چین میں اویغور مسلمانوں پر ظلم

ربیع م

محفلین
چین میں اویغور مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی بنیادی وجوہات
_103625137_efdda2fd-39be-4810-8b15-f8f24dea5710.jpg
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionایک اویغور مسلمان چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں اذان دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
چین کی جانب سے بعض مسلم اقلیتی فرقوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔

چین مسلم اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو جنگی قیدیوں کے کیمپ (انٹرنمنٹ کیمپ) میں رکھا گیا ہے۔

اگست میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کو معلوم ہوا کہ چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں اور دیگر مسلم فرقوں کے دس لاکھ افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے اور ان کی 'ری ایجوکیشن' یعنی ازِسر نو تعلیمی پروگرام کے تحت ان کی تربیت کی جا رہی ہے۔

یہ دعوے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کیا ہے لیکن چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ دریں اثناء سنکیانگ میں رہنے والے افراد کے خلاف جابرانہ نگرانی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

یہاں ہم ان کے بارے میں آپ کو چند بنیادی باتیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اویغور کون ہیں؟
_103625139_1d444d80-f96f-46bd-a3c7-662939808e37.jpg
تصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionاویغور اپنے آپ کو وسط ایشائی ممالک سے قریب تر بتاتے ہیں
یہ نسلی طور پر ترکی النسل مسلمان ہیں اور یہ چین کے مغربی علاقے میں آباد ہیں جہاں ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ وہ خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں اور ان کی زبان ترک زبان سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔

لیکن حالیہ دہائیوں میں سنکیانگ میں ہان (چین کی اکثریتی نسل) چینیوں کی بڑی آبادی وہاں منتقل ہوئی ہے اور اویغوروں کو ان سے خطرہ لاحق ہے۔

_103626611_gettyimages-111974346.jpg
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
سنکیانگ کہاں ہے؟
یہ چین کے انتہائی مغرب میں واقع بڑا صوبہ ہے اور یہ ملک کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ تبت کی طرح یہ ایک خودمختار (کم سے کم اصولی طور پر) علاقہ ہے اور بیجنگ سے علیحدہ اس کی اپنی حکومت ہے۔ لیکن عملی طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے اس پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔

اویغور کی آبادی اس علاقے کی مجموعی دو کروڑ 60 لاکھ آبادی کا تقریباً نصف ہے۔

اس کی سرحدیں بہت سے ممالک سے ملتی ہیں جن میں انڈیا، افغانستان،پاکستان اور منگولیا شامل ہیں۔

سنکیانگ کے باشندوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟
_103599572_mediaitem103599565.jpg
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاپنے عزیر کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہوئے چند اویغور باشندوں کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اویغور نسل کے لوگوں کو شدید نگرانی کا سامنا ہے اور انھیں اپنے ڈی این اے اور بائیومیٹرکس کے نمونے دینے پڑ رہے ہیں۔ وہاں آباد جن لوگوں کے رشتہ دار انڈونیشیا، قزاقستان اور ترکی جیسے 26 'حساس' ممالک میں ہیں انھیں مبینہ طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے اور تقریباً دس لاکھ افراد کو ابھی تک حراست میں لیا جا چکا ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے
چین: محکمۂ توانائی کے اویغور سربراہ کے خلاف تفتیش

اویغور مسلمانوں اور چین کے درمیان جھگڑا کیا ہے

چین: مسلمانوں کی گرفتاریوں کی خبریں بے بنیاد ہیں

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ وہاں آباد جس کسی شخص نے ملک سے باہر واٹس ایپ پر اگر کسی سے رابطہ کیا ہے تو اسے بھی حراست میں لیا جا رہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انھیں وہاں مینڈارن یا چینی زبان سکھائی جا رہی ہے اور انھیں اپنے مذہب کو ترک کرنے یا ان کی تنقید کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان سے صدر شی جن پنگ کے ساتھ وفاداری کی قسمیں بھی کھلائی جا رہی ہیں۔

بی بی سی کو کیا پتہ چلا ہے؟
_103625481_gettyimages-623230924.jpg
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
چین کے بعض سابق قیدیوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں کیمپوں میں جسمانی اور نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا ہے کہ کنبے کے کنبے لاپتہ ہوگئے ہیں اور ہمیں یہ بھی بتایا گيا کہ انھیں جسمانی اور ذہنی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گيا ہے۔

