1---------زہر------------2----------آزادی
زہر
بہت سال بعدجب میرا اس سے سامنے ہواتو ایک لمحہ کے لیے میں اسے پہچان ہی نہ پایا، سراپاوہی تھا۔ ۔ ۔ مگرجس رُوپ سے وہ ظاہر ہوا تھا، گزشتہ سالوں میں اس کی یہ حالت کب دیکھ سکا تھا؟ اور دیکھتابھی کیسے ۔ ۔ ۔ پانچ ہزار روپے ماہ وارکمانے والاشخص بھلا تین ہزارکاسوٹ اور پچیس سوکے بوٹ کیسے برداشت کر سکتا ہے ۔25ہزارکاموبائل فون اور نئی آلٹو سے اُسے کیوں کر مطابقت ہو سکتی ہے ؟
لگ بھگ سات سال پہلے جب پہلی مرتبہ وہ میرے پاس آیا تھاتو حلیہ سے کسی چورا ہے کا مزدور لگتا تھا، مگراب۔ ۔ ۔ اب تو وہ ٹھیک ٹھاک ’’مزے ‘‘ میں تھا۔میری حیرتوں کو توڑتے ہوئے اس نے کہا
’’اَجی کیادیکھ رہے ہیں ، میں ہوں اسحاق، میرامطلب ہے خاکا‘‘
اور پھربازوپھیلا کر میری طرف بڑھ گیا۔ میں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا، ابھی میں اس سے سوال کر نے ہی والا تھاکہ، اس کے موبائل سے چڑیوں کی چہچہاہٹ سنائی دی۔نہ جانے دوسری طرف کون تھا، البتہ یہاں سے کہاگیا
’’نہیں ، نہیں اس مرتبہ میرے تمام آدمی جائیں گے ، کسی ایک کو بھی ڈراپ نہیں کیا جا سکتا، یہ آپ کا مسئلہ ہے ، میرا اعتبارخراب نہ کر یں ۔‘‘
اور پھرموبائل بند کر دیاگیا۔
’’یہ حال ہے ان لوگوں کا، کام نہ دو تو تب منتیں کر تے ہیں اور جب دے دو تو ان کے نخرے بڑھ جاتے ہیں ۔بھلایہ بھی کوئی بات ہے ، 25 افرادکی رقوم تین ماہ سے اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں اور اب کہہ رہا ہے کہ دس آدمیوں کو اگلی بار روانہ کر دیں گے ۔‘‘
مجھے میرے سوال کاجواب مل گیا تھا۔لیکن ایک نئے سوال نے دماغ میں سرسراہٹ کی کہ، خاکے جیساشخص اتنا بڑاکام کیوں کر کر سکتا ہے ؟وہ تو جب میرے پاس بیٹھتا تھا ، گھنٹوں اس کامنہ نہیں کھلتا تھا۔ ۔ ۔ اور جوکبھی زبان چلتی بھی تھی تو جی، ہونہہ، بہتر سے بات آگے نہ بڑھتی۔ یقینا اتنی بڑی تبدیلی میرے لیے تعجب خیز تھی۔ میں اسی کش مکش میں تھاکہ اس سے پوچھوں ۔ ۔ ۔ مگراسی دوران اس کے موبائل میں پھرچہچہاہٹ پیدا ہوئی، موبائل آن ہوا
’’ہاں عمران! زرنگار کارپوریشن والوں کو دس آدمیوں کی فہرست دے دو، افضل ریکر وٹنگ ایجنسی والے کیاکہتے ہیں ؟، چلوٹھیک ہے ، ایک گھنٹہ بعدمجھے بتاؤ۔‘‘
ٹیلی فون کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسحاق نے بتایاکہ وہ گزشتہ چارسال سے بندے باہربھجوا رہا ہے ، مختلف اداروں کے ساتھ اس کی کمٹ منٹ ہے ، کر اچی ، لاہور اور پش اور میں اس نے اپنے دفاترکھول رکھے ہیں ۔ جہاں لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے ۔ میں نے پوچھاکہ تم اس طرف آئے کیسے ؟ وہ مسکر ایا اور پھر بولناشروع کیا
