،
نوجوان لڑکے مختلف بینچوں پر بیٹھے دنیا و مافیہا سے بے نیاز اپنے سیل فون میں کھوئے ہوئے ملیں گے ،،ان کا کہنا ھے کہ ان کے موبائل فون میں روزانہ پانچ سو ایس ایم ایس والا پیکیج ھے مگر ابھی تک وہ صرف دو ڈھائی سو میسیج ہی فارورڈ کر سکیں ہیں ،،،
آپ پارک کے ایک دروازے سے اندر داخل ہوں اور سیدھے چلتے جائيں ،، تھوڑے ہی فاصلے پر ایک دوسرا دروازہ ھے ،،اس سے باہر نکل جائيں ،،، اب آپ کے سامنے ایک گلی ھے ،، یہ قدرے سنسان لگے گی آپ کو ، لیکن گھبرائيں نہیں ،،، میں آپ کو یہیں لے کر آنا چاہ رہا تھا ،،، یہاں ایک حیرت آپ کی منتظر ھے ،، ھو سکتا ھے آپ کو زیادہ حیرت نہ ھو مگر میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ غربت ہمیں کس حد تک مجبور کر سکتی ھے ،،،
آپ گلی میں داخل ہوں ،،، تھوڑا سا آگے چلیں ،، یہ ایک چھوٹی سی دکان آگئی ،، یہ بچوں کی گولی ٹافیوں کی دکان ھے ،، مگر یہاں بچے بہت کم اور بڑے بوڑھے زیادہ آتے ہیں ،، آپ نے دیکھ لیا ہوگا ،دکان کے باہر ایک بوڑھا مریل سا شخص ایک چارپائی پر لیٹا کھانس رہا ھے ،،، یہ دراصل اس دکان میں موجود اس بارہ یا تیرہ سالہ لڑکی کا باپ ھے،،،
ہاں ہاں ،،آپ نے دیکھ لیا نا اس لڑکی کو ،، کیسی ھے ،،؟ پیاری ھے نا ،،؟ اور معصوم بھی ،،،
مگر مجھے ڈر ھے کہ اس کے چہرے پر چھائی معصومیت اب زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ سکے گی ،،،
کیوں ،،،؟
کیوں کہ اس کا باپ بیمار ھے اور وہ سٹے کے نمبر وصول کرتی ھے ،،،
___________________
تحریر ؛ انور جمال انور
یہ کراچی کا علاقہ اورنگی ٹاؤن ھے ،،اگر آپ کا کبھی ادھر آنا ھو تو سات نمبر کے اسٹاپ پر اتر جائيں ،،، آپ دیکھیں گے کہ دائيں طرف ایک شادی ہال ھے ،،، جس کا مین گيٹ دن کے وقت بند ہوتا ھے ، اس کی سب چمک دھمک مغرب کے بعد ظاہر ہوگی اور رات کے گیارہ بجے اس کے اندر چہل پہل اپنے عروج پر ہوتی ھے ،، تھوڑا اور آگے بڑھیں تو بائيں طرف ایک ہسپتال نظر آئے گا ،،اس کا نام نیشنل ہسپتال ھے ،یہاں بیس روپے کی پرچی لے کر آپ اپنے لیے دوا لے سکتے ہیں ،،
لیکن اگر آپ بیمار نہیں ہیں تو اس کی کوئی ضرورت نہیں اور آگے چلیں سامنے پھول فروش کی دکان ھے اور ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز _ عروساں ،،کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کیلیئے بھی کے مصدق کچھ لوگ شادی ہال میں دلہا کیلیئے گلدستے خریدتے ہیں اور کچھ لوگ بابا شیر علی شاہ جن کی مزار ہسپتال کے پیچھے واقع ھے کیلیئے پھول خرید کر لے جاتے ہیں ،،،
آگے ایک مرغی فروش ھے ،،، جو آجکل دو سو روپے فی کلو مرغی کا گوشت بیچ رہا ھے ،،،
اگر آپ کو مرغی کے گوشت میں دلچسپی نہیں تو تھوڑی ہی دور ایک قصائی کی دکان ھے جو صبح سب کے سامنے ایک بچھیا حلال کرتا ھے ،، وہ چار سو روپے فی کلو گوشت بیچتا ھے ،،، غریب لوگ اس کی دکان میں لٹکے ہوئے گوشت کو صرف حسرت سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں ،،،
خير؛آگے چلیں ،،،میں آپ کو ایک خاص جگہ لے کر جانا چاہتا ہوں ،، آپ نے اس روڈ پر بالکل سیدھے چلنا ھے ،،،
بیس قدم کے فاصلے پر آپ کو ایک اور ہسپتال ملے گا ،، اس کا نام قطر ہوسپٹل ھے اور یہ سرکاری ہسپتال ھے ،،آپ یہاں صرف ایک روپے کی پرچی پر دوا لے سکتے ہیں ،، ارے یہ کیا ،، آپ اندر داخل ہو رھے ہیں ،، ارے بھائی مت جائيں ،، یہ سرکاری ہسپتال ھے یہاں سے دوا لینا بہت ذلت کا کام ھے ،،، آپ کو ایک لمبی لائن میں کھڑا کر دیا جائے گا ،، پھر جب آپ دو یا تین گھنٹوں کے بعد ڈاکٹر کے پاس پہنچیں گے تو ہو سکتا ھے وہ آپ کو یوں دیکھے جیسے کسی حقیر چوھے کو دیکھ رہا ھو ،،، اور آپ کی بات سرسری سننے کے بعد جلدی جلدی ایک پرچے پر کچھ لکھے اور آپ کے ہاتھ میں تھما دے ،،،
چلیں آگے بڑھیں ،،، یہ دائيں ہاتھ پر گورنمنٹ ڈگری کالج ھے ،، یہاں لڑکیاں پڑھنے کیلیئے آتی ہیں ،، جن کے دیدار کیلیئے گيٹ پر لڑکوں کا رش لگا رہتا ھے ،،،
کالج کے پیچھے ایک عوامی پارک ھے جو ٹھیک چار بجے عوام الناس کیلیئے کھول دیا جاتا ھے ،،
یہاں آپ کو فیکٹری سے چھٹی کے بعد لوٹنے وانے مرد وخواتین ملیں گے جو ایک دوسرے سے سر جوڑے فیکٹری کے دور رس مفاد میں نئی پالیسیاں ترتیب دے رھے ہوتے ہیں ،،،
گھروں سے نکالے گئے کچھ بوڑھے گھاس پر لیٹے نظر آئيں گے ،،،
نوجوان لڑکے مختلف بینچوں پر بیٹھے دنیا و مافیہا سے بے نیاز اپنے سیل فون میں کھوئے ہوئے ملیں گے ،،ان کا کہنا ھے کہ ان کے موبائل فون میں روزانہ پانچ سو ایس ایم ایس والا پیکیج ھے مگر ابھی تک وہ صرف دو ڈھائی سو میسیج ہی فارورڈ کر سکیں ہیں ،،،
آپ پارک کے ایک دروازے سے اندر داخل ہوں اور سیدھے چلتے جائيں ،، تھوڑے ہی فاصلے پر ایک دوسرا دروازہ ھے ،،اس سے باہر نکل جائيں ،،، اب آپ کے سامنے ایک گلی ھے ،، یہ قدرے سنسان لگے گی آپ کو ، لیکن گھبرائيں نہیں ،،، میں آپ کو یہیں لے کر آنا چاہ رہا تھا ،،، یہاں ایک حیرت آپ کی منتظر ھے ،، ھو سکتا ھے آپ کو زیادہ حیرت نہ ھو مگر میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ غربت ہمیں کس حد تک مجبور کر سکتی ھے ،،،
آپ گلی میں داخل ہوں ،،، تھوڑا سا آگے چلیں ،، یہ ایک چھوٹی سی دکان آگئی ،، یہ بچوں کی گولی ٹافیوں کی دکان ھے ،، مگر یہاں بچے بہت کم اور بڑے بوڑھے زیادہ آتے ہیں ،، آپ نے دیکھ لیا ہوگا ،دکان کے باہر ایک بوڑھا مریل سا شخص ایک چارپائی پر لیٹا کھانس رہا ھے ،،، یہ دراصل اس دکان میں موجود اس بارہ یا تیرہ سالہ لڑکی کا باپ ھے،،،
ہاں ہاں ،،آپ نے دیکھ لیا نا اس لڑکی کو ،، کیسی ھے ،،؟ پیاری ھے نا ،،؟ اور معصوم بھی ،،،
مگر مجھے ڈر ھے کہ اس کے چہرے پر چھائی معصومیت اب زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ سکے گی ،،،
کیوں ،،،؟
کیوں کہ اس کا باپ بیمار ھے اور وہ سٹے کے نمبر وصول کرتی ھے ،،،
___________________
تحریر ؛ انور جمال انور