ڈالر ایک بار پھر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر آگیا

جاسم محمد

محفلین
ڈالر ایک بار پھر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر آگیا

ویب ڈیسک

15 مئی ، 2019

199954_4328938_updates.jpg

فائل فوٹو

کراچی: اوپن مارکیٹ میں ڈالر ایک بار پھر مہنگا ہوکر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

ایکسچینج کرنسی ایسوسی ایشن کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر 2.25 روپے مہنگا ہوگیا جس کے بعد ڈالر کی قدر 146 روپے 25 پیسے ہوگئی جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔

جب کہ انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 141.93 پیسے ہے جس کے بعد انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں پانچ روپے کا فرق ہے۔

واضح رہےکہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے سے قبل ڈالر کی قدر 141 سے 142 کے درمیان رہی جب کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کےبعد ڈالر کی قدر میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ صدارتی آرڈیننس جاری ہونے کے بعد ملک بھر میں ایمنسٹی اسکیم بھی نافذ ہوگئی ہے۔
 
ایکسچینج کرنسی ایسوسی ایشن کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر 2.25 روپے مہنگا ہوگیا جس کے بعد ڈالر کی قدر 146 روپے 25 پیسے ہوگئی جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔
عاطف میاں کی تقرری کو کالعدم قرار دلوانے کے بھیانک اثرات جاری و ساری ہیں۔ :)
 

جان

محفلین
جتنی "چھک چھک چھک چھک" ہو چکی ہے اب بس ایک ہی گزارش ہے کہ جس دن ریاستِ مدینہ کا چاند نظر آئے تو مجھے یاد سے ٹیگ کر دیجیے گا۔ اس دن سے پہلے تک اب سیاسی بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جتنی "چھک چھک چھک چھک" ہو چکی ہے اب بس ایک ہی گزارش ہے کہ جس دن ریاستِ مدینہ کا چاند نظر آئے تو مجھے یاد سے ٹیگ کر دیجیے گا۔ اس دن سے پہلے تک اب سیاسی بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
فرض کریں کہ آپ کے والد صاحب سعودی عرب میں نوکری کرتے ہیں اور پچھلے مہینے آپ کے گھر والوں نے
50 ہزار کا ٹی وی خریدا،
20 ہزار گراسری پر خرچ کیا،
30 ہزار سکولوں کی فیس اور یوٹیلیٹی بلز کی مد میں ادا کئے،
25 ہزار روپے پلاٹ کی قسط میں دی،
25 ہزار روپے سے ہر روز گھر میں کھانا پکانے کی بجائے بازار سے پکا پکایا کھانا منگوایا جاتا رہا،

یہ بنتا ہے ڈیڑھ لاکھ۔

آپ کے تمام گھر والوں کی مجموعی آمدن کل ملا کر پونے 2 لاکھ رہی جب کہ اخراجات ڈیڑھ لاکھ ہوئے۔ یعنی 25 ہزار روپے بچت۔

مزید براں، آپ کے گھر والوں نے قرضہ لے کر 60 ہزار کی فریج، 1 لاکھ کا صوفہ اور 40 ہزار کی موٹرسائکل بھی خریدی، جو کہ 2 لاکھ بنتا ہے۔

یوں اگر آپ کے گھر کا پچھلے مہینے کا جی ڈی پی کیلکولیٹ کیا جائے تو یہ بنتا ہے

ڈیڑھ لاکھ اخراجات جمع 25 ہزار بچت جمع 2 لاکھ قرض کی اشیا
یعنی ساڑھے تین لاکھ روپے۔

یہ روٹین آپ کی پچھلے کئی ماہ سے چل رہی تھی، ہر مہینے آپ قرضے پر کبھی گاڑی خریدتے، کبھی میوزک سسٹم، کبھی فرنیچر تو کبھی مہنگے موبائل فون۔ ہر مہینے آپ کے اخراجات پانچ فیصد بڑھ جاتے، یوں آپ کا جی ڈی پی پانچ فیصد کی رفتار سے بڑھتا رہا۔ تاہم یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر مہینے آپ پر لاکھوں روپے کا قرضہ بھی چڑھتا گیا، کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ والد صاحب سعودی عرب سے ریال بھیج کر وہ قرضہ واپس کرہی دیں گے۔

موجودہ مہینے آپ کے والد صاحب سعودی عرب سے واپس پاکستان آ گئے۔

انہوں نے خرچے کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ بازار سے کھانے نہیں منگوائے جائیں گے، اس کی وجہ سے ایک تو پچیس ہزار کا خرچہ بچ گیا، دوسرے انکم بھی پچیس ہزار بڑھ گئی۔ اس کے علاوہ 25 ہزار روپے قرضے کی قسط بھی اتار دی۔

