ڈاکٹر دعاگو۔۔۔ ص106-115

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو
ص 106-115


“اچھا وہیں ٹھہرو۔ میں کسی کو بھیج رہا ہوں۔“
“لیکن یہاں ایک سب انسپکٹر صاحب میری گرفتاری پر مصر ہیں۔“
“ریسیور دو اسے۔“
عمران نے سعادت مندانہ انداز میں ریسیور انسپکٹر کو تھما دیا۔
انسپکٹر برا سا منہ بنائے سنتا رہا اور جی اچھا۔۔۔۔ بہت بہتر جناب کی گردن جاری رہی پھر ریسیور رکھ کر جھلائے ہوئے لہجے میں عمران سے بولا۔“میں غیب داں تو ہوں نہیں جناب کہ مجھے یہ بھی معلوم ہو جائے کہ کن حالات میں آپ کو گرفتار کرنا ہے اور کن میں نہیں۔“
“کوئی بات نہیں۔“ عمران نے بڑے خلوص سے سر ہلا کر کہا۔
انسپکٹر کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا، عمران پھر مارتھا کے کمرے میں آ لیٹا اور کسی دوسری مصیبت کا انتظار کرنے لگا۔ جوزف خاموشی سے ایک طرف “اٹین شن“ تھا۔ اور مارتھا عمران کے قریب کرسی پر بیٹھی تھی۔
“ہوں تو اب اپنے اس نگوڑے کے بارے میں بتاؤ۔“ عمران نے جوزف کو مخاطب کیا۔!
“نگونڈا باس۔!“ جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “کیا فون پر تمہارے فادر تھے۔“
“ہاں۔۔!“
“کیا کہہ رہے تھے۔“ جوزف کا لہجہ ناخوشگوار تھا۔
“میری گرفتاری کا حکم جاری ہو چکا ہے۔“
“کیوں؟“ جوزف نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔
“میں تم سے نگونڈا کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔“
“اچھا آدمی نہیں ہے باس۔! وہ اپنے مالک سے بھی دغا کر سکتا ہے۔ کبھی کسی کا وفادار نہیں رہا۔ اس کا بھی نہیں جس نے اسے پیدا کیا تھا اور کئی دن تک درد سے تڑپتی رہی تھی۔ اس کا بھی نہیں جو ہم سب کا باپ ہے۔!“
“کیا یہ یہاں دیر تک ٹھہرے گا۔“ مارتھا نے برا سا منہ بنا کر عمران سے پوچھا۔
“فی الحال میرے لئے ایک باڈی گارڈ ضروری ہے۔“ عمران نے جواب دیا اور جوزف نے مارتھا کو عربی میں گالیاں دیں۔
“یہ کیا بک رہا ہے۔“ مارتھا نے عمران سے پوچھا۔
“تمہاری تعریف کر رہا ہے عربی میں۔ کہہ رہا ہے کہ یہ عورت ہے یا چاندی کی جھیل۔ اس کی زبان منہ میں اس طرح حرکت کرتی ہے جیسے سمندر میں بجرہ۔۔۔۔اور کیا کہا تھا تو نے۔۔۔۔ ڈفر۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جوزف نے دانت نکال دیئے۔ کچھ بولا نہیں۔
“اس سے وحشت ہوتی ہے مجھے۔“ مارتھا بڑبڑائی۔
“جوزف تم باہر ٹھہرو۔ بغیر اجازت کسی کو اندر نہ آنے دینا۔“
“اوکے باس!“ جوزف نے ایڑیوں پر گھومتے ہوئے کہا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔
“تم آخر کس طرح برداشت کرتے ہو اسے۔“ مارتھا نے پوچھا۔
“کئی بار پوچھ چکی ہو۔ یہ بھی ایسا ہی آدمی ہے کہ آواز پر نشانہ لگا سکتا ہے۔“
“تم آخر کرتے کیا ہو کہ تمہیں ایک نیگرو باڈی گارڈ بھی رکھنا پڑا ہے۔“
“دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا میری ہابی ہے۔۔۔۔اس لئے۔۔۔۔!“
“آخر کیوں؟ کوئی ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کرتے تم۔ میں تو سوچتی ہوں کہ پچھلی رات وہ شوروغل صرف اسی لئے ہوا تھا کہ تم برآمدے میں نکل جاؤ اور تمہیں گولی مار دی جائے۔“
“خدا جانے کیوں پیچھے پڑ گئے ہیں یہ لوگ۔“
“نیگرو سے بھی کسی کرنل ڈوہرنگ کا تذکرہ آیا تھا۔۔۔۔ وہ کون ہے اور تم اس کی لڑکی کے ساتھ ناچ رہے تھے۔ وہ بھی گراموفون کی سوئی کا شکار ہوئی تھی۔! یہ سب کیا ہو رہا ہے۔“
“ننھے سے دماغ کو تھکاؤ نہیں۔“
“نہیں بتاؤ۔“
“بہتیری باتیں بچوں کو نہیں بتائی جاتیں۔“
“کیا؟“ مارتھا نے غصیلے انداز میں آنکھیں نکالیں۔
“کک۔ کچھ نہیں۔ پھر بھوک لگ رہی ہے۔“ عمران پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
دوسرے ہی لمحے میں جوزف کی غراہٹ بھی سنائی دی جو کسی سے کہہ رہا تھا ۔“نہیں تم اندر نہیں جا سکتے۔ باس کی اجازت کے بغیر۔“
“ارے کون ہے۔؟“ عمران نے آواز دی۔
“کیپٹن فیاض۔“ جوزف نے جواب دیا
“آنے دے ولدالوحوش۔“ عمران نے عربی میں کہا
اور فیاض غصے میں بھرا ہوا اندر داخل ہوا۔
“یہ اس نے ریوالور کیسے لٹکا رکھے ہیں۔“ اس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
“اسی ناہنجار سے پوچھو۔ میں کچھ نہیں جانتا۔“ عمران کراہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“مجھے رحمٰن صاحب نے بھیجا ہے۔ نیگرو کو اندر بلاؤ۔“ فیاض غرایا۔
عمران نے جوزف کو آواز دی۔ وہ اندر آیا اور ایڑیاں بجا کر اٹین شن ہو گیا۔
اسے فوجیوں کے سے انداز اختیار کرنے کا خبط تھا! خصوصاً خاکی یونیفارم اور ڈبل ہولسٹروں کی موجودگی میں تو وہ خود کو کسی جنرل سے کم نہیں سمجھتا تھا۔
“ریوالوروں کا لائسنس دکھاؤ۔“ فیاض اسے گھورتا ہوا غرایا۔
جوزف نے ہپ پاکٹ سے لائسنس نکال کر پیش کر دیئے۔ جو وزارتِ خارجہ کی طرف سے دیئے گئے تھے۔
“فوجی یونیفارم کس کی اجازت سے پہن رہے ہو۔“
“وزارتِ دفاع کی جازت سے۔ اجازت نامہ ملاحظہ فرمائیے جناب۔“ جوزف نے بڑے ادب سے اجازت نامہ پیش کر دیا۔
“مزید تحقیقات کے لئے انہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔“ کیپٹن غرایا۔
“یقیناً جناب عالی۔!“ لیکن ان کی رسید عنایت فرما دیجئے۔“
فیاض نے اپنی نوٹ بک سے ایک کاغذ پھاڑ کر اس پر رسید لکھ دی۔
“اب تم باہر جا سکتے ہو صورت حرام۔“ عمران غصیلے انداز میں کراہا اور جوزف ایڑیوں پر گھوم کر باہر چلا گیا۔
“اب بتاؤ۔ تم رات یہاں کیوں آئے تھے۔“ فیاض نے مارتھا کو نظرانداز کر کے عمران سے پوچھا۔
“میں مارتھا کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا۔ تین بجے صبح۔ دفعتاً برآمدے کی روشنی غائب ہو گئی اور اندھیرے میں کتوں کی غراہٹ کی آوازیں گونجنے لگیں پھر کسی عورت کی چیخیں سنائی دیں۔ میں نے باہر نکل کر للکارا اور گولی میرے بائیں بازو کو چھید گئی۔“
