چیزیں کیسے کام کرتی ہیں؟

زہیر عبّاس

محفلین
خود سے بنائی ہوئی قلمیں

نمک اور پانی کے ساتھ اپنے خوبصورت گوہر بنائیں

1 مرکب تیار کریں

تھوڑے سے پانی کو ابالیں اور ایک برتن میں رکھیں پھر آہستگی کے ساتھ اپسم نمک کو ظروف میں ڈالیں اور آمیزے کو مسلسل ہلائیں۔ جب تک وہ مکمل طور پر حل نہ ہو جائے تب تک انتظار کریں۔
2 اپنی قلمیں بنائیں

اگر آپ نتائج کو مزید واضح دیکھنا چاہتے ہیں تو کھانے کے رنگ کا اضافہ کر دیں۔ آمیزے کو پیالے میں اتنا انڈیلیں کہ وہ صرف بنیاد کو ڈھانپ لے۔ آپ ایک اسفنج کے ساتھ خط بنا سکتے ہیں۔
3 انہیں بڑھتا دیکھیں

اپنے ظروف کو گرم دھوپ والی جگہ پر رکھیں۔ پانی تبخیر ہونا شروع ہو جائے گا اور تھوڑا تھوڑا کر کے آپ کی قلمیں ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ وہ بہت نازک ہوں گی تاہم آپ حیرت انگیز نمونے دیکھ سکتے ہیں۔
درکار اشیاء

√75 گرام اپسم نمک
√125 گرام پانی
√رکابی
√کھانے کا رنگ


اس تجربے سے آپ کیا سیکھیں گے

قلموں کی وہ صورت جو اپسم نمک کے سالمات بناتے ہیں۔​
 
خود سے بنائی ہوئی قلمیں

نمک اور پانی کے ساتھ اپنے خوبصورت گوہر بنائیں


1 مرکب تیار کریں

تھوڑے سے پانی کو ابالیں اور ایک برتن میں رکھیں پھر آہستگی کے ساتھ اپسم نمک کو ظروف میں ڈالیں اور آمیزے کو مسلسل ہلائیں۔ جب تک وہ مکمل طور پر حل نہ ہو جائے تب تک انتظار کریں۔

2 اپنی قلمیں بنائیں

اگر آپ نتائج کو مزید واضح دیکھنا چاہتے ہیں تو کھانے کے رنگ کا اضافہ کر دیں۔ آمیزے کو پیالے میں اتنا انڈیلیں کہ وہ صرف بنیاد کو ڈھانپ لے۔ آپ ایک اسفنج کے ساتھ خط بنا سکتے ہیں۔

3 انہیں بڑھتا دیکھیں

اپنے ظروف کو گرم دھوپ والی جگہ پر رکھیں۔ پانی تبخیر ہونا شروع ہو جائے گا اور تھوڑا تھوڑا کر کے آپ کی قلمیں ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ وہ بہت نازک ہوں گی تاہم آپ حیرت انگیز نمونے دیکھ سکتے ہیں۔

درکار اشیاء

√75 گرام اپسم نمک
√125 گرام پانی
√رکابی
√کھانے کا رنگ


اس تجربے سے آپ کیا سیکھیں گے

قلموں کی وہ صورت جو اپسم نمک کے سالمات بناتے ہیں۔

سر جی یہ اپسم نمک کونسا نمک ہوتا ہے ؟ پسا ہوا ؟
 
جناب یہ اپسم نمک عام نمک نہیں ہوتا ۔
Epsom salt, named for a bitter saline spring at Epsom in Surrey, England, is not actually salt but a naturally occurring pure mineral compound of magnesium and sulfate.
یہ کہاں سے ملتا ہے؟ سائنس لیبارٹری کی دکانوں سے با آسانی مل جائے گا ؟
 