اس کے ساتھ ساتھ والد صاحب نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ نہ تو لگژری شے خریدی جائے گی، اور نہ ہی قرض پر کوئی شے خریدی جائے گی، جس کی وجہ سے آپ کا موجودہ مہینے کا جی ڈی پی کچھ اس طرح ہوگا:
20 ہزار گراسری جمع 30 ہزار فیس جمع 25 ہزار پلاٹ کی قسط جمع 25 ہزار قرضے کی قسط جمع پچھتر ہزار (آمدن کا فرق)

یعنی اس مہینے جی ڈی پی ایک لاکھ 75 ہزار رہا۔

پچھلے مہینے کی نسبت اس مہینے آپ کا جی ڈی پی منفی گروتھ دکھا رہا ہے، لگتا ہے کہ گھر کی معیشت سکڑ رہی ہے، خاندان کی ترقی کی رفتار کم ہورہی ہے، پچھلے مہینے تک کا دور اچھا تھا، ہر مہینے نئی نئی اشیا گھر آ رہی تھیں، بازاری کھانے آتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن یہ کسی نے نہ سوچا کہ گھر والوں پر جو پچاس لاکھ روپے کا قرضہ چڑھ چکا تھا، اس کی ادائیگی کس نے کرنے تھی؟ بازاری کھانے کھا کھا کر صحت اور گھر کا بجٹ دونوں خراب ہورہے تھے، اس کا ذمے دار کون تھا؟

بظاہر دیکھا جائے تو پچھلے مہینے کا ساڑھے 3 لاکھ روپے کا جی ڈی پی موجودہ مہینے کے ایک لاکھ 75 ہزار سے دوگنا ہے، لیکن حقیقت دیکھیں تو موجودہ مہینے کا کم حجم کا جی ڈی پی پچھلے مہینے کی نسبت کئی گنا بہتر ہے کیونکہ اس میں غیرضروری اخراجات اور عیاشی والی اشیا شامل نہیں۔

یہ ہے وہ معاشی پالیسیوں کا فرق جو ن لیگ اور موجود حکومت میں ہے۔ ن لیگ نے اربوں ڈالرز لے کر غیرضروری منصوبے شروع کئے تاکہ کمیشن بنا سکے اور معیشت کی رفتار مصنوعی طریقے سے بڑھا سکے۔ امپورٹ یعنی بازاری کھانے منگوانے شروع کردیئے، لوکل انڈسٹری تباہ کردی۔ ایکسپورٹ یعنی انکم کے ذرائع ختم کردیئے۔

تحریک انصاف نے امپورٹ ڈیوٹی بڑھا کر ان بازاری کھانوں کا رحجان کم کردیا اور عیاشی والے پراجیکٹس پر سرمایہ کاری کی بجائے ان پراجیکٹس میں سرمایہ کاری شروع کی جن کا سماجی فائدہ زیادہ ہے۔

جی ڈی پی کی باتیں پاکستان جیسے ملک کو سوٹ نہیں کرتیں۔ یہ معیشت جانچنے کا انڈیکیٹر تب ہوسکتا ہے جب آپ دوسرے میکرو اکنامک انڈیکیٹرز کو بھی اس کے ساتھ رکھ کر تجزیہ کریں۔ پٹواری ہمیں صرف جی ڈی پی نہ بتائیں، پٹواری ہمیں یہ بھی بتائیں کہ ن لیگ کے دور میں ایکسپورٹس میں کمی کیوں ہوئی؟ قرضے میں اضافہ کیوں ہوا؟ صحت، تعلیم جیسے منصوبے چھوڑ کر سیمینٹ بجری سریا والے پراجیکٹس کیوں شروع ہوئے؟ شریف خاندان کے ہر فرد کے پیچھے اربوں روپے کی کرپشن کی ٹی ٹیاں کیوں لگ چکیں؟

ہمیں قرض میں ڈوبا ہوا اور کرپشن کے منصوبوں سے اٹا ہوا جی ڈی پی نہیں چاہیئے ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ حکومت چاہے تین فیصد کی معاشی گروتھ رکھے، لیکن اگر یہ گروتھ صحت بخش ہوگی تو اس کا فائدہ ن لیگی دور کی گروتھ سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔

یہ پوسٹ لکھنے کا مقصد انصافیوں کو سمجھانا نہیں تھا، وہ تو اللہ کی مہیربانی سے پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہیں ۔ ۔ ۔ اس کا مقصد جاہل پٹواریوں کو سمجھانا تھا ۔ ۔ ۔ آگے ان کی مرضی!!! بقلم خود باباکوڈا
 

