ڈاکٹر دعاگو۔۔۔ ص 116-125

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو

ص 116-125

“بشرطیکہ وہ عورتیں ہوں۔“ جولیا نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
“آخر یہ ہے کون بدتمیز۔“ مارتھا نے عمران سے پوچھا۔
“اور تم مجھے بتاؤ۔“ جولیا نے بھی عمران کو مخاطب کیا، “کہ یہ خوش جمال کتیا کس نسل سے تعلق رکھتی ہے۔“
“شٹ اپ۔“ مارتھا روہانسی ہو کر چیخی۔
جولیا اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے مارتھا پر جھپٹ ہی تو پڑے گی۔
عمران نے یہ نقشہ دیکھا تو اٹھ کر دونوں کے درمیان حائل ہوتا ہوا بولا۔
“اے دیکھو۔ خدا کے لئے۔۔۔۔ تم لوگ کوئی بڑی مثال قائم نہ کر بیٹھنا۔“
“ہٹو سامنے سے!“ جولیا جھلا کر بولی۔ “میں دیکھوں گی کہ یہ کتنی مہذب اور باتمیز ہے۔“
“او بابا کیا مصیبت ہے۔“ عمران اسے شانوں سے پکڑے ہوئے کرسی کی طرف دھکیل لے گیا اور بٹھا دینے کی کوشش کرتا ہوا بولا۔ “کنفیوشس نے کہا ہے کہ جب دو عورتیں مرنے مارنے پر تیار نظر آئیں تو تم ڈھولک بجانا شروع کر دو۔“
مارتھا خاموش کھڑی غصے سے کانپ رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھی تیر رہے تھے۔ جولیا دوبارہ نہیں بیٹھی تھی اور اس نے عمران سے اپنے شانے بھی چھڑا لیے تھے۔
“میں جا رہی ہوں۔“ وہ دروازے کی طرف مڑتی ہوئی عمران سے بولی۔ “کوشش کروں گی کہ تمہیں کسی پرائیویٹ ہسپتال میں رکھا جائے۔“
“کیوں کوشش کرو گی تم۔“ عمران نے متحیرانہ لہجے میں پوچھا۔
“اپنی مرضی کی مختار ہوں! ضروری نہیں کہ تمہیں وجہ بھی بتائی جائے۔“ جولیا نے کہا اور باہر نکل گئی۔ عمران نے سیٹی بجانے کے سے انداز میں ہونٹ سکوڑے اور مارتھا کی طرف مڑا جو مسہری کی پٹی پر سر ٹکائے سسکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔
“ارے باپ رے!“ عمران پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بڑبڑایا۔
عورتوں کو روتا دیکھ کر اس کا نروس ہو جانا پرانی کمزوری تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کس طرح چپ کرائے۔ کیا کرے۔ لیکن خاموش رہ جانا بھی بداخلاقی تھی۔
لہٰذا وہ ہکلانے لگا۔ “وہ۔ دیکھو۔ یعنی کہ واہ۔۔۔۔“ پھر اردو میں بولا۔ “جی نہ ہلکان کرو۔“ اور جلدی سے انگریزی میں کہنے لگا۔ “رونے سے معدہ خراب ہو جاتا ہے۔۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔۔ بھلا بتاؤ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔ اگر کسی مرد نے تمہاری شان میں گستاخی کی ہوتی تو گھونسے مار مار کر حلیہ بگاڑ دیتا۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وہ منہ چھپائے بدستور روتی رہی۔
اب عمران بھی خاموش ہو گیا تھا اور اس طرح منہ بنائے کھڑا تھا جیسے کوئی سرِ بازار چپت رسید کر کے بھاگ گیا ہو۔!
