ناصر علی مرزا
معطل
http://www.dawnnews.tv/news/1012645...ra-sacha-dost-kiya-waqai-adnan-randhawa-bm-aq
وزیراعظم نواز شریف چینی صدر ژی جنپنگ سے اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران مصافحہ کر رہے ہیں — فوٹو اے ایف پی
جس طرح فلموں میں بدحال ہونے کے بعد ولن ہیرو کو بلیک میل کرنے کے لیے اس کی بہن یا ماں کو اُٹھا کر لے آتا ہے، اسی طرح شہباز شریف اور پرویز رشید کی قیادت میں مسلم لیگ ن نئے پاکستان کے مبینہ ہیرو سے زچ ہو کر ’’پاک چین دوستی‘‘ کا مقدس رشتہ اٹھا لائی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر عمران خان ان کی خاندانی حکومتوں کے خلاف مہم جوئی سے باز نہ آئے تو پاک چین دوستی ’’خطرے‘‘ میں پڑ جائے گی۔
معلوم نہیں پروپیگنڈا کے ماہرین بات گھمانے کے اس صحافیانہ کرتب کو عوامی ذہن گمراہ کرنے کے حوالے سے کس حد تک موثر قرار دیں، لیکن میرے نزدیک بہت دور کی کوڑی ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاک چین دوستی نہ تو کوئی مقدس رشتہ ہے اور نہ ہی عمران خان کے کئی مہینے سے جاری احتجاج سے اسے کوئی نقصان پہنچا ہے۔ چین کے ساتھ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی والی باتیں خود کو اور عوام کو بیوقوف بنانے کی علاوہ کچھ نہیں۔ میری رائے غلط ہو سکتی ہے لیکن چین میں گزارے اپنے دو سالوں کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ چینی عوام کو پاکستان کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں، اور ان کی پاکستان کے بارے میں معلومات تو اس سے بھی کم ہیں۔
ایسے چینی جن کے دانت اب گر چکے ہیں، ان میں تو پاکستان کے بارے میں تھوڑی بہت گرمجوشی کبھی کبھار مل سکتی ہے، باقی تمام چینیوں میں پاکستان کا تعارف ایک ایسے ملک کا ہے جہاں آئے روز دھماکے ہوتے ہیں، حادثے ہوتے ہیں یا پھر قدرتی آفات میں لوگ مرتے ہیں۔ سفارتی حلقوں میں پاکستان کو تھوڑی بہت اہمیت دی جاتی ہے لیکن ایسا صرف پاکستان کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ چین اپنے بارڈر پر واقع چودہ کے چودہ ملکوں کو اہمیت دیتا ہے۔ چین کے حکومتی حلقوں میں پاکستان کی ایک اور وجہ شہرت بھی ہے کہ پاکستان سے جو بھی آتا ہے کچھ نہ کچھ مانگنے کی بات ضرور کرتا ہے۔
مسلم لیگ ن آج کل اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے چورن کو نواز شریف کی تصویر لگا کر بیچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے گویا چین صرف پاکستان کی نواز حکومت میں ہی دلچسپی لیتا ہے۔ رہی سہی کسر بیرونی دورے کا عوامی ٹیکس کے پیسے سے مفت مزہ لوٹنے والے صحافیوں کی دیومالائی کہانیاں، قصے اور رپورٹیں پوری کر دیتی ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں، چین افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بیسیوں ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اور سرمایہ کاری کا مقصد کھربوں ڈالر کا اضافی سرمایہ، انتہائی بلند شرحِ منافع، چین کے لیے نسبتاً سازگار ماحول اور عالمی طاقت بننے کا خواب ہے نہ کہ شریف برادران جیسے حکمرانوں کی سفارتی کامرانیاں۔
پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے بھی کئی پہلو ایسے ہیں جو بہت زیادہ قابلِ فخر نہیں ہیں۔ اول، چین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی شفافیت پر بہت سے سوالیہ نشانات ہیں۔ دوم، ان معاہدوں کی شرائط میں چین اور چینی کمپنیوں کوبہت زیادہ بے جا فوائد دینے کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی اگر یہ بات درست ہو بلکہ میں اس وقت حیران ہوں گا اگر یہ بات غلط نکلے۔ وجہ سیدھی سی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ انتہا درجے کا کرپٹ ہے اور چینی حکومت و کمپنیاں دنیا بھر کے کرپٹ حکمرانوں کو تھوڑا سا پروٹوکول اور بہت سارا کمیشن دے کر ایسے معاہدے کرنے میں شہرت رکھتی ہیں جن سے سارا فائدہ چینیوں کو ہوتا ہے۔ سوم، جو منصوبے کاروبار کے ساتھ ساتھ سٹریٹجک اہمیت بھی رکھتے ہیں، ان منصوبوں میں چینی حکومت بھی اپنا ’’اثر رسوخ‘‘ خوب استعمال کرتی ہے اور دنیا بھر میں سڑیٹجک اہمیت والے منصوبوں میں اپنا کنٹرول بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بہت سے ماہرین اسے چین کے سامراجی پھیلاؤ کا نام دیتے ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر اپنا حلقہ اثر وسیع کر رہا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں شاہراہِ ریشم، بلوچستان کے معدنی ذخائر اور خصوصی طور پر گوادر کے منصوبوں کے حوالے سے بعض حلقوں میں خوف کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ہمارے کرپٹ حکمران پاکستان کی حاکمیت اور نئی نسلوں کی آزادی کو چین اور چینی کمپنیوں کے ہاتھوں گروی رکھ رہے ہیں جن کے انتہائی دوررس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ ہے وہ ’’مقدس رشتہ‘‘ جس کے خطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے شریف برادران عمران خان سے خاصے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ اور دوسری بات کہ جس مفروضے کو مسلم لیگ ن بڑی شدومد کے ساتھ فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ عمران خان کے دھرنوں سے پاک چین دوستی کو نقصان پہنچا ہے ، اس کا بھی میری دانست میں حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ تو عمران خان کا خود ایسا کوئی ارادہ ہے اور نہ ان کے احتجاج کا اسکرپٹ لکھنے والوں پر آج تک کبھی کسی کو گمان ہوا کہ وہ جیسی تیسی بھی پاک چین دوستی ہے، اس کے خلاف کوئی کام کر رہے ہیں۔
پاک چین دوستی کی مبالغہ آمیز شاعرانہ پرواز والی دوستی کے ہمالیہ سے اگر ہم نیچے تشریف لے آئیں اور اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں کہ ہم چین کی معجزانہ ترقی سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں، توشاید ہمیں کچھ افاقہ ہو۔ ہمارے سفارتی، عسکری اور ذرائع ابلاغ کے حلقے نہ صرف اس مبالغہ آرائی کے خود رسیا ہیں بلکہ انہوں نے پوری قوم کو بھی یہ افسانہ ازبر کروا رکھا ہے۔ چین کے بارے میں ان کے طرزِعمل سے بعض اوقات گاؤں کے ماحول میں چوہدری اور مزارع والی وہ کہانی یاد آجاتی ہے جس میں نکھٹو مزارع چوہدری سے اپنے انتہائی قریبی تعلقات کی ڈینگیں مارتا رہتا ہے اور چوہدری اس کی ڈینگوں سے اس لیے صرفِ نظر کرتا رہتا ہے کہ وہ اسے اپنا ڈیرا چلانے کے لیے اور خود کو چوہدری کہلوانے کے لیے اس طرح کے کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جی حضوری اور چھوٹے موٹے کام بھی چلتے رہتے ہیں۔ دل رکھنے کے لیے چوہدری کبھی کبھار اس کی چھوٹی موٹی ضرورت بھی پوری کر دیتا ہے۔
