ڈاکٹر دعاگو 86-95

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو
ص 86-95



“کیا قصہ ہے بھئی۔“ فیاض ریشہ خطمی ہوا جا رہا تھا اور عمران سوچ رہا تھا کہ فیاض جولیا سے پہلے بھی کبھی مل چکا ہے یا نہیں۔ اسے تاؤ آ رہا تھا جولیا کو آخر فیاض کی موجودگی ہی میں چڑھ دوڑنے کیا کیا ضرورت تھی۔
“قصہ بےتصویر ہے۔ اس لئے تمہیں کوئی دلچسپی نہ ہونی چاہئے۔“ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔
“میں کہتی ہوں۔۔۔۔“
“ٹھہرو۔ ٹھہرو۔“ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “ہو سکتا ہے۔۔۔۔ مگر اسی صورت میں جب کھانے کا بل ففٹی ففٹی ہو جائے۔“
“ذلیل ہو تم۔“ جولیا روہانسی سی ہنسی کے ساتھ بولی۔ “چلو یہی سہی۔“
عمران نے جیب سے پرس نکالا اور اس میں سے دس دس کے کئی نوٹ کھینچ کر جیب میں ڈال لیے۔ پرس جولیا کی طرف پھینکا اور ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “ ٹا ٹا۔“
جولیا انگریزی میں اسے گالیاں دیتی ہوئی اٹھ گئی۔
جب وہ چلی گئی تو فیاض نے عمران سے کہا۔ “کون تھی۔ میرا خیال ہے کہ میں پہلے بھی اسے کہیں دیکھ چکا ہوں۔“
“یاد کرنے کی کوشش کرتے رہو کہ کہاں دیکھا تھا۔“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔
“ بیٹھو بیٹے۔ اتنی جلدی کہاں پیچھا چھوٹتا ہے۔ تمہارا تحریری بیان تو ابھی ہوا ہی نہیں۔“
“ہاں تم ہی لکھو گے!“
عمران دھم سے کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر مغموم لہجے میں بولا۔ “ میں نے آج تک آرٹسٹ قسم کی لڑکیوں کو خط لکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں لکھا۔“
“تم بھی لکھ لیتے ہو لڑکیوں کوخط۔!“
“کبھی لکھا کرتا تھا۔ ایک آرٹسٹ لڑکی کو۔ اس لئے نہیں کہ وہ خوبصورت تھی۔ محض اس لئے کہ وہ آرٹسٹ تھی۔۔۔۔ ورنہ یہ کمبختیاں تو صرف شوہروں کی چھاتیوں پر مونگ دلنے کے لئے پیدا ہوتی ہیں۔ آرٹ وارٹ سے انہیں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔“
“پھر کیا ہوا۔ اب نہیں لکھتے۔“
“وہ میری کسی فلسفیانہ بات پر خفا ہو گئی۔۔۔۔ عمران ہی ٹھہرا۔“
“تو وہ اب تم سے نہیں ملتی۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ملتی تو پہلے بھی نہیں تھی۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ “ ویسے اس کے خطوط بڑے آرٹسٹک ہوتے تھے۔ اپنے ماحول سے اکتائی ہوئی ایک معصوم لڑکی تھی۔ بڑی اچھی تصویر بناتی تھی۔ کبھی کبھی اپنے اسکیچز مجھے بھی بھیجتی تھی۔“
“پھر شروع کر دو نا سلسلہ۔“
“ہمت نہیں پڑتی۔ ایک بار موڈ کی خرابی کی بناء پر کچھ اوٹ پٹانگ باتیں لکھ دی تھیں۔ اس لئے خط لکھنے چھوڑ دیئے۔“ عمران نے کہا اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا(؟) خاموش ہو گیا۔
“ارے کیوں وقت برباد کر رہے ہو میرا۔“ فیاض جھینپی ہوئی ہنسی کے ساتھ بولا۔
“تو اور ان معاملات میں سنجیدگی میرے یار۔“
“ مگر یہ کون تھی۔“
“ کہہ تو دیا آنٹی نائین ٹین سکسٹی تھری۔“
“ میں نے اسے کہاں دیکھا تھا۔“ فیاض چھت کی طرف منہ اٹھا کر یادداشت پر زور دینے لگا۔!
“نہیں یاد آئے گا۔ وقت برباد نہ کرو۔“
“ اوہ۔ تمہارا بیان۔“ فیاض چونک کر بولا۔
“ ختم کرو۔ میں جا رہا ہوں۔“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔ “ سر سلطان کے اسٹینو ہی کا بیان کافی ہے۔ خانہ پری کے لئے میرا نام بھی تو آ گیا ہے اس میں۔“
فیاض نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا۔ لیکن آواز نکلنے سے پہلے ہی عمران باہر جا چکا تھا۔
پھر جیسے ہی وہ نیم روشن برآمدے میں پہنچا تو کسی نے پیچھے سے گردن دبوچ لی۔ تیز قسم کے ناخن گوشت میں دھنستے ہوئے محسوس کئے اور کسی جانی پہچانی سی خوشبو کا بھپکا قوتِ شامہ سے ٹکرایا۔
“ہوں۔“ وہ غرایا۔ “ چھوڑو۔ گردن۔“
“ نہیں چھوڑوں گی۔“ جولیا کی آواز کانوں میں گونجی۔ لہجہ کسی ضدی بچے کا سا تھا۔ عمران نے ہاتھ گھما کر کلائی پکڑ لی۔ جولیا کے ہونٹوں سے ایک سسکاری نکلی اور گردن پر گرفت بھی ڈھیلی پڑ گئی۔ عمران تیزی سے مڑا۔
“کیوں میری جان کو آ گئی ہو۔“ وہ رو دینے کے سے انداز میں بولا۔
“ میرے روپے۔“
“ ففٹی ففٹی پر راضی ہو گئی تھیں تم۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ پرانی بات ہوئی ارادہ بدل دیا ہے۔“
“ مگر یہ ناخن تو اب کٹوا ہی دو۔ ویسے جین اور بلاؤز میں بڑی اچھی لگتی ہو۔ پیچھے سے دیکھو تو ایسا لگتا ہے جیسے ہلال لچک رہے ہوں۔“
“ بکواس بند کرو روپے واپس کرو۔“
“ اب تمہیں کیفے نبراسکا میں مرغی کے ہمبرگر کھلاؤں گا۔۔ کہ بیف ہاپ ڈاگس چلیں گے۔ ویسے اردو میں گرمائے ہوئے کتے بےحد خطرناک ہوتے ہیں۔“
“ میں کہتی ہوں نکالو روپے۔!“
“ یار تم تو افغان سودخور پٹھانوں سے بھی زیادہ تگڑی معلوم ہوتی ہو۔ ایک شرط کے ساتھ۔“
“ بکو جلدی سے۔“
“ کیفے نبراسکا۔“
“ اب کیا کرو گے۔“
“ اپنی حماقتوں کی تلافی۔“
“ چلو۔“ وہ غصیلے لہجے میں بولی۔
کیفے نبراسکا زیادہ دور نہیں تھا۔ دونوں نگران اب بھی آس پاس ہی موجود تھے۔ کیفے میں پہنچ کر عمران نے فیملی کیبنس کا رخ کیا۔
“ نہیں۔ ہال میں ہی بیٹھیں گے۔“ جولیا نے کہا۔
“ ہاں کھا تھوڑا ہی جاؤں گا تمہیں۔ اتنی ڈرپوک کب سے ہوگئیں۔“
“ چلو۔“ وہ دانت پیس کر بولی۔
“ کیبن میں پہنچ کر اس نے ایک کرسی سنبھالتے ہوئے پوچھا۔ “ اب کیا ہے۔“
“ تھوڑی سی رس ملائی بھی کھا لو۔“ عمران گھگھیایا۔
“ میں نہیں کھاؤں گی۔!“
“ ہاتھ جوڑتا ہوں۔“ عمران ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کے روپے نکالتا ہوا بولا۔ “ یہ لو۔ گن لینا اچھی طرح۔۔ میں کوئی سچ مچ تھوڑا ہی۔۔۔۔ بس اکثر جی چاہتا ہے کہ شہر بھر کی خالا جانوں کو چھیڑتا پھروں۔!“
“ بکواس بند کرو۔ ورنہ تھپڑ مار دوں گی۔“
“ رس ملائی کھانے کے بعد۔۔۔۔ خالص دیسی ڈش۔۔۔۔ سوئٹزرلینڈ میں بننے لگے تو لوگ گھڑیاں بنانا چھوڑ دیں۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ اچھا منگواؤ۔“ وہ غصیلے لہجے میں بولی۔
“ میں ابھی آیا۔“ عمران نے کہا اور جھپٹ کر باہر نکل آیا۔ ویٹر سے آہستہ آہستہ کچھ باتیں کیں اور پھر واپس مڑ گیا۔ کیفے نبراسکا بھی ان مخصوص جگہوں میں سے تھا جہاں عمران کی دال خاصی گلتی تھی۔ دو تین ویٹر مستقل طور پر سیکرٹ سروس کے لئے کام کرتے تھے۔ اس کا علم عمران کے دوسرے ماتحتوں کو نہیں تھا۔
وہ پھر کیبن میں واپس آ گیا۔ جولیا نے باہر جانے کی وجہ پوچھی اور وہ ہکلائے بغیر بولا۔
“ادھار چلتا ہے یہاں پر۔“