’’جن دنوں میں آپ کے یہاں آیا کر تا تھا، تب میں گھرکاخرچ چلانے سے قاصرتھا۔اس دوران ایک عزیز نے بتایاکہ سعودی عرب کے لیے بھرتی آئی ہے ، اگرتم چا ہوتو تمھاری بات کر وں ؟ میں اپنے حالات سے تنگ تھا، مجھے سہاراچاہیے تھا اس لیے فوراً تیار ہو گیا۔رشتہ داروں سے اُدھارپکڑا، بیوی کے زیورفروخت کیے اور ایک لاکھ روپے جمع کر کے ایجنٹ کے حوالے کر دیے ۔پانچ ماہ گزرگئے لیکن میں باہرنہ جا سکا، ایجنٹ غائب ہو گیا۔جس نے جہاں کا بتایا، میں وہاں اسے ڈھونڈنے نکل گیا۔ ۔ ۔ اور آخراس تک پہنچ ہی گیا۔ملنے پر اس نے کہاکہ ’’میرے ساتھ فراڈہو گیا تھا، اس لیے غائب ہو گیا۔اب ایک صورت ہے ، ملائشیا کے لیے بندے بھجوا رہا ہوں ، بندے لاؤ اور اپنی رقم وصول کر لو ، کام پکا ہے ۔‘‘اس طرح میں نے کام شروع کر دیا۔ خود تو مزدوری کے لیے باہرنہیں جا سکا۔ ۔ ۔ مگر لوگوں کو بھجوانے کاراستہ مل گیا ہے ، صاف ستھراکام کر تا ہوں ، کام ہوجانے پرمعاوضہ لیتا ہوں ۔‘‘
میں نے پوچھا اتناسب اسی کام سے کمایا ہے تو کہنے لگا
’’اللہ دے بندہ لے ۔‘‘
سنا ہے اور مشاہدہ بھی ہے ایجنٹوں کے ہاتھوں کئی گھر اُجڑے ہیں ، لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوئی ہیں اور کئی ایجنٹوں کو رو پوش ہوتے دیکھا ہے ، کہیں تم کسی گرداب میں نہ پھنس جاؤ۔ میں نے کہا تو اس نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا اور گویا ہوا
’’ہاں ۔ ۔ ۔ !ہوتا ہے اس طرح، میرے ساتھ بھی ہوا تھا، میری زندگی بھی اجیرن ہو گئی تھی ، قرض خوا ہوں کے ہاتھوں عزت تک غیرمحفوظ ہو گئی تھی، لیکن میں نے سمجھ داری سے کام لیا اور آج آپ کے سامنے ہوں ۔‘‘
اگرتمھیں چانس نہ ملتاتو تمھاراکیاحال ہوتا؟
’’شاید میں بھی اور وں کی طرح پریشان ہوتا‘‘
اس نے کہا۔ ۔ ۔ اور پھرکہنے لگا
’’چھوڑیے صاحب!یہ دنیا ہے یہاں اسی طرح چلتا ہے ، آپ سنائیں ؟‘‘
تمھارے سامنے ہوں ، میں نے کہا۔ایک نظراس نے میرے دفترکی چھت پر ڈا لی، پھرسیاہ شیشوں سے باہرکی طرف دیکھا، دفتر میں پڑی ہوئی چیزوں پراچٹتی نگاہ دوڑائی اور کہنے لگا
’’کافی خستہ حالت ہے ۔آپ کو دفتر بدلنا چاہیے یا کم از کم ڈیکوریٹ کرناچاہیے اور نیا فرنیچر بھی ڈلوانا چاہیے ۔‘‘
ہے تو !۔ ۔ ۔ مگر گزرہورہی ہے ۔ ۔ ۔ میں نے کہا۔
’’آپ چاہیں تو میں اس دفتر کو بنوا دیتا ہوں ، ہمارے ساتھ کام کیجیے ، دن پھرجائیں گے ۔‘‘
جب خاکایہ کہہ رہا تھاتو میرے ذہن میں ایک واقعہ نے انگڑائی لی جو اسی زمین پرپیش آیا اور مجھے ایک مہربان نے سنایا تھا۔پھرخودبہ خودمیری زبان سے اس واقعہ کابیان شروع ہو گیا۔
’’کوئی دولت مندشخص کسی بزرگ کاعقیدت مندتھا، وہ مہینہ میں ایک آدھ مرتبہ ان کے ہاں حاضری دیتا۔ایک بارجب وہ اپنے مرشدکے پاس بیٹھا تھاتو اس نے کہا:
’’ حضرت ہمارے یہاں طلائی دھاگے کاکھسہ(جوتا)بنتا ہے اگرآپ کہیں تو لے آؤں ‘‘