بڑی دیر بعد رونا تھما اور وہ دوسری طرف منہ پھیر کر بیٹھ گئی۔ عمران سامنے آ کھڑا ہوا۔۔۔۔ لیکن وہ اسی طرح بیٹھی رہی۔ رونے سے پلکیں کسی قدر متورم ہو گئی تھیں اور ہونٹوں کے ابھار پہلے سے نمایاں نظر آنے لگے تھے۔
عمران چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
“مردوں پر کبھی اعتماد نہ کرنا چاہئے۔“ وہ بڑبڑائی۔ “خواہ وہ کتنے ہی معصوم کیوں نہ نظر آتے ہوں۔“
“مرد آج کل ملتے ہی کہاں ہیں کہ ان پر اعتماد کرنے یا نہ کرنے کا سوال پیدا ہو۔“
“مت بولو مجھ سے!“ وہ دوسری طرف مڑ گئی۔
“خفگی کی وجہ؟“
“تمہاری وجہ سے اس وقت میری توہین ہوئی ہے۔“
“میری وجہ سے کیوں؟“
“بس تمہارا خیال کر کے رہ گئی۔۔ ورنہ منہ نوچ لیتی اس کتیا کی بچی کا۔“
“تب تو غلطی ہوئی مجھ سے۔ ۔ خوامخواہ تمہارے درمیان آ گیا تھا۔ بتایا کیوں نہیں کہ اس کا منہ نوچ لینے کا ارادہ تھا۔“
“میں کہتی ہوں مت بولو مجھ سے۔“
“اچھا!“ عمران نے سعادتمندانہ انداز میں کہا اور مسہری پر لیٹ کر کراہنے لگا۔
مارتھا کچھ دیر تک پھولی بیٹھی رہی۔۔۔۔ پھر عمران کی طرف مڑ کر بولی۔ “کیا تکلیف بڑھ گئی ہے۔“
“میرا خیال ہے کہ شاید بڑھ ہی گئی ہے۔۔۔۔ ورنہ کراہتا کیوں۔“
“ڈاکٹر کو بلا لاؤں۔؟“
“نن۔ نہیں ٹھیک ہو جائے گا۔“
پھر عمران اسے روکتا ہی رہا لیکن وہ چلی گئی۔ عمران آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔
کچھ دیر بعد جوزف نے آہستہ سے اسے آواز دی اور ایک وزیٹنگ کارڈ اس کی طرف بڑھا دیا جس پر سر سلطان کا نام تحریر تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“انہیں اندر بھیج دو۔“ عمران نے کہا۔ “اور سنو ان کی موجودگی میں مارتھا کو بھی اندر نہ آنے دینا۔ کسی بہانے سے باہر ہی روکے رکھنا۔“
جوزف باہر چلا گیا اور دوسرے ہی لمحے سر سلطان دکھائی دیئے۔ عمران نے اٹھنا چاہا۔
“لیٹے رہو۔ لیٹے رہو۔“ سر سلطان نے مضطربانہ انداز میں ہاتھ ہلا کر کہا۔
وہ مسہری کے قریب والی کرسی پر بیٹھ گئے۔
“یہ کیسے ہوا۔“ انہوں نے پوچھا اور عمران کو ایک بار پھر وہ قصہ دہرانا پرا۔
“بہت بڑھ گئے ہیں یہ لوگ۔“ سر سلطان نے غصیلے لہجے میں کہا۔ “کیا بتاؤں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے ان لوگوں کے خلاف۔“
“فکر نہ کیجئے۔“
“جس کے ذریعے ثبوت فراہم کرنے کے مواقع ملنے کی امید تھی اس نے خودکشی کر لی۔“
عمران کچھ نہ بولا۔
اتنے میں باہر سے مارتھا کی آواز آئی۔ جو شاید جوزف کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ سر سلطان بھی چونک کر استفہامیہ انداز میں عمران کی طرف دیکھنے لگے۔
“لل۔لڑکی۔“ عمران آہستہ سے بولا۔
“وہ۔ وہی۔ دعاگو کی نرس۔“ سر سلطان نے بھی رازدارانہ ہی لہجے میں پوچھا۔
“نرس نہیں سیکرٹری۔ بلواؤں۔؟“
“ہاں۔ آں۔ کیا حرج ہے۔“ سر سلطان نے کہا اور نچلے ہونٹ پر زبان پھیر کر دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔
“جوزف۔“ عمران نے ہانک لگائی۔ “کون ہے۔ آنے دو۔!“
“نہیں آنے دوں گا باس!“ جوزف نے باہر سے عربی میں جواب دیا۔ “کیونکہ تم منع کر چکے ہو۔“