جان

محفلین
معیشت کی بہتری کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے، پھونک پھونک کر چلنا پڑتا ہے، بابا کوڈا جیسے لوگوں کی تحریروں پر من و عن یقین کرنے سے معیشت بہتر نہیں ہو جائے گی۔ حضور بابا کوڈا سے پوچھ لیجیے کہ جی ڈی پی کو صحت مند بنانے کے عناصر کیا ہیں؟ ان میں سے اگر ایک بھی عنصر موجودہ حکومت کے عملی اقدامات میں شامل ہو تو خاکسار بابا کوڈا کا مرید بنننے کو تیار ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
معیشت کی بہتری کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے، پھونک پھونک کر چلنا پڑتا ہے، بابا کوڈا جیسے لوگوں کی تحریروں پر من و عن یقین سے معیشت بہتر نہیں ہو جائے گی۔ حضور بابا کوڈا سے پوچھ لیجیے کہ جی ڈی پی کو صحت مند بنانے کے عناصر کیا ہیں؟ ان میں سے اگر ایک بھی عنصر موجودہ حکومت کے عملی اقدامات میں شامل ہو تو خاکسار بابا کوڈا کا مرید بنننے کو تیار ہے۔
پٹواری بیانیہ:
نوازشریف کے دور میں جی ڈی پی گروتھ پانچ فیصد تھی جو کہ اب کم ہو گئی جس سے معاشی ترقی کی رفتار رک گئی۔

ن لیگی دور میں جی ڈی پی کو پانچ فیصد تک کیسے رکھا گیا؟ یہ سمجھنے کیلئے جی ڈی پی کا فارمولہ سمجھنا ضروری ہے۔جی ڈی پی ایک معاشی انڈیکیٹر ہے جو دنیا کا ہر ملک رپورٹ کرتا ہے، اس کا فارمولہ پوری دنیا میں ایک ہی ہے لیکن ڈیٹا کولیکشن کا طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔ جی ڈی پی مندرجہ ذیل فیکٹرز سے مل کر بنتا ہے:

1۔ کنزیومرز یعنی عام لوگوں کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقم کا مجموعہ
2۔ گورنمنٹ کی طرف سے کی گئی انویسٹمنٹ یا اخراجات کا مجموعہ
3۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے انویسٹمنٹ یا اخراجات کا مجموعہ
4۔ ملک کی مجموعی آمدن یعنی ایکسپورٹ انکم سے امپورٹ اخراجات نکالنے کے بعد جو منافع بچتا ہے
ان چار فیکٹرز کو جمع کرکے جی ڈی پی کا حجم نکالا جاتا ہے۔

اس فارمولے میں پہلے نمبر پر کنزیومر سپینڈنگ ہے یعنی عام شہریوں کے اخرجات۔ یہ اعدادوشمار پاکستان کے کبھی بھی درست تسلیم نہیں کئے گئے کیونکہ پاکستان کے شہریوں کی ایک کثیر تعداد کے اخراجات کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔ سبزی اور پھل بیچنے والوں سے لے کر دودھ بیچنے والے گوالوں تک، بسوں ویگنوں میں سفر کرنے والوں سے لے کر گلی محلے کے دکانداروں اور کلینک تک، کسی جگہ بھی کوئی لکھت پڑھت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ شماریات کا ادارہ ہر سہ ماہی سامپلنگ کی مدد سے یہ تخمینہ خود تیار کرکے فارمولے میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے برعکس مغربی ممالک میں ایک ایک ٹرانزیکشن ریکارڈ ہوتی ہے اور وہیں سے بآسانی کنزیومر سپینڈنگ بھی کیلکولیٹ کرلی جاتی ہے۔اس لئے اس فیکٹر کو ہم بآسانی نظرانداز کرسکتے ہیں۔

دوسرا فیکٹر ہے سرکاری سپینڈنگ۔ ن لیگی دور میں غیرملکی قرضہ لے کر مہنگے ترین لیکن بے مقصد پراجیکٹس لانچ کئے گئے۔ ان پراجیکٹس پر جو اربوں ڈالرز خرچ ہوئے، ان کا سیاسی فائدہ ن لیگ نے اس طرح اٹھایا کہ ان کے فیتے کاٹ کر اپنی تصویریں شائع کیں، پھر ان پراجیکٹس کی سپینڈنگ کو جی ڈی پی میں ڈال کر معاشی رفتار کو جعلی طریقے سے بڑھا دیا۔ حقیقت میں اگر آپ دیکھیں تو اورنج ٹرین لاہور کا ملک یا صوبے کو تو دور، خود لاہور کو ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔ تیسرا فائدہ ان پراجیکٹس سے کمیشن کی شکل میں اٹھایا گیا۔

تیسرا فیکٹر پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے جتنا سرمایہ پاکستان سے باہر ن لیگ کے دور میں منتقل ہوا، شاید ہی کسی دوسرے دور میں ہوا ہو۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت تو خود نوازشریف کی اپنی اولاد ہے جن کی ساری سرمایہ کاری بیرون ملک ہے، اور پاکستان میں ایک دھیلہ بھی حسین یا حسن نواز نے نہیں لگایا۔ اس لئے یہ فیکٹر بھی اگنور کردیں۔ البتہ ن لیگ کے دور میں امپورٹ میں ہوش ربا اضافہ ضرور ہوا جو کہ اس فارمولے کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر کی انویسٹمنٹ میں آتا ہے۔ لیکن یہ اضافہ ملک کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

چوتھا فیکٹر ہے ملک کی مجموی آمدن جو کہ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے فرق کا نام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ کے دور میں پاکستان کی ایکسپورٹ خوفناک حد تک کم کر دی گئیں جس سے ملک میں ڈالرز کی شکل میں آمدن ختم ہوتی گئی۔ ایکسپورٹ کا تاجر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ دوسری طرف امپورٹ میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا جس کے نتیجے میں قرضے پر قرضہ لے کر ڈالرز میں ادائیگیاں کی گئیں۔ ن لیگی دور میں ایکسپورنٹ مائنس امپورٹ ایک منفی نمبر تھا، اس لئے یہ بھی فیکٹر جی ڈی پی کو فائدہ نہیں دیتا۔

امید ہے کہ آپ کو کاروائی سمجھ آگئی ہوگی۔
ن لیگ نے جب حکومت سنبھالی تو اس وقت ملکی قرضہ 54 ارب ڈالرز کا تھا۔ پھر اس نے چالیس ارب ڈالرز کا مزید قرضہ لیا ۔
اس چالیس ارب ڈالرز کے ذریعے ڈالر کی قیمت مصنوعی طور پر کنٹرول کی، میگا پراجیکٹس کو تین، چار یا دس گنا لاگت پر شروع کیا، کک بیکس بنائے، کمیشن بنایا اور گورنمنٹ سپنڈنگ کو جی ڈی پی میں ڈال کر معاشی رفتار پانچ فیصد دکھا دی۔

اسد عمر نے چند ہفتے قبل کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت جی ڈی پی گروتھ کو صحت مند بنیادوں پر لے کر آئے گی، اس کا مطلب یہ تھا کہ ایکسپورٹ کو بڑھایا جائے گا اور امپورٹ کو کم کیا جائے گا تاکہ حکومت کی نیٹ انکم بڑھے جس کا اثر جی ڈی پی پر پڑے گا۔

تو جناب، یہ ہے وہ ن لیگی دور کی معاشی رفتار کا انڈیکیٹر، کہ جسے جی ڈی پی گروتھ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ پڑا ہے وہ پانچ فیصد والا جی ڈی پی گروتھ جسے ننگا کردیا گیا ۔ ۔ ۔ اور یہ پڑا ہے پٹواری اب بھی سمجھتا ہے کہ ن لیگی دور بہتر تھا!!! بقلم خود باباکوڈا

(کچھ نامناسب الفاظ محفل کے ماحول کے مطابق حذف کر دئے گئے ہیں)
 

جان

محفلین
پٹواری بیانیہ:
نوازشریف کے دور میں جی ڈی پی گروتھ پانچ فیصد تھی جو کہ اب کم ہو گئی جس سے معاشی ترقی کی رفتار رک گئی۔

ن لیگی دور میں جی ڈی پی کو پانچ فیصد تک کیسے رکھا گیا؟ یہ سمجھنے کیلئے جی ڈی پی کا فارمولہ سمجھنا ضروری ہے۔جی ڈی پی ایک معاشی انڈیکیٹر ہے جو دنیا کا ہر ملک رپورٹ کرتا ہے، اس کا فارمولہ پوری دنیا میں ایک ہی ہے لیکن ڈیٹا کولیکشن کا طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔ جی ڈی پی مندرجہ ذیل فیکٹرز سے مل کر بنتا ہے:

1۔ کنزیومرز یعنی عام لوگوں کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقم کا مجموعہ
2۔ گورنمنٹ کی طرف سے کی گئی انویسٹمنٹ یا اخراجات کا مجموعہ
3۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے انویسٹمنٹ یا اخراجات کا مجموعہ
4۔ ملک کی مجموعی آمدن یعنی ایکسپورٹ انکم سے امپورٹ اخراجات نکالنے کے بعد جو منافع بچتا ہے
ان چار فیکٹرز کو جمع کرکے جی ڈی پی کا حجم نکالا جاتا ہے۔

