محمد مبین امجد
محفلین
16 دسمبر 2014
16 دسمبر ۔۔۔۔۔۔ اس دن کی سیاہی تو ابھی بھی ہماری تاریخ سے مٹی نئیں۔۔۔ کہ ظالمو ں نے ایک اور سانحہ کر ڈالا۔۔۔۔۔
پشاور ۔ جہاں کے لوگ مہمان نوازی میں یکتا ہیں۔ وہ پشاور کہ جس کا قصہ خوانی بازار پوری دنیا میں مشہور و معروف ہے۔ وہ پشاور کہ جہاں کے لوگ بہادری اور جرات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔۔
آہ ظالموں نے آج اس پشاور کے بیٹوں کو خون میں نہلا دیا۔ درندوں نے پاکستان کے بیٹوں کو شہید کر دیا۔۔۔
ہائے کیسے کیسے مائیوں کے لعل رزق خاک ہوئے۔۔۔؟ درندوں نے تو یہ بھی نا سوچا کہ ان لوگوں کا کیا ہوگاجنہوں نے اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلیے بھیجا تھا۔۔۔ مگر آج جب ان کے بیٹے خرقہ شہادت اوڑھے گھروں کو لوٹیں گے تو ماؤں کا کلیجہ پھٹ پھٹ جائے گا، بہنوں کا آنچل ڈھلک ڈھلک جائے گا۔۔۔۔
بوڑھا باپ اپنی خمیدہ کمر کو جھکائے اپنے لال کا منہ ماتھا چومے گا تو کیا سوچے گا۔۔۔۔۔
ارے ساری دنیا میں یہ دستور ہے کہ جواں سال بیٹے اپنے بوڑھے باپوں کا جنازہ اٹھاتے ہیں ۔۔۔ مگر میری ارض پاک میں تو بوڑھوں کو جوانوں کا جنازہ اٹھانے پہ مامور کر دیا گیا۔
وہ دیکھو بوڑھا اپنے جوان کو دفنا کر آیا ہے ۔۔۔ اسکی کمر پہلے سے زیادہ جھک گئی ہے۔۔۔۔۔ اس ماں کو دیکھو جس کا اکلوتا بیٹا ٹفن لے کر گیا مگر کفن لے کر آگیا۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں کبھی امیدوں کے چراغ نئیں جلیں گے بلکہ تا عمر آنسوؤں کے جگنو اسکی آنکھوں میں جھلملائیں گے۔
ارے بھائی کا بازو آج ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔بہنوں کا ویر یہ درندے کھا گئے۔۔۔۔
خدا کی قسم ان معصوم شہیدوں کا غم اپنی جگہ۔۔۔ مگر مجھے رشک آتا ہے انکی زندگیوں اور انکی اموات پہ کہ جو زندہ تھے تو کوہ گراں ( کوہ گراں نا ہوتے تو دشمن ان سے کیوں ڈرتا ۔۔۔۔ جی ہاں یہ تعلیم کا ڈر ہی تو تھا ، یہ شعور اور آگہی کا خوف ہی تھا جو دشمن نے ان کے خلاف یہ کاروائی کی ) تھے اور جو چلے تو جان سے گزر گئے۔۔۔۔ اور ان کا تو جان سے گزرنا بھی اس ارض پاک کیلیے سود مند ثابت ہوا کہ اس سانحے کے بعد حکومت نے تمام دہشت گردوں کو جو اس وقت جیلوں میں قید ہیں ، کو سزائے موت دینے کا بہادرانہ اور جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔
ہاں مگر مھےا حیرانی ہے تو اس بات کی کہ ان درندوں نے دن بھی چنا تو سقوط ڈھاکہ والا۔۔۔ کیا دشمن ہمارے زخموں کو ہرا کرنا چاہتا ہے ۔۔۔؟ یا پھر کوئی اور پیغام دینا چاہتا ہے۔۔۔۔؟
شائد وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ پاکستانیو! یاد رکھو اس دن کو۔۔۔۔ کہیں بھول مت جانا۔۔۔ یہ وہی دن ہے جب ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبویا تھا۔۔۔۔ اور آج ہم اس دوقومی نظریہ کےمحافظوں ( طالب علموں) کو ان کے اپنے ہی خون میں ڈبو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!