زہیر عبّاس

محفلین
دودھ سے فن کاری کریں

اپنے تخیل کو کیمیائی رد عمل کے ساتھ نتھی کریں



دودھ کی پلیٹ کے وسط میں کچھ کھانے کا رنگ ڈالیں۔ دھونے کے سیال میں کاٹن بڈ کو بھگوئیں اور دودھ پر ہلکے سے پھیریں۔ رنگ پلیٹ کے کنارے تک پھیل جائے گا کیونکہ دھونے والے سیال میں آب گریز سالمات ہوتے ہیں جو مائع کو دھکیلتے ہیں اور سطحی دباؤ کو کم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جگہ کھانے کا رنگ لے لیتا ہے۔
درکار اشیاء

√دودھ
√پلیٹ
√کھانے کا رنگ
√دھونے کا سیال
√کاٹن بڈ


اس تجربے سے آپ کیا سیکھیں گے

سطحی دباؤ کو کم کرنے کے لئے سالمات کس طرح سے رد عمل کرتے ہیں​
 

یاز

محفلین
بہت خوب محترم زہیر عباس صاحب!
ایک مشورہ ہے کہ آخری دس بارہ مراسلے نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں تو ان کو الگ لڑی میں رکھیں تو زیادہ بہتر اور مفید رہے گا۔ لڑی کا نام کچھ ایسا ہو سکتا ہے جیسے
خود تجربے کر کے بنیادی سائنس سیکھیں
یا
بنیادی سائنس سیکھنے کے تجربات
وغیرہ
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
یک مشورہ ہے کہ آخری دس بارہ مراسلے نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں تو ان کو الگ لڑی میں رکھیں تو زیادہ بہتر اور مفید رہے گا۔ لڑی کا نام کچھ ایسا ہو سکتا ہے جیسے
خود تجربے کر کے بنیادی سائنس سیکھیں
یا
بنیادی سائنس سیکھنے کے تجربات

جی آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا ہے۔

اصل میں "How It Works" جریدے کے ایشو نمبر 63 میں ہی 20 تجربات دیئے ہوئے تھے ۔ جن میں سے غالباً 18 تجربات یہاں پوسٹ ہوچکے ہیں اور شاید صرف 2 اور تجربات رہتے ہیں۔ اس لئے روانی کہہ لیں یا سستی کہہ لیں، کی وجہ سے یہ اسی لڑی میں پوسٹ ہوتے گئے۔

بہت خوب محترم زہیر عباس صاحب!
اور جن زہیر کو آپ نے ٹیگ کیا ہے وہ کوئی اور زہیر ہیں :)
 

زہیر عبّاس

محفلین
موسم گرما کو موسم خزاں میں بدلیں

پتیوں کا رنگ تبدیل کریں



ایک جار میں پتوں کو صاف الکحل سے مسلیں۔ جار کو گرم پانی سے بھرے پیالے میں رکھ کر ڈھانپ دیں۔ 30 منٹ کے بعد محلول میں کافی فلٹر رکھ دیں۔ ایک گھنٹہ بعد، پتہ خزاں رسیدہ نظر آئے گا۔ وجہ یہ ہے کہ سبزینیہ دوسرے رنگ پیدا کرنے والے رنگوں کو ڈھانپ کر پتوں کو ہرا رکھتا ہے۔ موسم خزاں میں سبزینیہ کی سطح کم ہو جاتی ہے لہٰذا دوسرے رنگ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

درکار اشیاء

√پتے
√صاف الکحل
√بیگ
√جار
√کافی فلٹر پیپر
√گرم پانی


درکار وقت: 2 گھنٹے


اس تجربے سے آپ کیا سیکھیں گے

موسم خزاں میں اور موسم بہار میں پتے کیوں باری باری رنگ بدلتے ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیزاب اور الکلی

