فرحت کیانی
لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو
ص 116-125
“بشرطیکہ وہ عورتیں ہوں۔“ جولیا نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
“آخر یہ ہے کون بدتمیز۔“ مارتھا نے عمران سے پوچھا۔
“اور تم مجھے بتاؤ۔“ جولیا نے بھی عمران کو مخاطب کیا، “کہ یہ خوش جمال کتیا کس نسل سے تعلق رکھتی ہے۔“
“شٹ اپ۔“ مارتھا روہانسی ہو کر چیخی۔
جولیا اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے مارتھا پر جھپٹ ہی تو پڑے گی۔
عمران نے یہ نقشہ دیکھا تو اٹھ کر دونوں کے درمیان حائل ہوتا ہوا بولا۔
“اے دیکھو۔ خدا کے لئے۔۔۔۔ تم لوگ کوئی بڑی مثال قائم نہ کر بیٹھنا۔“
“ہٹو سامنے سے!“ جولیا جھلا کر بولی۔ “میں دیکھوں گی کہ یہ کتنی مہذب اور باتمیز ہے۔“
“او بابا کیا مصیبت ہے۔“ عمران اسے شانوں سے پکڑے ہوئے کرسی کی طرف دھکیل لے گیا اور بٹھا دینے کی کوشش کرتا ہوا بولا۔ “کنفیوشس نے کہا ہے کہ جب دو عورتیں مرنے مارنے پر تیار نظر آئیں تو تم ڈھولک بجانا شروع کر دو۔“
مارتھا خاموش کھڑی غصے سے کانپ رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھی تیر رہے تھے۔ جولیا دوبارہ نہیں بیٹھی تھی اور اس نے عمران سے اپنے شانے بھی چھڑا لیے تھے۔
“میں جا رہی ہوں۔“ وہ دروازے کی طرف مڑتی ہوئی عمران سے بولی۔ “کوشش کروں گی کہ تمہیں کسی پرائیویٹ ہسپتال میں رکھا جائے۔“
“کیوں کوشش کرو گی تم۔“ عمران نے متحیرانہ لہجے میں پوچھا۔
“اپنی مرضی کی مختار ہوں! ضروری نہیں کہ تمہیں وجہ بھی بتائی جائے۔“ جولیا نے کہا اور باہر نکل گئی۔ عمران نے سیٹی بجانے کے سے انداز میں ہونٹ سکوڑے اور مارتھا کی طرف مڑا جو مسہری کی پٹی پر سر ٹکائے سسکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔
“ارے باپ رے!“ عمران پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بڑبڑایا۔
عورتوں کو روتا دیکھ کر اس کا نروس ہو جانا پرانی کمزوری تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کس طرح چپ کرائے۔ کیا کرے۔ لیکن خاموش رہ جانا بھی بداخلاقی تھی۔
لہٰذا وہ ہکلانے لگا۔ “وہ۔ دیکھو۔ یعنی کہ واہ۔۔۔۔“ پھر اردو میں بولا۔ “جی نہ ہلکان کرو۔“ اور جلدی سے انگریزی میں کہنے لگا۔ “رونے سے معدہ خراب ہو جاتا ہے۔۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔۔ بھلا بتاؤ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔ اگر کسی مرد نے تمہاری شان میں گستاخی کی ہوتی تو گھونسے مار مار کر حلیہ بگاڑ دیتا۔“
ص 116-125
“بشرطیکہ وہ عورتیں ہوں۔“ جولیا نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
“آخر یہ ہے کون بدتمیز۔“ مارتھا نے عمران سے پوچھا۔
“اور تم مجھے بتاؤ۔“ جولیا نے بھی عمران کو مخاطب کیا، “کہ یہ خوش جمال کتیا کس نسل سے تعلق رکھتی ہے۔“
“شٹ اپ۔“ مارتھا روہانسی ہو کر چیخی۔
جولیا اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے مارتھا پر جھپٹ ہی تو پڑے گی۔
عمران نے یہ نقشہ دیکھا تو اٹھ کر دونوں کے درمیان حائل ہوتا ہوا بولا۔
“اے دیکھو۔ خدا کے لئے۔۔۔۔ تم لوگ کوئی بڑی مثال قائم نہ کر بیٹھنا۔“
“ہٹو سامنے سے!“ جولیا جھلا کر بولی۔ “میں دیکھوں گی کہ یہ کتنی مہذب اور باتمیز ہے۔“
“او بابا کیا مصیبت ہے۔“ عمران اسے شانوں سے پکڑے ہوئے کرسی کی طرف دھکیل لے گیا اور بٹھا دینے کی کوشش کرتا ہوا بولا۔ “کنفیوشس نے کہا ہے کہ جب دو عورتیں مرنے مارنے پر تیار نظر آئیں تو تم ڈھولک بجانا شروع کر دو۔“
مارتھا خاموش کھڑی غصے سے کانپ رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھی تیر رہے تھے۔ جولیا دوبارہ نہیں بیٹھی تھی اور اس نے عمران سے اپنے شانے بھی چھڑا لیے تھے۔
“میں جا رہی ہوں۔“ وہ دروازے کی طرف مڑتی ہوئی عمران سے بولی۔ “کوشش کروں گی کہ تمہیں کسی پرائیویٹ ہسپتال میں رکھا جائے۔“
“کیوں کوشش کرو گی تم۔“ عمران نے متحیرانہ لہجے میں پوچھا۔
“اپنی مرضی کی مختار ہوں! ضروری نہیں کہ تمہیں وجہ بھی بتائی جائے۔“ جولیا نے کہا اور باہر نکل گئی۔ عمران نے سیٹی بجانے کے سے انداز میں ہونٹ سکوڑے اور مارتھا کی طرف مڑا جو مسہری کی پٹی پر سر ٹکائے سسکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔
“ارے باپ رے!“ عمران پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بڑبڑایا۔
عورتوں کو روتا دیکھ کر اس کا نروس ہو جانا پرانی کمزوری تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کس طرح چپ کرائے۔ کیا کرے۔ لیکن خاموش رہ جانا بھی بداخلاقی تھی۔
لہٰذا وہ ہکلانے لگا۔ “وہ۔ دیکھو۔ یعنی کہ واہ۔۔۔۔“ پھر اردو میں بولا۔ “جی نہ ہلکان کرو۔“ اور جلدی سے انگریزی میں کہنے لگا۔ “رونے سے معدہ خراب ہو جاتا ہے۔۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔۔ بھلا بتاؤ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔ اگر کسی مرد نے تمہاری شان میں گستاخی کی ہوتی تو گھونسے مار مار کر حلیہ بگاڑ دیتا۔“