ہم لوگوں نے سنکیانگ میں ایسے شواہد دیکھے جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ صوبہ مکمل نگرانی میں ہے۔ جو چینی قیدی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے انھوں نے بی بی سی نیوز نائٹ کے پروگرام سے بات کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔

ایک شخص عمر نے بتایا:'وہ ہمیں سونے نہیں دیتے تھے، وہ ہمیں گھنٹوں لٹکائے رکھتے اور پیٹتے رہتے۔ ان کے پاس لکڑی کے موٹے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے سوٹے تھے جبکہ تاروں کو موڑ کر انھوں نے کوڑے بنا رکھے تھے، جسم میں چبھونے کے لیے سوئیاں اور ناخن کھینچنے کے لیے پلاس تھے۔ یہ سب چیزیں میز پر ہمارے سامنے رکھی ہوتیں اور ان کا ہم پر کبھی بھی استعمال کیا جاتا۔ ہم دوسرے لوگوں کی چیخیں بھی سنتے۔'

ایک دوسرے شخص عزت نے بتایا: 'رات کے کھانے کا وقت تھا۔ تقریباً 1200 افراد ہاتھوں میں پلاسٹ کا خالی کٹورا لیے کھڑئے تھے اور انھیں چین کے حق میں گیت گانا تھا تاکہ انھیں کھانا ملے۔ وہ ربوٹ کی طرح تھے۔ ان کی روحیں مر چکی تھیں۔ ان میں سے بہت سوں کو میں اچھی طرح جانتا تھا۔ ہم ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے تھے۔ لیکن اب وہ اس طرح کا برتاؤ کر رہے تھے جیسے کسی کار کریش کے بعد ان کی یادداشت جاتی رہی ہو۔'

اس بارے میں مزید پڑھیے
اویغوروں کو کیمپوں میں رکھنے پر اقوام متحدہ کی تشویش

مقید چینی مسلمان رہنما کے لیے انسانی حقوق کا ایوارڈ

اویغوروں کے تشدد کا کیا؟
_103625480_d83ac8b4-32d8-40fe-a932-f5e4507bc7a5.jpg
تصویر کے کاپی رائٹAFP
سنکیانگ اور اس کے باہر کئی حملوں کا الزام علیحدگی پسند اویغوروں پر ڈالا گیا ہے۔ سنہ 2009 میں دارالحکومت ارمچی میں ہونے والے فسادات میں تقریباً 200 افراد مارے گئے تھے جن میں سے زیادہ تر ہان نسل کے چینی تھے۔

فروری سنہ 2017 میں جب پانچ لوگوں کو چاقو مار کر قتل کر دیا گیا تو اویغوروں پر کریک ڈاؤن میں اضافہ کر دیا گیا۔

چین کیا کہتا ہے؟
چین اپنے صوبے سنکیانگ میں امن میں خلل کے لیے علیحدگی پسندوں اور اسلامی عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے

چین سنکیانگ میں کسی 'انٹرنمنٹ کیمپ' کے وجود سے انکار کرتا ہے لیکن یہ کہتا ہے کہ وہاں 'پیشہ ورانہ تربیت' دی جا رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ 'حکومت نسلی علیحدگی پسندوں اور پر تشدد دہشت گردانہ مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔'

دنیا کیا کر رہی ہے؟
چین کی جانب سے اویغور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے تاہم کسی بھی ملک نے ابھی تک سوائے مذمت اور تنقیدی بیان جاری کرنے کے کوئی بھی کارروائی نہیں کی ہے۔

ماخذ
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت اور وزارت خارجہ چين ميں مسلمان آبادی پر انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔

امريکی وزارت خارجہ نے مسلم اقليتی آباديوں کی تيزی سے ابتر ہوتی ہوئ صورت حال کے حوالے سے اپنے شديد خدشات کا اظہار کيا ہے۔

اس ضمن ميں جاری کيے جانے والے بيان ميں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ

"ہميں پکڑ دکھڑ کی بڑھتی ہوئ کاروائيوں کے حوالے سے تشويش ہے۔ صرف اويغور کے خلاف ہی نہيں بلکہ کازک اور چين ميں ديگر مسلمان آباديوں کے خلاف بھی"۔

امريکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بات کی بھی تصديق کی کہ امريکی حکومت کو اگست کے آخر ميں امريکی قانون سازوں کی جانب سے ايک خط بھی موصول ہوا تھا جس ميں امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے اس بات کا مطالبہ کيا گيا تھا کہ چين کے ان عہديداروں پر قدغن لگائ جائے جن پر ان غير انسانی پاليسيوں کے اطلاق کے الزامات ہيں۔