فیاض تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ “آپ تشریف ہی کیوں لائے تھے اندھیرے میں۔ صبح نہیں ہو سکتی تھی۔“
“نہیں چچا جان۔ میں بے تاب تھا کسی ہجرزدہ قدیم شاعر کی طرح۔۔۔۔“ عمران مسکرا کر بولا۔
“آپ کو اس سے کوئی شکایت تو نہیں ہے۔“ فیاض نے مارتھا سے پوچھا۔
“شکایت! کیسی شکایت۔ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔“ مارتھا نے کہا اور پھر عمران سے پوچھا۔ “آپ کی تعریف۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“یہ راجہ ہیں اس شہر کے!“ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔“شہر بھر کی طوائفوں کا دم نکلتا ہے ان سے۔ پتہ نہیں کب چالان کر دیں۔“
“ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔“ مارتھا جھلا کر بولی۔
“سی۔ آئی۔ ڈی کے سپرنٹنڈنٹ ہیں۔“
مارتھا کچھ نہ بولی۔ لیکن فیاض نے فوراً ہی اس سے پوچھا۔ “کیقا آپ کا خیال ہے کہ آپ کی بیہوشی میں اس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔“
“اس قسم کے لغو خیالات سے میرا ذہن پاک رہتا ہے۔“ مارتھا نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
“ہاں کیوں بھیجا ہے قبلہ والد صاحب نے۔“ عمران نے پوچھا۔
“ڈوہرنگ والا معاملہ ہے! خود اس نے شکایت نہیں کی۔ بلکہ سفارتخانہ کے کسی دوسرے آفیسر نے رپورٹ کی ہے کہ تم سفارتخانہ کے بعض ملازمین کو پریشان کرتے ہو۔۔۔۔ ڈوہرنگ نے تو فون پر ان سے کہا تھا کہ اسے کوئی شکایت نہیں۔ اس نے پچھلی رات والے واقعے کو اسپورٹ مین اسپرٹ میں لیا ہے۔“
“پھر کیوں ضرورت پیش آئی کہ بور ہی کیا جائے اس خاکسار کو۔“
“رحمان صاحب بہرحال اس رپورٹ پر کاروائی کرنا چاہتے ہیں۔“
“اور کچھ۔!“
فیاض کچھ نہ بولا اور عمران نے کہا۔ “براہِ کرم تشریف لے جائیے۔“
“تم نے باقاعدہ رپورٹ درج کرائی اس حادثہ کی؟“ فیاض نے غرا کر پوچھا۔
“میری مرضی پر منحصر ہے۔ کراؤں یا نہ کراؤں ؟“
“کیا یہ جرم نہیں ہے؟“
“بشرطیکہ میں سمجھوں۔“ عمران ٹھنڈی سانس لی۔
“نہیں۔ تم کو۔۔۔۔“
“بب۔ باس۔ تم جاؤ۔ کیوں جان ہلکان کرتے ہو۔ چم۔“ اس نے چمکارتے ہوئے کہا۔
“لیکن رحمان صاحب نے بھیجا ہے۔“
“تو بتاؤ نا ننھے میاں کو کیوں بھیجا ہے۔“
“تمہارا تحریری بیان چاہئے۔“
“جو دل میں آئے لکھ کر میرے دستخط کرا لو۔ تم بھی تو موجود تھے جب میں نے اسے گھونسا مارا تھا۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“آہم۔ اچھا۔!“ فیاض اپنی ڈائری نکال کر لکھنے لگا۔
عمران نے جوزف کو آواز دی۔ وہ آیا اور عمران نے عربی میں کہا۔ “دیکھو شبِ دیجور کے بچے جولیا کو ہر گز اندر نہ آنے دینا سمجھے۔ باہر ہی سے واپس۔“
“اوکے باس!“ جوزف نے ایڑیاں بجائیں اور دروازے کی طرف مڑ گیا۔ عمران اچھی طرح جانتا تھا کہ اب اس کے نگران ماتحتوں کو اس کا علم ہو گیا ہوگا۔ پچھلی رات جب وہ اپنے فلیٹ میں داخل ہوا تھا تو وہ یہی سمجھے ہوں گے کہ اب یہ فتنہ اطمینان سے صبح تک سوتا رہے گا۔ اس لئے وہ بھی جا سوئے ہوں گے۔ ورنہ ان کی موجودگی میں وہ اس طرح زخمی نہ ہو سکتا۔ بہرحال وہ سوچ رہا تھا کہ جولیا کو یقینی طور پر اطلاع مل گئی ہوگی اور وہ ادھر کا رخ ضرور کرے گی۔“
فیاض نے کچھ دیر بعد ڈائری عمران کی طرف بڑھا دی۔ عمران نے ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور اپنے دستخط کر دیئے۔
“میرا خیال ہے کہ اب تمہیں آرام کرنا چاہئے۔“ مارتھا نے غصیلی آواز میں کہا۔
“یقیناً۔ یقیناً۔“
لیکن آرام کہاں۔ فیاض تو چلا گیا لیکن اس کے جانے کے پانچ ہی منٹ بعد جوزف بوکھلایا ہوا اندر آیا۔
“باس۔۔۔۔ تمہاری ماں۔۔۔۔تمہاری بہنیں آئی ہیں!“ اس نے ہانپتے ہوئے بتایا۔
“مم۔۔۔۔مار ڈالا۔۔۔۔“ عمران کراہا۔
اور دوسرے ہی لمحے میں بیگم رحمان۔۔۔۔ ثریا اور عمران کی دونوں عم ذاد کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔۔ مارتھا بھی بوکھلا کر کھڑی ہوگئی۔ عمران اٹھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ بیگم رحمان کمزور آواز میں بولیں۔ “لیٹا رہ۔ لیٹا رہ۔“
“میری ماں اور بہنیں۔“ عمران نے انگریزی میں مارتھا سے کہا۔
“میں جانتی ہوں۔“ مارتھا نے بیگم رحمان کی طرف کرسی کھسکاتے ہوئے کہا۔ “تمہارے گھر جا چکی ہوں ڈاکٹر کے ساتھ اور مس ثریا تو آتی ہی رہتی ہیں کبھی کبھی۔ ہیلو مس ثریا۔“
“اوکے۔“ ثریا نے کہا اور عمران کو گھورنے لگی۔
کمرے میں دو ہی کرسیاں تھیں صرف بیگم رحمان بیٹھ گئی تھیں اور وہ سب کھڑی رہیں۔
“کیا ہوا تھا۔“ بیگم رحمان نے عمران سے پوچھا۔
“کک کچھ نہیں۔ اماں بی۔ اندھیرے میں کسی نے گولی مار دی۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“وہ میرے لگی ہوتی تو اچھا تھا۔ اب نہیں برداشت ہوتیں تم باپ بیٹے کی حرکتیں۔“
“مم۔ مگر۔ اماں بی۔“
“کچھ نہیں! تم اس موئے ڈوہرنگ سے کیوں بھڑے تھے۔ اسی نے توہین کا بدلہ لینے کے لئے حملہ کرایا ہو گا۔ ادھر پولیس میں رپورٹ بھی درج کرا دی۔“
“مم۔ مگر میرا خیال ہے کہ گولی کسی اور پر چلائی گئی تھی اندھیرے میں میں ہی بیچ میں آ گیا۔“
“ہڈی تو نہیں ٹوٹی۔“
“بالکل نہیں۔“ عمران جلدی سے بولا۔ بالکل اس انداز میں جیسے اس نقصان پر پٹائی ہو جانے کا امکان ہو۔
“کب تک یہاں رہے گا۔“
“یہ تو ڈاکٹر کی مرضی پر منحصر ہے جب پیچھا چھوڑ دے۔“
“کیا یہ لڑکی تمہاری دیکھ بھال کر رہی ہے۔“
“جج۔ جی ہاں۔“
“مگر تم اسے کیا جانو۔“
“آپ کی خیریت معلوم کرنے کے لئے کبھی کبھی ڈاکٹر دعاگو کے پاس جانا پڑتا ہے۔“
“ڈاکٹر کہتا ہے کہ جب تک تمہارا بیٹا تمہارے پاس نہ رہے تم اچھی نہیں ہو سکتیں۔“
