ڈاکٹر دعاگو۔۔۔۔ص 76-85

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
“نن۔۔۔۔نہیں۔ ارے باپ رے ۔“ عمران ہونٹوں پر زبان پھیر کر ہکلایا۔ جولیا اس کے پیچھے کھڑی زور زور سے ہنس رہی تھی۔
“اسے پکڑئیے۔ اسے پکڑئیے۔“ بوڑھے نے عمران کی طرف بایاں ہاتھ اٹھا کر ہجوم سے کہا۔ “میں پولیس کو فون کرنے جا رہا ہوں۔“
عمران نے سوچا کہ پھر جھنجھٹ میں پھنس جائے گا۔ چونکہ معاملہ ایک سفارتخانے کے آفیسر کی لڑکی کا ہے۔ اس لئے تعجب نہیں کہ کیپٹن فیاض ہی کو آنا پڑے۔پولیس والے سفارتخانے کا نام سن کر یقینی طور پر فیاض کے آفس کو مطلع کریں گے۔ فیاض کی آمد الجھن سے خالی نہ ہوتی کیونکہ معاملہ تھا گراموفون کی ایک زہریلی سوئی کا۔ جس سے ایک بار پہلے سابقہ پڑچکا تھا۔ وہ تو اس وقت یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ لڑکی کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا جائے ورنہ ہوسکتا ہے کہ وہ مر ہی جائے۔
دفعتاً ٹھیک اسی وقت جب عمران ہسپتال کی سوچ رہا تھا کہ مجمع سے کسی نے بوڑھے سے کہا۔ “پہلے ہسپتال پہنچانے کی کوشش کیجئے۔ پتہ نہیں کیا بات ہے۔“
“ جی۔ اور کیا۔۔۔۔بالکل بالکل۔۔۔۔“ عمران نے سر ہلا کر تائید کی۔ “میں کیا کہیں بھاگا جاتا ہوں۔ بعد کو پولیس بھی آتی رہے گی۔“
“اور کیا۔ اور کیا۔“ کئی لوگ بیک وقت بول پڑے۔
“نہیں نہیں۔ یہ جُل دے کر نکل جائے گا۔“ جولیا نے اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
“اچھا۔اچھا۔!“ عمران نے سر ہلا کر کہا۔ “اگر مرغیاں پار نہ کردیں تمہاری تو کچھ نہ کیا۔“
اتنے میں منیجر بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔پھر شروع ہوئی بھاگ دوڑ۔ کوئی پولیس کے لئے دوڑا اور کوئی تندرست قسم کی لڑکیوں کی خوشامد کرنے لگا کہ وہ بیہوش لڑکی کو گاڑی تک پہنچا دیں۔
پھر کچھ دیر بعد عمران نے جولیا کو اشارہ کیا کہ اب وہ وہاں نہ ٹھہرے۔۔۔۔ بات شاید اس کی سمجھ میں آگئی تھی۔ اس لئے پولیس کے آنے سے پہلے ہی رفوچکر ہوگئی۔
عمران کے اندیشے غلط نہیں تھے۔ قریبی تھانے کے لوگ اور کیپٹن فیاض ساتھ ہی وہاں پہنچے۔
“یہی ہے۔“ کسی نے مجمع سے عمران کی طرف اشارہ کیا۔ بوڑھا تو کسی کو قائم مقام بٹھا کر بیہوش لڑکی کے ساتھ جا چکا تھا۔
فیاض نے اسے پھاڑ کھانے والے انداز میں دیکھا اور اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتا ہوا دوسری طرف مڑ گیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
منیجر کے کمرے میں پہنچ کر اس نے منیجر کو بھی اس انداز میں دیکھا جیسے وہاں اس کی موجودگی ضروری نہ سمجھتا ہو۔
منیجر چپ چاپ باہر نکل گیا۔
“بیٹھ جاؤ۔“ فیاض غرایا اور عمران اس طرح بوکھلایا ہوا ناچنے لگا جیسے سمجھ میں ہی نہ آ رہا ہو کہ کس کرسی پر بیٹھے۔
“یہ کیا بیہودگیاں پھیلا رکھی ہیں تم نے۔“
“یار کیا بتاؤں۔ جس لڑکی پر بھی ڈورے ڈالتا ہوں گراموفون کی سوئی کا شکار ہو جاتی ہے۔“
“کیا یہ بھی۔“ فیاض اچھل پڑا۔
عمران نے مغموم انداز میں سر کو جنبش دی۔
“لیکن۔لیکن تم نے مجھے جو سوئی دی تھی اس میں تو کوئی خاص بات نہیں نکلی تھی۔ معمولی قسم کی گراموفون کی سوئی، ہر قسم کی آلودگیوں سے مبرا۔“
“اب یہ بھی لے جاؤ۔“ عمران نے جیب سے سوئی نکال کر میز پر رکھ دی اور بولا۔“ میرا خیال ہے کہ ان کی نوکوں پر ایسا زہر لگایا جاتا ہے کہ جو خون میں فوراً ہی تحلیل ہو جاتا ہے اور سوئی پر اپنا داغ نہیں چھوڑتا۔“
“پھر۔۔؟“ فیاض نے آنکھیں نکالیں۔!