سرخ گوبھی سے پی ایچ کے معلوم کریں


سرخ بند گوبھی کو ابالیں اور پھر پانی کو بیکر میں ڈالیں جس میں مختلف اجزاء موجود ہوں۔ پانی میں ایک رنگ دار ہو گا جو پی ایچ کو بدل دے گا۔ رنگ ظاہر کر دے گا کہ آیا وہ تیزاب (سرخ) ہے یا الکلی (نیلا)۔

درکار اشیاء


√سرخ بند گوبھی
√کاٹنے والا چاقو
√گرم پانی
√فلٹر کاغذ
√چھ بیکرز
√کھانے کا سوڈا
√لیموں کا رس
√سرکہ
√دھونے کے سوڈے کی ڈلی
√کوکا کولا
√ٹماٹر کی کیچپ


درکار وقت: 20 منٹ

اس تجربے سے آپ کیا سیکھیں گے

آپ کے باورچی خانے میں کون سی چیز تیزابی ہے اور کون سی الکلی۔

 

زہیر عبّاس

محفلین
ڈاپلر اثر







ڈاپلر اثرکا پس منظر


1840ء کی دہائی کے آغاز میں، آسٹریائی طبیعیات دان کرسچین ڈاپلر وہ پہلا شخص تھا جس نے وضاحت کی کہ کس طرح سے آواز اور روشنی کی امواج اس وقت بدلتی ہوئی لگتی ہیں جب منبع اور شاہد کے درمیان فاصلہ بڑھتا یا گھٹتا ہے۔ نظریئے کی جانچ 1845ء میں کرسٹوف بایز بیلٹ نے کی۔ اپنے تجربے میں، اس نے موسیقار سے ایک حرکت کرتی ہوئی ریل گاڑی میں بیٹھ کر ایک جیسا موسیقی کا نوٹ بجانے کو کہا۔ پلیٹ فارم سے سننے والا موسیقی کا نوٹ ٹرین کے جانے سے تبدیل ہو گیا۔
ڈاپلر اثر کی مختصراً وضاحت

ہم سب نے اس بدلتے سائرن کو اس وقت سنا ہوگا جب ایمبولینس تیزی سے گزرتی ہے۔ ہماری طرف آتے ہوئے سائرن کی آواز بڑھتی ہے، اور جب گاڑی دور جاتی ہے تو کم ہو جاتی ہے۔ اس مظہر کو ڈاپلر کے اثر سے جانا جاتا ہے، اور یہ صوتی امواج کے مؤثر طور پر ایک ساتھ جمع ہونے یا کھنچنے سے ہوتا ہے۔ وہ آواز جو آپ سنتے ہیں اس کا تعین صوتی تعدد سے، یا فی سیکنڈ امواج کی تعداد سے ہوتا ہے۔ سائرن کا تعدد تبدیل نہیں ہوتا، تاہم جب ایمبولینس آپ کی طرف آتی ہے، تو وہی امواج کی تعداد کم ہوتے فاصلے میں جمع جاتی ہے۔ یہ آپ کے سننے والی صوتی امواج کے تعدد میں اضافہ کرتی ہے، لہٰذا آواز تیز لگتی ہے۔ جب ایمبولینس دور جاتی ہے، تو صوتی امواج بڑھتے ہوئے فاصلے پر پھیل جاتی ہیں، اور آپ کے سننے والے تعدد کو کم کر دیتی ہیں لہٰذا آواز ہلکی لگتی ہے۔
ڈاپلر اثرکا خلاصہ

آواز کی ظاہری پچ کی نسبت آواز کے منبع اور شاہد کے درمیان تبدیل ہوتے فاصلے پر ہے۔ کم ہوتا فاصلہ تیز آواز اور بڑھتا ہوا فاصلہ کم آواز پیدا کرتا ہے۔

یہ سب نسبتی ہے : ہنگامی گاڑی میں سفر کرنے والے لوگوں کے لئے سائرن کی آواز ایک جیسی ہی رہتی ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں ؟