اس فارمولے میں پہلے نمبر پر کنزیومر سپینڈنگ ہے یعنی عام شہریوں کے اخرجات۔ یہ اعدادوشمار پاکستان کے کبھی بھی درست تسلیم نہیں کئے گئے کیونکہ پاکستان کے شہریوں کی ایک کثیر تعداد کے اخراجات کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔ سبزی اور پھل بیچنے والوں سے لے کر دودھ بیچنے والے گوالوں تک، بسوں ویگنوں میں سفر کرنے والوں سے لے کر گلی محلے کے دکانداروں اور کلینک تک، کسی جگہ بھی کوئی لکھت پڑھت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ شماریات کا ادارہ ہر سہ ماہی سامپلنگ کی مدد سے یہ تخمینہ خود تیار کرکے فارمولے میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے برعکس مغربی ممالک میں ایک ایک ٹرانزیکشن ریکارڈ ہوتی ہے اور وہیں سے بآسانی کنزیومر سپینڈنگ بھی کیلکولیٹ کرلی جاتی ہے۔اس لئے اس فیکٹر کو ہم بآسانی نظرانداز کرسکتے ہیں۔

دوسرا فیکٹر ہے سرکاری سپینڈنگ۔ ن لیگی دور میں غیرملکی قرضہ لے کر مہنگے ترین لیکن بے مقصد پراجیکٹس لانچ کئے گئے۔ ان پراجیکٹس پر جو اربوں ڈالرز خرچ ہوئے، ان کا سیاسی فائدہ ن لیگ نے اس طرح اٹھایا کہ ان کے فیتے کاٹ کر اپنی تصویریں شائع کیں، پھر ان پراجیکٹس کی سپینڈنگ کو جی ڈی پی میں ڈال کر معاشی رفتار کو جعلی طریقے سے بڑھا دیا۔ حقیقت میں اگر آپ دیکھیں تو اورنج ٹرین لاہور کا ملک یا صوبے کو تو دور، خود لاہور کو ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔ تیسرا فائدہ ان پراجیکٹس سے کمیشن کی شکل میں اٹھایا گیا۔

تیسرا فیکٹر پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے جتنا سرمایہ پاکستان سے باہر ن لیگ کے دور میں منتقل ہوا، شاید ہی کسی دوسرے دور میں ہوا ہو۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت تو خود نوازشریف کی اپنی اولاد ہے جن کی ساری سرمایہ کاری بیرون ملک ہے، اور پاکستان میں ایک دھیلہ بھی حسین یا حسن نواز نے نہیں لگایا۔ اس لئے یہ فیکٹر بھی اگنور کردیں۔ البتہ ن لیگ کے دور میں امپورٹ میں ہوش ربا اضافہ ضرور ہوا جو کہ اس فارمولے کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر کی انویسٹمنٹ میں آتا ہے۔ لیکن یہ اضافہ ملک کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

چوتھا فیکٹر ہے ملک کی مجموی آمدن جو کہ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے فرق کا نام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ کے دور میں پاکستان کی ایکسپورٹ خوفناک حد تک کم کر دی گئیں جس سے ملک میں ڈالرز کی شکل میں آمدن ختم ہوتی گئی۔ ایکسپورٹ کا تاجر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ دوسری طرف امپورٹ میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا جس کے نتیجے میں قرضے پر قرضہ لے کر ڈالرز میں ادائیگیاں کی گئیں۔ ن لیگی دور میں ایکسپورنٹ مائنس امپورٹ ایک منفی نمبر تھا، اس لئے یہ بھی فیکٹر جی ڈی پی کو فائدہ نہیں دیتا۔

امید ہے کہ آپ کو کاروائی سمجھ آگئی ہوگی۔
ن لیگ نے جب حکومت سنبھالی تو اس وقت ملکی قرضہ 54 ارب ڈالرز کا تھا۔ پھر اس نے چالیس ارب ڈالرز کا مزید قرضہ لیا ۔
اس چالیس ارب ڈالرز کے ذریعے ڈالر کی قیمت مصنوعی طور پر کنٹرول کی، میگا پراجیکٹس کو تین، چار یا دس گنا لاگت پر شروع کیا، کک بیکس بنائے، کمیشن بنایا اور گورنمنٹ سپنڈنگ کو جی ڈی پی میں ڈال کر معاشی رفتار پانچ فیصد دکھا دی۔

اسد عمر نے چند ہفتے قبل کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت جی ڈی پی گروتھ کو صحت مند بنیادوں پر لے کر آئے گی، اس کا مطلب یہ تھا کہ ایکسپورٹ کو بڑھایا جائے گا اور امپورٹ کو کم کیا جائے گا تاکہ حکومت کی نیٹ انکم بڑھے جس کا اثر جی ڈی پی پر پڑے گا۔