“اب کہتا ہوں آنے دو۔“ عمران کی آواز غصیلی تھی۔
“ہرگز نہ آنے دوں گا باس۔ کیونکہ اس نے مجھے آبنوس کا کندہ ناتراش کہا ہے۔“
“ارے تو بھی اسے مکھن کا پہاڑ کہہ کر معاف کر دے۔“
“کیا بات ہے۔“ سر سلطان نے پوچھا۔
“میرا باڈی گارڈ سنک گیا ہے۔ کہتا ہے کہ چونکہ اس وقت سر سلطان بیٹھے ہیں اس لئے میں کسی کم مرتبہ عورت کو اندر نہیں جانے دوں گا۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ارے نہیں۔ کوئی بات نہیں۔!“ سر سلطان نے بڑے خلوص سے کہا اور پھر نچلے ہونٹ پر زبان پھیرنے لگے۔
“جوزف کیا مجھے اٹھنا پڑے گا۔“ عمران نے پھر ہانک لگائی۔
“اچ۔ ۔ چھا۔ ۔ باس آ رہی ہے۔“ جوزف نے مردہ سی آواز میں کہا۔
دوسرے ہی لمحے میں دروازہ کھلا اور مارتھا اندر داخل ہوئی۔۔۔۔ سر سلطان کو اٹھنا ہی پڑا۔ حالانکہ وہ ایک کم مرتبہ لڑکی تھی۔ لیکن اس نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ جس میں عورت کا احترام بطورِ فیشن رائج ہے اس لئے وہ بیٹھے کیوں رہتے۔
“آپ۔۔!“ عمران نے سر سلطان کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ “منسٹری آف فارن افیئرز کے سیکرٹری ہیں۔“
مارتھا ہکا بکا رہ گئی۔ پھر عمران نے مارتھا کی شان میں قصیدہ شروع کیا۔ “مس مارتھا۔۔۔۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ڈومیسٹک افیئرز کی لکچرر تھیں۔۔۔۔ آج کل ڈاکٹر دعاگو سے نفسیات پڑھ رہی ہیں۔“
“بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔“ سر سلطان نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور وہ مارتھا کا کپکپاتا ہوا ہاتھ کچھ دیر تک سنبھالے رہے۔ وہ بہت زیادہ مرعوب ہو گئی تھی۔ کیونکہ اس کے ملک میں وزارتوں کے سیکرٹری وزیروں سے بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
“بیٹھئے۔“ سر سلطان نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
“جی۔ جی۔۔۔۔ ہاں۔۔۔ شکریہ جناب!“ مارتھا کی سانس پھول رہی تھی۔
“کرا دوں اس کا بھی تعارف آپ کے اسٹینو سے۔“ عمران نے اردو میں پوچھا۔
“مت بکواس کرو۔“ سر سلطان نے آہستہ سے کہا۔ اور مارتھا سے انگریزی میں پوچھا۔ “آپ لوگوں کو یہاں ہسپتال میں کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔“
“نہیں جناب یہاں کے لوگ بڑے اچھے ہیں۔“
“شکریہ۔!“ سر سلطان مسکرائے اور عمران ٹھنڈی سانس لے کر ہولے ہولے کراہنے لگا۔
“سنا ہے ڈاکٹر دعاگو بڑے باکمال آدمی ہیں۔“ سر سلطان نے پوچھا۔
“جی ہاں۔ وہ ایک اچھے ماہرِ نفسیات ہیں۔“
“کبھی ملوں گا۔؟“
“میرا خیال ہے کہ آپ ان سے مل سکیں گے۔ ڈاکٹر نے اجازت دیدی ہے۔“
“یہاں نہیں۔“ سر سلطان نے کہا اور عمران کی طرف ہاتھ بڑھا کر اردو میں بولے “ا چھا برخوردار اب میں چلا۔ بہت محتاط رہو۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“اس لڑکی سے۔“ عمران نے حیرت سے کہا۔
“گدھے پن کی باتیں ہر وقت نہ کیا کرو۔“ مصافحہ کر کے وہ رخصت ہو گئے۔ مارتھا باہر تک انہیں چھوڑنے گئی۔ لیکن عمران بدستور لیٹا رہا۔
واپسی پر مارتھا نے ہانپتے ہوئے اس سے کہا۔“ اتنے بڑے بڑے لوگ تم سے ملنے آتے ہیں مگر تم نے میرے متعلق ایک غلط بات کیوں کہہ دی تھی۔ ارے میں تو آکسفورڈ کی شکل بھی نہیں دیکھ سکی تھی۔“
“فارن افیئرز کے ٹکر کی چیز ڈومیسٹک افیئرز ہو سکتے ہیں اس لئے کہہ دیا تھا۔ ان حضرت کے ڈومیسٹک افیئرز بہت موٹے ہیں۔ تمہیں دیکھ کر خوش ہو گئے ہوں گے۔“
“تم ہر ایک کا مضحکہ اڑانے لگتے ہو۔“ مارتھا نے بلاؤز کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر ایک پڑیا نکالتے ہوئے کہا۔ “ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسے پانی کے ساتھ دے دو سوزش کم ہو جائے گی۔“
“میں ڈاکٹر دعاگو سے ملنا چاہتا ہوں۔“
“میں مل چکی ہوں۔ اچھے ہیں۔۔۔۔ تمہارے متعلق بتایا تھا افسوس کر رہے تھے۔ تمہارے لئے خاص طور پر تاکید کی ہے کہ اچھی طرح دیکھ بھال کروں۔“
“تو پھر کرو نا۔“ عمران کراہا۔
“تم مجھے بتاؤ وہ کہ وہ کتیا کون تھی۔“
“سوئیس قسم کی فاکس ٹیرئیر۔! آنٹی نائین ٹین ففٹی نائین۔۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔۔ یہ ساری لڑکیاں چغد قسم کے آدمیوں میں بڑی دلچسپی لیتی ہیں بشرطیکہ وہ ان کے شوہر نہ ہوں۔“
“کتنی لڑکیوں سے دوستی ہے تمہاری۔“
“دوستی تو کسی سے نہیں ہے۔“
“پھر کیوں دوڑی آتی ہیں تمہیں دیکھنے۔“
“ہو سکتا ہے کہ انہیں کوئی دوسرا چغد دستیاب کرنے میں دشواری آتی ہو۔!“
“سنجیدگی سے گفتگو کرو۔ میں سنجیدہ ہوں۔ میری تو آج تک کسی سے ایسی دوستی نہیں ہوئی جیسی تم سے ہے۔“
“مجھ سے ہے۔“ عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔ پھر بازو دباتے ہوئے “سی سی“ کرتا ہوا ایک طرف جھکتا چلا گیا۔
“کیا ہوا۔ کیا ہوا۔“ وہ گھبرا کر دوڑ پڑی۔ “بڑے بےاحتیاط ہو۔۔۔۔ خدا کی قسم بڑے لاپرواہ۔“
وہ اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
ٹھیک اسی وقت جوزف بھی اندر داخل ہو کر دہاڑنے لگا۔ “باس میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔!“
“جاؤ۔ جاؤ۔۔ باہر نکلو۔۔۔۔ شور مت مچاؤ۔“ مارتھا اس کی طرف مڑے بغیر بولی۔
“کیا بات ہے۔“ عمران کراہا۔
“تمہارے باپ نے مجھے ٹیلیفون پر گالیاں دی ہیں۔“

۔۔۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران نے اسے گھور کر دیکھا۔ پھر چند لمحے جلدی جلدی پلکیں جھپکاتے رہتے کے بعد بولا۔
“خوامخواہ گالیاں دی ہیں۔“
ٕ“نہیں میں بھی اکڑ گیا تھا۔ کیوں دبوں ایسے آدمی سے جسے اپنی اولاد کی بھی پرواہ نہ ہو۔!“
“او شبِ دیجور کے بچے۔ بات کیا تھی۔“
“کہنے لگے تُو بدمعاش ہے۔ اپنے باس کو غنڈہ گردی سکھاتا ہے۔ تیرے ریوالوروں کے لائسنس ضبط کر لئے جائیں گے۔“
“بھاگ جاؤ۔“ عمران ہاتھ ہلا کر بولا۔
“لل۔۔۔۔لیکن باس۔ ریوالوروں کے لائسنس۔ میں تو بےموت مارا جاؤں گا۔ آج تک خالی ہاتھ نہیں رہا۔ میرے پاس ریوالور نہ ہو تو بالکل ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے میں بیوہ ہو گیا ہوں؟“
“بس جاؤ۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ “اللہ نے چاہا تو تمہارا سہاگ قائم رہے گا۔“