ڈاپلر اثر کا استعمال کچھ قسم کے ریڈار میں سراغ لگائے گئے اجسام کی رفتار کی پیمائش کے لئے کیا جاتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
بغیر چشمے کے تھری ڈی کا مزہ لوٹیں


ان بھدے تھری ڈی چشموں کو پھینک دیں اور گھر پر تھری ڈی مووی دیکھنے میں محو ہو جائیں۔


آج ہمارا واسطہ زیادہ سے زیادہ تھری ڈی مواد سے پڑ رہا ہے، گھر میں تفریح کے لئے آج کل تھری ڈی ٹیلی ویژن لازمی ہو گیا ہے۔ تاہم اس کا ایک بڑا نقصان ہے ؛ اپنی نشست گاہ میں بیٹھ کر زیادہ تر لوگ تگڑے تھری ڈی چشمے پہننا پسند نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے تھری ڈی چشموں کے بغیر تصویر دھندلی نظر آتی ہے، کیونکہ ناظر کی آنکھ تک پہنچنے کے لئے روشنی کو فلٹر ہونے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہر آنکھ مختلف تصویر دیکھ سکے۔

تاہم اب، ٹیلی ویژن بنانے والے بغیر چشموں کے تھری ڈی کا تجربہ کر رہے ہیں، جس میں ایک تیکنیک استعمال ہوتی ہے جس کو خود کار مجسم بینی(auto stereoscopy) کہتے ہیں۔ اختلاف زاویہ(parallax) کی رکاوٹ اسکرین کے سامنے رکھی جاتی ہے تاکہ ناظر کی ہر آنکھ میں الگ تصویر بھیجی جا سکے۔ دو جہتی مواد کے لئے، رکاوٹ کو غیر فعال کر دیا جاتا ہے، تاہم بٹن کو دباتے ہی تصویر چھلانگ لگا کر صوفے پر بیٹھے آپ کے سامنے آ سکتی ہے۔ عام طور پر اس عمل کو پورا ہونے کے لئے، ناظر کو ایک "خوش گوار جگہ" پر براہ راست اسکرین کے سامنے بیٹھنا ہوگا، تاہم سافٹ ویئر کا استعمال تصاویر کی پٹیوں کو بنانے کے لئے کیا جا سکتا ہے، جس سے اضافی ناظر ان کے بیٹھنے کی جگہیں بنائی جا سکتی ہیں، لہٰذا ایک سے زائد لوگ تھری ڈی مزہ ایک ساتھ لے سکتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
پہیے آپ کی گاڑی کو کیسے چلاتے اور روکتے ہیں



آپ حقیقت میں ربڑ میں لپٹے بھرت کو کتنا جانتے ہیں جو آپ کی گاڑی کا رابطہ سڑک سے بناتے ہیں؟

اکثر سمجھدار شوقین افراد بھی گاڑیوں کے سب سے اہم پرزوں میں سے ایک یعنی کہ پہیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ گاڑی کو چلانے کی مرکزی قوت انجن فراہم کرتا ہے تاہم پہیے ہی صرف وہ پرزے ہیں جو اس کو سڑک سے ملاتے ہیں، اور یوں وہ انجن سے پیدا ہوئی توانائی سے گاڑی کو سڑک پر دھکیلنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہ اس طرح سے ہوتا ہے کہ ہر پہیہ محور چرخ (axle)(پہیے کے مرکز) سے جڑا ہوتا ہے، جو انجن سے حاصل ہونے والی قوت سے گھومتا ہے۔ جب چرخ گھومتا ہے، تو پہیے بھی گھومتے ہیں، اوریوں وہ گاڑی کو حرکت دینے کے قابل ہو تے ہیں۔

