طارق شاہ
محفلین
آگہی
تم نے تو کہا تھا ہر حقیقت
اِک خوابِ ابد ہے در حقیقت
رنگوں کے سراب سے گُزر کر
رعنائیِ خواب سے گُزر کر
نیرنگئ زیست سب فسانہ
کیا گردِشِ وقت، کیا زمانہ
تاروں بھرے آسماں کے نیچے!
کُھلتے نہیں نُور کے دَرِیچے
تارِیک ہے زندگی کا رستا
گہرے ہوں ہزار غم کے سائے
چلتے رہو یُونہی چشم بَستہ
اِک یاد کو حرزِ جاں بنائے
لیکن ، یہ حقیقتوں کے پیکر !
پاکوب، برہنہ، دست بر سر
کرتے ہیں نگاہ سے اشارے
کہتے ہیں کہ، ہم بھی ہیں تمھارے
اُڑتی ہُوئی گرد راستوں کی
لائی ہے خبر مُسافروں کی
کیا دیکھیے، کوئی نِکل کے آگے
مسدُود ہر اِک رہِ سفر ہے
ہر ضرب پہ یا ں اجل کے آگے
مجبور حیات بے سپر ہے
ٹھہرا ہے کہیں گُزرتا لمحہ
جاگے ہُوئے درد کی صدا پر
ہنستے ہیں دلِ شکستہ پا پر
سمٹے ہُوئے پر خُود آگہی کے
پھیلے ہُوئے کوس زندگی کے
طے کر نہ سکیں گے لوگ جیسے
مُرجھائے ہُوئے چمن کے پُھولو!
بولو ، کہ اجل کا ہاتھ کیسے
شاخوں سے اُتارتا ہے ہم کو
مٹّی میں سنوارتا ہے ہم کو
ڈاکٹر توصیف تبسّم
آخری تدوین: