محمود احمد غزنوی
محفلین
ڈاکٹر عافیہ۔ ۔ ۔ ۔
سلگ رہی ہے نظر، روح اضطراب میں ہے
ضمیرِ قوم بھی زندہ ہے مست خواب میں ہے
وہ کیسی قوم تھی کہ جسکی ایک بیٹی نے
صدا لگائی تھی، پھر جو ہوا نصاب میں ہے
صدا کی گونج سے اعصاب جھنجھنا اُٹّھے
وہ ارتعاش کہ تاریخ کی کتاب میں ہے
صدا تو اب بھی وہی ہے مگر بصحرا ہے
سماعتوں کے قحط میں نظر سراب میں ہے
نوائے وقت ہے اک جنگ انکے سر پر ہے
ہماری قوم مگن نغمہءِ رباب میں ہے
یہ عافیت کے طلبگار انکو مت چھیڑو
ہُوا ہی کیا ہے اگر عافیہ عذاب میں ہے
یہ فیصلہ ہی تری فردِ جرم ہے داھر
تُو اک پکڑ میں ہے اب، لمحہءِ حساب میں ہے
ضمیرِ قوم بھی زندہ ہے مست خواب میں ہے
وہ کیسی قوم تھی کہ جسکی ایک بیٹی نے
صدا لگائی تھی، پھر جو ہوا نصاب میں ہے
صدا کی گونج سے اعصاب جھنجھنا اُٹّھے
وہ ارتعاش کہ تاریخ کی کتاب میں ہے
صدا تو اب بھی وہی ہے مگر بصحرا ہے
سماعتوں کے قحط میں نظر سراب میں ہے
نوائے وقت ہے اک جنگ انکے سر پر ہے
ہماری قوم مگن نغمہءِ رباب میں ہے
یہ عافیت کے طلبگار انکو مت چھیڑو
ہُوا ہی کیا ہے اگر عافیہ عذاب میں ہے
یہ فیصلہ ہی تری فردِ جرم ہے داھر
تُو اک پکڑ میں ہے اب، لمحہءِ حساب میں ہے