"ايسی مصدقہ رپورٹس ہيں جن کے مطابق اپريل 2017 سے ہزاروں کی تعداد ميں افراد کو قيد خانوں ميں رکھا گيا ہے اور يہ تعداد خاصی زيادہ ہے"۔

امريکی وزير خارجہ، سفير اور قونصل خانوں کے نمايندوں نے بارہا عوامی سطح پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزيوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کيا ہے۔

اگست 15 کو وزير خارجہ نے اپنے بيان ميں کہا کہ "چين ميں حکومت اپنے مذہبی عقائد کی انجام دہی کی پاداش ميں ہزاروں افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ انھيں عقوبت خانوں ميں قيد بھی کرتی ہے۔"

ياد رہے کہ سال 2017 کے ليے مذہبی آزادی کے ضمن ميں جاری سالانہ رپورٹ ميں بھی چين ميں مسلمانوں کے خلاف ظلم اور زيادتی کے واقعات کو تفصيل سے اجاگر کيا گيا ہے۔

International Religious Freedom Report for 2017


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

ربیع م

محفلین
کوئی مسلم ملک اویغور مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں بولتا؟
سندیپ سونیبی بی سی ہندی، دہلی
  • 3 گھنٹے پہلے
_103736647_05a5d885-dd96-4fe2-9590-62ffb796398a.jpg

'چین ایک ایسا ملک بنتا جا رہا جہاں ہمہ وقت آپ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جہاں آپ ذرا سی غلطی پر سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ جہاں سوچ پر بھی پہرہ ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں غیر ملکی صحافیوں کو پسند نہیں کیا جاتا ہے۔'

یہ چین کے بارے میں بی بی سی کے ایک صحافی کا تجزیہ ہے جس کا احساس انھیں رواں سال چین کے بڑے علاقے سنکیانگ کے دورے کے دوران ہوا۔

'زندہ لوگ مردہ بن کر نکلے'
’مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گيا ہے۔ لاکھوں لوگ لاپتہ ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگوں کے پاس کوئی حق نہیں ہے۔ آپ کو کوئی عدالت کوئی وکیل نہیں ملے گا۔ مریضوں کے لیے کوئی دوا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ افراد کیمپ سے مردوں کی حالت میں نکل رہے ہیں۔‘

p06k8dg6.jpg


اویغور برادری کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر اقوام متحدہ کی تشویش
بی بی سی کے ہارڈ ٹاک پروگرام میں انسانی حقوق کے اویغور پروجیکٹ کے نوری تاکیل نے یہ باتیں کہی ہیں۔

'اس سے بہتر گولی مارو'
'میری ماں اور بیوی کو کیمپ میں لے جایا گیا۔ انھیں لکڑی کی سخت کرسی پر بٹھایا جاتا ہے۔ میری بدنصیب ماں کو روزانہ اس عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری بیوی کا گناہ بس اتنا ہے کہ وہ اویغور مسلمان ہے۔ اس کی وجہ سے، انھیں ایک علیحدہ کیمپ میں رکھا گیا ہے جہاں انھیں زمین پر سونا پڑتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آج وہ زندہ ہے یا نہیں۔ میں برداشت نہیں کر سکتا کہ میری ماں اور بیوی کو چینی حکومت تڑپا تڑپا کر مارے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ انھیں گولی مار دو۔ گولی کے لیے پیسے میں دوں گا۔'

_103736648_3534ef3a-63d6-49e9-a8a7-d7ace71fc704.jpg

Image captionبی بی سی نمائندہ جان سڈورتھ
یہ ان ہزاروں اویغور مسلمانوں میں سے ایک مسلمان عبدالرحمن کی آپ بیتی ہے جو کسی طرح سے جان بچا کر ترکی جانے میں کامیاب ہوئے۔

'میں نے ایک جگر اور دو گردے نکالے'
بی بی بی کے ساتھ بات چیت میں برطانیہ میں مقیم ایک اویغور انور توہتی نے چین کے حالات کے بارے میں کہا: 'یہ سنہ 1995 کی بات ہے۔ مجھے بلا کر ایک ٹیم بنانے کے لیے کہا گيا۔ پھر وہ ہمیں وہاں لے گئے جہاں لوگوں کو سزا کے طور پر گولی ماری گئی تھی۔ وہاں میں نے ایک جگر اور دو گردے نکالے۔ لیکن اس قیدی کی ابھی موت واقع نہیں ہوئی تھی کیونکہ قیدی کے دانستہ طور پر سینے کے اس حصے پر گولی ماری گئی تھی کہ اس کی جان فوری طور پر نہ نکلے۔'