16 دسمبر ۔۔۔۔۔۔ اس دن کی سیاہی تو ابھی بھی ہماری تاریخ سے مٹی نئیں۔۔۔ کہ ظالمو ں نے ایک اور سانحہ کر ڈالا۔۔۔۔۔
پشاور ۔ جہاں کے لوگ مہمان نوازی میں یکتا ہیں۔ وہ پشاور کہ جس کا قصہ خوانی بازار پوری دنیا میں مشہور و معروف ہے۔ وہ پشاور کہ جہاں کے لوگ بہادری اور جرات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔۔
آہ ظالموں نے آج اس پشاور کے بیٹوں کو خون میں نہلا دیا۔ درندوں نے پاکستان کے بیٹوں کو شہید کر دیا۔۔۔
ہائے کیسے کیسے مائیوں کے لعل رزق خاک ہوئے۔۔۔؟ درندوں نے تو یہ بھی نا سوچا کہ ان لوگوں کا کیا ہوگاجنہوں نے اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلیے بھیجا تھا۔۔۔ مگر آج جب ان کے بیٹے خرقہ شہادت اوڑھے گھروں کو لوٹیں گے تو ماؤں کا کلیجہ پھٹ پھٹ جائے گا، بہنوں کا آنچل ڈھلک ڈھلک جائے گا۔۔۔۔
بوڑھا باپ اپنی خمیدہ کمر کو جھکائے اپنے لال کا منہ ماتھا چومے گا تو کیا سوچے گا۔۔۔۔۔
ارے ساری دنیا میں یہ دستور ہے کہ جواں سال بیٹے اپنے بوڑھے باپوں کا جنازہ اٹھاتے ہیں ۔۔۔ مگر میری ارض پاک میں تو بوڑھوں کو جوانوں کا جنازہ اٹھانے پہ مامور کر دیا گیا۔
وہ دیکھو بوڑھا اپنے جوان کو دفنا کر آیا ہے ۔۔۔ اسکی کمر پہلے سے زیادہ جھک گئی ہے۔۔۔۔۔ اس ماں کو دیکھو جس کا اکلوتا بیٹا ٹفن لے کر گیا مگر کفن لے کر آگیا۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں کبھی امیدوں کے چراغ نئیں جلیں گے بلکہ تا عمر آنسوؤں کے جگنو اسکی آنکھوں میں جھلملائیں گے۔
ارے بھائی کا بازو آج ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔بہنوں کا ویر یہ درندے کھا گئے۔۔۔۔
خدا کی قسم ان معصوم شہیدوں کا غم اپنی جگہ۔۔۔ مگر مجھے رشک آتا ہے انکی زندگیوں اور انکی اموات پہ کہ جو زندہ تھے تو کوہ گراں ( کوہ گراں نا ہوتے تو دشمن ان سے کیوں ڈرتا ۔۔۔۔ جی ہاں یہ تعلیم کا ڈر ہی تو تھا ، یہ شعور اور آگہی کا خوف ہی تھا جو دشمن نے ان کے خلاف یہ کاروائی کی ) تھے اور جو چلے تو جان سے گزر گئے۔۔۔۔ اور ان کا تو جان سے گزرنا بھی اس ارض پاک کیلیے سود مند ثابت ہوا کہ اس سانحے کے بعد حکومت نے تمام دہشت گردوں کو جو اس وقت جیلوں میں قید ہیں ، کو سزائے موت دینے کا بہادرانہ اور جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔
ہاں مگر مھےا حیرانی ہے تو اس بات کی کہ ان درندوں نے دن بھی چنا تو سقوط ڈھاکہ والا۔۔۔ کیا دشمن ہمارے زخموں کو ہرا کرنا چاہتا ہے ۔۔۔؟ یا پھر کوئی اور پیغام دینا چاہتا ہے۔۔۔۔؟
شائد وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ پاکستانیو! یاد رکھو اس دن کو۔۔۔۔ کہیں بھول مت جانا۔۔۔ یہ وہی دن ہے جب ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبویا تھا۔۔۔۔ اور آج ہم اس دوقومی نظریہ کےمحافظوں ( طالب علموں) کو ان کے اپنے ہی خون میں ڈبو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!