''چیخوں میں دبی آواز'' اور خاورچودھری
پروفیسرڈاکٹرفرمان فتح پوری(ستارہ امتیاز)
پروفیسرڈاکٹرفرمان فتح پوری صاحب نامورنقاد ہیں۔اُردوزبان کے لیے ان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔آپ اُردوڈکشنری بورڈ وزارت تعلیم حکومت پاکستان کے صدراورسندھ پبلک سروس کمیشن کے ممبر ہیں۔القمرآن لائن کے کالم نگارخاورچودھری کے نئے افسانوی مجموعے کے حوالے سے انھوں نے ایک مضمون لکھا ہے جوالقمرآن لائن کے قارئین کے لیے پیش کیا جارہاہے۔
اُردو اَدب سے وابستہ بہت سے ایسے ادیب وشاعراورافسانہ نگاروناول نویس ہیں جوشہری مراکز سے دُورمضافات میں خاموشی سے اپنے اپنے شعبوں میں سرگرم عمل ہیںاورتاوقتیکہ ان کی تحریریں پرنٹ میڈیایادیگرذرائع سے عامۃ الناس تک نہ پہنچیں ان کا شخصی وعلمی تعارف وپس منظربھی سامنے نہیں آتا۔خاورچودھری جوحضروضلع اٹک جیسے دُوردرازعلاقے میں جہاں اکثریت ہندکو اورپشتوبولنے والوں کی ہے نہ صرف بطورصحافی اپنے صحافیانہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں بلکہ سچی لگن سے اپنے کالموں، کہانیوں اور مختصر افسانوں میں''حالات حاضرہ''،انسانوں کے رویّے،باہمی سلوک،منافقانہ وجارحانہ صورت حال اورسیاسی و معاشرتی حالات و واقعات اور اہم بین الاقوامی حالات کی بھرپورعکاسی کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ شعری اظہارکے لیے ماہیے،ہائیکو اور واکا جیسی مقامی و جاپانی اصناف سخن کو بھی وسیلہ بنانے پر قدرت رکھتے ہیں جس کا اندازہ ان کی طبع شدہ کتب سے لگانا چنداں دشوار نہیں۔
زیرِ نظر کتاب''چیخوں میں دبی آواز'' خاورچودھری کے افسانوں پرمشتمل ہے۔سترہ افسانوں پرمبنی یہ کتاب اس اعتبارسے ایک اہم کتاب ہے کہ اس میں شامل کم وبیش تمام افسانے اپنے موضوع و مواد اور اُسلوب وزبان کے لحاظ سے مصنف کی ایک بہت کامیاب اور قابل ستائش پیشکش قراردیے جاسکتے ہیں۔ان افسانوں میں مصنف نے اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والے سیاسی و معاشرتی اور نفسیاتی حالات وواقعات ، سانحات وحادثات اورزمانے کے تغیرات کے نتیجے میں انسانی فکر،سوچ،شعور،احساس اور روّیوںمیں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سطح پر ملکوں اور قوموں کے بدلتے ہوئے حالات وواقعات سے اپنی کہانیوں کے موضوعات کاانتخاب کیا ہے۔ افسانہ''نیلاخون'' ، ''دقیانوسیت''، ''پرانامنظر''،''کرپٹ ونڈوز''،عکس درعکس'' اور''میں'' اسی زمرے میں آتے ہیں،ان تمام افسانوں میں اپنے گردوپیش کی زندگی اوراپنے سماجی حالات کی بڑی عمدہ،بھرپوراورسچی تصویرکشی کی گئی ہے۔
زندگی میں انسان کوکن برے اورکٹھن حالات سے گزرنا پڑتا ہے اوراپنوں ہی کے ہاتھوں اسے کیسے کیسے دُکھ اٹھانے پڑتے ہیں، افسانہ''نیلاخون'' اس حقیقت پر سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پردہ اُٹھاتا ہے۔بانوخاتون کی صورت میں افسانہ نگار نے معاشرے کی بے شمار ایسی خواتین کو پیش کیا ہے جو زندگی بھر اپنوں اورغیروں کے ہاتھوں ظلم وزیادتی برداشت کرتے کرتے بالآخرایک دن وقت سے پہلے زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں وقت کی پابندی اوراپنے فرائض کی بجاآوری کاخیال نہیں رکھا جاتا یہی سبب ہے کہ ہمارا معاشرہ نظم وضبط اور ترقی وخوشحالی سے محروم ہوتا جارہاہے۔