بزرگ نے کہا لے آؤ ۔ ۔ ۔ مگرجب پاپوش اعلیٰ ہوتو پوشاک بھی بڑھیا ہونی چاہیے ۔مریدنے کہا وہ بھی پیش کر دوں گا۔تو پھربزرگ نے کہاجب پیزار اور ملبوس اچھے ہوں ، تو پگڑی بھی ہونی چاہیے ۔مریدنے کہاوہ بھی حاضر کر دوں گا، بزرگ نے کہاجب انسان اس قدراچھے حلیے میں ہوتو اس کے پاس گھوڑ ابھی ہونا چاہیے ۔مریدنے کہاوہ بھی حاضر کر دوں گا، بزرگ
ایک قدم اور آگے بڑھے اور کہاجب یہ سب ہوتو گھوڑے کی نگاہ داشت کے لیے ملازم بھی ہوناچاہے ۔
مرید نے کہا یہ بھی ہوجائے گا۔ ۔ ۔ تو بزرگ نے کہاگھوڑے اور ملازم کی موجودگی میں مناسب رہائش بھی ہونی چاہیے ۔مریدنے کہا حضرت اس کابھی انتظام ہوجائے گا۔مرحلہ بہ مرحلہ جب بزرگ بڑھتے جاتے تو مریدبھی حکم کی تعمیل میں آگے نکلتا جاتا۔مآلِکار بزرگ نے کہا جب تم میرے لیے اتنے ترددات میں پڑوگے تو کیا یہ بہترنہیں ہے کہ تم کھسہ ہی نہ لاؤ۔مریدعقیدت مندہونے کے ساتھ ساتھ دانا بھی تھا۔ اپنے کہے ہوئے پرشرم سارہوا اور معذرت کر کے رخصت ہو گیا۔‘‘
میں خاموش ہواتو اسحاق کہنے لگا
’’میراخیال تھاکہ آپ کے نظریات بدل گئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ مگرآپ ہنوزاسی چکر میں گھرے ہوئے ہیں ۔آپ دولت سے کیوں نفرت کر تے ہیں ، آپ زندگی کی آسائشوں سے اپنا حصہ کیوں نہیں وصولتے ؟‘‘
میں نے جواب دیامجھے دولت سے نہ اس وقت نفرت تھی نہ اب ہے ۔ ۔ ۔ مگراس دولت سے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کانصیب تھی، ہاں میں نفرت کر تا ہوں قارون کی دولت سے اور میں پناہ مانگتا ہوں ایسی آسائشوں سے جو میرے لیے وبال بن جائیں ۔ دوسروں کے گھروں کو ا جاڑ دیں ، ان کاسانس لینامحال کر دیں ۔ لمحہ بھرکے لیے میں نے سکوت اختیار کیا تو اسحاق کہنے لگا
’’آپ کفرانِ نعمت کر تے ہیں ، دولت اور آسائشیں اللہ کی نعمت ہیں ۔‘‘
یقینا!لیکن اس صورت میں جب وہ حلال ہوں ، پانی بھی اللہ کی نعمت ہے ، سمندروں کے سمندر اور دریاؤں کے دریابھرے ہوئے ہیں ، ان کی زیادتی ناگوار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مگرجب
یہی پانی کشتی کے اندر داخل ہوجائے تو زحمت بن جاتا ہے اور بعض اوقات انسان کی زندگی لے کر رہتا ہے ۔میں اس دولت اور اس آسائش سے پناہ مانگتا ہوں جوکشتی کے اندرآ جانے والے پانی کی مثال ہیں ۔ اور جب آدمی اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتاکس وقت پانی کشتی کے اندر داخل ہوا۔ ۔ ۔ اس کی آنکھ تو تب کھلتی ہے جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے ۔پھرکوئی بھی دولت، کوئی بھی گاڑی ، کوئی بھی واسطہ کام نہیں آتابہ جزاللہ عزوجل کی رحمت کے ۔
’’آپ چاہتے ہیں کہ انسان ہمیشہ دوسروں کے ہاتھ دیکھتارہے ۔‘‘
اسحاق نے کہا۔
