محمد خرم یاسین
محفلین
ڈاکٹر محمد خرم یاسین
زندہ زبانیں لفظی تشکیلات، ان کے تخلیقی استعمال، بدیسی زبانوں کے تراجم اوران کے الفاظ و محاورات کے انجذاب و ادغام، ٹیکنالوجی کی اثر آفرینی اورحاکم اقوام کی تہذیب و ثقافت کے اثرات کے ذریعے اپنےدامن کو مسلسل وسعت دیتی ہیں۔ یہ وسعت وقت اور حالات کے تغیر سے براہِ راست اثر قبول کرتی ہے اور اس کا اظہار شعر و ادب کےموضوعی تنوع سے جھلکتا ہے۔ ایک محقق و نقادہرسطح پرژرف نگاہی اور باریک بینی سے زبان و ادب کے موضوعی اور معروضی تنوع و تغیرکا جائزہ لیتا ہے،شیرازہ بندی کرتا ہے ، معیارسازی کرتا ہےاوراس سیل رواں کو درست سمت دینے کے لیے اپنا خونِ جگر پیش کرتا ہے۔یوں یہ کام بجا طور پر آنکھوں کا تیل جلانے، جوئے شیر لانے اور ایسے تمام امکانات کا مترادف ٹھہرتا ہے۔ اگر ایک محقق ماقبل ہوئی تحقیقات و تنقیدات کا محاکمہ کرے تو یہ یقیناً جس قدرعمیق مطالعے، مشاہدےاور بلند پایہ علم کا متقاضی ہے، اس کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ جب تک ماقبل سے مکمل ذہنی ربط ، قلبی لگاؤ، کامل عبور، ایک درجہ علمی ترفع ، بات کہنے کی جرات، اختلاف کی ہمت اور خود تنقید سہنے کا حوصلہ نہ ہو، یہ ادق کام تکمیل کی جانب بڑھ ہی نہیں پاتا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر رفعت صاحبہ بے حد تہنیت و تحسین کی مستحق ہیں کہ انھوں نے اقبالیاتی ادب پر نہ صرف گرفت حاصل کی، اسے زیست کا حاصل بنانے کی سعی کی بل کہ ما قبل و موجوداقبال شناسی کے رجحانات پر بہترین انداز میں محاکمہ بھی پیش کیا۔یہ یقینا ً ایک اہم کام ہے اور عصر حاضر کی ضرورت بھی ۔ میں انھیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دنیا بھر کے ادب کی تحقیق و تنقید میں عموماً جائزہ، تجزیہ اورمطالعہ وغیرہ کے محدب عدسوں کا استعمال کرتے ہوئے ادب پارے کے عمرانی ، رومانی، نفسیاتی اورمعاشی پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ؛چناں چہ ادبی تحقیقات و تنقیدات کے موضوعات کا اختتام بھی انھی پہلوؤں پر ہوتا ہے۔ تحقیق کی ایسی دوسری جہات جن کے موضوع کا اختتام "شعور"، "شناسی"اور"رجحانات"ایسی اصطلاحات پر ہوتا ہے، ہمیشہ سے میر ی دلچسپی کا باعث رہی ہیں کہ یہ اصطلاحات درحقیقت اپنے اندر ایک جہانِ معنی سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں۔ڈاکٹر رفعت صاحبہ کا موضوع بھی اقبال شناسی کے رجحانات سے متعلق ہے ، اس لیے اس موضوع کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔اس ضمن میں جب آپ کتاب کے اندر جھانکتے ہیں تو برصغیر کی ہردل عزیز شخصیت ، مفکر و مدبر، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے بارے میں مختلف طبقات فکر کے افکار و نظریات اور توہمات و اعتراضات کا محاکمہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ اپنے موقف کی دلیل،تحقیق اورتنقید میں ایک سو پچاس کے قریب کتب اور چھ سو کے قریب اقتباسات کا حوالہ پیش کرتے ہوئے آگے بڑھتی جاتی ہیں۔ یوں یہ کتاب، نہ صرف بہت سی اہم کتب اور اقبال شناس شخصیات سے متعارف کرواتی ہے، ان کی فکر کا تجزیہ کرتی ہے، اس پر تحقیق و تنقید پیش کرتی ہے بل کہ یک طرفہ موقف دینے کےبجائے قارئین کے قلوب و اذہان کے دریچے بھی وا کرتی ہے تاکہ وہ کسی ایک نتیجے تک پہنچ پائیں۔ مثلاًترقی پسند ادبا کا المیہ یہ رہا کہ انھوں نے عصری مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی فکر کی بنیاد کارل مارکس اور لینن کے افکار پر رکھی اور نہ صرف حساس انسانی جذبات و احساسات کی نمائندگی جسے رومانویت کا نام دیا گیا تھا، اسے یک سر رد کیا بل کہ اس دبستان سے تعلق رکھنے والے شعرا و ادبا پر بھی طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری کیا۔ اس سلسلے میں علامہ محمد اقبال چوں کہ بنیادی طورمذہبی فکر رکھتے تھے اورقوم پرست تھے جس کا اظہار ان کی تخلیقات سے بخوبی ہوجاتا ہےاوران کےاسلوب میں رومانویت کی جھلک بالکل واضح تھی،انھیں اس لیے چند ترقی پسندمصنفین نے اپنی فکر سے متصادم پاتے ہوئے رد کرنے کی کوشش کی ۔ اب اس بات کی تحقیق لازم تھی کہ ان عناصر ، رجحانات اور مسائل کی نشاندہی کی جائے جن کی بنیاد پر ترقی پسند علامہ اقبال کو انسان دوست ہونے، مزدور کے حق میں آواز اٹھانے ، خودی کا درس دینے اور مارکس و لینن کو مخصوص حوالے سے نعمت قرار دینے کے باوجود یہ رویہ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اس پر کچھ نگارشات اقبال شناس حضرات نے پیش بھی کی تھیں اور کچھ نے ترقی پسندوں کے ہاں علامہ اقبال کی فکر کی قبولیت کا بھی ذکر کیا ہے لیکن یہ میدان صحیح معنی میں تشنہ تحقیق تھا ۔ ڈاکٹر رفعت صاحبہ نے اس ضمن میں محاکمے کی کامیاب سعی کی ہے اور فکر اقبال سے ایسے بہت سے دلائل بھی پیش کیے ہیں جو کئی الزامات کو محض مغالطہ ثابت کرتے ہیں اور قاری کو فکر کی نئی راہ سجھاتے ہیں۔
مسلم فکر کے ارتقا میں صوفیا کے کردار کو کسی طور پرنظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ علامہ محمد اقبال نے نہ صرف اس فکر کو اپنایا بل کہ اس میں موجود خوبیوں اور خامیوں پر کھل کا اظہار بھی کیا۔ یہ اظہار ان کی نظم و نثر دونوں میں موجود ہے۔ ایسے میں جب کہ وہ اپنے انگریزی خطبات میں مسلم تصوف پر پانچ سو سالہ جمود کا ذکر کرتے ہوئے ابنِ رشد سے امام غزالی ؒتک صوفیا کے افکار پر سوال اٹھارہے تھے، مشرقی شعری روایت میں بلند پایہ شاعر حافظ شیرازی کے افکار کی خامیوں کی نشاندہی کررہے تھے ، ان کے افکار کے رد و قبول کا سلسلہ تیزی سے آگے بڑھا۔ ایک اوربحث علامہ محمد اقبال کے کلامی، فلسفی اور شاعر ہونے پر قائم ہوئی۔کچھ کے نزدیک فکر اقبال کو سمجھنے کے لیے فلسفے کی عینک ضروری تھی، کچھ کے نزدیک وہ فلسفی نہیں محض شاعر تھے، کچھ کے نزدیک نہ شاعر تھے نہ فلسفی بل کہ یہ دونوں راہیں انھوں نے علم الکلام کے ثبوت کے لیے اختیار کی تھیں۔گو کہ اقبال شناس حضرات نے ان کی ہر حیثیت کو متنوع الجہات قرار دیتے ہوئے قبول کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان تینوں مکاتبِ فکر کی اقبال شناسی کے رجحانات کو از سرِ نو سمجھنے اور اس کا انتقاد پیش کرنے کی ضرورت بہرحال تھی ۔ یہ مشکل مرحلہ بھی اس کتاب میں بطریقِ احسن طے کیا گیا ہے۔یہیں تک محدود نہیں، علامہ محمد اقبال، جو خود بلند پایہ سیاست دان اور وکیل تھے، ان کے افکار کو سیاست کے شہہ سواروں نے کس طرح قبول کیا، اس ضمن میں نقدو نظر بھی نہ صرف عصری مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری تھا بل کہ یہ امر جب تک اقبالیات کا سلسلہ جاری رہے گا، تب تک ضروری ہی رہے گا۔