عظیم اللہ قریشی
محفلین
بدمعاش براداران The King of نورا کشتی
وفاقی وزیر داخلہ فرماتے ہیں ================ ”چیئرمین نادرا کے معاملے میں عدالتی فیصلہ قبول کریں گے “۔ کوئی اُن سے پوچھے عدالتی فیصلے ماننے کے علاوہ اُن کے پاس اور چارہ کیا ہے؟ بہتری اِسی میں ہے سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لے کر بادل نخواستہ ہی سہی چیئرمین نادرا کو وہ قبول کر لیں اور کوشش کریں آئندہ ایسا ”پنگا“ نہ لیں اب بیانات دیئے جا رہے ہیں، خبریں چھپوائی جا رہی ہیں، اپنے لفافوں پر پلنے والے اینکر پرسنز اور کالم نویسوں سے کہلوایا جا رہا ہے کہ ”چیئرمین نادرا کی تقرری کے دوران بنیادی شرائط کو نظر انداز کر دیا گیا تھا“ یہ تقرری پیپلزپارٹی کے دور میں ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ (ن) اِس کے باوجود کہ ”فرینڈلی اپوزیشن “ تھی پیپلزپارٹی کی حکومت کے ہر ناجائز کارنامے کو عدالت میں لے جانا اور اُس کا فیصلہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف کروانا اپنا پیدائشی حق سمجھتی تھی۔ حیرانی کی بات ہے چیئرمین نادرا کی تقرری کے دوران بنیادی شرائط کو نظر انداز کر دیا گیا تھا تو اتنے اہم فیصلے کو عدالت میں کیوں نہیں لے جایا گیا؟ پھر یہ خود حکومت میں آگئے تو چھ ماہ تک سوئے کیوں رہے؟ جب کراچی کے حلقوں کے فیصلے آ رہے تھے تب سوئے رہے اور حکومت( نواز، شہباز و حمزہ) یاد ہی نہیں رہا کہ چیئرمین نادرا کی تقرری کے دوران بنیادی شرائط کو نظرا نداز کر دیا گیا تھا؟ یادداشت کی ”کمزوری“ کی رعایت تو واقعی اُنہیں ملنا چاہےے۔امریکی صدر کے سامنے جس طرح ”چٹیں“ پڑھی جا رہی تھیں ہے نہ، جہاں تک طارق ملک کا تعلق ہے تو وہ شکر ادا کریں عدلیہ اور میڈیا اُن کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ اِ س انداز میں کہ ”ہڈی“ حکمرانوں کے اب گلے میں اٹک گئی ہے۔ پاکستان کی محبت میں ”ڈالروں“ کو اُنہوں نے ٹھوکر مار دی تھی تو اِس محبت کا حق پاکستان نے بھی اب ادا کر دیا ہے۔ اُمید ہے اس حق کو اپنے حق میں وہ اتنا استعمال نہیں کریں گے جتنا ہمارے محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے کیا۔ جناب مجیب الرحمن شامی اگلے روز اپنے ”نقطہ نظر“ میں فرما رہے تھے ”پہلے وکلاءچیف جسٹس کے آنے کا انتظار کر رہے تھے اب جانے کا کر رہے ہیں“۔ مزید موقع ملے تو نامور ادیب فتح محمد ملک کے صاحبزادے ” نادرا “ کو ایسا ادارہ بنا دیں پاکستان کے دیگر قومی اداروں کے لئے جو مثال بن جائے اور اپنی اصلاح پر وہ بھی مجبور ہو جائیں۔ رہی بات سیاست کے ”خواجہ سراﺅں“ کی تو اپنی حکومت کو فارغ کروانے سے بہتر ہے وہ خود فارغ ہو جائیں۔ اِس سے قبل کہ وہ ”انگوٹھے “ اُن کی گردن پر آجائیں جو انتخابات میں جعلی طو رپر استعمال کئے گئے تھے!
