خواجہ طلحہ
محفلین
چینی کی ذخیرہ اندوزی اورمل والوں کے گٹھ جوڑسے متعلق کچھ ٹھوس ثبوت ملنے پر گورنمنٹ نے شوگر ملز اورسٹاکسٹس کے خلاف کاورائی کا فیصلہ کیا ہے۔یہ خبر وزیر تجارت کے قریبی ذرائع سے بزنس ریکارڈر کو ملی ہے۔ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ ای سی سی کے 19 مئی 2009 ء کے اجلاس میں کیا گیا ہے۔
ای سی سی نے وزاعت تجارت اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں مستحکم کرنے کے لیے ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارگر اور سنجیدہ کوششیں کرئے۔
ای سی سی کی اطلاعات کے مطابق 31مارچ 2009ءتک پاکستان شوگرملز ایسوسی ایش کے پاس 2,213,140 ٹن اور ٹی سی پی کے پاس 246,081 ٹن چینی کا سٹاک موجود تھا۔ اس طرح ملک میں چینی کا ٹوٹل سٹاک 2,459,221ہو جاتا ہے۔ای سی سی کا کہنا ہے کہ اتنے سٹاک کے باوجود ملک میں چینی کی قیمتیں بہت اونچی ہیں۔ اور اسکی وجہ ای سی سی سٹاکسٹ اور اور مل والوں کے گٹھ جوڑ کو قرار دیتی ہے۔پرچون کی سطح پر ملک کے مختلف حصوں میں چینی 47 سے لےکر 49 روپے میں فروخت ہور ہی ہے۔زرائع کے مطابق سٹیٹ بنک اور صوبائی حکومتوں کو اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
پہلے بھی سٹیٹ بنک کی طرف سے لگائے گئے ذخیرہ اندوزی کے الزام پر پاسما نے تردیدکی تھی۔پاسما نے ا یک خط کے ذریعے سٹیٹ بنک کو کہا تھا کہ پچھلے 6 ماہ کے اقتصادی بحران کی وجہ سےچینی کا استعمال کم ہوا ہے۔ یعنی 350,000 ٹن سے کم ہوکر 307,853 رہ گیا ہے۔چینی کے استعمال میں 40000 ٹن کی یہ کمی ذخیرہ اندوزی نہیں کہی جاسکتی۔ پاسما نے سٹیٹ بنک کو یہ بھی کہا تھا کہ شوگر ملز پر قرضوں ادائیگی کے لیے دباو ڈالنا بھی بند کیا جائے۔ سٹیٹ بنک نے2 فروری 2009ء کو شوگر ملز کو 31 جولائی 2009 تک تمام قرضوں کی ادائیگی کا سرکلر جاری کیا تھا۔ جبکہ پہلے یہ قرضوں کی ادائیگی کا وقت اکتوبر طے تھا۔
سٹیٹ بنک نے 31 جولائی کی کی حد چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خاتمہ کے لیے مقرر کی تھی۔پاسما کے مطابق شوگرملوں کے پاس اتنا سٹاک موجود ہے کہ وہ ملکی ضرورت پوری کرسکیں۔اور ملک میں چینی کی کمی نہیں ہے اس لیے 200000ٹن چینی درآمد کرنے کی بجائے (جس سے پاکستانی فارن ایکسچینج100 ملین ڈالر کم ہوگا)چینی مقامی ملوں سے حاصل کی جائے۔
سٹیٹ بنک کی اس بات کے جواب میں کہ چینی کی قیمتں زیادہ ہیں پاسما کا کہنا ہے کہ چینی کی زیادہ قیمت کی وجہ گنے کی زیادہ قیمتیں(جو کہ 130 روپے فی من تھی) اور اونچا انٹرسٹ ریٹ ہیں۔
سورس
ای سی سی نے وزاعت تجارت اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں مستحکم کرنے کے لیے ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارگر اور سنجیدہ کوششیں کرئے۔
ای سی سی کی اطلاعات کے مطابق 31مارچ 2009ءتک پاکستان شوگرملز ایسوسی ایش کے پاس 2,213,140 ٹن اور ٹی سی پی کے پاس 246,081 ٹن چینی کا سٹاک موجود تھا۔ اس طرح ملک میں چینی کا ٹوٹل سٹاک 2,459,221ہو جاتا ہے۔ای سی سی کا کہنا ہے کہ اتنے سٹاک کے باوجود ملک میں چینی کی قیمتیں بہت اونچی ہیں۔ اور اسکی وجہ ای سی سی سٹاکسٹ اور اور مل والوں کے گٹھ جوڑ کو قرار دیتی ہے۔پرچون کی سطح پر ملک کے مختلف حصوں میں چینی 47 سے لےکر 49 روپے میں فروخت ہور ہی ہے۔زرائع کے مطابق سٹیٹ بنک اور صوبائی حکومتوں کو اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
پہلے بھی سٹیٹ بنک کی طرف سے لگائے گئے ذخیرہ اندوزی کے الزام پر پاسما نے تردیدکی تھی۔پاسما نے ا یک خط کے ذریعے سٹیٹ بنک کو کہا تھا کہ پچھلے 6 ماہ کے اقتصادی بحران کی وجہ سےچینی کا استعمال کم ہوا ہے۔ یعنی 350,000 ٹن سے کم ہوکر 307,853 رہ گیا ہے۔چینی کے استعمال میں 40000 ٹن کی یہ کمی ذخیرہ اندوزی نہیں کہی جاسکتی۔ پاسما نے سٹیٹ بنک کو یہ بھی کہا تھا کہ شوگر ملز پر قرضوں ادائیگی کے لیے دباو ڈالنا بھی بند کیا جائے۔ سٹیٹ بنک نے2 فروری 2009ء کو شوگر ملز کو 31 جولائی 2009 تک تمام قرضوں کی ادائیگی کا سرکلر جاری کیا تھا۔ جبکہ پہلے یہ قرضوں کی ادائیگی کا وقت اکتوبر طے تھا۔
سٹیٹ بنک نے 31 جولائی کی کی حد چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خاتمہ کے لیے مقرر کی تھی۔پاسما کے مطابق شوگرملوں کے پاس اتنا سٹاک موجود ہے کہ وہ ملکی ضرورت پوری کرسکیں۔اور ملک میں چینی کی کمی نہیں ہے اس لیے 200000ٹن چینی درآمد کرنے کی بجائے (جس سے پاکستانی فارن ایکسچینج100 ملین ڈالر کم ہوگا)چینی مقامی ملوں سے حاصل کی جائے۔
سٹیٹ بنک کی اس بات کے جواب میں کہ چینی کی قیمتں زیادہ ہیں پاسما کا کہنا ہے کہ چینی کی زیادہ قیمت کی وجہ گنے کی زیادہ قیمتیں(جو کہ 130 روپے فی من تھی) اور اونچا انٹرسٹ ریٹ ہیں۔
سورس