تو جناب، یہ ہے وہ ن لیگی دور کی معاشی رفتار کا انڈیکیٹر، کہ جسے جی ڈی پی گروتھ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ پڑا ہے وہ پانچ فیصد والا جی ڈی پی گروتھ جسے ننگا کردیا گیا ۔ ۔ ۔ اور یہ پڑا ہے پٹواری اب بھی سمجھتا ہے کہ ن لیگی دور بہتر تھا!!! بقلم خود باباکوڈا

(کچھ نامناسب الفاظ محفل کے ماحول کے مطابق حذف کر دئے گئے ہیں)
سوال شاید آپ کو سمجھ نہیں آیا پھر دہرائے دیتا ہوں۔
جی ڈی پی کو صحت مند بنانے کے عناصر کیا ہیں؟
 

جان

محفلین
سوال: آپ کی حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟
جواب: "ن لیگ کے دور میں قرضے لیے گئے، نوز شریف کرپٹ ہے، فلاں نے کمیشن کھائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقلم خود۔۔۔۔"
 

جاسم محمد

محفلین
سوال شاید آپ کو سمجھ نہیں آیا پھر دہرائے دیتا ہوں۔
ان چار فیکٹرز کو جمع کرکے جی ڈی پی کا حجم نکالا جاتا ہے:
1۔ کنزیومرز یعنی عام لوگوں کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقم کا مجموعہ
اسے ہر سال بڑھنا چاہئے۔ لیگی دور میں نرم اقتصادی پالیسی کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔

2۔ گورنمنٹ کی طرف سے کی گئی انویسٹمن یا اخراجات کا مجموعہ
سرکاری سرمایہ کاری، سرکاری اداروں اور محکموں کو جتنا ممکن ہو سکے منافع میں جانا چاہیے۔ لیگی دور میں اس کے عین الٹ ہوا ہے۔ ہر جگہ ریکارڈ خسارے۔

3۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے انویسٹمنٹ یا اخراجات کا مجموعہ
سرکار نجی سیکٹر جو کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے کو ابھارنے کیلئے سبسڈی یا سیدھا سرمایہ کاری کرتی ہے۔ تاکہ ملکی پیداوار اور ایکسپورٹس میں مسلسل اضافہ ہو۔ لیگی دور میں یہ اہم ترین فیکٹر منفی رہا۔

4۔ ملک کی مجموعی آمدن یعنی ایکسپورٹ انکم سے امپورٹ اخراجات نکالنے کے بعد جو منافع بچتا ہے
بھارت، بنگلہ دیش کا تجارتی خسارہ کم ہے۔ چین، سعودیہ باقاعدہ منافع میں ہیں۔ جبکہ لیگی دور میں پاکستان کا یہ فیکٹر ۳۰ ارب ڈالر کے ریکارڈ خسارہ پر جا پہنچا تھا۔
Pakistan's trade deficit widens to record $30bn - Pakistan - DAWN.COM
 

جاسم محمد

محفلین
سوال: آپ کی حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟
جواب: "ن لیگ کے دور میں قرضے لیے گئے، نوز شریف کرپٹ ہے، فلاں نے کمیشن کھائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقلم خود۔۔۔۔"
اسد عمر نے چند ہفتے قبل کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت جی ڈی پی گروتھ کو صحت مند بنیادوں پر لے کر آئے گی، اس کا مطلب یہ تھا کہ ایکسپورٹ کو بڑھایا جائے گا اور امپورٹ کو کم کیا جائے گا تاکہ حکومت کی نیٹ انکم بڑھے جس کا اثر جی ڈی پی پر پڑے گا۔
Trade deficit shrinks 13pc to $26.2bn - Newspaper - DAWN.COM
Exports increase to $25 bn: Hammad Azhar
 

آصف اثر

معطل
جاسم محمد اگر ن لیگ اتنی ہی کرپٹ ہے اور لیگ پر قرضوں کی یہ چیخ وپکار درست ہے تو ن لیگ آخر کیوں کر اس قابل ہوئی کہ آئی ایم ایف کا طوق قوم کے گلے سے نکال کر سارا قرضہ واپس بھی کردیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم محمد اگر ن لیگ اتنی ہی کرپٹ ہے اور لیگ پر قرضوں کی یہ چیخ وپکار درست ہے تو ن لیگ آخر کیوں کر اس قابل ہوئی کہ آئی ایم ایف کا طوق قوم کے گلے سے نکال کر سارا قرضہ واپس بھی کردیا؟
کیونکہ اسحاق ڈار کے قول و فعل میں تاریخی تضاد رہا ہے۔ یہاں موصوف فرما رہے ہیں کہ ملک کا قرضہ جی ڈی پی کا ۶۴ فیصد ہے جسے وہ کم کرکے ۵۰ فیصد پر لائیں گے۔ جبکہ حقیقت میں ن لیگی حکومت کے خاتمے کے وقت یہ حجم بڑھ کر ۷۳ فیصد تک پہنچ چکا تھا

