فرحت کیانی
لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو
ص 65-75
“شکریہ جناب!“
“بہتر ہے کہ تم لوگ عمران کی حفاظت میک اپ میں رہ کر کیا کرو۔“
“بہت مناسب ہے جناب!“
“سب کو مطلع کردو۔“
“بہتر جناب۔!“
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
ابھی فون کے پاس سے ہٹا بھی نہیں تھا کہ پھر گھنٹی بجی۔ عمران نے ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف جولیا تھی اور کہہ رہی تھی۔ “ڈاکٹر دعاگو کی سیکرٹری مارتھا بھی ہوش میں آ چکی ہے۔ اور اب خطرے سے باہر ہے۔“
“ لیکن میں نے اس کے بارے میں تم سے کب پوچھا تھا۔“ عمران ماؤتھ پیس میں غرایا۔
“مم۔۔۔۔ میں نے۔۔۔۔ کہا شاید وہ بھی۔۔۔۔کیونکہ وہ عمران کے ساتھ تھی۔“
“عمران کے نجی معاملات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔“
“نجی معاملات۔“
“ہاں وہ مارتھا کے چکر میں ہے۔“ عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔ اس کے ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔
“خیر۔۔ جناب۔۔ ڈاکٹر دعاگو کا بیان۔“
“ٹھہرو۔۔۔ میں شارٹ ہینڈ میں نوٹ لوں گا۔“
اس نے میز پر پڑی ہوئی کاپی اور پنسل اٹھائی اور ماؤتھ پیس میں بولا۔ “شروع ہو جاؤ۔“
ڈاکٹر دعاگو فون پر عمران سے گفتگو کر رہا تھا۔ دفعتاً پشت والی کھڑکی سے ایک سیاہ رنگ کی بلی میز پر آ کودی۔۔۔۔ پھر دوسری بلی۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک بلی غراتی ہوئی اس پر اچانک حملہ کر بیٹھی۔۔۔ڈاکٹر دعاگو کا بیان ہے کہ وہ بےساختہ چیخ پڑا تھا۔۔۔۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا اس پر وہ روشنی نہیں ڈال سکا۔!“
“اس کے علاوہ اور کچھ؟“
“جی نہیں۔“
“اوور-اینڈ آل۔“ عمران نے ریسیور کریڈل پر ڈال دیا۔
کچھ دیر وہ پھر ڈاکٹر دعاگو کی کوٹھی کی طرف جا رہا تھا۔
کوٹھی کی کمپاؤنڈ میں اسے ڈاکٹر کے ملازموں نے گھیر لیا تھا اور اس سے ڈاکٹر کی خیریت پوچھنے لگے۔
ص 65-75
“شکریہ جناب!“
“بہتر ہے کہ تم لوگ عمران کی حفاظت میک اپ میں رہ کر کیا کرو۔“
“بہت مناسب ہے جناب!“
“سب کو مطلع کردو۔“
“بہتر جناب۔!“
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
ابھی فون کے پاس سے ہٹا بھی نہیں تھا کہ پھر گھنٹی بجی۔ عمران نے ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف جولیا تھی اور کہہ رہی تھی۔ “ڈاکٹر دعاگو کی سیکرٹری مارتھا بھی ہوش میں آ چکی ہے۔ اور اب خطرے سے باہر ہے۔“
“ لیکن میں نے اس کے بارے میں تم سے کب پوچھا تھا۔“ عمران ماؤتھ پیس میں غرایا۔
“مم۔۔۔۔ میں نے۔۔۔۔ کہا شاید وہ بھی۔۔۔۔کیونکہ وہ عمران کے ساتھ تھی۔“
“عمران کے نجی معاملات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔“
“نجی معاملات۔“
“ہاں وہ مارتھا کے چکر میں ہے۔“ عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔ اس کے ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔
“خیر۔۔ جناب۔۔ ڈاکٹر دعاگو کا بیان۔“
“ٹھہرو۔۔۔ میں شارٹ ہینڈ میں نوٹ لوں گا۔“
اس نے میز پر پڑی ہوئی کاپی اور پنسل اٹھائی اور ماؤتھ پیس میں بولا۔ “شروع ہو جاؤ۔“
ڈاکٹر دعاگو فون پر عمران سے گفتگو کر رہا تھا۔ دفعتاً پشت والی کھڑکی سے ایک سیاہ رنگ کی بلی میز پر آ کودی۔۔۔۔ پھر دوسری بلی۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک بلی غراتی ہوئی اس پر اچانک حملہ کر بیٹھی۔۔۔ڈاکٹر دعاگو کا بیان ہے کہ وہ بےساختہ چیخ پڑا تھا۔۔۔۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا اس پر وہ روشنی نہیں ڈال سکا۔!“
“اس کے علاوہ اور کچھ؟“
“جی نہیں۔“
“اوور-اینڈ آل۔“ عمران نے ریسیور کریڈل پر ڈال دیا۔
کچھ دیر وہ پھر ڈاکٹر دعاگو کی کوٹھی کی طرف جا رہا تھا۔
کوٹھی کی کمپاؤنڈ میں اسے ڈاکٹر کے ملازموں نے گھیر لیا تھا اور اس سے ڈاکٹر کی خیریت پوچھنے لگے۔