نہیں ! دوسروں کے نہیں اپنے ہاتھ پربھروسہ کر ے اور اپنے ہاتھ کا میل کام میں لائے اور اس میل کے حصول میں اللہ کی رضاشامل کر لے تو یقینا اسے تنگی نہیں ہو گی۔جب ہم ایک خواہش کے پیچھے بھاگتے ہیں تو اگلے ہی قدم پرایک اور خواہش پیدا ہوچکی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔
اور یہ سلسلہ سانس کی آخری کڑی تک زنجیر ہو جاتا ہے ۔میں نے کہا۔
’’ہاں !بات تو ٹھیک ہے ، لیکن شاید اس طرح کی بندشوں کو قبول کرنا، اپنے بس کی بات نہیں ، شایدآپ کے بس میں بھی نہ ہو۔‘‘
یقینا میں بھی انسان ہوں ، لیکن اللہ کافضل مانگتا رہتا ہوں ۔جن راستوں کے تم اب آشنا ہوئے ہو، میں بہت پہلے ان سے آگاہ تھا، لیکن ربِّ کر یم کی رحمت نے مجھے ان پر چلنے نہیں دیا۔
’’ بجا سہی! لیکن جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس کے بڑے تقاضوں میں سے ایک تقاضا بے تحاشہ دولت بھی ہے ۔جس کے پاس جس قدرزیادہ دولت اور بڑی گاڑی ہو گی وہ معاشرے میں مہذب کہلاتا ہے ۔شرفا کی صفوں میں شمارہوتا ہے اور جو، جس قدرغریب ہوتا ہے ، اتناہی کم تر اور تہذیب نا آشنا کہلاتا ہے ۔‘‘
اسحاق خاموش ہواتو میں نے کہا
رضوانی صاحب کو جانتے ہو؟
’’ ہاں !انھیں کون نہیں جانتا‘‘
اسحاق تم بہت زیادہ ہوئے تو کر وڑپتی ہو گے ۔ ۔ ۔ رضوانی صاحب کھرب پتی نہیں تو ارب پتی ضرورہیں ۔ملک بھر میں ان کاکاروبارپھیلا ہوا ہے ۔ بل کہ یورپ کے کئی ممالک میں بھی ان کاکاروبارہے ۔پچھلے ہفتے انھوں نے مجھے اپنے ہاں دعوت پربلایا۔ ۔ ۔ اور لوگ بھی شریک تھے ۔کھاناشروع ہوا تو تمام مہمانوں کے سامنے انواع واقسام کے کھانے چن دیے گئے ۔ ۔ ۔ مگرجانتے ہورضوانی صاحب نے سلاد کے چندپتے اور ماش کی دال کے ساتھ چپاتی کے گنے ہوئے نوالے لیے ۔ ۔ ۔ اور جب کھیرلائی گئی تو وہ بھی انھوں نے نہ چکھی۔ میں نے کہا آپ کچھ لے نہیں رہے ، شاید بعد میں کھائیں گے ۔جس پر رضوانی صاحب کہنے لگے
’’نہیں ! میں اتناہی کھاتا ہوں ، اللہ کی طرف سے مجھ پر کچھ پابندیاں عایدہو گئی ہیں ۔کبھی تھوڑی سے بے احتیاطی ہوجائے تو مہینوں بیمار رہتا ہوں ۔‘‘
میرے خاموش ہونے پراسحاق نے کہا
’’خداکے لیے مجھے مت ڈرائیں ، زندگی بار بار نہیں ملتی اور میں زندگی سے اپناپوراحصہ وصول کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
کون جانے زندگی کے پاس اس کاکتناحصہ ہے ، لیکن آدمی یہ ضرور جانتا ہے کہ آخرت کے لیے اسے کتناسرمایہ چاہیے ۔ابھی تم اس مقام پرنہیں ہوکہ لوٹ نہ سکو۔ جب سفیدکپڑے پر ایک داغ لگتا ہے تو اسے مٹایا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مگرجب داغوں کی تعدادبڑھنے لگے تو سفیدی کم ہوتی جاتی ہے ۔
ابھی میرے اور اسحاق کے درمیان مکالمہ جاری تھاکہ مسجدسے مؤذن کی آواز آئی
’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘
اور پھرہماری محفل برخاست ہو گئی۔
٭٭٭
آزادی