ویسے بھی اسحاق ڈار کیلئے یہ سب کوئی نئی بات نہیں۔ ۹۰ کی دہائی میں ان کے کارنامے خود ان کی جماعت کے دانیال عزیز نے ۲۰۰۳ میں ان کے سامنے رکھے تھے۔ اور موصوف نظریں جھکا کر سنتے رہے۔
 

جان

محفلین
ان چار فیکٹرز کو جمع کرکے جی ڈی پی کا حجم نکالا جاتا ہے:
1۔ کنزیومرز یعنی عام لوگوں کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقم کا مجموعہ
اسے ہر سال بڑھنا چاہئے۔ لیگی دور میں نرم اقتصادی پالیسی کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔

2۔ گورنمنٹ کی طرف سے کی گئی انویسٹمن یا اخراجات کا مجموعہ
سرکاری سرمایہ کاری، سرکاری اداروں اور محکموں کو جتنا ممکن ہو سکے منافع میں جانا چاہیے۔ لیگی دور میں اس کے عین الٹ ہوا ہے۔ ہر جگہ ریکارڈ خسارے۔

3۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے انویسٹمنٹ یا اخراجات کا مجموعہ
سرکار نجی سیکٹر جو کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے کو ابھارنے کیلئے سبسڈی یا سیدھا سرمایہ کاری کرتی ہے۔ تاکہ ملکی پیداوار اور ایکسپورٹس میں مسلسل اضافہ ہو۔ لیگی دور میں یہ اہم ترین فیکٹر منفی رہا۔

4۔ ملک کی مجموعی آمدن یعنی ایکسپورٹ انکم سے امپورٹ اخراجات نکالنے کے بعد جو منافع بچتا ہے
بھارت، بنگلہ دیش کا تجارتی خسارہ کم ہے۔ چین، سعودیہ باقاعدہ منافع میں ہیں۔ جبکہ لیگی دور میں پاکستان کا یہ فیکٹر ۳۰ ارب ڈالر کے ریکارڈ خسارہ پر جا پہنچا تھا۔
Pakistan's trade deficit widens to record $30bn - Pakistan - DAWN.COM
یہ وہ "فیکٹرز" ہیں جن سے مل کر "جی ڈی پی" بنتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس کو "صحت مند" بنانے والے عناصر کیا ہیں؟ اور ان میں سے ایک عنصر کا نام بتا دیجیے جو موجودہ حکومت درست سمت میں لے کر چل رہی ہے۔ گھما پھرا کہ پھر وہی پوسٹ کر دیا آپ نے، پھر دہراتا چلوں سوال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جی ڈی پی کیا ہے، سوال یہ ہے کہ اس کو "صحت مند" بنانے والے عناصر کیا ہے۔ وہ "عناصر" جن پہ ان "فیکٹرز" کا انحصار ہوتا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
کیونکہ اسحاق ڈار کے قول و فعل میں تاریخی تضاد رہا ہے۔ یہاں موصوف فرما رہے ہیں کہ ملک کا قرضہ جی ڈی پی کا ۶۴ فیصد ہے جسے وہ کم کرکے ۵۰ فیصد پر لائیں گے۔ جبکہ حقیقت میں ن لیگی حکومت کے خاتمے کے وقت یہ حجم بڑھ کر ۷۳ فیصد تک پہنچ چکا تھا

ویسے بھی اسحاق ڈار کیلئے یہ سب کوئی نئی بات نہیں۔ ۹۰ کی دہائی میں ان کے کارنامے خود ان کی جماعت کے دانیال عزیز نے ۲۰۰۳ میں ان کے سامنے رکھے تھے۔ اور موصوف نظریں جھکا کر سنتے رہے۔
میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔
 