افسانہ''میں''میںاسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو دکھایا گیا ہے جو نہ توماحول کی صفائی اور پاکیزگی کاخیال رکھتے ہیں اور نہ ہی ان میں صحیح وقت پر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کا احساس پایا جاتا ہے۔ افسانہ ''کرپٹ ونڈوز'' کا موضوع صحافیانہ زندگی کے پہلو کو پیش کرنا اورحقائق بیان کرنے پر معاشرے کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے افسوسناک سلوک کوپیش کرتا ہے۔صحافیوں کوسچ لکھنے اورسچ کہنے پر جن پریشانیوں اور مسائل سے گزرناپڑتا ہے اُن کی بڑی دلکش تصویرکشی اس افسانے میں کی گئی ہے۔
مصنف کااندازتحریربڑارواںدواں،شستہ وشگفتہ ہے۔کسی قسم کا ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے۔بڑی سے بڑی بات اور ہر قسم کا مضمون اپنے مخصوص اندازمیں پوری فن کارانہ مہارت سے بیان کر دیے ہیں۔کردارنگاری عمدہ اور معیاری ہے۔وہ جامداوربے جان کرداروں کے بجائے زندہ اورمتحرک کرداروں کے ذریعے اپنی کہانی کے واقعات کو آگے بڑھاتے ہیںاوران کرداروں کے ذریعے نہ صرف زندگی، ماحول اور معاشرے کے خارجی مناظرومظاہر کوبیان کرتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی داخلی وباطنی زندگی کے بہت سے گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
خاورچودھری اس اعتبارسے ایک بہت کامیاب انسانہ نگارقراردیے جاسکتے ہیں۔یقین ہے کہ اُردوافسانے کی تاریخ میں اُن کا نام تادیرزندہ رہے گا۔
(یہ مضمون القمرلائن کی 30 اپریل 2008 کی اشاعت سے لیا گیا ہے)
پروفیسرڈاکٹرفرمان فتح پوری(ستارہ امتیاز)
پروفیسرڈاکٹرفرمان فتح پوری صاحب نامورنقاد ہیں۔اُردوزبان کے لیے ان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔آپ اُردوڈکشنری بورڈ وزارت تعلیم حکومت پاکستان کے صدراورسندھ پبلک سروس کمیشن کے ممبر ہیں۔القمرآن لائن کے کالم نگارخاورچودھری کے نئے افسانوی مجموعے کے حوالے سے انھوں نے ایک مضمون لکھا ہے جوالقمرآن لائن کے قارئین کے لیے پیش کیا جارہاہے۔
اُردو اَدب سے وابستہ بہت سے ایسے ادیب وشاعراورافسانہ نگاروناول نویس ہیں جوشہری مراکز سے دُورمضافات میں خاموشی سے اپنے اپنے شعبوں میں سرگرم عمل ہیںاورتاوقتیکہ ان کی تحریریں پرنٹ میڈیایادیگرذرائع سے عامۃ الناس تک نہ پہنچیں ان کا شخصی وعلمی تعارف وپس منظربھی سامنے نہیں آتا۔خاورچودھری جوحضروضلع اٹک جیسے دُوردرازعلاقے میں جہاں اکثریت ہندکو اورپشتوبولنے والوں کی ہے نہ صرف بطورصحافی اپنے صحافیانہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں بلکہ سچی لگن سے اپنے کالموں، کہانیوں اور مختصر افسانوں میں''حالات حاضرہ''،انسانوں کے رویّے،باہمی سلوک،منافقانہ وجارحانہ صورت حال اورسیاسی و معاشرتی حالات و واقعات اور اہم بین الاقوامی حالات کی بھرپورعکاسی کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ شعری اظہارکے لیے ماہیے،ہائیکو اور واکا جیسی مقامی و جاپانی اصناف سخن کو بھی وسیلہ بنانے پر قدرت رکھتے ہیں جس کا اندازہ ان کی طبع شدہ کتب سے لگانا چنداں دشوار نہیں۔
زیرِ نظر کتاب''چیخوں میں دبی آواز'' خاورچودھری کے افسانوں پرمشتمل ہے۔سترہ افسانوں پرمبنی یہ کتاب اس اعتبارسے ایک اہم کتاب ہے کہ اس میں شامل کم وبیش تمام افسانے اپنے موضوع و مواد اور اُسلوب وزبان کے لحاظ سے مصنف کی ایک بہت کامیاب اور قابل ستائش پیشکش قراردیے جاسکتے ہیں۔ان افسانوں میں مصنف نے اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والے سیاسی و معاشرتی اور نفسیاتی حالات وواقعات ، سانحات وحادثات اورزمانے کے تغیرات کے نتیجے میں انسانی فکر،سوچ،شعور،احساس اور روّیوںمیں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سطح پر ملکوں اور قوموں کے بدلتے ہوئے حالات وواقعات سے اپنی کہانیوں کے موضوعات کاانتخاب کیا ہے۔ افسانہ''نیلاخون'' ، ''دقیانوسیت''، ''پرانامنظر''،''کرپٹ ونڈوز''،عکس درعکس'' اور''میں'' اسی زمرے میں آتے ہیں،ان تمام افسانوں میں اپنے گردوپیش کی زندگی اوراپنے سماجی حالات کی بڑی عمدہ،بھرپوراورسچی تصویرکشی کی گئی ہے۔
زندگی میں انسان کوکن برے اورکٹھن حالات سے گزرنا پڑتا ہے اوراپنوں ہی کے ہاتھوں اسے کیسے کیسے دُکھ اٹھانے پڑتے ہیں، افسانہ''نیلاخون'' اس حقیقت پر سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پردہ اُٹھاتا ہے۔بانوخاتون کی صورت میں افسانہ نگار نے معاشرے کی بے شمار ایسی خواتین کو پیش کیا ہے جو زندگی بھر اپنوں اورغیروں کے ہاتھوں ظلم وزیادتی برداشت کرتے کرتے بالآخرایک دن وقت سے پہلے زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں وقت کی پابندی اوراپنے فرائض کی بجاآوری کاخیال نہیں رکھا جاتا یہی سبب ہے کہ ہمارا معاشرہ نظم وضبط اور ترقی وخوشحالی سے محروم ہوتا جارہاہے۔افسانہ''میں''میںاسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو دکھایا گیا ہے جو نہ توماحول کی صفائی اور پاکیزگی کاخیال رکھتے ہیں اور نہ ہی ان میں صحیح وقت پر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کا احساس پایا جاتا ہے۔ افسانہ ''کرپٹ ونڈوز'' کا موضوع صحافیانہ زندگی کے پہلو کو پیش کرنا اورحقائق بیان کرنے پر معاشرے کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے افسوسناک سلوک کوپیش کرتا ہے۔صحافیوں کوسچ لکھنے اورسچ کہنے پر جن پریشانیوں اور مسائل سے گزرناپڑتا ہے اُن کی بڑی دلکش تصویرکشی اس افسانے میں کی گئی ہے۔
مصنف کااندازتحریربڑارواںدواں،شستہ وشگفتہ ہے۔کسی قسم کا ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے۔بڑی سے بڑی بات اور ہر قسم کا مضمون اپنے مخصوص اندازمیں پوری فن کارانہ مہارت سے بیان کر دیے ہیں۔کردارنگاری عمدہ اور معیاری ہے۔وہ جامداوربے جان کرداروں کے بجائے زندہ اورمتحرک کرداروں کے ذریعے اپنی کہانی کے واقعات کو آگے بڑھاتے ہیںاوران کرداروں کے ذریعے نہ صرف زندگی، ماحول اور معاشرے کے خارجی مناظرومظاہر کوبیان کرتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی داخلی وباطنی زندگی کے بہت سے گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
خاورچودھری اس اعتبارسے ایک بہت کامیاب انسانہ نگارقراردیے جاسکتے ہیں۔یقین ہے کہ اُردوافسانے کی تاریخ میں اُن کا نام تادیرزندہ رہے گا۔
(یہ مضمون القمرلائن کی 30 اپریل 2008 کی اشاعت سے لیا گیا ہے)