چین اور پاکستان کا تعلق ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ المیہ یہ ہوا کہ پاکستان بتدریج زوال کا شکار ہوا اور چین بتدریج عروج کی راہ پر چلتا رہا۔ بہت پرانی بات نہیں جب چین دنیا بھر میں رسوا تھا اور بڑے ملکوں نے اس کے ٹکڑے کر کے اسے آپس میں بانٹا ہوا تھا۔ پوری قوم کو افیون کا عادی بنا دیا تھا۔ اس کی خود مختاری، خود داری، سالمیت، حاکمیت، معیشت بری طرح مجروح تھی۔ غربت اورآبادی اپنی انتہاؤں پر تھے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے جب چین کو آزاد کروایا تو اس نے تنگ نظری، مذہبی انتہاپسندی، جنگجوئی،علم دشمنی، توہم پرستی، کرپشن، بدعنوانی، بدانتظامی، جیسی خصوصیات کو فروغ دے کر چین کی تقدیر نہیں بدلی۔ اڑسٹھ سال ہمارے بیت گئے، مزید اڑسٹھ سال بھی اگر ہم ان نسخوں کو آزماتے رہے تو نتیجہ یہی نکلے گا، اندرونی انتشار اور دنیا بھر میں رسوائی۔
ایسے میں جب ہمارے اوپر ہر طرف سے افتاد پڑی ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا تو آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟ زوال زدہ قوموں کے حالات اسی طرح ہوتے ہیں، اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنی سات ہزار سال کی تاریخ پڑھیں تو کئی موقعوں پر ہم نے بھی عروج دیکھا ہے۔ دور کیوں جاؤں، میں اس وقت جس جگہ بیٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں، چند کلومیٹر کے فاصلے پر ٹیکشاشلا کے نام سے دنیا کی چند ابتدائی اور انتہائی اہم یونیورسٹیوں میں سے ایک واقع تھی۔ ٹیکشاشلا یونیورسٹی اپنے زمانے کی آکسفورڈ اور کیمبرج کا درجہ رکھتی تھی۔ دور و نزدیک سے علم کے متلاشی یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اور تو اور راجوں مہاراجوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے اس یونیورسٹی کی ڈگری ضروری خیال کی جاتی تھی۔ تنگ نظری اور انتہاپسندی کی انتہاؤں کو چھونے والی ہماری قوم میں سے کتنے لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں؟ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ چین کی عوام پاکستانیوں کی نسبت ٹیکسلا کے بارے میں بہت زیادہ معلومات رکھتی ہے۔ ان کی لوک کہانیوں، تاریخی کتابوں، مذہبی قصوں کہانیوں میں ٹیکسلا کا ذکر بہت آتا ہے۔ کیا یہ سوال پریشان کن نہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد اور ان کے عروج کے بارے میں چینی تو خوب جانتے ہیں اور یہاں کسی کو ابتدائی معلومات بھی نہیں؟
زوال سے عروج کے سفر میں دو باتیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، قیادت اوراس کا تصورحیات۔ دنیا میں تو افراد کی طرح قوموں کو بھی دنیاوی ترقی کے معیار پر پرکھا جاتا ہے اور دنیاوی ترقی کے لیے علم دوستی، سائنس، ٹیکنولاجی، کشادہ خیالی، اپنے اصل کی پہچان، عقلیت پسندی جیسی صفات بہت ضروری ہیں۔ چین نے چند عشروں میں انہی باتوں پر عمل کیا، مغرب اور جاپان پہلے ہی اس راہ پر چل نکلے تھے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ بھارت میں البتہ ایک ترقی معکوس کا عمل نظرآ رہا ہے۔ تیس چالیس سال کی سیکولر اور علم دوست پالیسیوں کے ثمرات سمیٹنے کے بعد وہاں اب مذہبی انتہاپسندی اور توہم پرستی کا رجحان غالب نظر آرہا ہے۔ پاکستان کی بعد از ریٹائرمنٹ توسیع پر چلنے والی موجودہ قیادت سے کسی بہتری کی توقع کرنا فضول ہے۔ پاکستانی قوم اور نئی ابھرنے والی قیادت کے سامنے دونوں راستے کھلے ہیں، ان کا انتخاب فیصلہ کرے گا کہ ہمیں مزید زوال اور انتشار میں زندہ رہنا ہے یا پھر ہمارا عروج کی طرف سفر شروع ہونے
والا ہے۔