انھوں نے مزید کہا: 'اس وقت اس کام میں مجھے کچھ غلط کرنے کا احساس نہیں ہوا کیونکہ میں اس معاشرے میں پیدا ہوا تھا جہاں لوگوں کے ذہن میں بہت سی چیزیں ڈال دی گئی تھیں اور میرا بھی یہ خیال تھا کہ ملک کے دشمن کو ختم کرنا ہمارا فرض ہے۔'

_103736649_d5a061ad-e3e9-4491-afd0-ed94eedad718.jpg

Image captionانسانی حقوق کے اویغور پروجیکٹ کے نوری تاکیل
مذکورہ بالا واقعات و تجربات چین کے سنکیانگ صوبے کے متعلق ہیں، جہاں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔

چین پر یہ الزام ہے کہ اس نے اقلیتوں اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کو قید اور حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چین: اویغوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں کیا جا رہا ہے؟

چین: محکمۂ توانائی کے اویغور سربراہ کے خلاف تفتیش

رواں سال اگست میں اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے بتایا کہ وہاں تقریباً دس لاکھ لوگ حراست میں ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے جبکہ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

'علیحدگی پسند اسلامی گروہوں سے خطرہ'
برطانیہ، امریکہ اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اداروں نے بھی اویغور مسلمانوں کی حالت پر تشویش ظاہر کی ہے، لیکن چین نے علیحدگی پسند اسلامی گروہوں کا خطرہ کہہ کر انھیں مسترد کر دیا ہے۔

_103736650_9a1f1631-fbdd-4e05-b7f7-bc9e0b8a0ec3.jpg

Image captionعبدالرحمن حسن
دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں چین کے ماہر پروفیسر سوورن سنگھ کہتے ہیں: 'گذشتہ ایک دہائی میں بین الاقوامی ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔ دنیا بھر میں ایک خاص کمیونٹی کو انتہا پسندی کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے اور یہ اپنے آپ میں غلط رویہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ باقی دنیا کی طرح چین میں بھی یہ رجحان ہے۔'

وہ کہتے ہیں: 'اویغور مسلمانوں کے متعلق چینی حکومت کی پالیسی میں اس سوچ کی جھلک ملتی ہے۔ خبریں تو یہی کہتی ہیں کہ تقریباً دس لاکھ مسلمانوں کو عقوبت خانوں میں رکھا ہوا ہے جسے چين سرکاری 'ری ایجوکیشن کیمپ' کہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’تکلیف دینے کی بجائے گولی مار دو‘

اویغور مسلمانوں اور چین کے درمیان جھگڑا کیا ہے

چین: مسلمانوں کی گرفتاریوں کی خبریں بے بنیاد ہیں

سنکیانگ کے اویغور مسلمان ثقافتی طور پر خود کو وسطی ایشیا کے ممالک کے قریب بتاتے ہیں۔ ان کی زبان ترکی کی زبان سے مماثل ہے۔

شناخت کا بحران
_103736651_131a2040-a2a5-4a6b-8264-23f5a690849a.jpg

پروفیسر سوورن سنگھ کا خیال ہے کہ اویغور مسلمانوں کے سامنے اپنی شناخت کا بحران ہے۔ 'وہ سوچتے ہیں کہ ان کی زبان اور ثقافت کو فروغ نہیں دیا جا رہا ہے۔ ان کے طور طریقوں کو دبایا جا رہا ہے۔ مشرقی ترکمانستان کی آزادی تحریک ایک علیحدہ مسئلہ ہے جو چین کو ناگوار ہے۔ چین کی حکومت انھیں اقلیت کے طور پر دیکھتی ہے۔ سنکیانگ سرحدی ریاست ہے جو وسطی ایشیائی ممالک سے ملتی ہے۔‘

برطانیہ اور امریکہ جیسی طاقتیں چين کے سامنے اویغور مسلمانوں کے مسائل محتاط انداز میں رکھتی ہیں۔ اور اکثر یہ تنقید کے زمرے میں آتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مغرب کی یہ قوتیں چین کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی ہیں؟

پروفیسر سوورن سنگھ چینی حکومت کے ڈھانچے اور اس کی سرمایہ کاری کی طاقت کو اس کی اہم وجہ سمجھتے ہیں۔

