ڈارلنگ آف دی ویسٹ ۔ ۔ ۔

یوسف-2

محفلین

abdullah_tariq_sohail.jpg
جو ملالہ یوسف زئی کی تعریف کرتا ہے، وہ ملالہ کی نہیں، اس ’’ڈرامے‘‘ کے رائٹر پروڈیوسر اور تقسیم کار کی تعریف کرتا ہے اور جو تنقید کرتا ہے، اس کا ماجرا بھی وہی ہے۔
ملالہ اچھی لڑکی ہے، سکول ریکارڈ کے مطابق درمیانی ذہانت والی۔ حافظہ البتہ اچھا ہے یعنی رٹّا لگانے کی صلاحیت، جو سطریں لکھ کر دی جاتی ہیں، جوں کی توں پڑھ دیتی ہے۔ لاہور کے ایک پرانے سابق میئر بھی اچھے سکرپٹ ریڈر تھے۔ ایک تقریر میں لفظ چونکہ آیا۔ چ پر پیش نہیں تھی، انہوں نے زبر پڑھ ڈالی اور غنّہ کے بجائے پورا نون پڑھ دیا۔چنانچہ جو چونکہ انہوں نے پڑھا اس کے معنے تھے چار ناک والا۔ ملالہ انہی سابق میئر کی یاد دلاتی ہے۔
ذہین نہ سہی ،ثابت قدم تو ہے اور ’’والد ‘‘ کی اطاعت شعار بھی۔ جو نہ بولنے کو کہا جائے، نہیں بولتی، جو بولنے کو کہا جائے، اسی پر اکتفا کرتی ہے۔اوباما سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ بھی ’’باپو‘‘ کے لکھے پر کیا۔باپو کو کسی نے ایسا لکھنے کو کہا تھا۔
وہ پاکستان کا نام ’’روشن‘‘ کر رہی ہے، اس بات کا پتہ پاکستانیوں کو پاکستان کے ان ’’دوستوں‘‘ سے چلا جو ڈرون حملے کرتے اور ان کے فائدے بیان کرتے ہیں۔ جنہوں نے ہزاروں پاکستانی مارے اور لاکھوں افغانی اور اس سے بھی زیادہ عراقی۔ مرنے والوں میں کئی لاکھ تو بچے ہی تھے، ملالہ کی عمر کے یا اس سے کم عمر کے یا اس سے کچھ زیادہ عمر کے، ان میں سے کسی نے پاکستان کی خدمت کی تھی نہ افغانستان کی اور نہ عراق کی۔ کوئی خدمت کی ہوتی تو نوبل انعام والے بلاتے، وہی نوبل انعام جو کبھی اوباما کو ملتا ہے تو کبھی گورڈن براؤن کو۔
ملالہ کو نوبل کا انعام ملتے ملتے رہ گیا، کوئی بات نہیں، پاکستان اور افغانستان اور عراق کے ایک بہت بڑے محسن ’’بش‘‘ کو بھی نہیں ملا تھا۔ حتیٰ کہ بڑے بش کو بھی نہیں،مزید حتیٰ کہ کنڈولیزا کو بھی نہیں اور تو اور لاکھوں فلسطینیوں کے محسن شیرون کو بھی نہیں لیکن اس سے انسانیت کے لئے ان کی خدمات پر کوئی حرف نہیں آتا، ملالہ نے جو خدمات انجام دیں، ان پر بھی حرف نہیں آئے گا۔ ملالہ تو پھر بھی ’’رنر اپ ‘‘ رہی، یہ بے چارے وہ بھی نہیں تھے۔ افسوس، مذکورہ روشن خیالوں میں مؤخر الذکر روشن خیال جنرل شیرون جوان سارے روشن خیالوں سے بڑھ کر روشن خیال تھے، چند ماہ پہلے شاید پندرہ برس ’’کومے‘‘ میں رہنے کے بعد سورگ باشی ہوگئے۔ یہ سورگ کیا ہوتا ہے پتہ نہیں، شاید نرکھ کو کہتے ہیں۔ ملالہ تو ابھی چھوٹی ہے، اسے روشن خیالی کا ’’کلچر ‘‘ پوری طرح نہیں آتا لیکن اس کا ڈالر سمیٹ باپو کئی روشن خیالوں کا ایک ہی روشن خیال ہے اور ہاں، بی بی سی کے اس نامہ نگار کو مت بھولئے جس نے ملالہ کی ڈائری لکھی، وہی جو کتابی شکل میں دنیا بھر کے ’’پاکستان دوستوں‘‘ میں ہاتھوں ہاتھ لی جا رہی ہے۔ یہ روشن خیال نامہ نگار شاید پچھتاتا ہو گاکہ ملالہ کی ڈائری اس نے اپنے نام سے کیوں نہ چھاپ دی۔ میلہ ملالہ کے باپو نے لوٹ لیا، بی بی سی کے نامہ نگار کو لوگ بھول گئے، حتیٰ کہ نوبل انعام کی تقریب کے لئے بھی نہ بلایا۔
بہرحالکچھ مصلحت ہوگی کہ ڈارلنگ آف دی ویسٹ بارن ان دی ایسٹ ملالہ کو نوبل انعام نہیں دیا گیا۔کہتے ہیں ملالہ نے دنیا بھر میں پاکستان کو گالی دی۔ پھر تو حیرت ہونی چاہئے۔ شاید ملالہ سے کچھ کمی رہ گئی ہوگی ۔ ہر جگہ جاکر وہ کہتی کہ پاکستان عورتوں کے لئے قید خانہ ہے۔ کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں اور لاکھوں افغانوں اور عراقیوں کے قاتل جس طرح ملالہ سے ملتے رہے، اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے رہے اور ایک قدرے کمزور ذہنلڑکی کو ’’گاڈیس‘‘بناتے رہے اس سے کچھ اور ہی معنے نکلتے ہیں لیکن یہ اعتراض کرنے والے کم فہم ہیں اور ان کا موقف کم وزن ۔سننی ہے تو ان کی سنو جو ملالہ کے ہم پیالہ، معاف کیجئے گا، اس کے باپو کے ہم پیالہ ہیں جو اب بھی یہ اصرار کر رہے ہیں کہ ملالہ نے پاکستان کی خدمت کی، پاکستان کا نام روشن کیا اور تو اور نواز شریف نے بھی آئی ایم ایف اور مغرب کی اپنے بارے میں بدگمانیاں دور کرنے کی کوشش میں ملالہ کو خراج عقیدت پیش کر دیا ورنہ وہ کہاں کے روشن خیال تھے۔عمران خاں کی ایسی کوئی مجبوری ہے نہ ضرورت، انہوں نے بھی ملالہ کی ’’خدمات‘‘ کی تعریف کر دی۔ شاید چینلز کی دھواں دار مہم کی جھپٹ میں آگئے۔
لیکن حیرت ہے عوام نے اثر قبول نہیں کیا۔ پورے دو دن اور دو رات چینلز نے ملالہ کا ڈھول اس طرح پیٹا کہ سامعین ادھ موئیہوگئے۔پھر بھی مان کر نہ دیئے۔ انہیں حیرت ضرورت تھی کہ ملالہ نے خدمت پاکستان کی کی ہے اور اس پر لٹّو گورے ہو رہے ہیں۔
ملالہ کی کتاب بھارت میں ’’تابڑتوڑ‘‘فروخت ہو رہی ہے۔ بھارت میں پاکستان کے چاہنے والے اتنی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ معلوم نہ تھا۔
___________________________________________
ملالہ کے حق میں طوفان اٹھانے والے میڈیا کا یہ پہلا کارنامہ نہیں ہے۔ قومی غدار نے جب ’’پاکستان بیچو‘‘ کا پروجیکٹ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نام سے شروع کیا تھا تو میڈیا نے ایسا ہی طوفان اٹھایا تھا اور ایسا ہی خراج عقیدت اتنی ہی وارفتگی سے پیش کیا تھا۔ اور جب پاکستان بیچا جا چکا تو اس میڈیا کے ماتھے پر شرمندگی کے پسینے کاقطرہ تو کجا، کوئی ابخرہ تک نہیں چمکا۔ اسی میڈیا نے لال مسجد آپریشن کی مہم میں بھی پورے سے بڑھ کر زور لگایا اور جب ہزارہا بچیاں زندہ جلائی جا چکیں اور ان کے ذبح شدہ لاشے بھسم ہو چکے تو اپنا منہ ایسے ایک طرف کر لیا جیسے اسے تو کچھ پتہ ہی نہیں۔اسی میڈیا نے سوات میں کوڑے مارنے والی جعلی وڈیو اتنی بار چلائی کہ ذہنی مریض بن گئے۔ یہ وڈیو کسی ضرورت مند نے چند سو ڈالروں کے عوض بنائی تھی۔اس ’’وڈیو‘‘ کو جواز بنا کر سوات میں ایسا آپریشن کیا گیا کہ باعزت گھرانوں کی عورتیں بھکاری بن گئیں بلکہ اس سے بھی آگے کچھ ایسے کام کرنے پر مجبور ہوگئیں کہ جو بس روشن خیالوں کو زیبا ہیں۔ سوات اجڑ گیا اور آج بھی کے اردگرد ’’آئرن کرٹن‘‘ ہے۔
یہی میڈیا شایدپاکستان کے منہ پرکالک کا غازہ سجانے والی ملالہ کو وزیراعظم بنانے کی مہم بھی چلائے گا۔ ابھی تو یہ سوچ کر ہنسی آتی ہے کہ کوئی ایسا سوچ رہا ہے لیکن مسلم لیگ کی حکومت جیسی’’شاندار‘‘ کارکردگی دکھا رہی ہے،اُ س کے بعد تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