تاہم، پہیے گاڑی کو حرکت دینے کے علاوہ دوسرے کام بھی کرتے ہیں - وہ اس کو روکتے بھی ہیں، اس کے لئے وہ بریک نظام کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ یہ نظام ہر ایک پہیے پر ایک بریک کی قرص(brake disc) اور سرل چاپ (caliper) پر مشتمل ہوتا ہے۔ بریک کی قرص پہیے سے منسلک ہوتی ہے اور اس کے ساتھ گھومتی ہے، جبکہ سرل چاپ شکنجے (clamp)کے طور پر کام کرتا ہے۔ جب ڈرائیور بریک کے پیڈل کو دباتا ہے، ایک پسٹن شکنجے کو بند کر دیتا ہے، جس سے وہ بریک کی قرص کی حرکت کو آہستہ کرتا ہے اور پہیے کو گھومنے سے روک دیتا ہے، جس سے پہیہ رک جاتا ہے۔

گاڑی کا پہیہ گرفت اور سمت کا تعین بھی کرتا ہے۔ پہیوں کے گھیر پر چڑھے ہوئے ٹائرز گرفت دیتے ہیں، اور آگے کے پہیے اسٹیئرنگ کے ستون کو دائیں بائیں گھما کر حرکت دے کر گاڑی کی حرکت کا تعین کرتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
جانئے کہ گیئر کیسے کام کرتے ہیں

گیئرباکس کس طرح سے انجن سے پہیوں میں طاقت کو منتقل کرتا ہے




گیئرباکس ایک گاڑی کے انجن سے منسلک ہوتا ہے، اور انجن سے پیدا ہوئی طاقت گاڑی کے پہیوں تک پہنچنے سے پہلے اس میں سے گزرتی ہے۔ انجن میں موجود پسٹن کو مسلسل - کم از کم 1,000 آر پی ایم کی رفتار سے - چلنا ہوتا ہے تاکہ انجن کو قطع ہونے سے روک سکے۔ گاڑی کو تیز رفتار اڑان سے روکنے کے لئے گیئرباکس اس کا تعین کرتا ہے کہ کتنی قوت پہیوں کو دینی ہے۔ گیئرباکس کے اندر گراری اور ڈنڈے رفتار اور مروڑ (torque)کی مختلف تناسب کو پیدا کرتے ہیں، جو گیئرز کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہر گیئر مختلف صورتحال میں بہترین کام کرتا ہے، جس کا انحصار گاڑی کی رفتار اور سڑک کے جھکاؤ پر ہوتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہیلی کاپٹروں کا نقطہ آغاز

کس طرح سے پہلے طیارے نے بغیر پروں کے آسمان کو چھوا؟



لیونارڈو ڈاونچی وہ پہلا مندرج شخص ہے جس نے ہیلی کاپٹر کو بطور نقل و حمل کے ذرائع استعمال کرنے پرغور کیا۔ اس نے1483ء میں ایک گھومتے ہوئے بلیڈوں اور لوہے کے پیچ کے ساتھ ہوا کو کاٹنے کے لئے ہوائی گردش نما بنایا۔

19 ویں صدی کے اواخر نے ہیلی کاپٹر کی اڑان کے لئے اگلا بڑا قدم دیکھا، انگریز ہوراشیو فلپس نے بھاپ کے انجن کا استعمال کر کے ایک افقی اڑنے والی مشین کو چلایا۔ تاہم پال کورنو نے ایک سادہ ڈھانچہ استعمال کیا، ایک روٹرز کے جوڑے کو ایک پٹی سے گیس سے چلنے والی موٹر سے منسلک کر کے ایک انسان کو پہلی مرتبہ زمین سے اوپر اٹھایا۔ ایف اے - 61، جس کو ہینرچ فوک نے 1936ء میں بنایا، وہ پہلا ہیلی کاپٹر تھا جس نے منضبط اڑان کا مظاہرہ پتوار کا استعمال کر کے کیا، جبکہ 1940ء میں ایگور سیکورسکی نے اس پیش رفت کو دم پر ایک روٹر لگا کر آگے بڑھایا تاکہ چلانے میں بہتری لائی جا سکے۔ حتمی طور پر 1940ء کے عشرے میں، سیکورسکی کا آر-4 ہیلی کاپٹر دنیا کا ایسا اڑنے والا تجارتی قابل عمل طیارہ بن گیا تھا جس کے پاس یہ قابلیت تھی کہ وہ رفتار اور بہتر کنٹرول کے ساتھ آگے بڑھ سکے ۔
ہیلی کاپٹر کی پرواز کی طبیعیات