“کہو تو اس سوئی کو زہر میں ڈبو لاؤں؟“ عمران نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
“بکواس مت کرو۔ یہ بتاؤ کہ ڈوہرنگ کی لڑکی سے کیوں جا ٹکرائے۔“
“ کس کی لڑکی؟“ عمران نے خوفزدہ انداز میں پوچھا۔
“کرنل ڈوہرنگ۔“
“ارے باپ رے۔“ عمران اچھل پڑا۔
“کیوں؟ کیوں؟“ فیاض مسکرایا۔
“اَمے مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایسا چنگیزی نام رکھنے والے کسی باپ کی بیٹی ہے۔“
“کرنل ڈوہرنگ کو جانتے ہو؟“
“نہیں۔“
“ہوں۔“ فیاض کسی سوچ میں گم ہو گیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد نرم لہجے میں بولا۔ “یار بڑی مصیبت میں پڑ گیا ہوں۔ یہ چھکن بھائی کی خودکشی۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“یہ چھکن بھائی اس وقت کہاں سے آن کودے۔ لے چلو مجھے اور اندر بند کر دو۔۔۔۔ کیونکہ میرے ساتھ بیہوش ہو جانے والی یہ دوسری لڑکی ہے۔“
“کچھ دیر خاموش بھی رہا کرو۔“
“لسی منگواؤں؟“ عمران نے بڑے پیار سے پوچھا۔
“مذاق چھوڑو۔ کام کی بات کرو۔“
“مگر پیارے جانتے ہو۔ اس لڑکی کے ساتھ کون تھا۔“
“کون تھا؟“
“سر سلطان کا نیا اسٹینو۔“
“کیا؟“ فیاض اچھل پڑا۔
“جی ہاں۔ مگر میرے لئے یہ نئی دریافت ہے۔ پتہ نہیں سر سلطان نے پٹڑی کیوں بدل دی۔“
“کیا مطلب؟“
“عموماً طرحدار قسم کی لڑکیاں رکھا کرتے تھے۔ اب یہ بڈھا کھوسٹ۔“
فیاض صرف مسکرا کر رہ گیا۔
“ہاں تم کیا کہہ رہے تھے۔“
“ڈوہرنگ کے خلاف شبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ملک کے لئے جاسوسی کرتا ہے۔“
“ہوں تو پھر۔“
“بکواس نہ کرو۔ کیا تم جانتے نہیں۔ اگر نہیں جانتے تو چھکن بھائی کے سلسلے میں اتنا غل غپاڑہ کیوں مچایا تھا۔“
“اچھا چلو۔ جانتا ہوں پھر۔!“
“مجھے یقین ہے کہ چھکن بھائی اس لڑکی کے توسط سے کرنل ڈوہرنگ تک پہنچے تھے اور اس نے انہیں اپنے چکر میں پھنسا لیا تھا۔“
“ہوں تو پھر۔“
“لیکن اب یہ گراموفون کی سوئیاں۔“
“اور اس نالائق بلے کو تم بھول گئے۔“ عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔
“کچھ سجھ میں نہیں آتا۔ یہ ڈاکٹر دعاگو بھی مجھے فراڈ معلوم ہوتا ہے۔“
“کیوں؟“ عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“اس کی دعاگوئی۔ اور لوگوں کی کامیابیاں۔ چھکن بھائی کی خودکشی، گراموفون کی دو سوئیاں۔ ایک اس کی سیکرٹری کے بازو میں اتر گئی اور دوسری کلارا کے بازو میں۔ ڈاکٹر دعاگو کو کسی بلے نے زخمی کر دیا۔ تینوں پر ہی بیہوشی کا حملہ ہوا۔“
“ہوں۔۔ تو شاید تم یہ سوچ رہے ہو کہ ڈوہرنگ کے علاوہ بھی کوئی آدمی ہے جو ان کے مشاغل میں حارج ہونا چاہتا ہے۔“
“پھر کیا سوچوں اس کے علاوہ۔“ فیاض نے کہا تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا۔ پھر بولا۔ “ یہ بتاؤ۔ سول ہسپتال میں کیا ہوا تھا۔؟“
“تم بتاؤ۔ تم نے ہی شاید فائر کرنے والے کو دیکھا تھا اور اس کے پیچھے دوڑے بھی تھے۔ مجھے تو کوئی بھی نظر نہیں آیا تھا۔“
“نکل ہی گیا۔ لیکن میں سوچ رہا تھا کہ وہ تمہارا ہی کوئی آدمی تھا جسے موقع دینے کے لئے تم نے مجھے گرایا تھا۔“
“میں نے گرایا تھا۔“ عمران نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔ “یار خدا سے ڈرو۔ میں تو تم سے اس طرح بھاگنے کی وجہ پوچھ رہا تھا۔“
“خیر مارو گولی۔ وہاں گھاس پر اعشاریہ چار پانچ کا ریوالور ملا تھا اور خون کے دھبے تھے گھاس پر۔۔ ریوالور کے دستے پر نشانات نہیں ملے۔!“
عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا۔ پھر بولا۔“ خون اور ریوالور کا مطلب تو یہ ہوا کہ کوئی کسی کی تاک میں تھا۔ اس نے اس پر ریوالور نکالا لیکن کوئی اس کی تاک میں تھا جس نے ہاتھ پر فائر کر کے اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔“
“اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے لیکن آخر اس نے کس کے لئے ریوالور نکالا ہوگا؟“
“خدا جانے!“ عمران نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی۔
فیاض جو اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا مسکرا کر بولا۔ “نہیں چلے گی۔“
“کیا مطلب؟“
“تم اس واقعہ کے متعلق بھی کچھ نہ کچھ جانتے ہو!“
“ریوالور والے کے متعلق۔“ عمران نے پوچھا اور فیاض نے سر ہلا دیا۔
“میں بھلا کیا جانوں گا اس کے متعلق۔“
“جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔؟“
“کیا فائدہ۔ ہم دونوں بیحد بےشرم اور بےحیا واقع ہوئے ہیں۔ چار پانچ کا ریوالور ہمارا کیا بگاڑ سکے گا۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ ہمارے لئے تھا۔“ فیاض نے پوچھا۔
“نہ رہا ہو تب بھی کیا فرق پڑتا ہے۔“ عمران نے لاپرواہی سے کہا۔
فیاض کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار نظر آئے لیکن وہ خود کو سنبھالے رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ عمران نے محسوس کیا مگر کچھ بولا نہیں۔
“ہوں تو اب کیا ارادہ ہے۔“ کچھ دیر بعد اس نے پوچھا۔
“میں سر سلطان کے اسٹینو کے متعلق سوچ رہا ہوں۔“ فیاض چونک کر بولا۔
“اپنی زوجہ مادرنما کے متعلق سوچو! اس بیچارے کے متعلق سوچ کر کیا کروگے۔“
فیاض جھنجھلا کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سر سلطان کا اسٹینو آندھی اور طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا۔
“یہی ہے۔ یہی ہے۔“ وہ جھلائے ہوئے انداز میں چیخا۔
“کیا بات ہے۔ آپ اس طرح کیوں گھس آئے۔“ فیاض غرایا۔
وہ فیاض کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ پھر شور مچانے کے انداز میں بولا۔ “کلارا خطرے میں ہے۔“