جوزف باہر چلا گیا تو مارتھا ہنسنے لگی۔ پھر بولی۔ “لیٹو۔ لیٹو۔ تم اٹھے کیوں؟“
“میں اگر لیٹا ہی رہا تو اس کا سہاگ برقرار نہ رہ سکے گا۔“ عمران کراہا۔
“جہنم میں جائے۔ میں کہتی ہوں تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔“
“ہے تو۔“ عمران مردہ سی آواز میں بولا۔ “لیکن لوگ آرام کہاں کرنے دیتے ہیں۔ یہ تمہارے دعاگو صاحب کوئی ایسا بھی عمل جانتے ہیں جس سے درد میں کمی واقع ہوسکے۔“
“میرا خیال ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ چند ماہ گزرے ایک مریض آیا جو کئی دن سے شدید قسم کے درد میں مبتلا تھا۔ اس وقت وہ کراہ رہا تھا۔ جب ڈاکٹر نے اسے دیکھا تھا۔ پھر وہ اسے ایک مخصوص کمرے میں لے گئے اور آدھے گھنٹے بعد جب وہ مریض ان کے ساتھ واپس آیا تھا تو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی شخصیت ہی بدل گئی ہو۔ ہونٹوں پر مسرت آمیز چمک تھی۔ اس نے اپنے ساتھی سے بچگانہ انداز میں چیخ کر کہا تھا کہ درد حیرت انگیز طور پر رفع ہو چکا ہے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیا واقعی ڈاکٹر جادوگر ہے۔“ عمران حیرت سے بولا۔
“پتہ نہیں۔!“
“آخر اس نے کیا کیا ہو گا۔“
“خدا جانے۔ ۔ وہ کمرہ ساؤنڈ پروف ہے۔ آوازیں باہر نہیں آ سکتیں۔“
عمران کسی سوچ میں پڑ گیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد بولا “مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو۔ بڑی تکلیف محسوس کر رہا ہوں شاید وہ کچھ کر سکیں۔“
“اچھا!“ وہ اٹھتی ہوئی بولی۔ “میں پوچھ آؤں۔“
اس کے جانے کے بعد عمران بھی باہر آیا اور جوزف سے بولا۔ “اپنا ایک ریوالور مجھے دے دو۔“
جوزف نے ہولسٹر سے نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔ “سارے چیمبر بھرے ہوئے ہیں۔“
عمران پھر واپس آ کر لیٹ گیا۔ ریوالور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
مارتھا نے اطلاع دی کہ ڈاکٹر دعاگو ایک گھنٹے کے بعد مل سکے گا۔
“کیوں ابھی کیوں نہیں؟“ عمران نے پوچھا۔
“اس کے کچھ معتقدین بیٹھے ہیں۔“
“اوہ تو یہ لوگ بیچارے ڈاکٹر کو ہسپتال میں بھی چین نہ لینے دیں گے۔“
“ڈاکٹر کو اس بات پر افسوس ہے کہ اس حادثہ کی خبر اخبارات میں بھی آ گئی۔ ایسا نہ ہونا چاہئے تھا۔“
“اکثر ہو ہی جاتا ہے۔“ عمران نے مایوسانہ انداز میں کہا۔
“لیکن تمہارے ملک کے لوگ بھی حیرت انگیز ہیں۔“
“یقیناً۔ ۔ یقیناً۔ لیکن مارتھا تم نے کبھی اس سوئی کے متعلق بھی سوچا جو تمہارے بازو میں پیوست ہو گئی تھی۔“
“بہت سوچا ہے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیا سوچا۔“
“کوئی خاص بات نہیں سوچی۔ بس یہی سوچتی رہی ہوں کہ آخر سوئی پھینکنے والے کون تھے اور کیا چاہتے تھے۔“
“بڑی عجیب بات ہے! کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے دشمنوں سے واقف نہ ہو۔“
“یقین کرو عمران میں نہیں جانتی۔ ۔ نہ یہاں کسی سے میری دوستی ہے اور نہ دشمنی۔ میں تو ہمیشہ سے الگ تھلگ زندگی گزارنے کی عادی رہی ہوں۔ یہاں نہ کوئی میری گرل فرینڈ ہے اور نہ بوائے فرینڈ۔ پھر جب کسی سے دوستی ہی نہیں تو دشمنی کا سوال ہی نہیں۔ کیوں کہ دوستیاں ہی دشمنی میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں۔“
“اچھا یہ بتاؤ میری دوست ہو یا دشمن۔“
“تم کس گنتی میں ہو۔“ مارتھا ہنس پڑی۔
“نہیں۔ سنجیدگی اختیار کرو۔!“ عمران بیحد سنجیدہ ہو کر بولا۔ “میں سوچ رہا ہوں کہ وہ سوئی بھی میرے ہی لئے تھی جو غلطی سے تمہارے بازو میں لگی۔“
“نہیں۔۔“ مارتھا اچھل پڑی۔ اس کی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا تھا۔
“کوئی ایسا ہے جو نہیں چاہتا کہ میں تمہارے ساتھ رہوں۔“
“عمران یقین کرو ڈیئر۔ ۔ میری کسی سے بھی دوستی نہیں۔“ اس نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا اور خاموش ہوگئی۔ چہرے پر تشویش کے گہرے سائے نظر آ رہے تھے۔
کچھ دیر بعد بولی۔ “ہاں حالات ایسے ہی ہیں۔ ۔ میں تمہیں کسی طرح بھی یقین نہ دلا سکوں گی کہ آخر کوئی تم پر حملے کیوں کر رہا ہے۔ یہ گولی جو تمہارے بازو میں لگی ہے اتفاقیہ تو نہیں ہو سکتی۔“
“مت سوچو۔ ۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔ “ذہن مت تھکاؤ۔“
“لیکن میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں کہ میں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی۔“
“مجھے یقین دلانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔“
مارتھا اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی ہی رہی پھر اس کی آنکھیں دھندلا گئیں اور دو موٹے موٹے قطرے رخساروں پر ڈھلک آئے۔
عمران بظاہر تشویش کن انداز میں دوسری طرف دیکھ رہا تھا لیکن اس سے لاعلم نہیں تھا کہ وہ رو رہی ہے۔
دفعتاً وہ اس کی طرف مڑا اور ایک حلق سے ایک تحیر آمیز آواز نکالی پھر بولا۔ “ارے بابا تو میں نے کیا کہہ دیا ہے جو اس طرح رو رہی ہو۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وہ کچھ نہ بولی۔ لیکن اب سسکیاں بھی آنسوؤں کا ساتھ دینے لگی تھیں۔ دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر وہ مسہری کی پٹی پر جھک گئی۔
“جب کوئی عورت رونے لگتی ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے ہمدردی ظاہر کروں یا دو چار ہاتھ مار کر جدھر سینگ سمائے دوڑتا چلا جاؤں۔“
مارتھا کی سسکیاں اور تیز ہو گئیں۔
“اور جب کوئی عورت رونے لگتی ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ ساری دنیا کی عورتوں کو قتل کر دوں۔“
اتنے میں جوزف پھر اندر گھس آیا۔
“تم بالکل گدھے ہو۔“ عمران نے جھلا کر عربی میں کہا۔ “جب کہیں احمقوں کا پورا جوڑا موجود ہو تو آواز دے کر آیا کرتے ہیں۔“
جوزف نے دانت نکال دیئے اور بولا۔ “میں جانتا ہوں باس کہ تم اس معاملے میں عدیم المثال ہو۔ اس لئے ضرورت نہیں سمجھی تھی۔ لیکن یہ سفید بندریا رو کیوں رہی ہے۔“
“بکواس بند کرو اور نکل جاؤ۔“
“میں صرف یہ پوچھنے آیا تھا باس کہ کیا پھر کوئی خطرہ محسوس کر رہے ہو۔“
“کیوں؟“
“ریوالور لیا تھا ابھی۔“
“اوہ۔۔۔۔ وہ کچھ نہیں بس احتیاطاً۔ جاؤ دفع ہو جاؤ۔ ۔“