ایک ہیلی کاپٹر اڑان کی ایک پہیلی ہے کیونکہ اس کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ اس کو اڑنا چاہئے۔ تاہم احتیاط کے ساتھ چلانے سے یہ ان جگہوں پر جا سکتا ہے جہاں کوئی دوسرا جہاز نہیں جا سکتا۔ ہیلی کاپٹر کی موٹر بلیڈوں کو بہت تیز رفتار سے گھماتی ہے۔ اجتماعی بلندی بیرم کو دبا کر، پائلٹ روٹر کے بلیڈوں کو ایک خاص زاویے پر اٹھاتا ہے۔ جب بلیڈ تیزی سے گھومتے ہیں تو وہ اڑان پیدا کرتے ہیں ، جبکہ دم پر لگا ہوا روٹر اطراف کی قوت مہیا کرتا ہے تاکہ جب ہیلی کاپٹر زمین سے اٹھے تو اس کو چکر ا کر بے قابو ہونے روک سکے۔ آگے بڑھنے کے لئے، روٹر کے بلیڈ سامنے سے نیچے کی جانب کئے جاتے ہیں۔ اس سے پیچھے کی طرف زیادہ اٹھان ملتی ہے، جس سے ہیلی کاپٹر آگے کی جانب بڑھتا ہے۔ اسی دوران، پیروں کی طرف لگے ہوئے پیڈل کو دم پر لگے ہوئے روٹر کی رفتار کو قابو کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جو ہیلی کاپٹر کی سمت کو دائیں یا بائیں جانب کرتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
آلہ سماعت کی تشکیل


جانئے کہ آیا کیوں جدید آلہ سماعت کو الیگزینڈر گراہم بیل اور19 ویں صدی کے اواخر میں ہونے والی اس کی ٹیلیفون کی ایجاد نے ممکن بنایا، آلہ سماعت ٹیلی فون میں لگی ان غیر متحرک نلکیوں سے تھوڑا سا زیادہ کام کرتا ہے جو مکمل طور پر صوتی امواج کو پکڑنے اور ان کو کان میں ممکنہ حد تک ہنچا نے پر انحصار کرتا ہے۔ اس کی ایجاد اس وقت تک ممکن نہ ہو سکی تھی جب تک ٹیلی فون ایجاد نہ ہو گیا تھا ، ٹیلی فون میں وہ ٹیکنالوجی موجود تھی جو صوتی توانائی کو برقی اشاروں میں تبدیل کرتی، اور اسی پیش رفت نے آلہ سماعت کی تشکیل کو ممکن بنایا۔بعد میں ان صوتی اشاروں کو افزودہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد استعمال کنندہ کے کان کے اندر یا قریب اسپیکر رکھ کر بھیج دیا جاتا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کا اہم حصّہ کاربن ٹرانسمیٹر ہے، جس کو آزادانہ طور پر تھامس ایڈیسن، ایمائل برلینر اور ڈیوڈ ہوز نے ایجاد کیا، تاہم ایڈیسن کو سب سے پہلے پیٹنٹ ملا۔ ٹرانسمیٹر میں کاربن کے ذرّات ہوتے ہیں، جو برقی مزاحمت کو اس وقت کم کرتے ہیں جب صوتی امواج دباؤ پیدا کر کے ان کو دباتی ہیں۔ ملر ریز ہچسن نے اس آلے کو 1898ء میں پہلے برقی آلہ سماعت ایکو فون بنانے کے لئے استعمال کیا۔ کاربن ٹرانسمیٹر والے آلہ سماعت کافی بڑے اور بھاری تھے، تاہم چھوٹے افزودہ گروں کی ایجاد - پہلے ویکیوم ٹیوب اور بعد میں ٹرانسِسٹر - نے تیزی سے چھوٹے آلات کو بنانے میں مدد کی۔ ٹرانسِسٹر نہ صرف چھوٹے تھے، بلکہ وہ توانائی بھی کم استعمال کرتے تھے، یعنی کہ بیٹری کا حجم بھی کم ہو سکتا تھا، جس سے آلہ سماعت کو صارفین زیادہ عملی طور پر استعمال کر سکتے تھے۔