_103736652_64fe322d-c7b2-49bd-a106-cd6c6d4c3f1c.jpg
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
وہ کہتے ہیں: 'چین جس طرح گذشتہ تین دہائیوں میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرا ہے اس کی وجہ سے اس کے متعلق پوری دنیا کے رویے تبدیلی آئی ہے۔ ایک پارٹی کی حکمرانی چین کو مختلف انداز سے طاقت فراہم کرتی ہے۔ چین کی سرمایہ کاری کی صلاحیت بہت مضبوط ہے۔ ان تمام وجوہات کے سبب کوئی بھی چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتا ہے۔‘

کشمیر میں بھی اویغور
بیسویں صدی کے آغاز میں اویغور مسلمان کشمیر اور لداخ کے علاقوں میں آباد تھے، لیکن بعد میں وہ وہاں سے نقل مکانی کر گئے۔ کشمیر میں آج بھی چند ایسی گلیاں موجود ہیں جن کے نام ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں اویغور مسلمان رہا کرتے تھے۔

_103736653_cb04d13b-df53-431c-8e90-4674e16481aa.jpg

آج دنیا میں تقریباً 24 ممالک ہیں جہاں اویغور مسلمان رہتے ہیں، جو چین سے باہر ہونے کے باعث نسبتاً زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

کیا ہندوستان اور دیگر مسلم ممالک کے لوگ کبھی اویغور مسلمانوں کے لیے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں؟

اس سوال پر پروفیسر سوورن سنگھ کہتے ہیں: 'انڈیا کو اس کے متعلق بات ضرور کرنی چاہیے۔ کیونکہ انڈونیشیا کے بعد انڈیا دوسرا ملک ہے جہاں مسلم آبادی سب سے زیادہ ہے۔'

وہ کہتے ہیں: 'لیکن دوسرے ممالک، جو ہمیشہ اسلام کے نام پر آگے بڑھ کر باتیں کرتے ہیں، چاہے وہ پاکستان، سعودی عرب یا ایران ہو، وہ سب اویغور مسلمانوں کے مسائل پر خاموش رہتے ہیں۔ جب اسلامی ممالک کی تنظیم کی طرف سے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا جاتا تو باقی ملکوں سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟'

کوئی مسلم ملک اویغور مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں بولتا؟
 

جاسم محمد

محفلین
'لیکن دوسرے ممالک، جو ہمیشہ اسلام کے نام پر آگے بڑھ کر باتیں کرتے ہیں، چاہے وہ پاکستان، سعودی عرب یا ایران ہو، وہ سب اویغور مسلمانوں کے مسائل پر خاموش رہتے ہیں۔ جب اسلامی ممالک کی تنظیم کی طرف سے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا جاتا تو باقی ملکوں سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟
خالی باتیں کرنے سے مظلوم مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس کے لئے واضح پالیسی بنانے اور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
جب 90 کی دہائی میں بلقان جنگ کے دوران بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات سامنے آئے۔ تو اس وقت بھی کسی اسلامی ملک نے نہیں بلکہ مسلمانوں کے زلی ابدی دشمن امریکہ نے سیکورٹی کونسل پر دباؤ ڈال کر اپنی افواج وہاں بھیج کر بوسنی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ جس کے بعد سے بوسنیا حالت امن میں ہے۔ لیکن مجال ہے جو آج تک کسی اسلامی ملک یا کسی مسلمان لیڈر نے امریکہ کو یہ کریڈٹ دیا ہو۔
Decision to Intervene: How the War in Bosnia Ended
How Holbrooke stopped Bosnia's war
 

ربیع م

محفلین
خالی باتیں کرنے سے مظلوم مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس کے لئے واضح پالیسی بنانے اور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
جب 90 کی دہائی میں بلقان جنگ کے دوران بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات سامنے آئے۔ تو اس وقت بھی کسی اسلامی ملک نے نہیں بلکہ مسلمانوں کے زلی ابدی دشمن امریکہ نے سیکورٹی کونسل پر دباؤ ڈال کر اپنی افواج وہاں بھیج کر بوسنی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ جس کے بعد سے بوسنیا حالت امن میں ہے۔ لیکن مجال ہے جو آج تک کسی اسلامی ملک یا کسی مسلمان لیڈر نے امریکہ کو یہ کریڈٹ دیا ہو۔
Decision to Intervene: How the War in Bosnia Ended
How Holbrooke stopped Bosnia's war
کافی یکطرفہ موقف پیش کیا ہے بوسنیا کی صورت حال کا گوگل سے باہر بھی جھانکیں.
 