بشکریہ توفیق بٹ
وفاقی وزیر داخلہ فرماتے ہیں ================ ”چیئرمین نادرا کے معاملے میں عدالتی فیصلہ قبول کریں گے “۔ کوئی اُن سے پوچھے عدالتی فیصلے ماننے کے علاوہ اُن کے پاس اور چارہ کیا ہے؟ بہتری اِسی میں ہے سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لے کر بادل نخواستہ ہی سہی چیئرمین نادرا کو وہ قبول کر لیں اور کوشش کریں آئندہ ایسا ”پنگا“ نہ لیں اب بیانات دیئے جا رہے ہیں، خبریں چھپوائی جا رہی ہیں، اپنے لفافوں پر پلنے والے اینکر پرسنز اور کالم نویسوں سے کہلوایا جا رہا ہے کہ ”چیئرمین نادرا کی تقرری کے دوران بنیادی شرائط کو نظر انداز کر دیا گیا تھا“ یہ تقرری پیپلزپارٹی کے دور میں ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ (ن) اِس کے باوجود کہ ”فرینڈلی اپوزیشن “ تھی پیپلزپارٹی کی حکومت کے ہر ناجائز کارنامے کو عدالت میں لے جانا اور اُس کا فیصلہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف کروانا اپنا پیدائشی حق سمجھتی تھی۔ حیرانی کی بات ہے چیئرمین نادرا کی تقرری کے دوران بنیادی شرائط کو نظر انداز کر دیا گیا تھا تو اتنے اہم فیصلے کو عدالت میں کیوں نہیں لے جایا گیا؟ پھر یہ خود حکومت میں آگئے تو چھ ماہ تک سوئے کیوں رہے؟ جب کراچی کے حلقوں کے فیصلے آ رہے تھے تب سوئے رہے اور حکومت( نواز، شہباز و حمزہ) یاد ہی نہیں رہا کہ چیئرمین نادرا کی تقرری کے دوران بنیادی شرائط کو نظرا نداز کر دیا گیا تھا؟ یادداشت کی ”کمزوری“ کی رعایت تو واقعی اُنہیں ملنا چاہےے۔امریکی صدر کے سامنے جس طرح ”چٹیں“ پڑھی جا رہی تھیں ہے نہ، جہاں تک طارق ملک کا تعلق ہے تو وہ شکر ادا کریں عدلیہ اور میڈیا اُن کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ اِ س انداز میں کہ ”ہڈی“ حکمرانوں کے اب گلے میں اٹک گئی ہے۔ پاکستان کی محبت میں ”ڈالروں“ کو اُنہوں نے ٹھوکر مار دی تھی تو اِس محبت کا حق پاکستان نے بھی اب ادا کر دیا ہے۔ اُمید ہے اس حق کو اپنے حق میں وہ اتنا استعمال نہیں کریں گے جتنا ہمارے محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے کیا۔ جناب مجیب الرحمن شامی اگلے روز اپنے ”نقطہ نظر“ میں فرما رہے تھے ”پہلے وکلاءچیف جسٹس کے آنے کا انتظار کر رہے تھے اب جانے کا کر رہے ہیں“۔ مزید موقع ملے تو نامور ادیب فتح محمد ملک کے صاحبزادے ” نادرا “ کو ایسا ادارہ بنا دیں پاکستان کے دیگر قومی اداروں کے لئے جو مثال بن جائے اور اپنی اصلاح پر وہ بھی مجبور ہو جائیں۔ رہی بات سیاست کے ”خواجہ سراﺅں“ کی تو اپنی حکومت کو فارغ کروانے سے بہتر ہے وہ خود فارغ ہو جائیں۔ اِس سے قبل کہ وہ ”انگوٹھے “ اُن کی گردن پر آجائیں جو انتخابات میں جعلی طو رپر استعمال کئے گئے تھے!
بشکریہ توفیق بٹ