عدنان رندھاوا ایک فری لانس کالم نگار، سابق سفارتکار اور عام آدمی پارٹی پاکستان کے بانی چئیرمین ہیں، اور وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف چینی صدر ژی جنپنگ سے اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران مصافحہ کر رہے ہیں — فوٹو اے ایف پی
جس طرح فلموں میں بدحال ہونے کے بعد ولن ہیرو کو بلیک میل کرنے کے لیے اس کی بہن یا ماں کو اُٹھا کر لے آتا ہے، اسی طرح شہباز شریف اور پرویز رشید کی قیادت میں مسلم لیگ ن نئے پاکستان کے مبینہ ہیرو سے زچ ہو کر ’’پاک چین دوستی‘‘ کا مقدس رشتہ اٹھا لائی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر عمران خان ان کی خاندانی حکومتوں کے خلاف مہم جوئی سے باز نہ آئے تو پاک چین دوستی ’’خطرے‘‘ میں پڑ جائے گی۔
معلوم نہیں پروپیگنڈا کے ماہرین بات گھمانے کے اس صحافیانہ کرتب کو عوامی ذہن گمراہ کرنے کے حوالے سے کس حد تک موثر قرار دیں، لیکن میرے نزدیک بہت دور کی کوڑی ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاک چین دوستی نہ تو کوئی مقدس رشتہ ہے اور نہ ہی عمران خان کے کئی مہینے سے جاری احتجاج سے اسے کوئی نقصان پہنچا ہے۔ چین کے ساتھ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی والی باتیں خود کو اور عوام کو بیوقوف بنانے کی علاوہ کچھ نہیں۔ میری رائے غلط ہو سکتی ہے لیکن چین میں گزارے اپنے دو سالوں کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ چینی عوام کو پاکستان کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں، اور ان کی پاکستان کے بارے میں معلومات تو اس سے بھی کم ہیں۔
ایسے چینی جن کے دانت اب گر چکے ہیں، ان میں تو پاکستان کے بارے میں تھوڑی بہت گرمجوشی کبھی کبھار مل سکتی ہے، باقی تمام چینیوں میں پاکستان کا تعارف ایک ایسے ملک کا ہے جہاں آئے روز دھماکے ہوتے ہیں، حادثے ہوتے ہیں یا پھر قدرتی آفات میں لوگ مرتے ہیں۔ سفارتی حلقوں میں پاکستان کو تھوڑی بہت اہمیت دی جاتی ہے لیکن ایسا صرف پاکستان کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ چین اپنے بارڈر پر واقع چودہ کے چودہ ملکوں کو اہمیت دیتا ہے۔ چین کے حکومتی حلقوں میں پاکستان کی ایک اور وجہ شہرت بھی ہے کہ پاکستان سے جو بھی آتا ہے کچھ نہ کچھ مانگنے کی بات ضرور کرتا ہے۔
مسلم لیگ ن آج کل اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے چورن کو نواز شریف کی تصویر لگا کر بیچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے گویا چین صرف پاکستان کی نواز حکومت میں ہی دلچسپی لیتا ہے۔ رہی سہی کسر بیرونی دورے کا عوامی ٹیکس کے پیسے سے مفت مزہ لوٹنے والے صحافیوں کی دیومالائی کہانیاں، قصے اور رپورٹیں پوری کر دیتی ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں، چین افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بیسیوں ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اور سرمایہ کاری کا مقصد کھربوں ڈالر کا اضافی سرمایہ، انتہائی بلند شرحِ منافع، چین کے لیے نسبتاً سازگار ماحول اور عالمی طاقت بننے کا خواب ہے نہ کہ شریف برادران جیسے حکمرانوں کی سفارتی کامرانیاں۔
پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے بھی کئی پہلو ایسے ہیں جو بہت زیادہ قابلِ فخر نہیں ہیں۔ اول، چین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی شفافیت پر بہت سے سوالیہ نشانات ہیں۔ دوم، ان معاہدوں کی شرائط میں چین اور چینی کمپنیوں کوبہت زیادہ بے جا فوائد دینے کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی اگر یہ بات درست ہو بلکہ میں اس وقت حیران ہوں گا اگر یہ بات غلط نکلے۔ وجہ سیدھی سی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ انتہا درجے کا کرپٹ ہے اور چینی حکومت و کمپنیاں دنیا بھر کے کرپٹ حکمرانوں کو تھوڑا سا پروٹوکول اور بہت سارا کمیشن دے کر ایسے معاہدے کرنے میں شہرت رکھتی ہیں جن سے سارا فائدہ چینیوں کو ہوتا ہے۔ سوم، جو منصوبے کاروبار کے ساتھ ساتھ سٹریٹجک اہمیت بھی رکھتے ہیں، ان منصوبوں میں چینی حکومت بھی اپنا ’’اثر رسوخ‘‘ خوب استعمال کرتی ہے اور دنیا بھر میں سڑیٹجک اہمیت والے منصوبوں میں اپنا کنٹرول بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بہت سے ماہرین اسے چین کے سامراجی پھیلاؤ کا نام دیتے ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر اپنا حلقہ اثر وسیع کر رہا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں شاہراہِ ریشم، بلوچستان کے معدنی ذخائر اور خصوصی طور پر گوادر کے منصوبوں کے حوالے سے بعض حلقوں میں خوف کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ہمارے کرپٹ حکمران پاکستان کی حاکمیت اور نئی نسلوں کی آزادی کو چین اور چینی کمپنیوں کے ہاتھوں گروی رکھ رہے ہیں جن کے انتہائی دوررس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ ہے وہ ’’مقدس رشتہ‘‘ جس کے خطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے شریف برادران عمران خان سے خاصے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ اور دوسری بات کہ جس مفروضے کو مسلم لیگ ن بڑی شدومد کے ساتھ فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ عمران خان کے دھرنوں سے پاک چین دوستی کو نقصان پہنچا ہے ، اس کا بھی میری دانست میں حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ تو عمران خان کا خود ایسا کوئی ارادہ ہے اور نہ ان کے احتجاج کا اسکرپٹ لکھنے والوں پر آج تک کبھی کسی کو گمان ہوا کہ وہ جیسی تیسی بھی پاک چین دوستی ہے، اس کے خلاف کوئی کام کر رہے ہیں۔
پاک چین دوستی کی مبالغہ آمیز شاعرانہ پرواز والی دوستی کے ہمالیہ سے اگر ہم نیچے تشریف لے آئیں اور اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں کہ ہم چین کی معجزانہ ترقی سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں، توشاید ہمیں کچھ افاقہ ہو۔ ہمارے سفارتی، عسکری اور ذرائع ابلاغ کے حلقے نہ صرف اس مبالغہ آرائی کے خود رسیا ہیں بلکہ انہوں نے پوری قوم کو بھی یہ افسانہ ازبر کروا رکھا ہے۔ چین کے بارے میں ان کے طرزِعمل سے بعض اوقات گاؤں کے ماحول میں چوہدری اور مزارع والی وہ کہانی یاد آجاتی ہے جس میں نکھٹو مزارع چوہدری سے اپنے انتہائی قریبی تعلقات کی ڈینگیں مارتا رہتا ہے اور چوہدری اس کی ڈینگوں سے اس لیے صرفِ نظر کرتا رہتا ہے کہ وہ اسے اپنا ڈیرا چلانے کے لیے اور خود کو چوہدری کہلوانے کے لیے اس طرح کے کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جی حضوری اور چھوٹے موٹے کام بھی چلتے رہتے ہیں۔ دل رکھنے کے لیے چوہدری کبھی کبھار اس کی چھوٹی موٹی ضرورت بھی پوری کر دیتا ہے۔
چین اور پاکستان کا تعلق ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ المیہ یہ ہوا کہ پاکستان بتدریج زوال کا شکار ہوا اور چین بتدریج عروج کی راہ پر چلتا رہا۔ بہت پرانی بات نہیں جب چین دنیا بھر میں رسوا تھا اور بڑے ملکوں نے اس کے ٹکڑے کر کے اسے آپس میں بانٹا ہوا تھا۔ پوری قوم کو افیون کا عادی بنا دیا تھا۔ اس کی خود مختاری، خود داری، سالمیت، حاکمیت، معیشت بری طرح مجروح تھی۔ غربت اورآبادی اپنی انتہاؤں پر تھے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے جب چین کو آزاد کروایا تو اس نے تنگ نظری، مذہبی انتہاپسندی، جنگجوئی،علم دشمنی، توہم پرستی، کرپشن، بدعنوانی، بدانتظامی، جیسی خصوصیات کو فروغ دے کر چین کی تقدیر نہیں بدلی۔ اڑسٹھ سال ہمارے بیت گئے، مزید اڑسٹھ سال بھی اگر ہم ان نسخوں کو آزماتے رہے تو نتیجہ یہی نکلے گا، اندرونی انتشار اور دنیا بھر میں رسوائی۔
ایسے میں جب ہمارے اوپر ہر طرف سے افتاد پڑی ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا تو آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟ زوال زدہ قوموں کے حالات اسی طرح ہوتے ہیں، اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنی سات ہزار سال کی تاریخ پڑھیں تو کئی موقعوں پر ہم نے بھی عروج دیکھا ہے۔ دور کیوں جاؤں، میں اس وقت جس جگہ بیٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں، چند کلومیٹر کے فاصلے پر ٹیکشاشلا کے نام سے دنیا کی چند ابتدائی اور انتہائی اہم یونیورسٹیوں میں سے ایک واقع تھی۔ ٹیکشاشلا یونیورسٹی اپنے زمانے کی آکسفورڈ اور کیمبرج کا درجہ رکھتی تھی۔ دور و نزدیک سے علم کے متلاشی یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اور تو اور راجوں مہاراجوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے اس یونیورسٹی کی ڈگری ضروری خیال کی جاتی تھی۔ تنگ نظری اور انتہاپسندی کی انتہاؤں کو چھونے والی ہماری قوم میں سے کتنے لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں؟ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ چین کی عوام پاکستانیوں کی نسبت ٹیکسلا کے بارے میں بہت زیادہ معلومات رکھتی ہے۔ ان کی لوک کہانیوں، تاریخی کتابوں، مذہبی قصوں کہانیوں میں ٹیکسلا کا ذکر بہت آتا ہے۔ کیا یہ سوال پریشان کن نہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد اور ان کے عروج کے بارے میں چینی تو خوب جانتے ہیں اور یہاں کسی کو ابتدائی معلومات بھی نہیں؟
زوال سے عروج کے سفر میں دو باتیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، قیادت اوراس کا تصورحیات۔ دنیا میں تو افراد کی طرح قوموں کو بھی دنیاوی ترقی کے معیار پر پرکھا جاتا ہے اور دنیاوی ترقی کے لیے علم دوستی، سائنس، ٹیکنولاجی، کشادہ خیالی، اپنے اصل کی پہچان، عقلیت پسندی جیسی صفات بہت ضروری ہیں۔ چین نے چند عشروں میں انہی باتوں پر عمل کیا، مغرب اور جاپان پہلے ہی اس راہ پر چل نکلے تھے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ بھارت میں البتہ ایک ترقی معکوس کا عمل نظرآ رہا ہے۔ تیس چالیس سال کی سیکولر اور علم دوست پالیسیوں کے ثمرات سمیٹنے کے بعد وہاں اب مذہبی انتہاپسندی اور توہم پرستی کا رجحان غالب نظر آرہا ہے۔ پاکستان کی بعد از ریٹائرمنٹ توسیع پر چلنے والی موجودہ قیادت سے کسی بہتری کی توقع کرنا فضول ہے۔ پاکستانی قوم اور نئی ابھرنے والی قیادت کے سامنے دونوں راستے کھلے ہیں، ان کا انتخاب فیصلہ کرے گا کہ ہمیں مزید زوال اور انتشار میں زندہ رہنا ہے یا پھر ہمارا عروج کی طرف سفر شروع ہونے
والا ہے۔
عدنان رندھاوا ایک فری لانس کالم نگار، سابق سفارتکار اور عام آدمی پارٹی پاکستان کے بانی چئیرمین ہیں، اور وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