(بشکریہ روزنامہ نئی بات 13 اکتوبر 2013)
 

دوست

محفلین
اب مجھے ایسے سوچنے والوں پر دکھ بھی نہیں ہوتا عجیب بے حسی طاری رہتی ہے۔
صرف ریکارڈ کے لیے:
لال مسجد کو یرغمال بنایا جا چکا تھا، اور یہ وہی تھے فساد فی الارض والے جہادسٹ۔
سوات میں فضل اللہ نامی ایک دہشت گرد عرف مُلا ریڈیو نے غدر مچایا ہوا تھا۔
جو ان حقائق سے آنکھیں بند کرنا چاہیں تو بسم اللہ، یہ فیصلہ تو اب اللہ رب العزت ہی کرے گا کہ حق پر کون تھا۔
وما علینا الالبلاغ
 

نایاب

لائبریرین
"وغیرہ وغیرہ " زرد صحافت کا شاہکار فسانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کالم نگاہ کی ذہنی سطح کا بہترین عکاس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلا شک اللہ ہی ہدایت و توفیق کا مالک ہے ۔۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
"وغیرہ وغیرہ " زرد صحافت کا شاہکار فسانہ ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
کالم نگاہ کی ذہنی سطح کا بہترین عکاس ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بلا شک اللہ ہی ہدایت و توفیق کا مالک ہے ۔۔۔ ۔۔
اللہ بھی صرف انہی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کے قابل ہوں۔ کیا پاکستانی ہدایت کے قابل ہیں؟
 
Top