الف نظامی
لائبریرین
چیلنج بہت بڑا تھا مگر نیت صاف تھی ،
عزم پکا تھا، کچھ کر دکھانا تھا
اس لئے وزارت ملتے ہی اُس نے ریلوے یونینز کے سارے بڑے رہنماون سے خود رابطہ کیا ،کہیں چل کر گیا ،کسی کو پاس بلایا اور صاف صاف بات سامنے رکھ دی کہ اخلاص سے ریلوے کا پہیہ چلانا ہے آپ سب کو ساتھ لے کر چلناہے ملازم کتنے ہی زیادہ سہی ،نکالوں گا نہیں بس آمدن بڑھاوں گا اور اس زنگ آلود پہیہ کو مل کر رواں کر دیں گے ۔۔
وزیر کی آنکھوں میں خلوص جھلکتا نظر آیا اور گردن میں سریا بھی نہیں تھا ،سب نے دیکھا کہ وہ قربانی کا آغاز اپنی ذات سے کر رہا ہے نہ تنخواہ لیتا ہے نہ ٹی اے ڈی اے کھانا گھر سے منگواتا ہے خود اُسی ٹرین میں سفر کرتا ہے ،جھک کے ملتا ہے اور دن رات بس ریلوے کے لئے وقف ہے تو اَڑی باز پیشہ ور یونین لیڈر بھی نرم پڑ گئے اور ریلوے کے اندر کا م کرنے کا کلچر پروان چڑھنا شروع ہوا سوچ کر خرابی کا سِرا پکڑا گیااور آمدن بڑھانے پر فوکس کیا گیا ٹرینوں کی گنجائش ،وقت پر آمد و رفت بہتر ہوئی تو لاکھوں مسافر بڑھ گئے آمدن اٹھارہ سے پچاس ارب تک جا پہنچی
خسارہ والے روٹس بھی عوام کی خدمت کے لئےبحال رکھے گئے،خود سے ایک ہزار نئی بوگیاں بنا ئی گئیں،مال گاڑیوں کا نیٹورک کئی گنا بہتر بنا کر منافع کمانے کا آغاز کیا گیا۔۔۔
اور نہ جانے کیا کیا کچھ ہوا۔۔
اور پھر جب وہ اپنی ریلوے سے سبکدوش ہوتے ہوئےنارووال کے اسٹیشن کا افتتاح کر کے گھر لوٹا تو خود بھی آبدیدہ تھا اور اس کے افسر اُس سے ایسے مل رہے تھے جیسے گھر کا کوئی بڑا لمبی تھکا دینے والی اننگ کھیل کر سستانے جا رہا ہو۔۔۔
شاباش سعد رفیق۔۔
آپ نے ثابت کر دیا کہ کہ عزم ہو حالات کو بدلنے کا
تو راستے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں
(خود کلامی۔۔۔زبیر منصوری)
عزم پکا تھا، کچھ کر دکھانا تھا
اس لئے وزارت ملتے ہی اُس نے ریلوے یونینز کے سارے بڑے رہنماون سے خود رابطہ کیا ،کہیں چل کر گیا ،کسی کو پاس بلایا اور صاف صاف بات سامنے رکھ دی کہ اخلاص سے ریلوے کا پہیہ چلانا ہے آپ سب کو ساتھ لے کر چلناہے ملازم کتنے ہی زیادہ سہی ،نکالوں گا نہیں بس آمدن بڑھاوں گا اور اس زنگ آلود پہیہ کو مل کر رواں کر دیں گے ۔۔
وزیر کی آنکھوں میں خلوص جھلکتا نظر آیا اور گردن میں سریا بھی نہیں تھا ،سب نے دیکھا کہ وہ قربانی کا آغاز اپنی ذات سے کر رہا ہے نہ تنخواہ لیتا ہے نہ ٹی اے ڈی اے کھانا گھر سے منگواتا ہے خود اُسی ٹرین میں سفر کرتا ہے ،جھک کے ملتا ہے اور دن رات بس ریلوے کے لئے وقف ہے تو اَڑی باز پیشہ ور یونین لیڈر بھی نرم پڑ گئے اور ریلوے کے اندر کا م کرنے کا کلچر پروان چڑھنا شروع ہوا سوچ کر خرابی کا سِرا پکڑا گیااور آمدن بڑھانے پر فوکس کیا گیا ٹرینوں کی گنجائش ،وقت پر آمد و رفت بہتر ہوئی تو لاکھوں مسافر بڑھ گئے آمدن اٹھارہ سے پچاس ارب تک جا پہنچی
خسارہ والے روٹس بھی عوام کی خدمت کے لئےبحال رکھے گئے،خود سے ایک ہزار نئی بوگیاں بنا ئی گئیں،مال گاڑیوں کا نیٹورک کئی گنا بہتر بنا کر منافع کمانے کا آغاز کیا گیا۔۔۔
اور نہ جانے کیا کیا کچھ ہوا۔۔
اور پھر جب وہ اپنی ریلوے سے سبکدوش ہوتے ہوئےنارووال کے اسٹیشن کا افتتاح کر کے گھر لوٹا تو خود بھی آبدیدہ تھا اور اس کے افسر اُس سے ایسے مل رہے تھے جیسے گھر کا کوئی بڑا لمبی تھکا دینے والی اننگ کھیل کر سستانے جا رہا ہو۔۔۔
شاباش سعد رفیق۔۔
آپ نے ثابت کر دیا کہ کہ عزم ہو حالات کو بدلنے کا
تو راستے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں
(خود کلامی۔۔۔زبیر منصوری)
آخری تدوین: