چین اور جنگ ستمبر...تحریر:مشاہد حسین سید

چین اور جنگ ستمبر...تحریر:مشاہد حسین سید

294349_l.jpg

آج جیسا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کے عوام اور پالیسی سازوں میں اس قدر جوش و خروش ، امید اور رجائیت پیدا کررہی ہے، ایسے موقع پر یہ یاد کرنا سبق آموز ہوگا، کہ اس اسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد لگ بھگ 50 سال قبل رکھی گئی جب چین نے ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ضرورت کی گھڑی میں ٹھوس طریقے سے پاکستان کا ساتھ دیا۔ستمبر کی جنگ پاکستان کی متنوع تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ اس نے ہمیشہ کیلئے ہماری خارجہ پالیسی کی شکل کو تبدیل کر دیا۔ اس جنگ نے ایک بہت مضبوط دشمن کے خلاف مزاحمت کرنے کے لئے پاکستانی قوم کے متحدہ عزم کا بھی مظاہرہ کیا، اور 50 سال کے بعد آج انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ کے دوران یہ جذبہ دوبارہ سے زندہ ہوا ہے۔ستمبر 1965 کی جنگ نے پاکستانی عوام میں دوستوں اور دشمنوں کا تصور بھی تبدیل کردیا، امریکہ کے بارے میں ایک دائمی بد اعتمادی پیدا ہوئی، اور چین دوستی کے بنیادی امتحان سے گزر کر ہمارا سب سے اچھا دوست قرار پایا۔ستمبر 1965 کی جنگ میں سفید لبادے میں ملبوس نورانی ہستیوں کی کئی داستانیں مشہور ہوئیں، جو اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے بھارتی بموں کا رخ پھیر دیتے تھے۔ اس نے ہمارے ہیرو پرست عوام کو خالد بن ولید اور محمد بن قاسم جیسی بہادری اور عظمت کی نئی داستانیں فراہم کیں۔ اور اس نے مشرقی ومغربی پاکستان کے درمیان موجود اس گہری خلیج کو بھی نمایاں کیا، جس کے بطن سے بعدازاں تیسری دنیا کی پہلی کامیاب علیحدگی پسند تحریک نے جنم لیا، جس کی بنیاد بھارت نے سوویت یونین کے ساتھ مل کر رکھی تھی۔اس جنگ نے ہمارا سیاسی ماحول بھی تبدیل کردیا، سوئی ہوئی قوتوں بیدار کردیا، ایک ایسا تحرک پیدا کیا، جس نے بظاہر مضبوط آمریت کو موثر طریقے سے ہلا مارا، نیز پاکستانی سیاسی شعور میں بھی بھرپور اضافہ ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عروج اور ایوب خان کے زوال کا تعلق لاینحل طور پر 1965 ء کی جنگ سے ہے۔ستمبر 1965 کے دوران پاکستان نے نہ صرف بھارتی جارحیت کا دفاع کیا، بلکہ میدان جنگ میں بعض شعبوں میں قابل ذکر کامیابی حاصل کی، جسے زیادہ تر تین الف سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالی، پھر آرٹلری اور پھر ائر فورس۔تاہم ’ہزار سالہ جنگ‘ تاشقند میں پسپائی کے بعد کس طرح 17 روزہ تعطل میں تبدیل ہوئی، یہ ہنوز بنیادی طور پر ایک ان کہی اور بڑی حد تک بھولی بسری کہانی ہے۔ایک عمومی طور پر محتاط رویہ رکھنے والے فیلڈ مارشل نے ایسا قدم کیوں اٹھایا، جس کے مضمرات وہ کبھی نہ بھانپ سکا اور نہ ہی اسے اپنے بس میں کرنے کے قابل ہوسکا؟۔ وہ ایک پراعتماد جرنیل تھا جو خطرات مول لینے سے گریز کیا کرتا تھا خاص طور پر اس جیسے جو آپریشن جبرالٹر کے نتیجے میں سامنے آئے۔یہاں تک کہ اگر پاکستانی فوج کے تناظر میں بھی بات کی جائے، تو جنرل اکبر خان جیسے ’عقابوں‘ کے مقابلے میں جنرل ایوب خان کو بھارت کے لیے فاختہ سمجھا جاتا تھا۔ نومبر 1953 ء میں، امریکی نائب صدر رچرڈ نکسن نے پاکستان کا دورہ کیا. اپنی یادداشتوں میں نکسن نے لکھا کہ وہ جنرل ایوب خان سے متاثر ہوئے ہیں جو اس وقت پاکستان آرمی کے کمانڈر ان چیف تھے۔ نکسن نے لکھا ’یہ ان چند پاکستانیوں میں شامل ہیں جو بھارت مخالف سے زیادہ کمیونسٹ مخالف ہیں۔ اور پھر 1959 میں ایوب نے بھارت کو کمیونزم کے خلاف مشترکہ دفاع کی پیش کش بھی کی جسے نہرو نے حقارت سے مسترد کردیا۔ درحقیقت یہی وہ محتاط طرز عمل تھا جس کی وجہ سے ایوب نے 1962 میں چین بھارت جنگ میں بھارت پر حملہ نہ کیا۔ پاکستان نے یہ موقع امریکی دباؤ کی وجہ سے گنوا دیا جس پر بعد میں پاکستان بہت پچھتایا۔چونکہ 1965 کی جنگ کا کوئی مستند بیان دستیاب نہیں ہے ، اس لیے "آپریشن جبرالٹر" شروع کرنے کے ایوب خان کے فیصلے کے پیچھے موجود وجوہات کو سمجھنے یا ان کا تجزیہ کرنا مشکل ہے. عمومی طور پر تین وضاحتیں ملتی ہیں۔ اول جنوری 1965 کے دھاندلی زدہ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دینے کے بعد تازہ تازہ، ایوب خان حقیقت میں کچھ ایسا کر دکھانا چاہتا تھا کہ اس کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہیرو کے طور پر امر ہو جائے۔ اس کے چاپلوسوں بمع بیوروکریسی میں موجود طاقتور قوم پرست ذہن رکھنے والے سخت گیروں اسے کشمیر پر اکسایا۔اس حوالے سے ان کا مارچ 1965 کا دورہ چین اہم ثابت ہوا۔ ایوب اور ان کے وفد کے اہم ارکان چینیوں کی جذبات، دوستی اور خلوص سے بظاہر بہت زیادہ متاثر تھے۔ ان دنوں چینی ‘’پیپلز وار‘ کے اپنے اصول کو فروغ دے رہے تھے۔ اس نے ایوب خان اور ان کے ساتھیوں کو مقبوضہ کشمیر میں ممکنہ فوجی حکمت عملی کے تناظر میں بہت متاثر کیا۔ انہوں نے کم سے کم خطرات مول لے کر (پاکستانی فوج کی شمولیت کا منکر ہوکر) زیادہ سے زیادہ فوائد (بھارتی قبضے کے خلاف کشمیر میں عوامی بغاوت کو اکسانے) حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایوب خان کے دورہ چین کے بعد اپریل 1965 میں پاکستان اور چین میں پہلا دفاعی معاہدہ ہوا۔ اور 1966-1980 سے، چین نے نہ صرف پاکستان میں دفاعی پیداوار کے مراکز کی تعمیر میں مدد کی بلکہ پاکستان کو تمام ہتھیار، گولہ بارود اور فوجی سازوسامان بھی مفت فراہم کیا.دوم، اپریل 1965 میں رن آف کچھ کے علاقے میں بھارت کے ساتھ ہونے والی مختصر کامیاب فوجی جھڑپ سے بھی پاکستانی پالیسی سازوں کو غلط فہمیاں لاحق ہوگئیں۔ انہوں نے ایک صحرائی علاقے میں اس محدود مہم سے وسیع تر نتائج اخذ کرلیے، اور اس کی وجہ سے شاید جی ایچ کیو میں اعتماد پیدا ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستانی قیادت نے بھی پستہ قد، نرم لہجے والے لیکن مضبوط قوت ارادی والے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کا غلط اندازہ لگایا۔ مضحکہ خیز طور پر، جس طرح پاکستان نے شاستری کو حقیر جانا جاتا تھا، 50 سال بعد، آج الٹا مودی اپنی عاقبت نا اندیش دھونس اور جارحانہ وطن پرست حکمت عملی کے ذریعے پاکستان کا غلط اندازہ لگا رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب دونوں ایٹمی صلاحیت رکھنے والے پڑوسی ہیں۔سوم، ایوب خان کو دفتر خارجہ کی جانب سے تجزیہ دیا گیا تھا کہ ، پاکستان مقبوضہ کشمیر میں کچھ بھی کرے، بھارت بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کی کبھی ہمت نہیں کرے گا.جس کا آغاز ایک شاندار تصوراتی منصوبے کے طور پر ہوا تھا، وہ عملدرآمد کی خرابی کا شکار ہوگیا، پریشان ہائی کمان اعصاب پر قابو نہ رکھ سکی، اور ناخواستہ مضمرات کا اندازہ لگانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی، جس کے نتیجے میں میدان جنگ میں بہادری کی داستانیں رقم کرنے والے اور اپنی جانیں دینے والے سپاہیوں اور افسروں کی قربانیاں اکارت گئیں۔ 5 اگست 1965 کو اپنا نام صدائے کشمیر (وائس آف کشمیر) بتانے والے ایک خفیہ ریڈیو اسٹیشن نے بھارتی قبضے کے خلاف آزادی کی جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا. ’گوریلا پانی میں مچھلی کی طرح ہوتا ہے‘ کے ماؤ نواز قول کی طرز پر پاکستان کے باقاعدہ فوجیوں کی ’جبرالٹر فورس‘ جس کی تعداد 5 ہزار سپاہ پر مشتمل بتائی جاتی ہے، نے مقبوضہ کشمیر میں گوریلا کارروائیوں کا آغاز کردیا، اس امید پر کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ایک حقیقی عوامی بغاوت کو جنم دینے کے لئے محرک کا کام کریں گے۔اس آپریشن کے روایتی مرحلے کو ’آپریشن گرینڈ سلام کا کوڈ نیم دیا گیا (جبرالٹر فورس کی طرح یہ بھی میجر جنرل اختر حسین ملک کی ذہنی اختراع تھا جو برج کے شوقین کھلاڑی تھے)، جس کا مقصد چھمب، جوڑیاں اور اکھنور پر قبضہ کرنا تھا۔ اکھنور مقبوضہ کشمیر سے بھارتی رابطے کا ایک ذریعہ تھا۔ جرات مند فوجی کمانڈر جنرل اختر ملک نے اسے بھارتی فوجی مشینری سے ملنے والا ایک موقع جانا، جو 1962 میں چین کے ہاتھوں ذلت اٹھانے کے بعد بدستور بحالی کی حالت میں تھی، جس کے ساتھ ہی اسے کشمیر عوام اور بھارت کے درمیان اجنبیت کی گہری دیوار حائل تھی۔جبرالٹر فورس منصوبہ جو 1965 میں موسم گرما کے آغاز میں مری میں پاکستان فوج کی 12 ڈویژن آفیسرز میس کے ٹھنڈے کمروں میں بنایا گیا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد کا آغاز کشمیری عوام کی پوزیشن کو سمجھے بغیر ہی شروع کردیا گیا۔ اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی کی ایک طویل جنگ پر تیار کرنے کے لئے نہ تو مناسب حد تک بنیادی کام کیا گیا اور نہ ہی ان میں ضروری نفسیاتی تحرک پیدا کیا گیا۔جب آپریشن گرینڈ سلام کی کامیاب تکمیل ہونے ہی والی تھی (چھمب اور جوڑیاں پر قبضہ ہوگیا تھا)، کہ جنرل اختر ملک کو جنگ کے دوران کمان سے ہٹا کر ان کی جگہ میجر جنرل یحیی خان کو انچارج بنا دیا گیا۔ ایک کامیاب فوجی کمانڈر کو ہٹانے اور اکھنور پر حملہ ملتوی کرکے آپریشن گرینڈ سلام کو کھٹائی میں ڈال دیا گیا۔اس فیصلے کی آج تک کوئی وضاحت نہیں دی جاسکی۔ ایک قرین از قیاس نقطہ نظر یہ لگتا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے پرانے امریکی دوستوں کے دباؤ میں آکر ذاتی طور پر کمان کی تبدیلی اور اکھنور پر حملہ روکنے کا حکم دیا تھا، جنہوں نے ایوب سے کہا تھا کہ اکھنور پر حملہ ہوا تو بھارت سے بھرپور جنگ چھڑ سکتی ہے۔ فیلڈ مارشل کو بظاہر یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اگر وہ اپنے برج کے شوقین جنرل کو واپس بلا لیں تو بھارت بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا۔ کمان کی تبدیلی کی ایک اور توجیح یہ ملتی ہے کہ کریڈٹ کسے ملے گا۔ فتح کا سہرا اس جنرل کے سر پر بندھنا چاہیے جسے اعلیٰ عہدے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ یعنی ایوب کا قابل اعتماد ساتھی جنرل یحیی خان، نہ کہ اختر حسین ملک۔لیکن جب 6 ستمبر کو بھارتیوں نے لاہور پر حملہ کردیا، تو بغلیں بجانے والا امریکی سفارت کار تھا جس نے انتہائی نخوت بھرے لہجے میں ایوب خان سے کہا کہ ’ بھارتیوں نے تمہیں گلے سے پکڑ لیا ہے، ہے نا صدر صاحب!۔ اسی دوران سی آئی اے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے فوجی بغاوت کے ذریعے ایوب خان کو ہٹانے کے لیے خفیہ آپریشن کا منصوبہ بنایا۔ لندن کے اخبار دا ٹیلی گراف (13 ستمبر، 1965) کے مطابق سی آئی اے نے مشرقی پاکستان کے سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کو اس کام کے لیے ایک ممکنہ بغاوت ساز کے طور پر بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک مقبول ایڈمنسٹریٹر تھے، لیکن، اخبار کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا، اور فوری طور پر اپنے سابق باس کو خبردار کردیا۔ بعدازاں اس مضمون کی کاپیاں سینئر پاکستان آرمی آفیسران کو امریکی دھوکے بازی کی مثال کے طور پر دکھائی گئی۔ ایوب سے امریکہ کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ وہ چین کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے تھے، جو ان دنوں انکل سام کا دشمن نمبر ایک تھا۔ واشنگٹن نے پاکستان کو ایک اور اہم طریقے سے سزا دی۔ پاکستان کو اسلحے کے واحد سپلائر نے جنگ کے دوران تمام اسلحہ اور گولہ بارود کی رسد منقطع کردی، یہ پابندی 1970 تک جاری رہی۔بڑھتے ہوئے پاک چین تعلقات پر امریکی نقطہ نظر کی صدر لنڈن جانسن نے اس وقت کسی حد تک تلخیص کردی جب انہوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ، ذوالفقار علی بھٹو کا استقبال کیا جو نومبر 1963 میں صدر جان ایف کینیڈی کے جنازے میں شرکت کے لئے واشنگٹن پہنچے تھے. پاکستان کی چین کے ساتھ پینگوں پر تنقید کرتے ہوئے ٹیکساس کے قدرے اجڈ جانسن نے بھٹو سے کہا کہ یہاں دیکھو، میری ایک جوان بیٹی ہے اور وہ اپنے پریمی کے ساتھ باہر گھومنے جاتی ہے. مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ میرے پیچھے یہ دونوں کیا گل کھلاتے ہیں، لیکن اگر اس نے میرے سامنے کوئی حرکت کی تو مجھے ضرور غصہ آئے گا۔جب امریکہ اپنے "سب سے زیادہ اہم اتحادی" کے ساتھ یہ سلوک کررہا تھا، اس وقت چین کا رویہ نمایاں طور پر مختلف تھا. چین نے پاکستان کی ہرممکن مدد کی. پاکستان سے دباؤ ختم کرنے کے لئے، 16 ستمبر کو، چین نے الٹی میٹم دے کر بھارت کو خبردار کیا کہ تین دن کے اندر چین بھارت سرحد پر فی الفور تمام مداخلت بند کردی جائے، چرائے گئے مویشیوں اور اغوا کیے گئے سرحد باشندوں کو واپس لوٹایا جائے، بصورت دیگر بھارت کو تمام تر سنگین نتائج کی پوری ذمہ داری برداشت کرنی پڑے گی.ستمبر 19 تا 20 کے درمیان جنگ کے نقطہ عروج پر، ایوب خان نے بھٹو کے ہمراہ بیجنگ کا خفیہ دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات وزیراعظم ژہو این لائی اور دیگر چینی رہنماؤں سے ہوئی۔ جب دسمبر 1965 میں ایوب خان نے اختلافات ختم کرنے کے لیے واشنگٹن کا دورہ کیا، تو انہوں نے صدر جانسن سے کھل کر اس معاملے پر بات کی اور پاکستان بیجنگ رشتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم امریکا سے قطع تعلق کرتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ ہماری معیشت تباہ ہوسکتی ہے، لیکن اگر ہم نے چین سے تعلق توڑا تو ہم اپنا ملک کھو سکتے ہیں۔ پاکستان نے اس قدر واضح طور پر ایک تاریخی و اسٹریٹجک انتخاب کرلیا۔ جہاں تک قومی مفاد کا تعلق ہے تو امریکا سے زیادہ چین اہم ہے۔جنگ ستمبر نے موثر طریقے سے ایوب خان کی سیاست قسمت پر مہر ثبت کردی۔ وہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کی اپنی کوشش میں ناکام ہوگئے۔ تاشقند میں وہ اپنے اس پختہ عزم سے پھر گئے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل تک اپنی فوجیں سرحدوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹائے گا۔درحقیقت، جب معاہدہ تاشقند پر دستخط کے فوری بعد شاستری کا انتقال ہوا، تو پاکستان میں یہ لطیفہ بڑا مشہور ہوا کہ بھارتی وزیراعظم اپنی کامیابی کی انتہائی خوشی برداشت نہ کرسکے اور مرگئے۔ تاشقند میں جب بھٹو کے کمرے میں سیکرٹری خارجہ نے انہیں جگایا اور کہا کہ ’ مرگیا حرام زادہ ‘ تو نیند میں ڈوبے لیکن ذہنی طور پر الرٹ وزیر خارجہ نے ’کون سا والا‘؟سیاسی ہیجان کی بنیاد جنگ ستمبر ختم ہونے کے فوری بعد ہی رکھ دی گئی تھی، جو ایوب اقتدار کے خاتمہ کا نکتہ آغاز ثابت ہوئی۔ پہلی بار بنگالیوں نے ،جنہیں اس وقت تک اسلام آباد نے محب وطن کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہوا تھا، انہیں مغربی پاکستان سے جغرافیائی طور پر علیحدہ ہونے، تنہائی اور بھارت کے رحم و کرم پر ہونے کا عجیب سا احساس ہوا۔ چونکہ پاکستان کے فوجی منصوبہ سازوں نے ہمیشہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کی ذمہ داری سمجھا تھا،( نتیجتاً مشرقی پاکستان کی جنگ پنجاب کے میدانوں میں لڑی گئی) اس لیے صرف 12 ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک ڈویژن ڈھاکا میں تعینات تھا۔جب مشتعل بنگالی ارکان اسمبلی نے قومی اسمبلی میں تیکھے سوالات اٹھائے، تو انہیں غدار کے الزامات سے نوازا گیا۔مسیح الرحمن جو بعد میں بنگلہ دیش کے وزیراعظم بنے، نے جب پوچھا کہ اگر بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو کیا ہوگا۔ تو حکومت نے بڑے پراعتماد طریقے سے جواب دیا کہ چین مشرقی پاکستان کا دفاع کرے گا۔ مسیح الرحمن نے منطقی سوال اٹھایا، بہت خوب، اگر چین نے ہمارا دفاع کرنا ہے تو پھر مغربی پاکستان کے ساتھ رہنے کی ہمیں کیا ضرورت ہے؟۔خارجہ پالیسی میں بھی وسیع مضمرات دیکھے گئے۔ ستمبر 1965 میں پاکستان کو امریکا کے ساتھ اتحاد اور اپنی سلامی کے لیے بیرونی مدد کے حصول کی پالیسی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ پاکستانی عوام کی نگاہوں میں امریکا نے نہ صرف اپنے وفادار دیرینہ اتحادی کو دھوکا دیا بلکہ اس کے دشمن کو اپنا دوست بھی بنالیا۔ امریکا کے ساتھ کسی بھی خصوصی تعلقات سے متعلق موجودہ عوامی بداعتمادی کی جڑیں 1965 کی جنگ سے جا ملتی ہیں۔چین 1965 سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا، جس نے پاکستانیوں کی دل و دماغ جیت لیے، جنہوں نے اپریل 1966 میں پاکستان کا دورہ کرنے والے چینی صدر لیو شاؤقی کا بے مثال و بھرپور استقبال کرکے چین کا شکریہ ادا کیا۔ تب سے پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے افراد نے چین کے ساتھ گہرے تعلقات کی ضرورت پر اتفاق کیا، جو سیاسی تقسیم کے دونوں اطراف موجود ہے۔ چین کے ساتھ دوستی کا ایک دلچسپ نتیجہ یہ نکلا کہ سوشلسٹ نظریات کو پاکستانی سیاست میں نامعلوم قانونی حیثیت مل گئی، جو بنیادی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی مرہون منت ہے، جنہوں نے 1967 میں فخریہ انداز میں ماؤ ٹوپی اور ماؤ طرز کے بٹن والی قمیض پہنچ کر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، جو لباس کی اہم علامتی تبدیلی تھی۔جیسا کہ ستمبر 1965 سے ہمیں مثال ملتی ہے، کہ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کے حوالے سے فوجی نظریے میں ایک بنیادی تصوراتی خرابی ملی: کہ قومی سلامتی کو صرف فوجی طاقت کے لحاظ سے دیکھنے کا رجحان یعنی (ٹینک، ہوائی جہاز، افواج، میزائل وغیرہ).
 

آوازِ دوست

محفلین
مشاہد حُسین سید صاحب نے ماضی بعید کی آمریت پروردہ فوجی قیادت کے احمقانہ فیصلوں کو جِس خوبی سے اُجاگر کیا ہے اِس سے زیادہ مہارت اور صفائی سے وہ ماضی قریب کے ڈکٹیٹر کے دستِ راست ہونے کا مشکل فریضہ سر انجام دیتے رہے ہیں۔ دانش فروشی اصل میں قوم فروشی ہی ہے۔
 
Top