“نن۔۔۔۔نہیں۔ ارے باپ رے ۔“ عمران ہونٹوں پر زبان پھیر کر ہکلایا۔ جولیا اس کے پیچھے کھڑی زور زور سے ہنس رہی تھی۔
“اسے پکڑئیے۔ اسے پکڑئیے۔“ بوڑھے نے عمران کی طرف بایاں ہاتھ اٹھا کر ہجوم سے کہا۔ “میں پولیس کو فون کرنے جا رہا ہوں۔“
عمران نے سوچا کہ پھر جھنجھٹ میں پھنس جائے گا۔ چونکہ معاملہ ایک سفارتخانے کے آفیسر کی لڑکی کا ہے۔ اس لئے تعجب نہیں کہ کیپٹن فیاض ہی کو آنا پڑے۔پولیس والے سفارتخانے کا نام سن کر یقینی طور پر فیاض کے آفس کو مطلع کریں گے۔ فیاض کی آمد الجھن سے خالی نہ ہوتی کیونکہ معاملہ تھا گراموفون کی ایک زہریلی سوئی کا۔ جس سے ایک بار پہلے سابقہ پڑچکا تھا۔ وہ تو اس وقت یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ لڑکی کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا جائے ورنہ ہوسکتا ہے کہ وہ مر ہی جائے۔
دفعتاً ٹھیک اسی وقت جب عمران ہسپتال کی سوچ رہا تھا کہ مجمع سے کسی نے بوڑھے سے کہا۔ “پہلے ہسپتال پہنچانے کی کوشش کیجئے۔ پتہ نہیں کیا بات ہے۔“
“ جی۔ اور کیا۔۔۔۔بالکل بالکل۔۔۔۔“ عمران نے سر ہلا کر تائید کی۔ “میں کیا کہیں بھاگا جاتا ہوں۔ بعد کو پولیس بھی آتی رہے گی۔“
“اور کیا۔ اور کیا۔“ کئی لوگ بیک وقت بول پڑے۔
“نہیں نہیں۔ یہ جُل دے کر نکل جائے گا۔“ جولیا نے اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
“اچھا۔اچھا۔!“ عمران نے سر ہلا کر کہا۔ “اگر مرغیاں پار نہ کردیں تمہاری تو کچھ نہ کیا۔“
اتنے میں منیجر بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔پھر شروع ہوئی بھاگ دوڑ۔ کوئی پولیس کے لئے دوڑا اور کوئی تندرست قسم کی لڑکیوں کی خوشامد کرنے لگا کہ وہ بیہوش لڑکی کو گاڑی تک پہنچا دیں۔
پھر کچھ دیر بعد عمران نے جولیا کو اشارہ کیا کہ اب وہ وہاں نہ ٹھہرے۔۔۔۔ بات شاید اس کی سمجھ میں آگئی تھی۔ اس لئے پولیس کے آنے سے پہلے ہی رفوچکر ہوگئی۔
عمران کے اندیشے غلط نہیں تھے۔ قریبی تھانے کے لوگ اور کیپٹن فیاض ساتھ ہی وہاں پہنچے۔
“یہی ہے۔“ کسی نے مجمع سے عمران کی طرف اشارہ کیا۔ بوڑھا تو کسی کو قائم مقام بٹھا کر بیہوش لڑکی کے ساتھ جا چکا تھا۔
فیاض نے اسے پھاڑ کھانے والے انداز میں دیکھا اور اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتا ہوا دوسری طرف مڑ گیا۔