کچھ دیر بعد ویٹر ایک ٹرے میں دو پلیٹ رس ملائی لایا۔ عمران نے ایک پلیٹ جولیا کی طرف بڑھائی۔
“ یہ کیا ہے۔“ وہ جھک کر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
“ رس ملائی۔“ عمران نے دانت پر دانت جما کر کہا۔
جولیا نے تھوڑی سی چکھی۔ شاید لذت محسوس کرتی رہی پھر ذرا بڑا ٹکڑا کاٹا اور منہ میں رکھتی ہوئی بولی۔ “ واقعی خوش ذائقہ ہے۔“
“ اور کھاؤ۔ مزہ آ جائے گا۔“ عمران بچوں کی طرح خوش ہو کر بولا۔
جولیا مزے لے لے کر کھاتی رہی اور تعریف کرتی رہی۔
“ ویسے مجھے حیرت ضرور ہے۔۔!“ عمران بولا۔ “ اتنا کھا چکنے کے بعد یہ رس ملائی حلق سے کیسے اتر رہی ہے۔“
“ ارے یہ کوئی غذا تھوڑی ہی ہے۔“ جولیا نے بڑے خلوص سے کہا۔ “ ہلکی پھلکی چیز۔۔۔۔ میں تو ابھی ایک پلیٹ اور کھا سکتی ہوں۔“
“ منگواؤں۔“
“ ہاں۔ ہاں۔ ضرور۔۔ !“
عمران کی آنکھوں میں شرارت آمیز چمک تھی۔ جولیا نے چمچہ خالی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ “ خیر۔۔۔۔ پھر سہی اب اس وقت کون کھائے۔“
“ اچھا۔۔۔۔ یہ بتاؤ۔۔۔۔ تم نے مجھے معاف کر دیا۔ یا نہیں۔“
“ بالکل۔۔۔۔ بالکل!“ جولیا ہنس پڑی لیکن اس کی پلکیں جھکی پڑ رہی تھیں۔
“ اوہو۔“ وہ جمائی لیتے وقت منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی۔ “ کس غضب کی نیند آ رہی ہے ارے۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ یہ کیا۔ سر چکرا رہا ہے۔۔۔۔ میرا سر۔ توم۔۔۔۔ یہ۔۔ یہ کیا۔۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس نے اٹھنا چاہا۔۔۔۔ لیکن نہ اٹھ سکی۔ گردن کرسی کی پشت پر ڈھلک گئی تھی۔ آنکھیں بند تھیں اور وہ گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔
عمران نے میز کے پائے سے لگے ہوئے پش سوئچ پر انگلی رکھ دی۔ کہیں سے بزر کی مدہم آواز آئی اور دوسرے ہی لمحے میں وہی ویٹر داخل ہوا۔
“لاؤ۔“ عمران نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا۔
ویٹر نے جیب سے ایک نیل کٹر نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
“اب جاؤ۔ جب میں یہاں سے چلا جاؤں تو اسے اس کے گھر پہنچا دینا۔ گھر جانتے ہو ناں۔“
“جی ہاں۔“ ویٹر نے بڑے ادب سے کہا اور باہر نکل گیا۔
عمران نے جولیا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لے کر اس کے پلے پلائے لمبے ناخنوں پر نطر ڈالی اور سیٹی بجانے کے سے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر مرمت شروع کر دی۔
جلد ہی وہ دونوں ہاتھوں کے ناخن تراش دینے میں کامیاب ہو گیا۔ جولیا نے اس دوران خفیف سی بھی حرکت نہیں کی تھی۔
ناخن تراش کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالے چند لمحے ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ پھر کیبن سے نکل کر پردہ برابر کر دیا۔
اب وہ بڑے اطمینان سے دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا۔
فٹ پاتھ پر بھیڑ کم ہوگئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ ایک جانب چلنے لگا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے دونوں ماتحت اس وقت بھی خاصی چوکسی کے ساتھ اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ دفعتاً کسی نے اس کے شانے پر زور سے ہاتھ مارا۔ عمران جھنجھلا کر پلٹا۔ اس بار اس کے کوٹ کا کالر سر سلطان کے بوڑھے اسٹینو کی گرفت میں تھا۔ عمران کے ہونٹوں پر معنی خیز سی مسکراہٹ پھیل گئی۔!