جوزف مارتھا پر اچٹتی سی نظر ڈال کر باہر نکل گیا۔ مارتھا اب خاموش تھی آنسو خشک کر لیے تھے اور منہ پھلائے بیٹھی تھی۔ پلکیں بھی کسی قدر متورم نظر آنے لگی تھیں اور ناک کے نتھنے سرخ ہو گئے تھے۔
عمران اس سے کچھ نہ بولا۔ فی الحال چھیڑنا نہیں چاہتا تھا۔ چپ چاپ لیٹ کر ہولے ہولے کراہنے لگا لیکن مارتھا اس کی طرف متوجہ نہ ہوئی۔
عمران کا ذہن اب پھر ڈاکٹر دعاگو اور اس کی پرسرار شخصیت میں الجھ کر رہ گیا تھا۔
کچھ دیر بعد مارتھا نے وینٹی بیگ سے آئینہ نکالا اور پاؤڈر پف سے گالوں پر ہلکی ہلکی تھپکیاں دیتی رہی۔ آنسوؤں نے میک اپ تباہ کر دیا تھا۔
جب وہ باہر جانے لگی تو عمران کھنکار کر رہ گیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ دعاگو کے ہی پاس جا رہی ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
واپسی میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی اور اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ “اب تم چل سکتے ہو۔“
عمران نے اٹھ کر کوٹ پہنا! زخمی بازو والی آستین مارتھا نے بڑی احتیاط سے شانے تک چڑھائی تھی۔ لیکن اس دوران میں کچھ بولی نہیں تھی، انداز ایسا ہی تھا جیسے وہ عمران سے خفا ہو گئی ہو۔!
عمران باہر نکل آیا۔ ڈاکٹر کے کمرے تک مارتھا ہی نے رہنمائی بھی کی۔ لیکن وہ اندر نہیں گئی۔
ڈاکٹر آرام کرسی پر نیم دراز اخبار دیکھ رہا تھا۔ عمران کو دیکھ کر اخبار ایک طرف ڈالتا ہوا سیدھا ہو بیٹھا۔ ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ تھی۔
“میں اٹھ کر تم سے مصافحہ نہیں کروں گا۔“ اس نے کہا۔ “بس بیٹھ جاؤ۔ اور اپنی خیریت بتاؤ۔“
“سب خیریت ہی ہے ڈاکٹر۔“ عمران طویل سانس لے کر بولا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
“مجھے افسوس ہے میرے بچے۔ میری وجہ سے تمہیں بڑی تکلیف اٹھانی پڑی۔“
“آپ کی وجہ سے؟“ عمران نے حیرت سے کہا۔
“ہاں میری وجہ سے۔ اور تم بھی خوامخواہ بننے کی کوشش نہ کرو۔ بھلا تم پر اندھیرے میں فائر کئے جانے کا کیا مطلب تھا۔“
“لل۔۔۔۔لیکن۔۔“
“کچھ نہیں پوری بات سنو! مجھے دراصل سزا مل رہی ہے۔ ۔ کیونکہ میں نے ایک نامعلوم آدمی کا کہنا ماننے سے انکار کر دیا تھا۔۔ کوئی نامعلوم آدمی مجھ سے یہ چاہتا ہے کہ میں اس کے لئے جاسوسی کروں! اس نے مجھے ایک خط لکھا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ میں محکمہ خارجہ کی سراغرسانی بڑی آسانی سے کر سکتا ہوں۔ کیونکہ اس محکمے کے بڑے بڑے افسر میرے معتقد ہیں۔ میں ان سے اس کے مطلب کی بہت سی باتیں معلوم کر سکتا ہوں۔ ۔ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر میں اس پر آمادہ ہو سکوں تو اسے ایک خط لکھ کر ایک مخصوص جگہ پر رکھ دوں، جہاں سے وہ اس تک پہنچ جائے گا۔ میں نے نہ صرف انکار لکھ دیا بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر اس نے آئندہ مجھے کوئی خط لکھا تو وہ پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔“



۔۔۔اختتام۔۔۔
ص 116-125
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top