“کس کی بات کر رہے ہیں۔“
“وہ اس آدمی کے ساتھ ناچ رہی تھی۔“
“اور اب انہیں نچاتی پھر رپی ہے بڑھاپے میں۔“ عمران نے سر ہلا کر سنجیدگی سے کہا۔
“شٹ اَپ۔“ بوڑھا حلق کے بل چیخا۔
“آپ مجھے نہیں جانتے!“ بوڑھے نے کسی قدر نرمی اختیار کرتے ہوئے کہا۔ “لیکن میں آپ کو پہچانتا ہوں۔ میں سرسلطان کا اسٹینو ہوں۔“
“تو پھر؟“ فیاض نے مرعوب ہوئے بغیر کہا۔ شائد یہ چیز بوڑھے کے لئے غیرمتوقع تھی۔ اس لئے بغلیں جھانکنے لگا۔
“آپ یہاں کس لئے آئے ہیں۔“ اس نے سنبھالا لے کر کہا لیکن تیور برے ہی تھے۔
“ آپ کہاں کی ہانک رہے ہیں حضرت! آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے اور آپ کا اس معاملے سے کیا تعلق؟“
“وہ لڑکی میرے ساتھ تھی۔“
“اچھا تو آپ ہی اس کی بیہوشی کی وجہ بتائیے کہ وہ خطرے میں کیوں ہے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“مم۔ میں کیا بتاؤں۔“ اس نے عمران کی طرف دیکھ کر کہا۔ “یہی بتائے گا۔“
“مسور کی دال حلق تک ٹھونس لی ہوگی۔“ عمران نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ فیاض کو بیساختہ ہنسی آگئی۔
“آپ۔۔۔۔آپ حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اس نالائق کی۔“
“میں ہی نہیں۔ سرسلطان بھی کرتے ہیں خود ہی پوچھ لیجئے گا ان سے۔“
“آپ میرا مضحکہ اڑا رہے ہیں۔!“ وہ میز پر گھونسا مار کر دہاڑا۔
“اف فوہ۔۔ یار میز نہ توڑ ڈالنا۔ خود ہی جوانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے پھرتے ہیں اور خود ہی تاؤ بھی دکھاتے ہیں۔ اللہ کی قدرت!“ عمران نے کہا۔
“میں تمہارا حلیہ بگاڑ دوں گا۔“ وہ عمران کے چہرے کے قریب گھونسا ہلا کر بولا۔
“پہلے ہی کون سا بڑا اچھا تھا۔“ عمران نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
“میں دیکھ لوں گا۔ تم سبھوں کو دیکھ لوں گا۔“ وہ فیاض کی طرف دیکھ کر اٹھتا ہوا بولا۔ “میں اب ڈی آئی جی کو فون کروں گا۔“
“بیٹھ جائیے۔“ فیاض نے میز پر ہاتھ مار کر تحکمانہ لہجے میں کہا۔
“کیا مطلب؟“ بوڑھا بھی غرایا۔
“میں اس سلسلے میں آپ کا تحریری بیان لینا چاہتا ہوں۔“
“میں نے کب انکار کیا ہے۔“ وہ پھر چلایا اور عمران کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “لیکن یہ۔!“
“یہ میرے محکمے کے ڈائرکٹر جنرل کے صاحبزادے ہیں۔“ فیاض نے کہا “سر سلطان سے بھی ان کی گاڑھی چھنتی ہے۔“
“تت۔تو۔۔۔۔یہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔عمران۔۔۔۔!“ بوڑھا آنکھیں پھاڑ کر ہکلانے لگا۔'

“جی ہاں۔“
بوڑھا دھم سے کرسی پر بیٹھ گیا۔
عمران جس پوزیشن میں پہلے بیٹھا ہوا تھا اسی میں رہا۔ البتہ اب چہرے پر حماقتوں کے ڈونگرے برسنے لگے تھے۔
“یہ حضرت ناچ رہے تھے اس کے ساتھ۔“ بوڑھے نے کچھ دیر بعد ہانپتے ہوئے کہا۔