یہ14اگست1995ئ کی سہ پہرتھی۔مزارقائدکے چاروں اور بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کاہجوم تھا۔لوگ اپنے قائدسے عقیدت کے اظہار کے لیے یہاں جمع تھے ۔ بچے خصوصیت کے ساتھ مزارکی جا لیوں تک پہنچنے کی کوشش کر تے اور جوکام یاب ہوجاتے وہ اندر جھانک کر منظر کو آنکھوں میں بھرلینے کی کوشش کر تے ۔
مجھے دفتر سے چھٹی تھی اور صبح ہی سے میں اپنے دوست خالدمحمودکے ساتھ شہرِقائدکی گلیوں میں مٹر گشت کر رہا تھا۔صدر سے مزارقائدتک کاسفرہم نے پیدل ہی طے کیا تھا۔اب جو یہاں بیٹھے تھے تو قوم کی تین نسلوں کو قائد سے محبت کا اظہار کر تے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ جب میں نے مزارپرفاتحہ خوانی کی تو کم وبیش میرے بھی وہی جذبات تھے جو ایک پاکستانی کے ہو سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ تب بھی میں نے سوچا تھا اور اب بھی سوچ رہا ہوں کہ14اگست تو اس خطہ کی آزادی کادن ہے پھرمیری آنکھوں میں اشکوں کاسیلاب کیوں اُترا تھا۔ ۔ ۔ کیوں میری ہچکیاں تھمنے کانام نہیں لی رہی تھیں ۔ ۔ ۔ کیوں میرے پاؤں بھاری ہو گئے تھے ؟ہوش کی دنیا میں تو تب لوٹا تھاجب میرے ساتھی نے ٹھنڈامشروب میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا
’’تمھیں یوں اچانک کیا ہوجاتا ہے ؟23مارچ کو ہونے وا لی تقریب کے موقع پربھی تم یوں ہی روتے رہے ہو‘‘
میں اسے کیا جواب دیتا، مجھے تو خودمعلوم نہیں تھاکہ میرے ساتھ ایساکیوں ہوتا ہے ۔خوشی کے ان موقعوں پرمیری آنکھوں سے چشموں کا جاری ہوناخودمیرے لیے بھی عجیب ہی نہیں بہت عجیب ہے ۔آج بارہ سال بعدبھی میری کیفیت وہی ہے ۔ اگرچہ میں مزار قائدسے سیکڑوں میل دورہوں ۔ ۔ ۔ مگر میرے دل ودماغ کی کیفیت بالکل ویسی ہی ہے جیسی کہ تھی۔ لیکن اب مجھے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ اس خوشی کے موقع پرمیری آنکھوں میں نمی کیوں اُترآتی ہے ۔خیر۔ ۔ ۔ !
میں 14اگست1995ئ کی بات کر رہا تھا۔جس لمحے میں ٹھنڈامشروب اپنے حلق میں انڈیل رہا تھاعین اسی وقت ایک باریش نحیف ونزاربزرگ میرے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے ۔ان کے ہاتھ میں بچوں کے لیے ٹافیاں پکڑی ہوئی تھیں ۔میرے دوست خالد محمود نے بزرگ کو مخاطب کر کے کہا
’’بابا!کچھ نہیں چاہیے ‘‘۔ ۔ ۔
مگر وہ اپنی جگہ سے نہ سرکے اور برابر میرے چہرے پرنظریں جمائے رہے ۔ میں آنسوؤں کو پونچھتا ہوا۔ ۔ ۔ اپنی ہچکیوں پرقابوپانے کی کوشش کر تا اور وقفہ وقفہ سے شربت کاگھونٹ بھی حلق سے اُتار دیتا۔یوں ہی کچھ دیرگزری تو بزرگ گویا ہوئے
’’کیوں روئے تھے میاں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
میں کیابتاتا، میں تو خودنہیں جانتا تھا۔ ۔ ۔ بس اتناکہا
’’معلوم نہیں ‘‘
تو بزرگ نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا
’’مگرمجھے معلوم ہے ‘‘
اور پھرخلاؤں میں گھورنے لگے ۔ ۔ ۔ تب آنسوؤں کی ایک ایک لڑی ان کی دونوں آنکھوں سے جدا ہوکر ان کے جھریوں بھرے چہرے پرپھیل گئی۔ان کے چہرے کارنگ لمحہ لمحہ بدلتا گیا ۔ ۔ ۔ اور پھر ان کی ہچکیاں بند ھ گئیں ۔پھر میں نے وہی سوال دہرایا جو انھوں نے مجھ سے کیا تھا۔میں نے دیکھاکہ، ان کی آنکھوں میں ایک غیرمانوس سی چمک نے سراُٹھایا اور پھر یکایک غائب ہو گئی ۔انھوں نے اپنی میلی آستین کو آنکھوں پر یوں ملاجیسے ان کے سامنے سے اندھیارے کی دیوارہٹارہے ہوں ۔
’’میں گیارہ برس کا تھاجب پاکستان بنا۔اباّ جالندھر کے نواح میں اسکول میں استاد تھے ۔ اماں گھرکاکام کاج ہی کر تی تھیں ۔تین بڑی بہنیں تھیں مجھ سے ، جو گھر میں ہی پڑھی تھیں اور اماں کاہاتھ بٹاتی تھیں ۔بجیاشائستہ میرے پھوپھی زادمنیراحمدسے منسوب تھیں ، اپیا آمنہ ان کے چھوٹے بھائی نذیراحمدسے اور میرا رشتہ ان کی بہن عذرا سے طے تھا۔ہمارے خاندان میں مذہبی تعلیم عام تھی، اسی سبب سے اڑوس پڑوس کے لوگ احترام کی نگاہ سے دیکھتے ۔ ہمارے اباّجی تو کبھی کبھار محلہ کی مسجد میں نمازبھی پڑھا دیا کر تے تھے ۔
یہ پاکستان بننے کے کچھ دن اِدھر کی بات ہے ۔ہماراقافلہ ہماری پھوپھو اور ان کے بچوں اور دیگر رشتہ داروں کو ملا کر ستائیس افرادپرمشتمل تھا۔ اماں نے دو گٹھڑیوں میں ضروری سامان باندھا۔ ایک گٹھڑی اپنے پہلومیں دبا لی اور دوسری اباّ کو دے دی۔دوسرے رشتہ داروں کے پاس بھی رختِ سفراس سے زیادہ ہر گز بھی نہیں تھا۔ ہر ایک کو ایک ہی لگن تھی کہ، بس کسی طرح سے اپنے دیس کی خوابوں ایسی سرزمین کو چوم لے ۔اپنے دیس تک پہنچنے کی خوشی میں قدم تیزی سے اُٹھتے جا رہے تھے ۔
ابھی صبح کے آثارنہیں جاگے تھے ، جب ہم روانہ ہوئے ۔خوشی سے قدم خود بہ خود اُٹھ رہے تھے ۔قیامت تو تب ٹوٹی جب تاک میں بیٹھے ہوئے ہندوؤں کے جتھے نے ہمیں آلیا۔گننے میں نہیں آتے تھے ۔ خاندان کے مردوں نے اپنی جانیں کٹوادیں ۔ ۔ ۔ مگراپنی عورتوں کی عصمتوں پرآنچ نہ آنے دی۔ ۔ ۔ مگرکب تک جوں ہی ان کے لاشے گرے ظالم ہندو ، بھیڑیوں کی طرح خواتین پرٹوٹ پڑے ۔‘‘
تب ایک چیخ سی ان کے حلق میں دم توڑگئی۔یوں معلوم ہوتا تھاجیسے ساون کی جھڑی برس کر ہی دم لے گی۔ زبان ان کاساتھ نہیں دے رہی تھی۔ایسالگتا تھاجیسے ان کی آوازکو قتل کیا جا چکا ہے ۔میلی آستین کو بار بار اپنی آنکھوں پرملتے اور پھر خلاؤں میں گھورنے لگتے ۔کچھ سنبھلے تو دوبارہ کہنے لگے
’’مجھے اماں نے پکڑ کر سرکنڈوں کی اوٹ میں چھپا لیا تھا۔وحشت سے میرے اوسان خطا ہو چکے تھے ۔ اس کے بعدکیا ہوا، مجھے معلوم نہیں ۔جب مہاجرکیمپ میں ہزاروں افراد میں خودکو موجود پایاتو ستائیس میں سے صرف دوباقی تھے ۔ اور لوگ کیا ہوئے ان کا کچھ سراغ نہ ملا۔ ہمیں بتایاگیاکہ ، ہم لوگ خوابوں کی سرزمین تک پہنچ آئے ہیں ۔ ۔ ۔ مگراب خوابوں کی تعبیر لانے والے جو نہیں رہے تھے ۔ ۔ ۔ بجیا، اپیا، شازیہ اور عذرا۔ ۔ ۔ اباّ، کوئی ایک بھی تو نہیں رہا تھا۔اماں کو تو جیسے چپ ہی لگ گئی تھی۔ ۔ ۔ اور جب بولتیں تو کسی ایک کانام پکار کر بے سدھ ہوجاتیں ۔ ۔ ۔ انہیں غشی کے دورے پڑنے لگے تھے ۔ کیمپ میں موجودڈاکٹروں نے کوشش کی انھیں بچانے کی۔ ۔ ۔ مگر وہ پچیس جانوں کاصدمہ نہ برداشت کر پائیں اور مجھے باربار مرنے کے لیے زندہ چھوڑگئیں ۔‘‘
رونے کاسلسلہ تھماکہاں تھا۔ ۔ ۔ روتے گئے ، روتے گئے ۔ ادھر میری اور خالدکی آنکھیں بھی جل تھل تھیں ۔
’’ کیمپ سے نکلاتو خوابوں کی زمین کاٹنے کو دوڑتی تھی۔ ۔ ۔ کہیں جائے پناہ نہ ملی۔کسی نے رحم کھا کر سیٹھ چونے والے تک پہنچا دیا۔انھی کے پاس جوان ہوا۔تنخواہ تو نہیں تھی ، البتہ ان کے گھر اور دکان پرکام کے عوض کھانا اور رہائش میسر آ گئے تھے ۔سیٹھ کاہے کو تھے بس نام ہی نام تھا۔ جب وہ دنیاسے رخصت ہوئے تو میں بھی دنیا کے رنگ دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔ ریلوے اسٹیشن پر قلی گیری شروع کر دی۔ایک مزدورساتھی نے بتایاکہ صبح کے وقت میں اخباربیچنے سے آمدن بڑھتی ہے ؛تو یہ بھی کیا۔کب گھربسا، بچے ہوئے اور انھیں پالاپوسا ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ جوان ہوئے ، سب رام کتھا ہے ۔بس اتنایادہے جب بڑے بیٹے نے ماسٹر کیا تو ایک لمحہ کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے خوابوں کی سرزمین تعبیرآشنا ہونے کو ہے ۔ ۔ ۔ مگر بدقسمتی ایسی نہ تھی جو جان چھوڑتی۔ایک نودولتیے نے اپنی گاڑی کے نیچے اسے کچل کر ہمیشہ کے لیے معذور کر دیا۔یہاں تو اچھے بھلے شخص کو نوکر ی آسانی سے نہیں ملتی پھر میرا معذور بیٹا کیوں کر میراسہارابن سکتا تھا۔تین بیٹیاں ہیں ۔وہ اپنے گھروں کی ہو گئی ہیں ۔ ۔ ۔ اور میں اپنے ناکارہ ڈگری ہولڈر کے ساتھ زندگی کے دن گن رہا ہوں ۔‘‘
ایک لمحہ کے لیے وہ خاموش ہوئے اور پھرگویا ہوئے
’’ویسے سچی بات یہ ہے کہ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کے خواب اباّنے مجھے دکھائے تھے ۔‘‘
میں جس شہر میں رہ رہا ہوں ، وہاں سے ہندوؤں کی بڑی تعدادنکلنے پرمجبور ہوئی تھی۔ ۔ ۔ وہی دکھ بے چارگی، لوٹ مار اور تشدد کی کہانیاں ۔ ۔ ۔ خدا جانے ان ہندوؤں کے ساتھ وہاں ہندوستان میں کیاپیش آیا ہو گا۔ کیا وہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے بانی کی سمادھی پرٹافیاں بیچتے پھر رہے ہوں گے یا پھر ۔ ۔ ۔ ؟
***
ا جازت اور فائل کے حصول کے لئے مصنف سے تشکر کے ساتھ
ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
http://urdulibrary.org,
http://kitaben.ifastnet.com,
http://kutub.250free.com