“یہ تو قطعی غلط کہا تھا ڈاکٹر نے۔“ ثریا بول پڑی اور عمران ٹھنڈی سانس لے کر چھت کی طرف دیکھتا ہوا منہ چلانے لگا۔
“مدر۔۔۔۔“ دفعتاً مارتھا بولی۔ “آخر پاپا نے انہیں گھر سے کیوں نکال دیا ہے۔“
بیگم رحمان انگریزی نہیں سمجھتی تھیں۔ اس لئے انہوں نے استفہامیہ انداز میں ثریا کی طرف دیکھا۔ ثریا کے سمجھانے پر بولیں۔ “اس سے کہو یہ خود ہی بیہودہ ہے۔ قاعدے سے رہے تو۔۔۔۔“
“ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔۔۔“ ثریا نے اردو میں کہہ کر انگریزی میں مارتھا کو مخاطب کیا۔ “بات یہ ہے کہ جب یہ حضرت گھر میں رہتے ہیں تو بہت سی آوارہ لڑکیاں بھی آنے لگتی ہیں۔ ہمارے ڈیڈی کو ان کی یہ حرکت پسند نہیں ہے۔“
“میرا خیال ہے کہ ایسا تو نہ ہو گا۔“ مارتھا ہنس کر عمران کی طرف دیکھنے لگی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران آنکھیں بند کئے ہوئے ہولے ہولے کراہ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ ثریا کی بچی ضرور گھپلا کرائے گی۔ بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ اب کیا کیا جائے۔ اتنے میں باہر سے جولیانا فنٹر واٹر کی آواز آئی جو شاید جوزف سے جھگڑ رہی تھی۔
“ارے باپ رے۔“ عمران نے زیادہ زور سے کراہ کر داہنی کروٹ لی۔
“وہ دیکھو۔ کوئی آئی ہے مزاج پرسی کے لئے۔“ ثریا نے بند دروازے کی جانب انگلی اٹھا کر مارتھا سے کہا۔
مارتھا دروازے کی طرف جھپٹی۔ دروازہ کھلا اور دونوں کے مکالمے عمران کی سماعت پر ہتھوڑے کی طرح پڑنے لگے۔
“کیا بات ہے۔ تم کون ہو؟“ مارتھا نے جولیا سے متحیرانہ لہجے میں سوال کیا۔
“کیا یہاں مسٹر علی عمران ہیں۔“
“ہاں ہیں تو۔۔پھر۔۔؟“
“میں انہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔“
“تمہارا نام۔“
“جولیانا فنٹرواٹر۔“
“ٹھہرو۔ میں پوچھ لوں۔“
مارتھا دروازہ بند کر کر ان کی طرف مڑی اور مضمحل آواز میں بولی۔ “کوئی جولیانا فنٹرواٹر ہے۔“
“بلاؤ۔“ عمران ناک کے بل کراہا اور اس کی عم زاد بہنیں ہنس پڑیں۔ ثریا کی تیوری بدستور چڑھی رہی۔ جولیا اندر آئی۔ لیکن ایک برقعہ پوش خاتون کو بھی دیکھ کر بوکھلا گئی۔ غالباً سمجھ گئی ہو گی کہ عمران کی ماں ہوں گی۔
پھر اس نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ہر ایک کا جائزہ لیا اور ایسے انداز میں چاروں طرف دیکھنے لگی جیسے نکل بھاگنے کے لئے راستہ تلاش کر رہی ہو۔ برقعہ پوش خواتین سے اسے بڑی وحشت ہوتی تھی۔
“یہ کون ہے؟“ بیگم رحمان نے پوچھا۔
“یہ سوئیس ہے۔ سوئیس۔“
“وہ پوچھ رہی ہیں تم سے کیا تعلق ہے۔“ ثریا جلے کٹے لہجے میں بولی۔
“مم۔۔۔۔میں۔۔۔خخ۔۔۔ خالہ کہتا ہوں۔“
“چپ نامراد۔۔۔۔ میری بہن بناتا ہے۔۔۔۔نگوڑ ماری کو۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ہلو عمران۔“ بالآخر جولیا سب کو نظرانداز کر کے بولی۔ “اب تم کیسے ہو اور یہ کیسے ہوا۔“