“مجھے علم ہوچکا ہے اور بیہوشی کی وجہ انہیں بھی نہیں معلوم۔“ فیاض نے کہا۔
“پتہ نہیں کیا ہوا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فیاض نے اس کا بیان لکھ کر اس کے دستخط لئے اور اسے بڑے اعزازواکرام کے ساتھ رخصت کیا۔ پھر عمران سے بولا۔ “یار سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ لڑکی کیا کرتی پھر رہی ہے۔“
“فی الحال تو کئی آدمیوں کو بیک وقت بور کرنے کا مشغلہ اختیار کرلیا ہے۔“
“کیا مطلب۔“
“اب یہی دیکھو کہ یہ حضرت نہ صرف خود بور ہورہے ہیں بلکہ دوسروں پر بھی کرم فرما ہیں۔“
“میں کہتا ہوں۔۔۔۔ یہ لڑکی۔ ادھر چھکن بھائی پر بھی نظرِ عنایت ہوئی تھی اس کی!“
“سنو ڈارلنگ فیاض۔ سراغرسانی کے لئے کوئی مولوی صاحب پیچھے نہیں لگائے جاتے۔ یہ طرحدار لڑکیاں ہی اس قسم کے فرائض انجام دیتی ہیں۔“
“ٹھیک ہے۔“ فیاض خاموش ہوکر کچھ سوچنے لگا۔
عمران کچھ کہنے ہی والا تھا کہ دروازہ پھر بڑے زوروشور کے ساتھ کھلا اور بلڈاگ ٹائپ کا ایک سفیدفام غیرملکی اندر گھس آیا۔ عمر پچاس کے قریب رہی ہوگی چہرہ بھاری اور بارعب تھا۔ ہاتھ بتا رہے تھے کہ جفاکشی کا عادی ہے۔
“ہلو کیپٹن۔!“ اس نے فیاض کی طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ “تم تھے یہاں۔!“
“کلارا کو کیا ہوا۔؟“ کس نے یہاں سے مجھے فون پر اطلاع دی تھی کہ وہ رقص کے دوران میں بیہوش ہو گئی ہے۔“
“اور اب اس کی زندگی خطرے میں ہے۔“ کسی نے دروازے کے قریب سے کہا۔ وہ چونک کر مڑے۔ سرسلطان کا اسٹینو وہاں کھڑا عمران کو گھورے جا رہا تھا۔
“یہی ناچ رہا تھا اس کے ساتھ!“ اس نے غصیلے لہجے میں کہا۔ “یہی بتائے گا۔ ہاں اس کی زندگی خطرے میں ہے۔ میں اسے سول ہسپتال میں داخل کر آیا ہوں۔“
نووارد غیرملکی غرا کر عمران پر جھپٹا اور اس کے کوٹ کا کالر پکڑ کر جھٹکا دیتا ہوا بولا۔ “بتاؤ۔“
“بتاتا ہوں۔“ عمران بھی اٹھتا ہوا بولا۔ اور آہستہ سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ جس سے کوٹ کا کالر پکڑ رکھا تھا اور اچانک اس کے جبڑے پر ایک زوردار گھونسا رسید کر دیا۔ اٹھنے کا انداز ایسا نہیں تھا کہ غیرملکی کو اس کا خدشہ ہوتا۔ بےخبری میں ہاتھ پڑا تو عمران کا کالر بھی چھوڑ دیا اور لڑکھڑاتا ہوا دروازے سے جا ٹکرایا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پھر وہ سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ فیاض درمیان میں آ گیا۔
“ہٹ جاؤ۔ کیپٹن۔ تم ہٹ جاؤ۔“ وہ اسے سامنے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہوا بولا۔
عمران اب پھر اطمینان سے کرسی پر بیٹھ گیا تھا! صورت سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی کثیرالعیال بیوہ اپنے کسی بچے کی پٹائی کر بیٹھی ہو۔