علامہ محمد اقبال کاقول "اقبال خوداقبال سے آگاہ نہیں ہے"ان کی قلبی واردات ، عجز و انکسار اور قوم کے ایسے مدبرین کے لیے تو سمجھ میں آتا ہے جن کی اپنی فکر پر گرد کی دبیز تہیں موجود ہیں، خود فکرِ اقبال سے سمجھ نہیں آتا۔ علامہ محمد اقبال کی نظم و نثر میں موضوعی تطبیق موجود ہے ،وہ کہیں استقرائی عمل سے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہیں ، کہیں کوانٹم فزکس کا سہارا لیتے ہیں، کہیں حیاتیات و طبیعیات سے دلائل پیش کرتے ہیں اور کہیں حیات و کائنات میں زمان و مکان کے مباحث کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں ۔ افسوس اس امر کا ہے کہ کچھ اقبال شناس اور ممدوحینِ اقبال بظاہرتو فکرِ اقبال کی ان جہات کو توضیح و تفہیم کرنا چاہتے ہیں لیکن درپردہ وہ فکرِ اقبال کو تار تار کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔ مجھے اس موضوع پر مختلف مفکرینِ اقبال کے کام پر تحقیق و تنقید دیکھتے ہوئے یک دم ڈاکٹر ایوب صابر یاد آئے۔ ڈاکٹر رفعت صاحبہ کا شکریہ کہ انھوں نے اس موضوع کو بھی کتاب کی زینت بنایا۔ میں ان کی اس عمدہ تحقیقی کاو ش کے لیے دل سے دعا گو ہوں کہ یہ عوام و خواص کے ہر حلقے میں مقبول ہو اور اقبال شناسی کے نئے زاویوں اور رجحانات کی طرح ڈالے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ آمین۔
نوٹ: یہ کتاب جو کہ ڈاکٹر رفعت چودھری کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، کتابی صورت میں کتابی دنیا لاہور سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
زندہ زبانیں لفظی تشکیلات، ان کے تخلیقی استعمال، بدیسی زبانوں کے تراجم اوران کے الفاظ و محاورات کے انجذاب و ادغام، ٹیکنالوجی کی اثر آفرینی اورحاکم اقوام کی تہذیب و ثقافت کے اثرات کے ذریعے اپنےدامن کو مسلسل وسعت دیتی ہیں۔ یہ وسعت وقت اور حالات کے تغیر سے براہِ راست اثر قبول کرتی ہے اور اس کا اظہار شعر و ادب کےموضوعی تنوع سے جھلکتا ہے۔ ایک محقق و نقادہرسطح پرژرف نگاہی اور باریک بینی سے زبان و ادب کے موضوعی اور معروضی تنوع و تغیرکا جائزہ لیتا ہے،شیرازہ بندی کرتا ہے ، معیارسازی کرتا ہےاوراس سیل رواں کو درست سمت دینے کے لیے اپنا خونِ جگر پیش کرتا ہے۔یوں یہ کام بجا طور پر آنکھوں کا تیل جلانے، جوئے شیر لانے اور ایسے تمام امکانات کا مترادف ٹھہرتا ہے۔ اگر ایک محقق ماقبل ہوئی تحقیقات و تنقیدات کا محاکمہ کرے تو یہ یقیناً جس قدرعمیق مطالعے، مشاہدےاور بلند پایہ علم کا متقاضی ہے، اس کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ جب تک ماقبل سے مکمل ذہنی ربط ، قلبی لگاؤ، کامل عبور، ایک درجہ علمی ترفع ، بات کہنے کی جرات، اختلاف کی ہمت اور خود تنقید سہنے کا حوصلہ نہ ہو، یہ ادق کام تکمیل کی جانب بڑھ ہی نہیں پاتا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر رفعت صاحبہ بے حد تہنیت و تحسین کی مستحق ہیں کہ انھوں نے اقبالیاتی ادب پر نہ صرف گرفت حاصل کی، اسے زیست کا حاصل بنانے کی سعی کی بل کہ ما قبل و موجوداقبال شناسی کے رجحانات پر بہترین انداز میں محاکمہ بھی پیش کیا۔یہ یقینا ً ایک اہم کام ہے اور عصر حاضر کی ضرورت بھی ۔ میں انھیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دنیا بھر کے ادب کی تحقیق و تنقید میں عموماً جائزہ، تجزیہ اورمطالعہ وغیرہ کے محدب عدسوں کا استعمال کرتے ہوئے ادب پارے کے عمرانی ، رومانی، نفسیاتی اورمعاشی پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ؛چناں چہ ادبی تحقیقات و تنقیدات کے موضوعات کا اختتام بھی انھی پہلوؤں پر ہوتا ہے۔ تحقیق کی ایسی دوسری جہات جن کے موضوع کا اختتام "شعور"، "شناسی"اور"رجحانات"ایسی اصطلاحات پر ہوتا ہے، ہمیشہ سے میر ی دلچسپی کا باعث رہی ہیں کہ یہ اصطلاحات درحقیقت اپنے اندر ایک جہانِ معنی سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں۔ڈاکٹر رفعت صاحبہ کا موضوع بھی اقبال شناسی کے رجحانات سے متعلق ہے ، اس لیے اس موضوع کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔اس ضمن میں جب آپ کتاب کے اندر جھانکتے ہیں تو برصغیر کی ہردل عزیز شخصیت ، مفکر و مدبر، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے بارے میں مختلف طبقات فکر کے افکار و نظریات اور توہمات و اعتراضات کا محاکمہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ اپنے موقف کی دلیل،تحقیق اورتنقید میں ایک سو پچاس کے قریب کتب اور چھ سو کے قریب اقتباسات کا حوالہ پیش کرتے ہوئے آگے بڑھتی جاتی ہیں۔ یوں یہ کتاب، نہ صرف بہت سی اہم کتب اور اقبال شناس شخصیات سے متعارف کرواتی ہے، ان کی فکر کا تجزیہ کرتی ہے، اس پر تحقیق و تنقید پیش کرتی ہے بل کہ یک طرفہ موقف دینے کےبجائے قارئین کے قلوب و اذہان کے دریچے بھی وا کرتی ہے تاکہ وہ کسی ایک نتیجے تک پہنچ پائیں۔ مثلاًترقی پسند ادبا کا المیہ یہ رہا کہ انھوں نے عصری مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی فکر کی بنیاد کارل مارکس اور لینن کے افکار پر رکھی اور نہ صرف حساس انسانی جذبات و احساسات کی نمائندگی جسے رومانویت کا نام دیا گیا تھا، اسے یک سر رد کیا بل کہ اس دبستان سے تعلق رکھنے والے شعرا و ادبا پر بھی طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری کیا۔ اس سلسلے میں علامہ محمد اقبال چوں کہ بنیادی طورمذہبی فکر رکھتے تھے اورقوم پرست تھے جس کا اظہار ان کی تخلیقات سے بخوبی ہوجاتا ہےاوران کےاسلوب میں رومانویت کی جھلک بالکل واضح تھی،انھیں اس لیے چند ترقی پسندمصنفین نے اپنی فکر سے متصادم پاتے ہوئے رد کرنے کی کوشش کی ۔ اب اس بات کی تحقیق لازم تھی کہ ان عناصر ، رجحانات اور مسائل کی نشاندہی کی جائے جن کی بنیاد پر ترقی پسند علامہ اقبال کو انسان دوست ہونے، مزدور کے حق میں آواز اٹھانے ، خودی کا درس دینے اور مارکس و لینن کو مخصوص حوالے سے نعمت قرار دینے کے باوجود یہ رویہ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اس پر کچھ نگارشات اقبال شناس حضرات نے پیش بھی کی تھیں اور کچھ نے ترقی پسندوں کے ہاں علامہ اقبال کی فکر کی قبولیت کا بھی ذکر کیا ہے لیکن یہ میدان صحیح معنی میں تشنہ تحقیق تھا ۔ ڈاکٹر رفعت صاحبہ نے اس ضمن میں محاکمے کی کامیاب سعی کی ہے اور فکر اقبال سے ایسے بہت سے دلائل بھی پیش کیے ہیں جو کئی الزامات کو محض مغالطہ ثابت کرتے ہیں اور قاری کو فکر کی نئی راہ سجھاتے ہیں۔