جاسم محمد

محفلین
کافی یکطرفہ موقف پیش کیا ہے بوسنیا کی صورت حال کا گوگل سے باہر بھی جھانکیں.
کیا اب بھی بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے؟ امریکہ سے لاکھ اختلاف کریں لیکن جہاں اس کا مثبت کردار رہا ہے۔ وہاں اسے جائز کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہو گی۔
 

ربیع م

محفلین
میرے جمعہ پڑھنے کی سزا ’گل بانو کو ملی‘
محمد زبیر خان اور ظفر سید
بی بی سی کے لیے
16 نومبر 2018

ایک اطلاع کے مطابق چین کے صوبہ سنکیانگ میں حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والے ’ری ایجوکیشن سنٹرز‘ میں دس لاکھ سے زائد اویغور مسلمانوں کو یہ کہہ کر رکھا گیا ہے کہ انھیں تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔
چینی حکام کس بِنا پر فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو ان کیمپوں میں لایا جائے؟
ہم نے یہ سوال ایسے پاکستانی شہریوں کے سامنے رکھا جن کی بیویاں ان کیمپوں میں بند ہیں۔ انھوں نے جو کہانیاں سنائیں ان سے وہ وجوہات ظاہر ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر لوگوں کو پکڑا جاتا ہے۔
٭ ان کہانیوں میں فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں کیوں کہ ان لوگوں کو خطرہ ہے کہ ان کی شناخت ظاہر ہونے سے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
سنکیانگ کے کیمپوں کے بارے میں بی بی سی کی خصوصی سیریز سے مزید
چین کے خفیہ کیمپ
’چین میں قید ہماری بیویوں کو رہا کروایا جائے‘
'چینی کیمپ میں میری بیوی کو برہنہ کیا گیا'
شاہد زمان
میں نے گل بانو نامی ایک خاتون کے ساتھ مل کر چین میں کنسلٹنٹ کا کاروبار شروع کیا۔ اس کا تعلق صوبہ سنکیانگ کے مسلمان خاندان سے ہے۔
ہم پاکستانی تاجروں کو ویزا سے لے کر مارکیٹ، سپلائر، خریداری اور ترسیل کی خدمات فراہم کی جاتی تھیں۔ یہ کاروبار کافی کامیاب ثابت ہوا۔
2016 کے آخر میں ہمارے ایک کاہگ نے ایک بڑا آرڈر دیا۔ میں نے جب اس بارے میں گل بانو سے بات کی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ صوبہ سنکیانگ میں اپنے آبائی علاقے میں ہے۔ میں نے اس سے پہلے چین کے تمام سفر ہوائی سفر کیے تھے۔ یہ سن کر میں نے اس سے کہا کہ میں سڑک کے راستے آتا ہوں اس طرح وہ علاقہ بھی دیکھ لوں گا اور دونوں مل کر اس پروجیکٹ کی بھی تیاری کر لیں گے۔
مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھے روکنا چاہا مگر میں نہیں رکا اور پھر ایک روز میں سڑک کے ذریعے سے سفر کرتے ہوئے اس علاقے تک پہنچ گیا، جہاں پر اس نے میرے قیام کے لیے ایک ہوٹل کا انتظام کر رکھا تھا۔
مجھے اس علاقے میں پہنچ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہاں کی اکثریت مسلمان ہے اور کچھ مساجد بھی نظر آئیں۔ میں وہاں پر ایک رات رکا تو دوسرے دن گل بانو نے مجھ سے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ میں اس علاقے میں زیادہ دن رکوں اس لیے مجھے چاہیے کہ میں آج ہی چلا جاؤں اور وہ بعد میں جلد پہنچ جائے گی۔
میں نے اس کی ایک نہ سنی اور کہا کہ دو تین دن میں علاقہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ میری ضد کے آگے بے بس ہو گئی۔ اس نے مجھے منع کیا تھا کہ میں مسجد میں نماز پڑھنے نہ جاؤں۔
میں نے ایک بار پھر اس کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اور جمعے کی نماز مسجد میں پڑھی، علاقہ دیکھا اور پھر واپس بیجنگ چلا گیا۔ گل بانو بھی تین دن بعد بیجنگ پہنچ گئی۔
وہ کچھ پریشان تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی کہ سکیورٹی حکام نے اس سے میرے متعلق پوچھ گچھ کی ہے۔ میں اس سے پہلے صوبہ سنکیانگ کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اس نے مجھے تفصیل سے بتایا تو میں بھی پریشان ہو گیا اور مجھے افسوس ہوا۔ تاہم اس نے مجھے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہو گا۔
ہم دونوں نے اپنا پروجیکٹ پورا کیا۔ کاہگ مکمل طور پر مطمئن ہوا اور ایک بڑی رقم ہمارے حصے میں آ گئی۔ میں گل بانو کے ساتھ اچھا وقت گزار کر پاکستان چلا آیا۔
2016 کے آخر میں میں پاکستان آیا ہوا تھا کہ یہاں سے گل بانو سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ جب کافی دن تک اس سے رابطہ نہیں ہوا تو میں نے اپنے مشترکہ جاننے والوں سے رابطے کیے۔ حیرت انگیز طور پر کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ گل بانو کہاں ہے۔
یہ بہت پریشانی کی بات تھی۔ میرے لیے دہری پریشانی تھی کہ اس کے بغیر میرا کاروبار چلنا ممکن نہیں تھا اور وہ میری گرل فرینڈ بھی تھی۔

اس کے بعد جب میں نے چین جانے کی کوشش کی تو مجھے بیجنگ ایئر پورٹ پر بتایا گیا کہ میں چین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ میں امیگریشن حکام کو بتایا کہ میں چین میں پڑھتا رہا ہوں، میرے پاس ویزا ہے اور میں کئی مرتبہ آ جا چکا ہوں، مگر انھوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے کہا کہ مجھے پہلی دستیاب پرواز سے ملک بدر کر دیا جائے گا کیوںکہ مجھے چین میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
ایسے بہت سے لوگوں سے میری بات ہوئی۔ ان کو جب میں نے اپنے ساتھ گزرنے والے حالات بتائے تو ان کا کہنا تھا کہ میرے جمعے کی نماز مسجد میں پڑھنے کے سبب سے گل بانو زیر عتاب آئی ہے۔ وہ کب آئے گی اور رہا ہو کر میرے ساتھ رابطہ کرے گی یا نہیں، مجھے کچھ پتہ نہیں، مگر میں اس کو اکثر بہت شدت سے یاد کرتا ہوں۔
محمد جمیل
میرا تعلق صوبہ سندھ کے خانہ بدوش قبیلے سے ہے۔ ہمارا کاروبار سانپ، بچھو، کچھوے وغیرہ پکڑنے کا ہے جو پاکستان میں غیر قانونی ہے مگر ہمارے لیے کبھی زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوئے۔
میں نے یہی جانور اور ان کے اعضا چین سپلائی کرنے کا کام شروع کر دیا اور چین آنے جانے لگا۔
ایک دوست نے چینی لڑکی کے ساتھ شادی کے فوائد بتائے تو میں فوراً تیار ہو گیا اور 2016 میں میری شادی ایک غیر مسلم چینی خاتون سے ہو گئی۔ میں نے اسے بیجنگ میں گھر بھی دلا دیا۔
میری بیوی میرے کاروبار کے لیے بھی بہت اچھی شراکت کار ثابت ہوئی اور اب میرا زیادہ وقت بیجنگ میں گزرتا تھا۔ 2017 میں میری بیوی نے پاکستان دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر میں اس کو لے کر اسلام آباد پہنچ گیا۔
میرے گھر والے بھی میری بیوی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ چند دن رہنے کے بعد ہم دونوں واپس بیجنگ پہنچ گئے۔
یہ 2017 کے آخری دن تھے۔ میری بیوی حاملہ ہو چکی تھی۔ ہماری زندگی میں کوئی مسائل نہیں تھے۔ مگر مجھے ایک رات چین کے سکیورٹی حکام میرے گھر پر مجھ سے میرا پاسپورٹ طلب کیا اور پھر میری بیوی کے کاغذات دیکھے اور اس کو ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے وجہ پوچھنا چاہی تو جواب ملا کہ جلد واپس آ جائے گی، اس کو لازمی تربیت کی ضرورت ہے۔
مجھے انھوں نے حکم دیا کہ یہ گھر میری بیوی کے نام ہے، اس لیے میں اسے فوری طور پر خالی کر دوں۔
میں اس صورتحال سے بوکھلا گیا۔ اپنے اسی دوست سے رابطہ کیا تو اس نے ایک ایسی خبر سنائی جس سے میرے ہوش اڑ گئے۔
اس نے کہا کہ اس کی بیوی کو بھی چند دن پہلے سکیورٹی حکام یہی کہہ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے کہ اس کو بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ کیا کروں، کیونکہ میں بہت زیادہ لوگوں کو بھی نہیں جانتا تھا۔
آخر دوست کے پاس گیا۔ وہ کئی لوگوں کو جانتا تھا، ہم سب کے پاس گئے۔ حکام کے پاس بھی گیا اور ان کو بتایا کہ میرا اور میری بیوی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے ان کے سامنے اسلام میں حرام اشیا بھی استعمال کیں مگر ان کا ایک ہی جواب تھا کہ انتظار کرو۔
کئی ماہ چین میں رہنے کے بعد واپس پاکستان آ چکا ہوں۔ میرا چین کا ویزا ابھی بھی موجود ہے مگر چین جانے کا دل نہیں چاہتا کیونکہ نہ تو میرا اور نہ ہی میری بیوی کا اسلام سے کوئی تعلق تھا پھر بھی پتہ نہیں اس کو کس بات کی سزا دی گئی ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میری حاملہ بیوی کا کیا بنا۔
جواد حسین
میرا تعلق پنجاب کے شہر گجرات سے ہے۔ ہم لوگ خاندانی طور پر کپڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ہمارے کاروبار کا زیادہ سلسلہ کئی سالوں سے بھارت کے ساتھ تھا، مگر دونوں ملکوں کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہم نے اب چین کا رخ کر لیا۔
میں جب بھی چین جاتا تھا تو سنکیانگ کے شہر ارومچی کی ایک مسلمان خاتون میرے لیے مترجم کے فرائض انجام دیتی تھی۔ میں نے اس کو انتہائی ایماندار پایا تھا۔ چین میں قوانین کی وجہ سے شادی ضرورت بھی تھی جس وجہ سے اس کے گھر والوں کو شادی کا پیغام دیا جو قبول کر لیا گیا اور 2005 ہی میں ہماری شادی ہو گئی۔

