جتنی "چھک چھک چھک چھک" ہو چکی ہے اب بس ایک ہی گزارش ہے کہ جس دن ریاستِ مدینہ کا چاند نظر آئے تو مجھے یاد سے ٹیگ کر دیجیے گا۔ اس دن سے پہلے تک اب سیاسی بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
فرض کریں کہ آپ کے والد صاحب سعودی عرب میں نوکری کرتے ہیں اور پچھلے مہینے آپ کے گھر والوں نے
50 ہزار کا ٹی وی خریدا،
20 ہزار گراسری پر خرچ کیا،
30 ہزار سکولوں کی فیس اور یوٹیلیٹی بلز کی مد میں ادا کئے،
25 ہزار روپے پلاٹ کی قسط میں دی،
25 ہزار روپے سے ہر روز گھر میں کھانا پکانے کی بجائے بازار سے پکا پکایا کھانا منگوایا جاتا رہا،
یہ بنتا ہے ڈیڑھ لاکھ۔
آپ کے تمام گھر والوں کی مجموعی آمدن کل ملا کر پونے 2 لاکھ رہی جب کہ اخراجات ڈیڑھ لاکھ ہوئے۔ یعنی 25 ہزار روپے بچت۔
مزید براں، آپ کے گھر والوں نے قرضہ لے کر 60 ہزار کی فریج، 1 لاکھ کا صوفہ اور 40 ہزار کی موٹرسائکل بھی خریدی، جو کہ 2 لاکھ بنتا ہے۔
یوں اگر آپ کے گھر کا پچھلے مہینے کا جی ڈی پی کیلکولیٹ کیا جائے تو یہ بنتا ہے
ڈیڑھ لاکھ اخراجات جمع 25 ہزار بچت جمع 2 لاکھ قرض کی اشیا
یعنی ساڑھے تین لاکھ روپے۔
یہ روٹین آپ کی پچھلے کئی ماہ سے چل رہی تھی، ہر مہینے آپ قرضے پر کبھی گاڑی خریدتے، کبھی میوزک سسٹم، کبھی فرنیچر تو کبھی مہنگے موبائل فون۔ ہر مہینے آپ کے اخراجات پانچ فیصد بڑھ جاتے، یوں آپ کا جی ڈی پی پانچ فیصد کی رفتار سے بڑھتا رہا۔ تاہم یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر مہینے آپ پر لاکھوں روپے کا قرضہ بھی چڑھتا گیا، کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ والد صاحب سعودی عرب سے ریال بھیج کر وہ قرضہ واپس کرہی دیں گے۔
موجودہ مہینے آپ کے والد صاحب سعودی عرب سے واپس پاکستان آ گئے۔
انہوں نے خرچے کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ بازار سے کھانے نہیں منگوائے جائیں گے، اس کی وجہ سے ایک تو پچیس ہزار کا خرچہ بچ گیا، دوسرے انکم بھی پچیس ہزار بڑھ گئی۔ اس کے علاوہ 25 ہزار روپے قرضے کی قسط بھی اتار دی۔
اس کے ساتھ ساتھ والد صاحب نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ نہ تو لگژری شے خریدی جائے گی، اور نہ ہی قرض پر کوئی شے خریدی جائے گی، جس کی وجہ سے آپ کا موجودہ مہینے کا جی ڈی پی کچھ اس طرح ہوگا:
20 ہزار گراسری جمع 30 ہزار فیس جمع 25 ہزار پلاٹ کی قسط جمع 25 ہزار قرضے کی قسط جمع پچھتر ہزار (آمدن کا فرق)
یعنی اس مہینے جی ڈی پی ایک لاکھ 75 ہزار رہا۔
پچھلے مہینے کی نسبت اس مہینے آپ کا جی ڈی پی منفی گروتھ دکھا رہا ہے، لگتا ہے کہ گھر کی معیشت سکڑ رہی ہے، خاندان کی ترقی کی رفتار کم ہورہی ہے، پچھلے مہینے تک کا دور اچھا تھا، ہر مہینے نئی نئی اشیا گھر آ رہی تھیں، بازاری کھانے آتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہ کسی نے نہ سوچا کہ گھر والوں پر جو پچاس لاکھ روپے کا قرضہ چڑھ چکا تھا، اس کی ادائیگی کس نے کرنے تھی؟ بازاری کھانے کھا کھا کر صحت اور گھر کا بجٹ دونوں خراب ہورہے تھے، اس کا ذمے دار کون تھا؟
بظاہر دیکھا جائے تو پچھلے مہینے کا ساڑھے 3 لاکھ روپے کا جی ڈی پی موجودہ مہینے کے ایک لاکھ 75 ہزار سے دوگنا ہے، لیکن حقیقت دیکھیں تو موجودہ مہینے کا کم حجم کا جی ڈی پی پچھلے مہینے کی نسبت کئی گنا بہتر ہے کیونکہ اس میں غیرضروری اخراجات اور عیاشی والی اشیا شامل نہیں۔
یہ ہے وہ معاشی پالیسیوں کا فرق جو ن لیگ اور موجود حکومت میں ہے۔ ن لیگ نے اربوں ڈالرز لے کر غیرضروری منصوبے شروع کئے تاکہ کمیشن بنا سکے اور معیشت کی رفتار مصنوعی طریقے سے بڑھا سکے۔ امپورٹ یعنی بازاری کھانے منگوانے شروع کردیئے، لوکل انڈسٹری تباہ کردی۔ ایکسپورٹ یعنی انکم کے ذرائع ختم کردیئے۔
تحریک انصاف نے امپورٹ ڈیوٹی بڑھا کر ان بازاری کھانوں کا رحجان کم کردیا اور عیاشی والے پراجیکٹس پر سرمایہ کاری کی بجائے ان پراجیکٹس میں سرمایہ کاری شروع کی جن کا سماجی فائدہ زیادہ ہے۔
جی ڈی پی کی باتیں پاکستان جیسے ملک کو سوٹ نہیں کرتیں۔ یہ معیشت جانچنے کا انڈیکیٹر تب ہوسکتا ہے جب آپ دوسرے میکرو اکنامک انڈیکیٹرز کو بھی اس کے ساتھ رکھ کر تجزیہ کریں۔ پٹواری ہمیں صرف جی ڈی پی نہ بتائیں، پٹواری ہمیں یہ بھی بتائیں کہ ن لیگ کے دور میں ایکسپورٹس میں کمی کیوں ہوئی؟ قرضے میں اضافہ کیوں ہوا؟ صحت، تعلیم جیسے منصوبے چھوڑ کر سیمینٹ بجری سریا والے پراجیکٹس کیوں شروع ہوئے؟ شریف خاندان کے ہر فرد کے پیچھے اربوں روپے کی کرپشن کی ٹی ٹیاں کیوں لگ چکیں؟
ہمیں قرض میں ڈوبا ہوا اور کرپشن کے منصوبوں سے اٹا ہوا جی ڈی پی نہیں چاہیئے ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ حکومت چاہے تین فیصد کی معاشی گروتھ رکھے، لیکن اگر یہ گروتھ صحت بخش ہوگی تو اس کا فائدہ ن لیگی دور کی گروتھ سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔
یہ پوسٹ لکھنے کا مقصد انصافیوں کو سمجھانا نہیں تھا، وہ تو اللہ کی مہیربانی سے پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہیں ۔ ۔ ۔ اس کا مقصد جاہل پٹواریوں کو سمجھانا تھا ۔ ۔ ۔ آگے ان کی مرضی!!! بقلم خود باباکوڈا