چین اور امریکا کے درمیان کورونا وائرس کے حوالے سے لفظی جنگ میں تیزی

الف نظامی

لائبریرین
چین نے اپنے ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے پیمانے کو چھپا کر رکھا اور اس کے لیے کیسز اور اموات کی مجموعی تعداد پوری طرح ظاہر نہیں کی۔

یہ دعویٰ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے اپنی ایک خفیہ رپورٹ میں کیا جو وائٹ ہائوس میں جمع کرائی گئی۔

بلومبرگ کی رپورٹ میں 3 امریکی عہدیداران کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا، جنہوں نے اپنے نام چھپانے کی شرط عائد کی اور تفصیلات بتانے سے گریز کیا، مگر ان کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے کیسز اور اموات کی تعداد کو دانستہ طور پر کم بتایا گیا۔

2 عہدیداران نے بتایا کہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین کے اعدادوشمار درست نہیں، جبکہ وائٹ ہائوس میں اس رپورٹ پر گزشتہ ہفتے نظرثانی کی گئی۔

خیال رہے کہ نئے نوول کورونا وائرس کی وبا گزشتہ سال کے آخر میں چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوئی تھی اور وہاں مجموعی طور پر اب تک 82 ہزار کے قریب کیسز اور 33 سو اموات کی تصدیق ہوئی۔

اس کے مقابلے میں امریکا میں کیسز کی تعداد سوا 2 لاکھ کیسز اور 5 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

چین کی تردید
دوسری جانب چین نے امریکی انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے کہ بیجنگ کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے معلومات کو چھپایا گیا۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونئنگ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ چین نے وبا سے متعلق ہمیشہ ’واضح اور شفاف‘ رویہ اختیار کیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ صحت کے معاملے پر سیاست کرنا چھوڑ دے اور اس کے بجائے اپنے لوگوں کی حفاظت پر توجہ دے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ امریکی حکام لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں، درحقیقت ہم ان کے ساتھ اس بحث کا حصہ نہیں بننا چاہتے، مگر ہمیں لگتا ہے کہ اس حوالے وضاحت ضروری اور سچ سامنے آنا چاہیے۔

انہوں نے امریکی ردعمل کی رفتار پر سوال کیا جب امریکا نے 2 فروری کو چین سے لوگوں کی آمد پر پابندی عائد کردی گئی’ کیا کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ امریکا نے ان دو مہینوں میں کیا کچھ کیا؟’

بیانات کا تبادلہ
یکم اپریل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین کا ڈیٹا کم لگتا ہے اور انہیں انٹیلی جنس رپورت موصول نہیں ہوئی۔

وائٹ ہائوس میں روزانہ کی بریفننگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ چین کے اعدادوشمار کچھ کم لگتے ہیں ‘درحقیقت میں تو اچھے الفاظ میں یہ کہہ رہا ہوں’۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور چین کے درمیان مسلسل رابطہ موجود ہے اور بیجنگ کی جانب سے ڈھائی سو ارب ڈالرز امریکی مصنوعات خریدنے پر خرچ کیے جارہے ہیں۔

واضح رہے گزشتہ چند دنوں سے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کورونا کو ’چینی وائرس‘ قرار دینے پر فرانس میں چین کے سفارتخانے نے کہا تھا کہ دراصل یہ وائرس امریکا سے شروع ہوا تھا۔

چینی سفارتخانے نے سوال اٹھایا تھا کہ ’گزشتہ برس ستمبر میں (امریکا) میں شروع ہونے والے فلو کی وجہ سے 20 ہزار اموات میں کتنے مریض کورونا وائرس کے تھے؟‘

اس سے قبل اتوار کے روز امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ چین سے ’تھوڑا سا پریشان‘ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’انہیں ہمیں (وائرس) کے بارے میں بتانا چاہیے تھا‘۔

مارچ کے وسط میں چینی محکمہ خارجہ نے امریکی سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کے ایک اجلاس کی ویڈیو کو ثبوت بنا کر دعویٰ کیا تھا کہ ’دراصل کورونا وائرس کو امریکی فوج ہی چین کے شہر ووہان‘ لے کر آئی تھی۔

چین کے محکمہ خارجہ کے ترجمان لی جیان ژاؤ نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں امریکی سینیٹ کی ’وبائی اور پھیلنے والی بیماریوں سے متعلق ذیلی کمیٹی کے اجلاس کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ویڈیو سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا وائرس پہلے امریکا میں رپورٹ ہوا‘۔

کورونا وائرس کے نئے مرکز اور دنیا کے سب سے زیادہ متاثر ملک امریکا میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ریکارڈ 884 ہلاکتیں ہونے کے بعد وہاں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 5 ہزار سے زائد ہوگئی جب کہ وہاں ایک ہی دن میں 25 افراد وبا کا شکار بھی بنے۔

دوسری جانب امریکا میں ہلاکتوں میں مسلسل اضافے کے بعد ماہرین نے نئے اندازے لگائے ہیں اور بتایا ہے کہ اگر اموات کی شرح یوں ہی جاری رہی تو صرف امریکا میں ہلاکتوں کی تعداد 2 لاکھ 40 ہزار تک جا سکتی ہے۔
 
Top