طارق شاہ
محفلین
غزل
لگی ذرا نہ طبیعت بَہِشت میں اپنی
زمِیں کے دُکھ تھے بہت سرنَوِشت میں اپنی
اندھیرے گھر میں یہی روشنی کا رَوزَن ہے
چُنی ہے آنکھ جو دِیوارِ خِشت میں اپنی
اِنہی سِتاروں سے پُھوٹیں گے تِیرَگی کے شَجر
جو آسمان نے بَوئے ہیں کشت میں اپنی
اِسی لِئے تو پڑی اپنے پاؤں میں زنجیر
کہ سرکشی تھی زیادہ سرِشت میں اپنی
طَلَب سُخن کو اُسی حرفِ بے صدا کی ہے
جو آج تک نہیں آیا نَوِشت میں اپنی
ڈاکٹر توصیؔف تبسّم