کمپیوٹرز میں ہونے والی پیش رفت - خاص طور پر مائکروپروسیسروں - نے آلہ سماعت کو ڈیجیٹل ہونے میں مدد کی۔ اس سے آنے والی آواز پر اسپیکر پر بھیجے جانے سے پہلے عمل کاری کی جاتی ہے، جس سے اشاروں کو الگ کرنے میں مدد ملتی ہے، انفرادی تعدد ارتعاش کمزور آوازوں کو بڑھاتی ہیں اور آنے والی پچ اور گونج کی حد کے لحاظ سے تبدیلیاں
کر کے دماغ کو بھیج دی جاتی ہیں۔


آج آلہ سماعت کی ٹیکنالوجی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ایک صدفی آلہ عام طور پر برقی اشاروں کو صدف گوش کے ذریعہ سَمعی اعصاب تک منتقل کرتا ہے۔ تاہم اگر اعصاب ہی کو نقصان ہو گیا ہو، تو سَمعی آلہ اس کے بجائے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ صدفی مرکزہ دماغ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جس کی ذمہ داری سَمعی اعصاب سے آنے والے اشاروں پر عمل کاری ہوتی ہے اور اس میں مصنوعی طور پر الیکٹروڈز سے تحریک پیدا کی جا سکتی ہے۔ ایک عمل کار کو کان کے باہری حصّے سے پہنا جاتا ہے جو اشارے کو وصول کنندہ تک منتقل کرتا ہے جس کو جلد سے بالکل نیچے لگایا جاتا ہے۔ وصول کنندہ سلیکان-ملفوف آلے کی قطار سے منسلک ہوتا ہے، جو ساق دماغ کو محدود کر کے براہ راست اعصاب کو تحریک دیتا ہے تاکہ آواز کو سنا جا سکے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کار کا سسپینشن کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟


سسپینشن سیٹ اپ

سسپینشن (تعلیق - suspension) صرف اسپرنگ ہی نہیں ہوتے بلکہ گاڑی کے نظام کے کئی اہم حصّوں کو جوڑتے ہیں