آصف اثر

معطل
تو یہ جواب لے لیں پھر۔ ۲۰۱۶ میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا۔ اور دو سال بعد ۲۰۱۸ میں نئی حکومت پر تنقید شروع کر دی کہ آتے ساتھ آئی ایم ایف کیوں نہیں گئے۔ :LOL:
D6iE8MzWwAAvyux.jpg
یعنی آج کے بعد ن لیگ کے خلاف قرضے لینے کا راگ مزید نہ الاپا جائے۔ جب کہ
اس بیان کا سیاق وسباق اور ربط بھی دیجیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی آج کے بعد ن لیگ کے خلاف قرضے لینے کا راگ مزید نہ الاپا جائے۔
سب سے پہلے یہ طے کر لیں کہ کوئی بھی ملک عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ کیوں لیتا ہے؟ یاد رہے کہ ہر ملک کے پاس قدرتی طور پر اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ باآسانی اپنے معاملات مملکت چلا سکتے ہیں۔
مسئلہ ان ممالک کو آتا ہے جن کی طویل حکومتی نااہلی کی وجہ سے ملک کے مالی حالات اس نہج پہ پہنچ جاتے ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی قوت کھو بیٹھتے ہیں۔
یاد رہے کہ ماضی میں اسرائیل (۱۹۸۵) ، بھارت (۱۹۹۱) اور بنگلہ دیش (۲۰۱۲) میں مالی مشکل پڑنے پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لے چکے ہیں۔ مگر ایسا صرف ایک ہی بار ہوا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی طرح بیسیوں بار قرضہ نہیں لیا۔ کیونکہ قرضے کے ساتھ جو سخت اقتصادی اصلاحات کا ٹاسک ملتا ہے اس پر پورا عمل کیا گیا اور یوں ان ممالک نے خود کو مالی مشکلات سے نکال لیا۔
جبکہ پاکستان میں حکومتیں عالمی اداروں سے تواتر کے ساتھ قرضے بھی لیتی رہی ہیں اور ساتھ میں سیاسی طور پر غیر مقبول معاشی اصلاحات کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں۔ یوں بار بار قرضے لینے کے باوجود ملک اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں تا حال کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
اب نئی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ یہ قرضے لینے کے ساتھ ساتھ وہ سخت معاشی اصلاحات کریں گے جس کے بعد دیگر ممالک جیسے اسرائیل، بھارت ، بنگلہ دیش کی طرح پاکستان کو دوبارہ عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ان دعووں میں کتنی سچائی ہے، یہ قوم ۴ سال بعد دیکھے گی۔ فی الحال تاریخ کے مطابق ماضی کی تمام جمہوری اور عسکری حکومتیں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑے کرنے میں یکسر ناکام و نامراد رہی ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یہ وہ "فیکٹرز" ہیں جن سے مل کر "جی ڈی پی" بنتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس کو "صحت مند" بنانے والے عناصر کیا ہیں؟ اور ان میں سے ایک عنصر کا نام بتا دیجیے جو موجودہ حکومت درست سمت میں لے کر چل رہی ہے۔ گھما پھرا کہ پھر وہی پوسٹ کر دیا آپ نے، پھر دہراتا چلوں سوال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جی ڈی پی کیا ہے، سوال یہ ہے کہ اس کو "صحت مند" بنانے والے عناصر کیا ہے۔ وہ "عناصر" جن پہ ان "فیکٹرز" کا انحصار ہوتا ہے۔
صحت مند معیشت کیا ہوتی ہے؟
وہ معیشت جس کے خرچے اس کی آمدن سے کم ہو۔ جسکی برآمداد اسکی درآمداد سے زیادہ ہو۔ جہاں مہنگائی اور قرضوں پر سود کی شرح کم ہو۔
یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ دنیا کے ہر معاشی طور پر مضبوط ملک کے یہی چنیدہ انڈیکیٹرز ہوتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کیوں بیمار ہے؟
کیونکہ یہاں کئی دہائیوں سے خرچے آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور ملکی برآمداد درآمداد سے کہیں کم ہیں۔ اس اقتصادی عدم توازن کی وجہ سے ملک کو مسلسل بے پناہ مہنگائی کا سامنا ہے۔ اس کی روک تھام کیلئے اسٹیٹ بینک کو شرح سود غیرمعمولی طور پر زیادہ رکھنا پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت میں سرمایہ کاری اور شرح نمود مسلسل مندی کا شکار رہتی ہے۔
اس بیمار معیشت کو کیسے ٹھیک کریں؟
حکومت ملک کی آمدن اور خرچوں میں توازن پیدا کرے۔ امپورٹ کم اور ایکسپورٹس بڑھانے پر توجہ دے۔ بیرونی اور اندرونی گردشی قرضے واپس کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں نئی سرمایہ کاری لائے۔ سرکاری اداروں اور محکموں کے خسارے کم یا مکمل ختم کر دے۔
یوں آہستہ آہستہ کئی سالوں بعد معیشت تندرست و توانا ہو کر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ اور کوئی جلد بازی یا شارٹ کٹ والا طریقہ موجود نہیں ہے۔
اب یہ پاکستانی قوم، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے کہ اس نے ملک کی بیمار معیشت ٹھیک کرنے کیلیے حکومت کا ہاتھ بٹانا ہے۔ یا روایتی مزاحمت دکھا کر چند سالہ عارضی لالی پاپ وصول کرکے اگلی حکومتوں کو اسی طرح بیمار ملکی معیشت پر گالیاں دینی ہیں :)
 
آخری تدوین:
Top