2005 سے لے کر 2014 تک تقریباً ہر سال وہ میرے ہمراہ پاکستان آتی رہی۔ اس دوران ہمارے دو بچے پیدا ہوئے۔ 2015 میں اس کی خواہش پر میں نے اس کے ہمراہ حج بھی کیا۔
2016 تک زندگی میں کوئی بھی مسائل نہیں تھے مگر جب اسی سال کے آخری میں ہمارے گھر سکیورٹی حکام آئے۔ انھوں نے مجھ سے میرا پاکستانی پاسپورٹ طلب کیا۔ میں سمجھا کہ روٹین کی کوئی کارروائی ہے۔ میرے پاسپورٹ کے بعد انھوں نے بچوں اور بیوی کو طلب کیا اور ان کے بھی پاسپورٹ طلب کیے۔ پھر وہ پاسپورٹ اپنے ساتھ لے کر چلے گے اور ہمیں بتایا کہ تحقیقات ہو رہی ہیں اور ان تحقیقات تک یہ سب پاسپورٹ ضبط رہیں گے۔
اس موقعے پر میں نے اپنا پاسپورٹ واپس لینے کی کوشش کی مگر انھوں نے نرمی سے کہا کہ تعاون کرنا میرے مفاد میں ہو گا۔ جس پر میں خاموش ہو گیا۔
اسی پر بس نہیں ہوا کہ بلکہ دو تین روز بعد مقامی پولیس اہلکار آئے اور انھوں نے بتایا کہ میری بیوی اوربچوں پر علاقہ چھوڑنے پر پابندی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کی پابندیاں لگائی گئیں۔ صبح شام مقامی پولیس کے پاس حاضری کو یقینی قرار دیا گیا۔
پہلے تو میں سمجھا کہ یہ سب کچھ عارضی ہے اور جلد ہی حالات بہتر ہو جائیں گے، مگر یہ میری خام خیالی تھی۔ 2016 سے لے کر اب تک پابندیاں برقرار ہیں، بلکہ یہ پابندیاں روز بروز سخت تر ہوتی جا رہی ہیں۔
مجھے میرا پاسپورٹ تو ایک سال قبل واپس کر دیا گیا ہے مگر میرے بیوی بچوں کا پاسپورٹ ابھی تک ضبط ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ سے دعا ہے کہ مظلوموں پہ اپنا رحم فرمائے۔ ظالموں کو ہدایت دے۔ اگر ہدایت نہیں مل سکتی تو ان کے ظلم کے تیر ان کی اپنی طرف موڑ دے۔
اللہ مسلمان ممالک کو ظلم کے خلاف اور مظلوم مسلمانوں کے حق میں متحد کرے۔ آمین!
ثم آمین!
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے!

ہم چینی حکومت کے ان بہیمانہ مظالم کی بھرپور اور کھلے لفظوں میں مذمت کرتے ہیں ۔۔۔!
 
Top