سسپینشن (تعلیق) جدید دور کی گاڑی کے سب سے جدید پرزہ جات میں سے ایک پرزہ ہے، یہ گاڑی کے پہیوں اور سڑک کی سطح کے درمیان رگڑ کو زیادہ سے زیادہ کرتا ہے تاکہ ڈرائیور اور مسافر سفر کے دوران ممکنہ حد تک آرام حاصل کر سکیں۔ یہاں پر اہم چیز چار سسپینشن اسٹراٹس (تعلیق سہارن - suspension struts) ہیں ان میں سے ہر ایک گاڑی کے ہر کونے میں لگی ہوتی ہے۔ یہ لچھے دار اسپرنگ پر مشتمل ہوتی ہیں، اور سڑک کی سطح پر کسی بھی ناہمواری کو دب اور پھیل کر سہتی ہیں۔ اسٹراٹس(سہارن) میں لگے شاک ایبزوربر (صدمہ گیر- shock absorber) اسپرنگ کی حرکی توانائی کو بذریعہ ہائیڈرالک (ماقوائی - hydraulic)سیال سے حرارت میں بدل کر اسپرنگ کی حرکت کو منضبط کرتی ہے۔ جب گاڑی سڑک پر چلتی ہے تو یہ اسپرنگ کو گاڑی کو مسلسل اچھالنے سے روکتے ہیں۔ اسٹراٹس (سہارن) چیزس ( کالید- chassis) میں بذریعہ بازو لگے ہوتے ہیں، جو کسی بھی چول (pivot)کے آخر میں ہوتے ہیں تاکہ پہیے کی محراب کے اندر پہیے کی حرکت کو پوری گاڑی کو اپنے ساتھ اوپر نیچے دھکا دیئے بغیر ہی اس وقت جاری رکھ سکیں جب سسپینشن (تعلیق) دبتا اور پھیلتا ہے۔ اینٹی رول بار (ضد-گھماؤ سلاخیں - Anti-roll bars)اور اسٹراٹس (سہارن) کی تاریں گاڑی کے دونوں اطراف کو جوڑتے ہیں تاکہ موڑ کاٹتے ہوئے گاڑی مضبوط رہے اور جھکاؤ کو کم کرے، جبکہ گاڑی کے نیچے لگے ہوئے بشنگ سڑک کی سطح سے مزید آنے والی ارتعاش کو زائل کرنا یقینی بنائیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
گلی نسل کا خلائی لباس

جس دن جب ہم مریخ کی سطح پر قدم رکھنے کی جرات کریں گے تب ہم کیا پہنیں گے ؟


جب انسانیت بالآخر سرخ سیارے یا کسی سیارچے پر قدم رنجہ فرمائے گی تو اس وقت ہمارا موجودہ خلائی لباس کام نہیں آئے گا۔ فی الوقت استعمال ہونے والے خلائی لباس بہت زیادہ غیر لچک دار، بہت بھاری ہوتے ہیں اور ان میں دور دراز اجسام پر اتر کر کام کرنے کے لئے درکار تحفظ کی بھی کمی ہوتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے، ناسا نئے خلائی لباس پر کافی سخت محنت کر رہا ہے، جو زی-1 کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں کرۂ ارض کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر اترنے کی مہم جوئی اور خلائی چہل قدمی کے لئے کافی تعداد میں نئی اختراعات موجود ہیں۔

اگر بات کی جائے ٹیکنالوجی میں ہونے والی سب سے اہم پیش رفت کی تو وہ پیچھے لگے ہوئے سوٹ پورٹ کی ہے۔ روسی خلائی لباسوں میں یہ پہلے سے لگی ہوئی اور استعمال کی جاچکی ہے، یہ چیز پہننے والے کو لباس میں تیزی سے داخل اور نکلنے کے قابل بناتی ہے، اور زی-1 کو یہ مزید اس قابل بھی بنائے گی کہ خلائی جہاز کے بیرون میں تیز رفتار خلائی چہل قدمی کے لئے لٹک جائے (اس سے سانس لینے کے عمل میں لگنے والے وقت کی بچت ہو گی جس سے رفع دباؤ کی بیماری کو روکنے میں مدد ملے گی)۔ دریں اثناء زی-1 خلائی جہاز کے جوڑوں میں بیرنگ موجود ہیں جس سے مستعد حرکات جیسا کہ پتھروں کے نمونے جھک کر اٹھانا کافی آسان ہو جائے گا۔

زی-1، کو سب سے پہلے پہننے کا منصوبہ آئی ایس ایس کے 2017ء میں کئے جانے والے دورے میں بنایا گیا ہے - اور امید ہے کہ اس کے بعد زی-2 مزید جدید دور حاضر کی ٹیکنالوجی کے ساتھ کامیاب ہو گا۔ ہمیں نظام شمسی کے پہلے غیر چھان بین کئے گئے مقامات پر لے جانے کے لئے یہ اگلا اہم قدم ہو گا۔​
 
Top