“کولتار چھڑانے کے بعد یہاں چلا آیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ مٹی کے تیل کی بدبو نے ہارٹ ٹربل میں مبتلا کر دیا تھا۔ سوچا یہاں سے کورامین ڈراپس لے لوں گا۔ مم۔۔۔۔مگر کسی نے گولی مار دی۔“
“مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں کرسی نہ پیش کر سکوں گی۔“ مارتھا نے جولیا سے کہا۔
“کیونکہ دیکھ لو سب ہی کھڑے ہیں۔“
“ٹھیک ہے۔ شکریہ۔“ جولیا مسکرائی اور عمران سے بولی۔ “پھر آؤں گی۔“
وہ دروازے کی طرف مڑی ہی تھی کہ جوزف کی غراہٹ سنائی دی۔ “خبردار پیچھے ہٹو ورنہ گولی مار دوں گا۔ شاید تم اندر جا سکو۔۔۔۔ لیکن یہ کتیا کا بچہ۔ ہرگز نہیں۔ ۔!“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس بار عمران کو اٹھنا ہی پڑا۔ پتہ نہیں وہ کس کو گولی مار دینے کی دھمکی دے رہا تھا اور وہ دھمکی انگریزی میں دی گئی تھی۔ اس لئے جولیا بھی دروازے کے قریب ٹھٹک گئی۔
“تم کدھر اٹھ رہے ہو۔“ مارتھا بولی۔
“گولی ٹانگ میں نہیں لگی۔ تم مطمئن رہو۔“
“یہ بڑی اچھی لڑکی ہے۔!“ بیگم رحمان نے ثریا سے کہا۔
“کیا گڑبڑ ہے۔“ ثریا نے انہیں نظرانداز کر کے عمران سے پوچھا۔
“کچھ نہیں۔ میں دیکھتا ہوں۔“ عمران نے کہا اور جولیا سے بولا۔ “ادھر آؤ۔ ادھر سب کے قریب آ جاؤ۔“
جولیا پیچھے ہٹی اور وہ دروازہ کھول کر باہر آیا۔ سب سے پہلے کرنل ڈوہرنگ پر نظر پڑی۔ اس کے پیچھے جوزف ہی کی نسل کا ایک آدمی نظر آیا۔ جس نے فوجی وردی پہن رکھی تھی اور کمر کی بیلٹ سے دو ریوالور بھی لٹکا رکھے تھے۔
“ہلو مائی بوائے۔“ ڈوہرنگ آگے بڑھ کر عمران سے مصافحہ کرتے ہوئے بولا۔ “سنا ہے تم زخمی ہو گئے ہو۔ کس نے گولی مار دی۔ تمہارے باپ سے فون پر گفتگو ہوئی تھی۔ پتہ نہیں سفارتخانے کے کسی افسر نے تمہارے خلاف رپورٹ درج کرا دی تھی۔ بہرحال میں نے رپورٹ واپس لے لی ہے۔“
“شکریہ۔ کرنل۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“تمہارا یہ آدمی بڑا بدتمیز ہے۔“
“آدمی نہیں۔! باڈی گارڈ۔“ عمران مسکریا۔ “آدمیوں کے بس کا روگ نہیں باڈی گارڈ بننا۔“
“خیر۔ ہاں۔ تم زخمی کیسے ہوئے۔“
“کسی نے اندھیرے میں گولی مار دی۔“
“پھر تم نے کیا کیا۔“
“آرام کرنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا تھا۔!“ عمران نے احمقانہ انداز میں کہا۔
“خیر۔ خیر۔“ وہ ہنس پڑا۔ “بہت زندہ دل آدمی ہو! اچھا دوست۔۔۔۔ بس اب چلا۔ محض تمہاری خیریت دریافت کرنی تھی۔ پھر ملاقات ہو گی۔“
ڈوہرنگ سے مصافحہ کرتے ہوئے عمران نے دیکھا کہ دونوں حبشی ایک دوسرے کو اس طرح گھور رہے تھے جیسے جھپٹنے کے لئے بالکل تیار ہوں۔
ڈوہرنگ اور اس کا باڈی گارڈ چلے گئے۔
“یہی تھا نگونڈا باس۔“ جوزف غرایا۔ “میرے لئے اس کی آنکھوں میں چیلنج تھا۔ خیر میں دیکھوں گا کہ وہ کتنا باخبر باڈی گارڈ ہے۔“
“کیا مطلب۔؟“ عمران نے اسے گھور کر دیکھا۔
