فرحت کیانی
لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو
ص 86-95
“کیا قصہ ہے بھئی۔“ فیاض ریشہ خطمی ہوا جا رہا تھا اور عمران سوچ رہا تھا کہ فیاض جولیا سے پہلے بھی کبھی مل چکا ہے یا نہیں۔ اسے تاؤ آ رہا تھا جولیا کو آخر فیاض کی موجودگی ہی میں چڑھ دوڑنے کیا کیا ضرورت تھی۔
“قصہ بےتصویر ہے۔ اس لئے تمہیں کوئی دلچسپی نہ ہونی چاہئے۔“ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔
“میں کہتی ہوں۔۔۔۔“
“ٹھہرو۔ ٹھہرو۔“ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “ہو سکتا ہے۔۔۔۔ مگر اسی صورت میں جب کھانے کا بل ففٹی ففٹی ہو جائے۔“
“ذلیل ہو تم۔“ جولیا روہانسی سی ہنسی کے ساتھ بولی۔ “چلو یہی سہی۔“
عمران نے جیب سے پرس نکالا اور اس میں سے دس دس کے کئی نوٹ کھینچ کر جیب میں ڈال لیے۔ پرس جولیا کی طرف پھینکا اور ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “ ٹا ٹا۔“
جولیا انگریزی میں اسے گالیاں دیتی ہوئی اٹھ گئی۔
جب وہ چلی گئی تو فیاض نے عمران سے کہا۔ “کون تھی۔ میرا خیال ہے کہ میں پہلے بھی اسے کہیں دیکھ چکا ہوں۔“
“یاد کرنے کی کوشش کرتے رہو کہ کہاں دیکھا تھا۔“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔
“ بیٹھو بیٹے۔ اتنی جلدی کہاں پیچھا چھوٹتا ہے۔ تمہارا تحریری بیان تو ابھی ہوا ہی نہیں۔“
“ہاں تم ہی لکھو گے!“
عمران دھم سے کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر مغموم لہجے میں بولا۔ “ میں نے آج تک آرٹسٹ قسم کی لڑکیوں کو خط لکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں لکھا۔“
“تم بھی لکھ لیتے ہو لڑکیوں کوخط۔!“
“کبھی لکھا کرتا تھا۔ ایک آرٹسٹ لڑکی کو۔ اس لئے نہیں کہ وہ خوبصورت تھی۔ محض اس لئے کہ وہ آرٹسٹ تھی۔۔۔۔ ورنہ یہ کمبختیاں تو صرف شوہروں کی چھاتیوں پر مونگ دلنے کے لئے پیدا ہوتی ہیں۔ آرٹ وارٹ سے انہیں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔“
“پھر کیا ہوا۔ اب نہیں لکھتے۔“
“وہ میری کسی فلسفیانہ بات پر خفا ہو گئی۔۔۔۔ عمران ہی ٹھہرا۔“
“تو وہ اب تم سے نہیں ملتی۔“
ص 86-95
“کیا قصہ ہے بھئی۔“ فیاض ریشہ خطمی ہوا جا رہا تھا اور عمران سوچ رہا تھا کہ فیاض جولیا سے پہلے بھی کبھی مل چکا ہے یا نہیں۔ اسے تاؤ آ رہا تھا جولیا کو آخر فیاض کی موجودگی ہی میں چڑھ دوڑنے کیا کیا ضرورت تھی۔
“قصہ بےتصویر ہے۔ اس لئے تمہیں کوئی دلچسپی نہ ہونی چاہئے۔“ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔
“میں کہتی ہوں۔۔۔۔“
“ٹھہرو۔ ٹھہرو۔“ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “ہو سکتا ہے۔۔۔۔ مگر اسی صورت میں جب کھانے کا بل ففٹی ففٹی ہو جائے۔“
“ذلیل ہو تم۔“ جولیا روہانسی سی ہنسی کے ساتھ بولی۔ “چلو یہی سہی۔“
عمران نے جیب سے پرس نکالا اور اس میں سے دس دس کے کئی نوٹ کھینچ کر جیب میں ڈال لیے۔ پرس جولیا کی طرف پھینکا اور ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “ ٹا ٹا۔“
جولیا انگریزی میں اسے گالیاں دیتی ہوئی اٹھ گئی۔
جب وہ چلی گئی تو فیاض نے عمران سے کہا۔ “کون تھی۔ میرا خیال ہے کہ میں پہلے بھی اسے کہیں دیکھ چکا ہوں۔“
“یاد کرنے کی کوشش کرتے رہو کہ کہاں دیکھا تھا۔“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔
“ بیٹھو بیٹے۔ اتنی جلدی کہاں پیچھا چھوٹتا ہے۔ تمہارا تحریری بیان تو ابھی ہوا ہی نہیں۔“
“ہاں تم ہی لکھو گے!“
عمران دھم سے کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر مغموم لہجے میں بولا۔ “ میں نے آج تک آرٹسٹ قسم کی لڑکیوں کو خط لکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں لکھا۔“
“تم بھی لکھ لیتے ہو لڑکیوں کوخط۔!“
“کبھی لکھا کرتا تھا۔ ایک آرٹسٹ لڑکی کو۔ اس لئے نہیں کہ وہ خوبصورت تھی۔ محض اس لئے کہ وہ آرٹسٹ تھی۔۔۔۔ ورنہ یہ کمبختیاں تو صرف شوہروں کی چھاتیوں پر مونگ دلنے کے لئے پیدا ہوتی ہیں۔ آرٹ وارٹ سے انہیں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔“
“پھر کیا ہوا۔ اب نہیں لکھتے۔“
“وہ میری کسی فلسفیانہ بات پر خفا ہو گئی۔۔۔۔ عمران ہی ٹھہرا۔“
“تو وہ اب تم سے نہیں ملتی۔“