۔۔۔۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وہ عمران کا کالر تھامے اور سختی سے ہونٹ بھینچے اسے کڑے تیوروں سے گھورتا رہا۔ عمران کی مسکراہٹ اور وسیع ہو گئی۔
“اب کیا۔۔۔۔ انکل ڈیئر۔“ اس نے پوچھا۔ “کب پیچھا چھوٹے گا تم سے۔“
“خیریت چاہتے ہو تو۔۔ میرے ساتھ ٹپ ٹاپ میں واپس چلو۔“
“چلو۔۔“ عمران نے لاپرواہی سے شانے سکوڑے اور ڈھیلے چھوڑ دیئے۔
بوڑھے نے کالر چھوڑ دیا تھا اور اب خاموشی سے اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ عمران نے کئی بار کنکھیوں سے اسے دیکھا لیکن کچھ بولا نہیں۔ ویسے اس کی آنکھوں میں کئی سوال مچل رہے تھے۔
وہ پھر ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کی عمارت میں داخل ہوئے اور بال روم کی طرف بڑھتے گئے۔ یہاں اب بھی رقص ہو رہا تھا۔
“اب دکھاؤ۔“ بوڑھے نے رقاصوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔ “اب کسی کے ساتھ ناچ کر دکھاؤ۔“
“آپ بہت پریشان معلوم ہوتے ہیں۔ انکل۔۔۔۔ آئیے گیلری میں بیٹھ کر اطمینان سے باتیں کریں۔“
“تم سے نپٹنے کے بعد سپرنٹنڈنٹ کے بچے سے بھی سمجھ لوں گا۔ جس نے کرنل کے سامنے میری توہین کی تھی۔“
“آپ آئیے تو سہی۔“ عمران اس کا ہاتھ پکڑ کر گیلری کی طرف کھینچتا ہوا بولا۔ بوڑھا اس طرح چل رہا تھا جیسے زبردستی لے جایا جا رہا ہو۔
ایک خالی میز پر وہ بیٹھ گیا۔ حالانکہ اس پر پڑے ہوئے کارڈ پر “ریزروڈ“ لکھا ہوا تھا۔
بوڑھے نے اس پر نظر ڈالی اور اٹھتا ہوا بولا۔ “کیا اب جوتے بھی کھلواؤ گے۔“
“بیٹھئے۔ بیٹھئے۔ اس وقت کوئی میز خالی نہ ملے گی۔ جب کوئی آئے گا اٹھ جائیں گے۔“
“اگر کوئی ویٹر اعتراض کر بیٹھا تو۔۔۔۔“
“سب پہچانتے ہیں مجھے۔۔۔۔ بیٹھئے اور بتائیے خفگی کی وجہ۔“
“میں نے فون پر ابھی صاحب سے بات گفتگو کی تھی۔ وہ تمہیں جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر کسی دشواری میں پھنس جاؤں تو تم سے ضرور مدد لون۔“
“بالکل ٹھیک کہا انہوں نے۔ اب فرمائیے۔“
“لڑکی کیسے بیہوش ہوئی تھی۔“
“میرا خیال ہے کہ اس پر بیہوشی کے دورے پڑتے ہیں۔“ عمران نے کہا۔
بوڑھا کسی سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا۔“ دیکھو! میں بڑی الجھن میں ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میرا تعاقب کیا جا رہا ہے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کب سے یہ کیفیت ہوئی ہے۔“
“کیا بتاؤں۔“ وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر میز پر کہنیاں ٹکاتا ہوا بولا۔ “جب سے اس لڑکی سے ملاقات ہوئی ہے۔“
“ملاقات کب ہوئی تھی۔“
“ڈیڑھ ماہ پہلے کی بات ہے! خود ہی مل بیٹھی تھی۔۔! میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میری عمر دیکھ ہی رہے ہو، تم خود ہی مضحکہ اڑا رہے تھے۔ لیکن خواہش تو اس عمر میں بھی فنا نہیں ہوتی۔ اگر کوئی لڑکی خودبخود تمہاری طرف کھنچ آئے تو کیا کروگے۔“ وہ جھینپے ہوئے انداز میں ہنسا۔ پھر خاموش ہو کر کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔ “امے وہ فرشتے ہی تو تھے۔ ہاروت ماروت جو یونان کی زہرہ کے چکر میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ ایک دن اللہ میاں سے ان فرشتوں نے کہا آخر یہ آدمی کیسی مخلوق ہے۔۔۔۔ کیسی گندگی پھیلا رکھی ہے اس نے زمین پر۔۔۔ ایک ہم فرشتے ہیں! درگاہ خداوندی سے ارشاد ہوا۔ اگر تمہیں وہ چیز عطا کر دی جائے۔ جو آدمی کو دی گئی ہے تو تم بھی ویسے ہی جاؤ گے۔ فرشتوں نے کہا تو ہو جائے امتحان۔ لہٰذا وہ چیز فرشتوں کو عطا کر دی گئی اور وہ زمین پر آئے۔ یونان کی زہرہ پر نظر پڑی۔ دیوانے ہو گئے۔ ڈورے ڈالے اس پر اور وہ حرکت سرزد ہی ہو گئی۔ جس کے لئے آدمی ان کی نظروں میں خوار تھا۔ پھر سزا کے طور پر چاہِ بابل میں انہیں قید کر دیا گیا۔“
“ہوں۔“ عمران سر ہلا کر بولا۔ “اچھا تو پھر کل شام کو صدر میں وہ کوئی فرشتہ ہی تھا۔“
“فرشتہ۔۔! کیا مطلب؟“
“کل وکٹوریہ روڈ کے چوراہے پر کھڑا سگنل ملنے کا منتظر تھا۔۔۔۔ پاس ہی ایک بڑے میاں موجود تھے۔ سرخ داڑھی والے۔ اتنے میں قریب سے گداز بدن والی ایک ٹیڈی گزری۔ بڑے میاں نے زبان ہونٹوں پر پھیری اور داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔۔! اور اس طرح منہ چلانے لگے جیسے۔۔۔۔جیسے۔۔۔۔ ارے باپ ہے۔“ عمران خاموش ہو کر پھر سوچنے لگا۔ پھر بڑے بھول پن سے پوچھا۔ “فرشتہ ہی ہو گا کوئی۔۔۔۔ کیوں؟“
“بہت سؤر ہو تم۔۔“ بوڑھا انگلی نچا کر ہنسنے لگا۔
عمران سعادتمندانہ انداز میں سر جھکائے بیٹھا رہا۔
“اوہ۔۔ تم نے کہاں کی باتیں چھیڑ دیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ وہ خود ہی مجھ سے ملی تھی۔ اب کہتی ہے کہ مجھے نوجوانوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں کسی بوڑھے ہی سے شادی کروں گی۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“واقعی۔؟“ عمران چہک کر بولا۔ “تب تو بڑی اچھی بات ہے۔“
“میرا مذاق نہ اڑاؤ۔ سنجیدگی سے سنو۔!“
“سن رہا ہوں۔“
“وہ خود ہی مجھ پر بڑی بڑی رقومات خرچ کرتی ہے۔“
“اے اللہ میاں مجھے بھی جلدی سے بوڑھا کردو۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لی۔
“اب تھپڑ مار دوں گا ورنہ سنو خاموشی سے۔“
عمران کچھ نہ بولا۔ کافی حد تک سنجیدگی اختیار کر لی چہرے پر۔ اور بوڑھا کہتا رہا۔ ایسی محبت جتاتی ہے جیسے ہماری شادی ہو چکی ہو۔ کہتی ہے ابھی اپنی دانست میں شادی کے قابل نہیں ہوئی ہوں۔ دو سال بعد شاید تمہی سے شادی کر لوں۔!“
“اچھا اللہ میاں دو سال کے اندر ہی اندر مجھے بوڑھا کر دو۔“ عمران گڑگڑایا۔
“میں کہتا تھا کہ تم میرا مذاق اڑاؤ گے۔“ بوڑھا میز پر ہاتھ مار کر غرایا۔
“اچھا اٹھو چچا جان۔ سر سلطان کے پاس چلتے ہیں۔“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔ “شاید نکاح کی اجازت دے ہی دیں۔“
سر سلطان کے ہاں رات کے دو بج گئے تھے۔ عمران کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوئی جا رہی تھیں۔ سر سلطان نے اپنے اسٹینو کے سامنے عمران سے کوئی گفتگو نہیں کی تھی۔ اس وقت اسے دوبارہ طلب کیا گیا تھا۔ جب عمران واپسی کے لئے اٹھ گیا تھا۔ بہرحال جو گفتگو ان دونوں کے درمیان ہوئی تھی اس کے مطابق سر سلطان کو کچھ ہدایات اپنے اسٹینو کو بھی دینی تھیں۔
فلیٹ میں پہنچ کر عمران سوٹ سمیت لحاف میں گھس گیا۔ جوتے تو خیر اتارنے ہی پڑنے تھے۔ کیونکہ نئے جوڑے نے پنجوں کا کچومر نکال کر رکھ دیا تھا۔ لیٹ تو گیا تھا لیکن نیند کہاں۔ واقعات کے مختلف پہلوؤں سے ذہن الجھتا رہا۔ آخر گراموفون کی کوئی سوئی اس کے حصے میں کیوں نہ آئی۔ یہ تو نہایت آسانی سے ہوسکتا تھا۔ ریوالور یا بلی والے طریقے سے کہیں زیادہ آسان کام تھا۔ کوئی زہرِ ہلاہل میں بجھی ہوئی سوئی نہایت آسانی سے خاتمہ ہی کر دیتی۔
تو پھر وہ ریوالور والا ہاتھ جو صفدر کی گولی سے زخمی ہو گیا تھا وہ سوچتا رہا۔ اور آہستہ آہستہ ذہن پر غنودگی کی یلغار بھی ہوتی رہی۔ پھر یک بیک فون کی گھنٹی کی آواز اونگھتی ہوئی سماعت پر بم کی طرح گری اور وہ اچھل کر بیٹھ گیا۔۔!
ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا۔
دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز آئی۔ “کون ہے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آواز گو کہ بھرائی ہوئی تھی لیکن پہچاننے میں دشواری نہ ہوئی، یہ جولیا تھی۔۔۔۔ عمران نے پٹا پٹ آنکھیں ماریں اور سنبھل کر بولا۔ “ہائے تم کہاں سے بول رہی ہو میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہ گیا۔ یہ کمبخت کولتار کسی طرح چھوٹتا ہی نہیں۔“
“کیا بک رہے ہو۔“
“تم کہاں ہو۔“
“گھر پر۔۔!“
“گھر پر تو خیر میں بھی ہوں۔“ عمران گردن کھجاتا ہوا بولا۔ لیکن کچھ دیر پہلے پرنس اسٹریٹ کے ڈسٹ بن میں تشریف رکھتا تھا اور چہرے پر اس قدر کولتار تھا کہ آنکھیں کھولنا دشوار ہو رہا تھا۔ اب مٹی کے تیل سے منہ دھو رہا ہوں لیکن یہ کمبخت چھوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔“
“کیا تم سچ کہہ رہے ہو“
“بالکل۔ بالکل۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیسے ہوا۔ ہم تو نبراسکا میں رس ملائی کھا رہے تھے۔“
“تو تم۔۔۔۔ ڈسٹ بن میں جاگے تھے۔“ جولیا نے پوچھا۔
“ہاں بھئی اور یہ کولتار۔ ہوش آنے پر اٹھا تو ایک بوڑھیا پاس سے گزر رہی تھی پہلے تو جھجھکی پھر بھوت کہہ کر مجھ سے لپٹ گئی۔“
“تم سے۔“