“میں اس کی موجودگی ہی میں ڈوہرنگ کو گولی ماروں گا۔“
“خبردار۔!“ عمران نے آنکھیں دکھائیں اور جوزف برا سا منہ بنائے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگا۔
عمران پھر اندر آیا۔ جولیا اور ثریا گفتگو کر رہی تھیں۔ موضوعِ بحث عمران تھا۔
جولیا کہہ رہی تھی۔ “بچے یقینی طور پر اسی طرح بےڈھنگے ہو جائیں گے۔ اگر ان پر زیادہ سختی کی جائے گی۔“
“لیکن یہ بچہ تو اب فیڈر کے بھی قابل نہیں رہا۔“ ثریا نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
عمران ایک جانب کھڑا ان کی گفتگو سن رہا تھا۔ دفعتاً مارتھا کی نظر اس پر پڑی اور جلدی سے بولی۔ “ارے تم کھڑے ہو۔ چلو لیٹو۔۔۔۔ لیٹو۔۔۔۔!“
“ہاں اور کیا۔“ ثریا اردو میں بولی۔ “اب تم ہی تو رہ گئی ہو مامتا جتانے والی، پلی پلائی اولاد ہاتھ آئی ہے۔“
اس کی عم زاد ہنس پڑیں اور بیگم رحمان غصیلے انداز میں بولیں۔ “کیا بکواس ہے! زبان چلے جائے گی بس۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“اپنی نسل میں اس کے علاوہ اور رکھا ہی کیا ہے اماں بی۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اور بستر پر بیٹھ گیا۔
“چل اب گھر چل۔۔۔۔ ورنہ یہیں اتارتی ہوں جوتی سب کے سامنے۔“
“ڈاکٹر سے پوچھ لیجئے۔ اگر اجازت دے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“
“ارے بازو میں ہی تو گولی لگی ہے۔“ ثریا تنک کر بولی۔ “آپ خومخواہ پریشان ہوئے جا رہی ہیں۔“
“اور کیا۔“ عمران سنجیدگی سے بولا۔ “پریشانی کی بات تو تب تھی۔ جب ٹھیک کھوپڑی پر بیٹھی ہوتی۔“
“بکواس بند بھی کرو کم بختو!“ بیگم رحمان جھنجھلا کر بولیں۔
کچھ دیر بعد وہ بھی اٹھ گئیں اور چلتے چلتے بولیں۔ “میں تیرے باپ سے کہوں گی کہ ڈاکٹر سے معلوم کریں۔“
“جی۔ بہت اچھا!“ عمران نے سعادت مندانہ انداز میں کہا اور انہیں دروازے تک چھوڑنے آیا۔
جولیا نے البتہ دوسری کرسی سنبھال لی تھی۔ مارتھا سے گھورتی رہی لیکن کچھ بولی نہیں۔
“اب بتاؤ کہ میرے ناخن کیا ہوئے۔“ جولیا نے اوپری ہونٹ بھینچ کر عمران سے پوچھا۔
“بحمد اللہ میں ابھی گنجا نہیں ہوا۔“
“بکواس مت کرو۔ وہ تمہاری حرکت تھی۔“
“اور وہ کولتار جس نے مجھے ہسپتال آنے پر مجبور کر دیا تھا۔“
“میں نے تو دیکھا نہیں۔ اس لئے یقین کیوں کروں؟“
“دیکھ لینے کے بعد شاید میری میت پر بھی آنا پسند نہ کرتیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے تم نے نہیں دیکھا۔“
“عمران تم باتیں بہت کر رہے ہو۔ اب لیٹ جاؤ۔“ مارتھا نے جھنجھلا کر کہا اور جولیا نے فوراً ہی پلٹ کر پوچھا۔ “تم اسے کب سے جانتی ہو۔“
“تم سے مطلب؟“
“بڑی چڑچڑی معلوم ہوتی ہو۔“ جولیا مسکرائی۔
“میں اجنبیوں سے بےتکلف ہونا پسند نہیں کرتی۔“



۔۔۔اختتام۔۔۔
ص 106-115
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top