مسلم فکر کے ارتقا میں صوفیا کے کردار کو کسی طور پرنظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ علامہ محمد اقبال نے نہ صرف اس فکر کو اپنایا بل کہ اس میں موجود خوبیوں اور خامیوں پر کھل کا اظہار بھی کیا۔ یہ اظہار ان کی نظم و نثر دونوں میں موجود ہے۔ ایسے میں جب کہ وہ اپنے انگریزی خطبات میں مسلم تصوف پر پانچ سو سالہ جمود کا ذکر کرتے ہوئے ابنِ رشد سے امام غزالی ؒتک صوفیا کے افکار پر سوال اٹھارہے تھے، مشرقی شعری روایت میں بلند پایہ شاعر حافظ شیرازی کے افکار کی خامیوں کی نشاندہی کررہے تھے ، ان کے افکار کے رد و قبول کا سلسلہ تیزی سے آگے بڑھا۔ ایک اوربحث علامہ محمد اقبال کے کلامی، فلسفی اور شاعر ہونے پر قائم ہوئی۔کچھ کے نزدیک فکر اقبال کو سمجھنے کے لیے فلسفے کی عینک ضروری تھی، کچھ کے نزدیک وہ فلسفی نہیں محض شاعر تھے، کچھ کے نزدیک نہ شاعر تھے نہ فلسفی بل کہ یہ دونوں راہیں انھوں نے علم الکلام کے ثبوت کے لیے اختیار کی تھیں۔گو کہ اقبال شناس حضرات نے ان کی ہر حیثیت کو متنوع الجہات قرار دیتے ہوئے قبول کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان تینوں مکاتبِ فکر کی اقبال شناسی کے رجحانات کو از سرِ نو سمجھنے اور اس کا انتقاد پیش کرنے کی ضرورت بہرحال تھی ۔ یہ مشکل مرحلہ بھی اس کتاب میں بطریقِ احسن طے کیا گیا ہے۔یہیں تک محدود نہیں، علامہ محمد اقبال، جو خود بلند پایہ سیاست دان اور وکیل تھے، ان کے افکار کو سیاست کے شہہ سواروں نے کس طرح قبول کیا، اس ضمن میں نقدو نظر بھی نہ صرف عصری مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری تھا بل کہ یہ امر جب تک اقبالیات کا سلسلہ جاری رہے گا، تب تک ضروری ہی رہے گا۔علامہ محمد اقبال کاقول "اقبال خوداقبال سے آگاہ نہیں ہے"ان کی قلبی واردات ، عجز و انکسار اور قوم کے ایسے مدبرین کے لیے تو سمجھ میں آتا ہے جن کی اپنی فکر پر گرد کی دبیز تہیں موجود ہیں، خود فکرِ اقبال سے سمجھ نہیں آتا۔ علامہ محمد اقبال کی نظم و نثر میں موضوعی تطبیق موجود ہے ،وہ کہیں استقرائی عمل سے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہیں ، کہیں کوانٹم فزکس کا سہارا لیتے ہیں، کہیں حیاتیات و طبیعیات سے دلائل پیش کرتے ہیں اور کہیں حیات و کائنات میں زمان و مکان کے مباحث کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں ۔ افسوس اس امر کا ہے کہ کچھ اقبال شناس اور ممدوحینِ اقبال بظاہرتو فکرِ اقبال کی ان جہات کو توضیح و تفہیم کرنا چاہتے ہیں لیکن درپردہ وہ فکرِ اقبال کو تار تار کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔ مجھے اس موضوع پر مختلف مفکرینِ اقبال کے کام پر تحقیق و تنقید دیکھتے ہوئے یک دم ڈاکٹر ایوب صابر یاد آئے۔ ڈاکٹر رفعت صاحبہ کا شکریہ کہ انھوں نے اس موضوع کو بھی کتاب کی زینت بنایا۔ میں ان کی اس عمدہ تحقیقی کاو ش کے لیے دل سے دعا گو ہوں کہ یہ عوام و خواص کے ہر حلقے میں مقبول ہو اور اقبال شناسی کے نئے زاویوں اور رجحانات کی طرح ڈالے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ آمین۔
نوٹ: یہ کتاب جو کہ ڈاکٹر رفعت چودھری کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، کتابی صورت میں کتابی دنیا لاہور سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
آخری تدوین: