فرحت کیانی
لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو
ص 106-115
“اچھا وہیں ٹھہرو۔ میں کسی کو بھیج رہا ہوں۔“
“لیکن یہاں ایک سب انسپکٹر صاحب میری گرفتاری پر مصر ہیں۔“
“ریسیور دو اسے۔“
عمران نے سعادت مندانہ انداز میں ریسیور انسپکٹر کو تھما دیا۔
انسپکٹر برا سا منہ بنائے سنتا رہا اور جی اچھا۔۔۔۔ بہت بہتر جناب کی گردن جاری رہی پھر ریسیور رکھ کر جھلائے ہوئے لہجے میں عمران سے بولا۔“میں غیب داں تو ہوں نہیں جناب کہ مجھے یہ بھی معلوم ہو جائے کہ کن حالات میں آپ کو گرفتار کرنا ہے اور کن میں نہیں۔“
“کوئی بات نہیں۔“ عمران نے بڑے خلوص سے سر ہلا کر کہا۔
انسپکٹر کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا، عمران پھر مارتھا کے کمرے میں آ لیٹا اور کسی دوسری مصیبت کا انتظار کرنے لگا۔ جوزف خاموشی سے ایک طرف “اٹین شن“ تھا۔ اور مارتھا عمران کے قریب کرسی پر بیٹھی تھی۔
“ہوں تو اب اپنے اس نگوڑے کے بارے میں بتاؤ۔“ عمران نے جوزف کو مخاطب کیا۔!
“نگونڈا باس۔!“ جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “کیا فون پر تمہارے فادر تھے۔“
“ہاں۔۔!“
“کیا کہہ رہے تھے۔“ جوزف کا لہجہ ناخوشگوار تھا۔
“میری گرفتاری کا حکم جاری ہو چکا ہے۔“
“کیوں؟“ جوزف نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔
“میں تم سے نگونڈا کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔“
“اچھا آدمی نہیں ہے باس۔! وہ اپنے مالک سے بھی دغا کر سکتا ہے۔ کبھی کسی کا وفادار نہیں رہا۔ اس کا بھی نہیں جس نے اسے پیدا کیا تھا اور کئی دن تک درد سے تڑپتی رہی تھی۔ اس کا بھی نہیں جو ہم سب کا باپ ہے۔!“
“کیا یہ یہاں دیر تک ٹھہرے گا۔“ مارتھا نے برا سا منہ بنا کر عمران سے پوچھا۔
“فی الحال میرے لئے ایک باڈی گارڈ ضروری ہے۔“ عمران نے جواب دیا اور جوزف نے مارتھا کو عربی میں گالیاں دیں۔
“یہ کیا بک رہا ہے۔“ مارتھا نے عمران سے پوچھا۔
“تمہاری تعریف کر رہا ہے عربی میں۔ کہہ رہا ہے کہ یہ عورت ہے یا چاندی کی جھیل۔ اس کی زبان منہ میں اس طرح حرکت کرتی ہے جیسے سمندر میں بجرہ۔۔۔۔اور کیا کہا تھا تو نے۔۔۔۔ ڈفر۔!“
ص 106-115
“اچھا وہیں ٹھہرو۔ میں کسی کو بھیج رہا ہوں۔“
“لیکن یہاں ایک سب انسپکٹر صاحب میری گرفتاری پر مصر ہیں۔“
“ریسیور دو اسے۔“
عمران نے سعادت مندانہ انداز میں ریسیور انسپکٹر کو تھما دیا۔
انسپکٹر برا سا منہ بنائے سنتا رہا اور جی اچھا۔۔۔۔ بہت بہتر جناب کی گردن جاری رہی پھر ریسیور رکھ کر جھلائے ہوئے لہجے میں عمران سے بولا۔“میں غیب داں تو ہوں نہیں جناب کہ مجھے یہ بھی معلوم ہو جائے کہ کن حالات میں آپ کو گرفتار کرنا ہے اور کن میں نہیں۔“
“کوئی بات نہیں۔“ عمران نے بڑے خلوص سے سر ہلا کر کہا۔
انسپکٹر کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا، عمران پھر مارتھا کے کمرے میں آ لیٹا اور کسی دوسری مصیبت کا انتظار کرنے لگا۔ جوزف خاموشی سے ایک طرف “اٹین شن“ تھا۔ اور مارتھا عمران کے قریب کرسی پر بیٹھی تھی۔
“ہوں تو اب اپنے اس نگوڑے کے بارے میں بتاؤ۔“ عمران نے جوزف کو مخاطب کیا۔!
“نگونڈا باس۔!“ جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “کیا فون پر تمہارے فادر تھے۔“
“ہاں۔۔!“
“کیا کہہ رہے تھے۔“ جوزف کا لہجہ ناخوشگوار تھا۔
“میری گرفتاری کا حکم جاری ہو چکا ہے۔“
“کیوں؟“ جوزف نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔
“میں تم سے نگونڈا کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔“
“اچھا آدمی نہیں ہے باس۔! وہ اپنے مالک سے بھی دغا کر سکتا ہے۔ کبھی کسی کا وفادار نہیں رہا۔ اس کا بھی نہیں جس نے اسے پیدا کیا تھا اور کئی دن تک درد سے تڑپتی رہی تھی۔ اس کا بھی نہیں جو ہم سب کا باپ ہے۔!“
“کیا یہ یہاں دیر تک ٹھہرے گا۔“ مارتھا نے برا سا منہ بنا کر عمران سے پوچھا۔
“فی الحال میرے لئے ایک باڈی گارڈ ضروری ہے۔“ عمران نے جواب دیا اور جوزف نے مارتھا کو عربی میں گالیاں دیں۔
“یہ کیا بک رہا ہے۔“ مارتھا نے عمران سے پوچھا۔
“تمہاری تعریف کر رہا ہے عربی میں۔ کہہ رہا ہے کہ یہ عورت ہے یا چاندی کی جھیل۔ اس کی زبان منہ میں اس طرح حرکت کرتی ہے جیسے سمندر میں بجرہ۔۔۔۔اور کیا کہا تھا تو نے۔۔۔۔ ڈفر۔!“