فیاض اس غیرملکی کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا اور دونوں کے درمیان حائل بھی رہا۔
“یہ ہے کون۔؟“ اس نے گرج کر عمران سے پوچھا۔
“میرا ایک دوست!“ فیاض جلدی سے بولا۔ “کلارا سے آج ہی ملاقات ہوئی تھی۔۔۔۔ یہ نہیں جانتا کہ وہ کیسے بیہوش ہوئی۔ ارے آپ میرے محکمے کے ڈائرکٹر جنرل رحمان کو نہیں جانتے۔“
“جانتا ہوں۔؟“ اس نے غصیلے لہجے میں کہا۔
“یہ انہیں کا لڑکا ہے۔“
“مسٹر رحمان کا؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں کرنل۔!“
“اوہ۔۔ مجھے افسوس ہے۔ ہٹو سامنے سے۔“
فیاض ان کے درمیان سے ہٹ گیا۔
“لڑکے مجھ سے ملو۔میں کرنل ڈوہرنگ ہوں۔ کلارا کا پاپا۔“ اس نے گرمجوشی سے عمران کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
“ارے باپ رے!“ عمران اردو میں کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔ پھر انگریزی میں بولا۔ “مم۔۔۔۔ معافی چاہتا ہوں۔ ڈیئر پاپا۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔“
اب وہ دونوں ہاتھوں سے منہ پیٹ رہا تھا۔ پھر شاید کان پکڑ کر اٹھنے بیٹھنے کا ارادہ ظاہر کر رہا تھا کہ فیاض اسے کرسی کی طرف دھکیلتا ہوا بولا۔ “بیٹھو بیٹھو۔ کرنل اسپورٹس مین ہیں۔“
بوڑھا نقشہ بدلتا دیکھ کر مایوس سا نظر آنے لگا۔ فیاض نے اس کی طرف ہاتھ ہلا کر کہا۔ “آپ کی موجودگی ضروری نہیں ہے۔“ اور کرنل ڈوہرنگ سے بولا۔ “بیٹھئے کرنل۔“
کرنل جو تحسین آمیز نظروں سے عمران کا جائزہ لے رہا تھا کچھ دیر بعد اس کا کندھا تھپتھپا کر بولا۔ “تم بہت اچھے رہے۔ ارے وہ ہاتھ تو کسی پیشہ ور مکاباز کا معلوم ہوا تھا مجھے۔۔۔۔ کس سے سیکھا۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“سب اللہ سکھا دیتا ہے۔“ عمران شرما کر بولا۔
کرنل ہنسنے لگا پھر اس نے فیاض سے مخاطب ہو کر کلارا کی بات چھیڑ دی اور فیاض جلدی سے بولا۔ “میرا خیال ہے کہ آپ تو سول ہسپتال ہی جائیں۔“
“او۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔۔


ڈوہرنگ اٹھتا ہوا بولا۔ “لڑکے کبھی ہمارے گھر بھی آؤ۔ بڑی خوشی ہوگی۔“
“ضرور۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔“ عمران سر ہلا کر بولا۔
ڈوہرنگ دونوں سے مصافحہ کرکے رخصت ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد فیاض کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سر سلطان کا اسٹینو پھر گھس آیا اور فیاض کو گھونسا دکھا کر بولا۔ “میں تمہیں دیکھ لوں گا۔ تم نے میری توہین کی ہے۔“
“اَمے یہ بڈھا تو جان کو آگیا ہے۔“ عمران نے فیاض سے کہا۔
فیاض کے کچھ کہنے سے قبل ہی بوڑھا وہاں سے چلا گیا۔
“میں خود سوچ رہا ہوں کہ آخر بڑے میاں کس مٹی سے بنے ہیں۔“
“چکنی مٹی سے۔“ عمران نے سر ہلا کر کہا۔
کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد فیاض نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
“تم بیہودہ ہو۔“ بیٹھے بیٹھے اس طرح ہاتھ چھوڑ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ کسی ارنے بھینسے کی طرح اڑیل قسم کا لڑاکا ہے۔“
“تم خوامخواہ دخل دے بیٹھے تھے۔ محبوباؤں کے اباؤں کی پٹائی کرنا میری ہوبی ہے۔“
“بکواس مت کرو۔ دخل نہ دیتا تو معلوم ہوتی قدروعافیت۔“
عمران نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی۔
پھر انہوں نے گراموفون کی سوئیوں کا تذکرہ چھیڑ دیا۔
“وہ تیسرا کون ہو سکتا ہے۔“ فیاض کچھ سوچتا ہوا بڑبڑایا۔
عمران کچھ نہ بولا۔ اتنے میں دروازہ پھر زور سے کھلا اور جولیانا فنٹر واٹر غصے میں بھری ہوئی اندر داخل ہوئی۔ عمران کا منہ کھلا اور پھر بند ہو گیا۔
“لاؤ نکالو میرا پرس!“ وہ فیاض کو نظرانداز کر کے غرائی۔
“مم ۔۔۔۔ ہپ۔“ عمران بوکھلا کر کھڑا ہو گیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“نکالو۔“ وہ ہاتھ بڑھا کر غرائی۔
“آپ کی تعریف!“ فیاض مسکرایا
“میری تیسری خالہ ہیں۔“ عمران نے اردو میں کہا لیکن اتنی اردو تو جولیا سمجھ ہی لیتی تھی۔ دانت پیستی ہوئی بولی۔ “بہت بری طرح پیش آؤں گی۔“
“بب بات کیا ہے۔“
“تم نے میرے وینٹی بیگ سے پرس نکال لیا ہے۔“
فیاض ہنس پڑا۔
“تم جیب کترے ہو۔“ جولیا بڑے غصے میں تھی۔
“اور کچھ۔؟“
“لاؤ۔ میں کہتی ہوں چپ چاپ میرا پرس واپس کر دو۔“
“تمہیں وہم ہوا ہے آنٹی۔“
جولیا نے آگے بڑھ کر میز سے رول اٹھا لیا۔
“ یہ معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔“ عمران متفکرانہ انداز میں بڑبڑایا۔ “محبوبہ کے اباجان سے تو بعد میں معافی مانگ لی تھی۔ بتاؤ کیپٹن اب کیا کروں۔“
“بات کیا ہے۔“ فیاض نے پوچھا۔
“اس سور نے میرے وینٹی بیگ سے میرا پرس اڑا لیا تھا۔ تین سو بارہ روپے تھے اس میں۔“
“یہ تو بہت بری بات ہے۔“ فیاض نے متفکرانہ لہجے میں کہا۔ پھر جولیا سے بولا۔ “آپ بڑی بےتکلفی سے یہ رول استعمال کر سکتی ہیں۔! کہیے تو میں باہر چلا جاؤں۔“
“نہیں آپ بھی تشریف رکھئے۔“ جولیا نے غصیلے لہجے میں کہا۔
تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر جولیا بولی۔ “سچ کہتی ہوں سر پھاڑ دوں گی۔“
“آپ خوامخواہ اپنے الفاظ ضائع کر رہی ہیں۔۔۔۔ محترمہ۔“ فیاض ہنس کر بولا۔ “جو کچھ کرنا ہے کر گزرئیے۔“
جولیا اسے بھی غصیلی نظروں سے گھورنے لگی۔ پھر وہ بھی بیٹھ گئی۔
عمران کے انداز سے بےتکلفی ظاہر ہو رہی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے جولیا اس سے فلم دکھانے کی فرمائش کرتی رہی ہو۔
کافی دیر وہ خاموش بیٹھے رہے پھر عمران بولا۔ “ اب ناچنے کی کیا رہی۔“
“ہرگز نہیں۔“
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top