“او ہاں۔ مجھ سے بھلا کیوں کیا میں کچھ غلط کہہ گیا۔ حواس ٹھکانے نہیں ہیں۔ مس فنٹرواٹر۔۔۔۔ یہ کولتار۔ ۔ مگر تم۔۔۔۔“
“مم۔۔۔ میں۔۔۔۔ مجھے شاید نیند آ گئی تھی۔۔۔۔ جاگی تو تم غائب تھے۔“
عمران ہنسنے لگا۔ ہنسی اس بات پر آئی کہ جولیا کی آنکھ تو اس کے بستر پر کھلی ہو گی نبراسکا والے ایجنٹوں نے اسے بیہوشی ہی کی حالت میں گھر پہنچایا ہوگا۔“
“تم ہنس کیوں رہے ہو۔“
“تم سمجھتی نہیں۔ کوئی ایکٹی ویٹی کر گیا میرے ساتھ۔ دونوں کو خواب آور رس ملائیاں کھلائی گئیں اور پھر میرے بانکے سجیلے چہرے پر کولتار۔۔ اللہ تیرا شکر ہے۔“ وہ ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔
“آخر وہ کون ہو سکتا ہے۔“
“پتہ نہیں۔۔ میں تو نہیں سمجھ سکتا۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“اچھا شب بخیر۔۔“ جولیا نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا۔ پھر ایک شرارت آمیز مسکراہٹ ہونٹوں پر نمودار ہوئی اور وہ اچھل کر بستر سے فرش پر آ رہا۔ چوٹ آئی تھی شاید اس حرکت کی بناء پر۔۔۔۔ کیونکہ فرش سے اٹھتے وقت کراہا تھا۔ اب وہ اس کمرے کی طرف جا رہا تھا جہاں ایکسٹو کا فون رہتا تھا۔
جولیانا فنٹرواٹر کے نمبر ڈائیل کئے۔ جواب ملنے میں دیر نہ لگی۔ وہ ماؤتھ پیس میں بحثیت ایکس ٹو غرایا۔ “تمہارا فون عموماً انگیج رہتا ہے۔“
“جج۔۔جی۔۔وہ۔۔!“
“ابھی کون تھا فون پر۔“
“وہ ۔۔عم۔۔ عم۔۔ عمران۔۔۔۔ جناب۔“
“ہوں۔۔ اس کے ساتھ ہی تمہارا دماغ بھی چل گیا ہے۔ کیوں؟“
“میں۔۔ میں نہیں سمجھی جناب۔۔!“
“ٹپ ٹاپ جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟“
“جی بس۔ یونہی۔۔۔۔ کوئی کام نہیں تھا جناب۔۔!“
“تمہیں جب کوئی کام نہ ہو تو دوسروں کے کام میں دخل انداز ہوتے پھرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ فنٹرواٹر۔۔“
“میں سمجھی نہیں جناب۔۔!“
“تم دونوں نے اصل کام کو نظرانداز کر کے ٹپ ٹاپ میں خاصی بیہودگیاں پھیلائی تھیں۔“
“جی وہ۔۔ عمران۔۔۔۔؟“
“بکواس مت کرو۔ اگر آج والی سزا پر بھی کان نہ ہوئے تم دونوں کے تو۔۔۔۔!“
“مم۔۔۔۔ معافی چاہتی ہوں جناب۔۔!“
“اور ناخنوں کے بارے میں تو پہلے بھی تمہیں آگاہ کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں بڑھنے نہ دیا کرو۔ سنا ہے کہ عمران ابھی تک مٹی کے تیل سے منہ دھو رہا ہے۔“
“آپ نے ایک بار لپ اسٹک۔۔!“
“نہیں! تم لپ اسٹک استعمال کر سکتی ہو۔۔۔۔ تمہاری رنگت اس سے مطابقت رکھتی ہے۔ البتہ گندمی رنگت کی دیسی لڑکیوں کو لپ اسٹک استعمال کرتے دیکھ کر غصہ آتا ہے۔ وہ تو عمران کے قول کے مطابق۔۔۔۔ اچھا شب بخیر۔۔ آئندہ محتاط رہنا۔ میں عورتوں کی عزت کرتا ہوں۔ ورنہ تم بھی کسی ڈسٹ بن ہی میں پائی جاتیں۔!“
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top